نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
این آئی ٹی رائے پور، آئی آئی ٹی بھیلئی اور آئی آئی ایم رائے پور کے طلبہ اور فیکلٹی سے نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (اختصارات )
Posted On:
21 JAN 2025 5:00PM by PIB Delhi
ساتھیو، میں اپنے دل کی بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔ یہ بہت ہی منفردنوعیت کا پروگرام ہے۔ یہ پروگرام اپنی نوعیت کی انوکھی تقریب ہے، اوریہ تصور کریں کہ میرے جیسے شخص کے لیے، جو آئینی فرائض کی ذمہ داری نبھا رہا ہے، این آئی ٹی رائے پور، آئی آئی ٹی بھیلئی اور آئی آئی ایم رائے پور کے باصلاحیت نوجوان طلبہ سے بات چیت کرنے کا یہ کتنا بڑا موقع ہے، اور وہ بھی ایسے موضوع پر جو ہم سب کے لیے بہت دلچسپ اور اہم ہے: درخشاں ہندوستان بنانے کے خیالات ۔
ہمارا ذہن اس بات میں محو ہے ، 2047 میں جب ہم اپنی آزادی کا صد سالہ جشن منائیں گے، اس وقت تک ترقی یافتہ ہندوستان دیکھنے کا خواب۔ پچھلی دہائی میں، جس رفتار سے ہم نے ترقی کی ہے، اس کے پیش نظر ترقی یافتہ ہندوستان اب محض خواب نہیں رہا بلکہ یہ ہمارا مقصد اور منزل بن چکا ہے۔ اس موضوع پر آپ سے اپنے خیالات کا اشتراک کرنے کے لیے چھ اہم سوالات اور میرے خیالات ہوں گے ، اور آپ کے ساتھ گفتگو کے ذریعے علم، حوصلہ اور تحریک حاصل کرنے کا میرے لیے اس سے بڑا دوسرا موقع نہیں ہوسکتاہے ۔
آپ سب خوش نصیب ہیں۔ آپ خاص زمرے سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ آپ سب طلبہ اور طالبات معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کو وہ تعلیم مل رہی ہے جو عالمی معیار کے مطابق ہے، اور ایک گروہ کے طور پر آپ کے اندر ملک کی ترقی کی سمت متعین کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جب کچھ بھی حاصل کرنا محال نہیں ہے ، کیونکہ حالیہ ترقیاتی اقدامات نے ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا ہے۔
میرے نوجوان دوستو، آپ کے تخلیقی خیالات اور جدت طرازی سے ہندوستان کے بنیادی چیلنجز کا حل نکل سکتا ہے ۔ بہترین صلاحیت کو ہمدردی کے ساتھ اور ٹیکنالوجی کو روایت کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔ میری توجہ اس بات پر ہے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں، اور ہم سب مل کر ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر طرف نوجوان بے چین ہیں، اور اس مسئلے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔
نوجوان بے چین کیوں ہیں؟کیونکہ گزشتہ 10 برسوں میں لوگوں نے ترقی کا ذائقہ چکھا ہے۔ گھروں میں بیت الخلاء، دیہاتوں میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی، پائپ کے ذریعےپینے کا پانی، گیس کنکشن، سستے مکانات، عالمی معیار کی بنیادی سہولیات، معیشت کی ترقی، اور ہندوستان کی عالمی طاقت کے طور پر شناخت جیسے اقدامات سے لوگوں کو بہتر زندگی کا احساس ہواہے۔ ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ہماری ستائش کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے ترقی کا مزہ چکھا ہے اور حکومت سے اپنی توقعات درست ثابت ہوئی ہیں اور اس نقطہ نظر سے، کیونکہ ہم نے ترقی اور نمو کے پھل چکھے ہیں، ہم آگےکے لیے بے چین ہیں، کیونکہ ہم مزید نتائج چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ ایک چیلنج ہے کیونکہ جب لوگ کامیابی کا مزہ چکھتے ہیں، تو وہ مزید کامیابی دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ بڑھتی ہوئی کامیابی چاہتے ہیں۔
گزشتہ 10 برسوں میں دنیا کے کسی بھی ملک نے ہندوستان کی طرح تیز رفتار ی سے ترقی نہیں کی۔ کسی بڑی معیشت نے اتنی اعلیٰ شرح پر اقتصادی ترقی کا مشاہدہ نہیں کیا، جتنا ہندوستان نے کیا ہے اور اس سے ہندوستان کو دنیا کے سب سے زیادہ توقعات والے ملک میں تبدیل کر دیاگیا ہے ۔ یہ نوجوانوں کے لیے ایک چیلنج اور موقع ہے کہ وہ اس مثبت رجحان کو ملک کی تعمیر کی رفتار میں تبدیل کریں۔ ہر معقول ذہن کسی حل کی رہنمائی کرسکتاہے ، یہ آپ کی پہنچ میں ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ 2047 تک ترقی یافتہ ملک، ترقی یافتہ ہندوستان بننے کے ہمارے مشن کے حوالے سے پرجوش ہیں۔ دوسری طرف ہمارے لوگ غیر فعال پارلیمنٹ، سیاسی تقسیم اور پولرائزیشن سے پریشان ہیں۔ آپ نوجوان ہیں جو ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔
یہ پھوٹ ختم کرنے کے لیے ہمیں ایسے حل تلاش کرنے چاہئیں جو لوگوں کو متحد کریں، نہ کہ تقسیم کریں۔ترقی ہماری مشترکہ بنیاد ہونی چاہئے ۔ ہمیں ترقی کو کسی بھی سیاسی نقطہ نظر یا جانبداری سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہندوستان میں ترقی غیر جانبدار ہے، یہ سب کو شامل کرنے والی ہے، اور اس سے پہلی بار آخری صف میں کھڑے لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
یہ تشویش بھی ایک سنگین وجہ ہے جس پر مل کر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم پرستی کو خطرات آبادیاتی تبدیلی کی شکل میں ابھر رہے ہیں۔ آبادیاتی تبدیلی بہت سنگین ہے، آرگینک ڈیموگرافک نمو آرام دہ اور ہم آہنگ ہے لیکن اگر ڈیموگرافک اضافہ صرف جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہوتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔ پھر ہمارے یہاں لالچ کے ذریعے تبدیلی مذہب کا رواج ہے۔ اپنے بارے میں فیصلہ کرنا ہر ایک فرد کا حق ہے، لیکن اگر یہ فیصلہ ملک کی فطری آبادی کو تبدیل کرنے کے لیے لالچ، ترغیب کے ذریعے کنٹرول کیا جائے تو یہ تشویشناک بات ہے جس پر ہم سب کو توجہ دینی چاہیے۔
ہم اس ملک میں لاکھوں لوگوں کی غیر قانونی نقل مکانی کے مسئلے کا شکار ہیں۔ اگر ہم اس تعداد کو شمار کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنا ہوگا لیکن یہ ناسوربغیر کسی مزاحمت کے بن گیا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے ہمیں نمٹنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ناقابل برداشت ہے۔
کوئی بھی ملک ان لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو برداشت نہیں کر سکتا ہے جو ہمارے انتخابی نظام کو بگاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب لوگ نیچ سیاست کے بارے میں سوچتے ہیں تو انہیں آسانی سے حامی مل جاتے ہیں ۔ ہمیں ہمیشہ ملک کو اولیت دینی چاہیے۔ کسی بھی ملک میں غیر قانونی ہجرت کا کوئی جواز نہیں ہوتا ہے ۔ اگر یہ تعداد لاکھوں میں ہے تو ہماری معیشت پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ۔ وہ ہمارے وسائل، ہمارے روزگار، ہمارے صحت کے شعبے اور ہمارے تعلیمی شعبے پر بوجھ ڈالتے ہیں۔ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کے اس بڑے مسئلے کا اب کوئی حل نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہر گزرتا ہوا دن اس حل کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ازحد ضروری ہے ۔
ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ہر ادارے یا فرد کے لیےیہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ وہ دوسرے فرد یا ادارے کو مشورہ دے گا کہ وہ اپنے معاملات کو کیسے نبھائے۔ یہ آئینی کام کاج کا منصوبہ نہیں ہے۔ آئین میں ہر ادارے کا کردار متعین ہے؛ مقننہ کے لوگ عدلیہ کو یہ مشورہ نہیں دے سکتے کہ فیصلے کیسے لکھے جائیں۔ یہ عدلیہ کا کردار ہے۔ اسی طرح کوئی ادارہ دن رات مقننہ کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ اپنے معاملات کو کیسے سر انجام دے ۔
آئینی حکمت یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی حدود کا احترام کریں۔ بالآخر ہر کوئی ملک کی خدمت کے لیے پرعزم ہے اور اس لیے ملک کی خدمت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر ادارہ، مقننہ، عاملہ اور عدلیہ اپنے اپنے متعین کردار کے دائرے میں کام کرے۔ نوجوان دوستو، ہم ایک خودمختار ملک ہیں۔ ہماری خودمختاری عوام میں مضمر ہے۔ اس ملک کے عوام نے ہمیں آئین دیا ہے۔ ہماری خودمختاری ناقابل پامالی ہے ۔
لازم پہلو ایگزیکٹو حکمرانی ہے جو آئینی طور پر مقدم ہے، جس سے عوام کی مرضی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگر جناب وشنو دیو سائی وزیر اعلیٰ بنے ہیں تو یہ پیش رفت انتخابی نظام کے ذریعے، عوام کے فیصلے کے ذریعے ہوئی ہے۔ ایگزیکٹو گورننس میں شامل ہونا ان کا اور ان کی ٹیم کا کام ہے کیونکہ ٹیم قانون کے سامنے جوابدہ ہے، عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔
منطقی بات یہ ہے کہ جو لوگ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں وہ ایگزیکٹو رول میں شمار ہوتے ہیں۔ ایگزیکٹو رول کو آؤٹ سورس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی دوسری ایجنسی کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ بالخصوص ، انتظامی اختیار صرف اور صرف حکومت کے پاس ہے۔ اگر مقننہ یا عدلیہ سمیت کوئی دیگر ادارہ ایگزیکٹو کے فرائض سرانجام دیتا ہے جو کہ آئین کے منافی ہے تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس بات کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے جہاں ایگزیکٹو کے کام دوسروں کے ہاتھوں میں لیے جائیں۔
ہمارا آئین واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ ہر ادارے کو دوسرے کا احترام کرتے ہوئے مخصوص کردار ادا کرنا ہے۔ اداروں کو تحمل اور احترام کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ادارہ جاتی مداخلت سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ جمہوریت کی تعریف تحمل اور باہمی احترام سے بیاں ہونی چاہیے۔
ہمیں سیاسی پارٹیوں کے درمیان بامعنی بات چیت کے ذریعے سیاسی اور متفقہ نقطہ نظر کے ذریعے ٹھوس حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سی سیاسی پارٹیاں ہوں گی ۔ جو مختلف نظریات کے حامل ہوں گی، کامیابی کے راستے کے بارے میں ان کے خیالات جداگانہ ہوں گے، لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر یکجہتی، اتحاد اور قومیت، ترقی اور سلامتی جیسے متفقہ نقطہ نظر کا ہونا ضروری ہے۔
ہمارے شاسترارتھ اور وادو واد کے قدیم ادارے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح گہرے اختلافات کو منظم مکالمے کے ذریعے حل کیاجاتا تھا جہاں مقصد فتح یا شکست نہیں تھا بلکہ مقصد سچائی اور اجتماعی حکمت کو تلاش کرنا تھا۔ قوم یہی چاہتی ہے۔ قومیں اتفاق رائے پر قائم ہوتی ہیں، سب کے عزم پر۔
دوستو، آپ جیسے نوجوان ذہنوں کے ذریعے میں حکمرانی کرنے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کام کریں تاکہ آج کی سیاسی گفتگو ہماری تہذیبی اخلاقیات کو زندہ کرے جہاں اتفاق رائے تصادم سے نہیں بلکہ فکری تبادلوں سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی مکالمے کو جانب داری سے اوپر اٹھ کر قومی مفادات کی خدمت کرنا چاہیے، نہ کہ ذاتی مفاد، سیاسی مفاد کی ۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، یو سی سی،یونیفارم سول کوڈ (یکساں شہری قانون)، آپ میں سے جو لوگ آئینی دفعات سے واقف ہیں،یہ ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں میں ہے، گورننس پر قانون کا ہونا، یکساں سول کوڈ کا ہونا ضروری ہے۔
ایک ریاست، اتراکھنڈ نے ایسا کیا ہے۔ آپ کسی ایسی چیز پر کیسے اعتراض کر سکتے ہیں جو ہمارے آئین میں لکھا ہے، جو ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کا حصہ ہے۔ ہم صرف ووٹنگ پیٹرن کی تنگ اعتبارات سے دن بہ دن متاثر نہیں ہو سکتے۔
آئین ساز بہت عقلمند، بہت مرکوز تھے۔ انہوں نے ہمیں کچھ بنیادی اصول بتائے، لیکن انہوں نے اشارہ کیا کہ جیسے جیسے جمہوریت پختہ ہوتی ہے، جیسے جیسے ہم ترقی کرتے ہیں، ہمیں اپنے لوگوں کے لیے کچھ اہداف کا بھی ادراک کرنا چاہیے، ان میں سے ایکیکساں سول کوڈ ہے۔ کچھ، ہم نے حاصل کر لیے ہیں، جیسے تعلیم کا حق، اور اس لیے صرف قومی فلاح وبہبود کو ہمارے ردعمل کا رہنماہونا چاہیے۔
میں ملک کے نوجوانوں سےاپیل کرتا ہوں، میںیہاں کے نوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں، آپ بہت خوش قسمت ہیں، آپ الگ پلاٹینم کیٹیگری میں ہیں۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ شہری عمل اور عوامی خدمت کی اہمیتکا ادراک کریں ۔
براہِ کرم حقوق مانگنے کی بجائے فرائض کو فوقیت دیں۔ قوم کی خدمت اور لگن کا عہد کریں اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ قوم کو ہمیشہ پہلے رکھنے کا عزم کریں۔ ہم سب کو عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی قدیم اتحاد پیدا کرنے والے جذبے واسودھیو کٹمبکم کو زندہ کریں اور اس کینشو نماکریں، جو 5000 سالوں سے ہماری تہذیب کا جوہر رکھتی ہے۔
ہمیں قومی فریضہ سے لبریز ہونا پڑے گا۔قومیفریضہ ہمارے لئے سب سے مقدم رہےگا۔ اور یہ ہمارا مقدس فریضہہونا چا ہئے۔
نوجوان دوستو، خواتین و حضرات ، میںیہ باتیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انفرادی طور پر آپ میں سے ہر ایکیہ کام کرسکتا ہے۔ میں آپ کو اس طرف لے جاتا ہوں جو آپ فوری طور پر کر سکتے ہیں، ہر فرد پنچ پرن کی مشق کرکے سماجی تبدیلی کا محور بن سکتا ہے۔
پہلا، کٹمب پربودھن، خاندانی روشن خیالی۔ خاندان وہ ماحولیاتی نظام ہے جو آپ کو قدر پر مبنی تعلیم دیتا ہے۔ یہ آپ کو سکھاتا ہے کہ ہماری تہذیبی جوہر کیا ہے، یہ آپ کو سکھاتا ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کریں، لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہیں، اپنے اساتذہ کا احترام کریں، اپنے بڑوں کا احترام کریں۔
ہمیں پریا ورن سوچیتا، ماحولیاتی بیداری اور تحفظ میں مشغول ہونا چاہیے۔ ایک فرد اسے کر سکتا ہے۔ ماں کے نام ایک پیڑ جن آندولن بن گیا ہے، اس کی اہمیت کو سمجھیں، اس پر عمل کریں۔ اگر آپ ہمارے صحیفوں میں جائیں، ان کا گہرائی میں مطالعہ کریں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ماحولکی نشو نما کیسے کی گئی، اسے کتنی اہمیت دی گئی۔
ہماری تحریک آزادی کے دوران سودیشی واقعی ایک جذباتی لفظ تھا، اس کو وزیر اعظم نے ایک نئی جہت دی ہے ’’ ووکل فار لوکل بنو لیکن سودیشی کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ قابل اجتناب درآمدشدہ اشیاء استعمال کرتے ہیں، تو میں اس کے بارے میںاور اس کے نتائج کے بارے میں تھوڑی دیر بعدبات کروں گا ۔ سودیشی میںیقین رکھیں۔ سماجی سمراسٹر، سماجی ہم آہنگی،یہ ایک بڑی متحد کرنے والی قوت ہے۔ ہر فرد اس میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے، اسے آگے آنا چاہیے۔ معاشرتی ناہمواری کیوں ہونی چاہیے؟ اور ناگرک کرتویہ۔
میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں، براہ کرم آئین میں درج بنیادی فرائض کا مطالعہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ انہیں انجام دینا بہت آسان ہے، صرف پڑھنے سے آپ کو آگاہی ہو جائے گی۔ اوہ، میں نے اب تک یہ کیوں نہیں کیا! یہ میری مدد کرتا ہے، یہ میرے پڑوسی کی مدد کرتا ہے، یہ میرے دوست کی مدد کرتا ہے، یہ معاشرے کی مدد کرتا ہے، یہ ملک کی مدد کرتا ہے۔ یہ صرف اصول نہیں ہیں بلکہ یہ قوم کے عظیم بننے کے لیے ضروری ہیں۔
دوستو، آج پوری دنیا ہماری آبادی کے فوائدکے لحاظ سے ہماری تعریف کر رہی ہے کیونکہ اس ملک کی 50فیصدآبادی 25 سال سے کم عمر اور 65فیصد 35 سال سے کم ہے۔ اس سے تخلیق کے لئے بے پناہ امکانات پیدا ہوتے ہیں لیکن اس گروپ کو عمل کرنا پڑے گا۔اس کو ایک ایسا نظام بنانا ہوگا جس میں ہم اپنا حصہ ڈالیں۔ ہم ہنر مند ہو جاتے ہیں، ہم صلاحیت سازی میںمصروف ہوتے ہیں اور ہنر کے متلاشی سے رفتہ رفتہ ہنرمند تخلیق کار ہو جاتے ہیں۔
میں تمام اسٹیک ہولڈرز، اداروں، صنعتوں، حکومتوں سے اپیل کروں گا کہ وہ نوجوانوں کی بے روزگاری کے اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ وژن کے ساتھ آگے آئیں۔ نوجوانوں میں بیداری پھیلانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ آپ میں سے اکثر لوگ واقف نہیں ہیں، آپ کے مواقع کی ٹوکریدن بہ دن پھیل رہی ہے۔ ہم ایک محدود گروپ میں ہیں، ہم سرکاری ملازمتوں کے سائلو میں ہیں۔
یقیناً عالمی اداروں، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے بھارت کی ترقی کو سرکاری ملازمتوں کے لیے نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں تخلیقی صلاحیتوں کے لیے سراہا ہے۔ چونکہ آپ کو اہم اداروں میں تعلیم دی جا رہی ہے، اس لیے آپ نیاسوچ سکتے ہیں۔ آپ اختراع کر سکتے ہیں اور یہآپ کا سوچنے کا عمل ہونا چاہیے۔ آپ کو روایتی روزگار کی بنیاد کے ماورا ءجانا ہے۔
میرے نوجوان دوستو، ہم انقلابی پیشرفت کے سرے پر کھڑے ہیں، ہماراملک کوانٹم کمپیوٹنگ، ہائیڈروجن مشن، مخل ٹیکنالوجیز، مصنوعی ذہانت، بلاک چین، مشین لرننگ میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس قسم کی چیزیں ہمارے ساتھ ہیں۔ چیلنجز بھی ہیں اور مواقع بھی۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا آپ کے اختیار میں ہے۔
میں طویل عرصے سے معاشی قوم پرستی کی وکالت کر رہا ہوں، یہاں موجود ہر فرد، اس ملک کا ہر فرد معاشی قوم پرستی پر عمل کر کے قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمیں ایسی اشیاء درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو قابل گریز ہوں، قمیضیں، پتلون، کرسیاں، پتنگیں، موم بتیاں، پردے، اور بہت کچھ ، کیوں؟ کیونکہ جب ہم ان اشیاء کو درآمد کرتے ہیں تو تین چیزیں ہوتی ہیں۔
●ایک، ہمارا زرمبادلہ کم ہو تاہے۔
●دو،ہمارےلوگکامسےمحرومہوجاتےہیں۔
●تین، ہمارے کاروباری افراد کو مشغول نہیں کیا جا سکتا، اور؛
لہٰذا، کوئی بھی مالی فائدہ، چاہے اس کی مقدار کچھ بھی ہو، قومی مفاد کی قربانی کا جواز نہیں بن سکتی۔
میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ عہد کریں۔ میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ بھارت تعمیر ہو ، یہ ہمارا عالمی گولڈ اسٹینڈرڈ ہونا چاہیے۔ ملک کے نوجوانو، آپ حکمرانی کے سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔ اس صدی کی اس آخری سہ ماہی میں، ہماری آزادی کی صد سالہ، جو کہ 2047 میں وِکِسِت بھارت میں کام کرے گی، آپ ڈرائیونگ انجن ہیں۔ آپ کا سوچنے کا عمل ہمیں اس سطح تک لے جائے گا۔ لہٰذا، آپ کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 1.4 بلین کے اس ملک میں، جس طرح کی تہذیبی اقدار ہمارے پاس ہیں، وہاں ایسے لوگ کیسے ہو سکتے ہیں جو امن عامہ کو چیلنج کریں؟ سرکاری املاک کو تباہ کرنے والے لوگ ہوں؟
آپ کی ریاست میں بھی وندے بھارت کا طوفان آیا۔ ہم اس قسم کی پریشانی، اس قسم کے عناصر کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ ان کے ساتھ انتہائی سختی سے مثالی انداز میں نمٹا جانا چاہیے۔ انہیں مالی طور پر جوابدہ ضرور بنایا جائے لیکن ہر نوجوان، لڑکا اور لڑکی ان کا نام لینے اور شرمندہ کرنے کا حقدار ہے۔ آج آپ کے پاس سوشل میڈیا کی طاقت ہے۔ ہم اس ملک کے شہری کو ٹرین پر پتھراؤ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ سرکاری عمارت یا سرکاری گاڑی کو آگ لگانا؟ یا پرائیویٹ گاڑی بھی؟ کوئی کیسے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے؟ اور سیاسی میدانمیں کوئی کیسے اس کو ایندھن دے سکتا ہے؟ آپ جیسے نوجوانوں کی سوچ رکھنے والے ذہنوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ سرکاری املاک کی اس طرح کی بے دریغ تباہی ہمارے لیے کوئیعزت کی بات نہیں۔
پبلک پراپرٹی مائنڈ سیٹ کو ہماری پراپرٹی میں تبدیل کریں،اس درد کومحسوس کریں جیسےیہ آپ کی پراپرٹی ہے جو لوٹ مار اور آتش زنی کا نشانہ بن کر تباہ ہو رہی ہے۔ ہمیں ہمیشہ قومی مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہیے۔ آئیے کاروبار بنائیں لیکن معاشرے کے فائدے کے لیے۔
میرے نوجوان دوستو، ان دنوں سوشل میڈیا کی وجہ سے اور دوسری صورت میں، غلط معلومات، بدمعلومات کا طوفان ہے۔ آپ کو انتہائی سمجھدار، انتہائی محتاط اور ہوشیاررہنا ہوگا۔ ملک دشمن بیانیے کو ہر فرد کو بے اثر کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کا نوجوان ایک اجتماعی قوت ہے جو اتنا اہل اور طاقتور ہے کہ وہ اسےحاصل کر سکتی ہے اور میرے مطابق اس صدی کو بھارت کی صدی بناسکتی ہے ۔ ہم وشوا گرو تھے، ہم وشوا گرو رہیں گے۔ آج پوری دنیا کو یہی امید ہے۔
میں زیادہ دیر نہیں لگاؤں گا کیونکہ وکست بھارت کی کنجی، ایک ترقییافتہ ملک کی کنجی نوجوانوں کے پاس ہے۔ آپ کی قسم کے نوجوانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیاری تعلیم سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا ئیں۔ اسے کھولیں اور ہمیں اپنی سوچ سے زیادہ جلدی وشوا گرو کے درجے تک پہنچنے دیں۔
آئیے ہم مل کر ایک تبدیلی لانے والا بھارت بنائیں، جو گہرا، طاقتور، ترقی پسند اور پرامن ہو۔
آپ سب کے لیے میری نیک خواہشات۔
*********
(ش ح ۔م ش ع۔اک ۔س ع س ۔ت ا(
U.No 5543
(Release ID: 2095507)