نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

کرناٹک کے شری شیتھرا دھرم استھل میں، قطار لگانے کے لیے کمپلیکس اور جننادیپا پروگرام 2025-2024 کی افتتاحی تقریب میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 07 JAN 2025 5:34PM by PIB Delhi

حال ہی میں تعمیر کردہ، جدید ترین قطار نظام کمپلیکس’شری ساندھیا‘، جس کا مقصد عقیدت مندوں کی سہولت کو بہتر بنانا ہے، کا باقاعدہ افتتاح کرنا  شرف اور سعادت کی بات ہے۔

میں پدم شری ڈاکٹر ہیگڑے کی ستائش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک عصری قطار کمپلیکس کی تعمیر کا تصور پیش کیا اور اس کو حقیقت کی شکل دی جس میں ہمارے بھگوان، شری منجوناتھ سوامی کے درشن کرنے والے عقیدت مندوں کے انتظار کے تجربے کو بڑھانا ہے۔

خواتین و حضرات، اس کمپلیکس کی نمایاں خصوصیت عقیدت مندوں کے لیے سہولت اور تکنیکی ترقی سے استفادہ کرناہے۔ بھارت دنیا کا ایک روحانی مرکز ہے اور یہ جگہ اس کا ثبوت ہے۔

بھگوان شری منجوناتھ کی الہی نگاہوں کی روحانی نظر کرم کے سائے میں  مذہبیت، عظمت، ہم آہنگی اور ذہنی سکون کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہاں قرب الہٰی بیان سے باہر ہے۔ لاکھوں لوگ سکون، آشیرواد اور قرب الہٰی کی تلاش میں اس جگہ پر آتے ہیں۔ساندھیا کیو کمپلیکس ایک طبیعی ساخت سے باہر ہے؛ یہ صرف ایک عمارت نہیں ہے، یہ شمولیت، مہمان نوازی اور خدمت کے تئیں ہماری اجتماعی وابستگی کا مظہر ہے۔ اس شاندار سہولت کو دیکھنے کے لیے جمع ہونے والے تمام لوگوں کو مبارکباد۔

خواتین و حضرات، میں نے جائزہ لیا ہے۔ یہ ایک بے مثال سہولت ہے۔ یہ اُن لوگوں کے لیے دعوت فکر دیتی  ہے جو خلوص کے ساتھ بھگوان کا آشیرواد لینے کے لیے آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں حالیہ برسوں میں ایک اطمینان بخش تبدیلی بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے جو ہمارے مذہبی مقام مربوط ہے۔ اس کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہماری تہذیبی اقدار کے مراکز بھی ہیں۔ مذہبی ادارے برابری کی علامت ہوتے ہیں کیونکہ بھگوان کے سامنے کوئی فرد اعلیٰ نہیں ہے۔ ہمیں مذہبی اداروں میں مساوات کا تصور دوبارہ پیدا کرنا چاہیے۔ جب کسی کی اولیت دی جاتی ہے،جب کسی کو ترجیح دی جاتی ہے،  جب ہم اسے وی وی آئی پی یا وی آئی پی کا لیبل لگاتے ہیں، تو یہ گویا مساوات کے تصور کو کمزور کرنا  ہے۔

دوستو!وی آئی پی کلچر ایک غلط روش ہے، اگر اسے مساوات  کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ ایک در اندازی ہے۔ معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے، کم از کم مذہبی مقامات پر تو قطعی نہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ دھرم استھل ہر زمانے کے ایک روشن خیال فرد کی قیادت میں مساوات کی ایک مثال کے طور پر کام کرے گا اور آئیے ہم وی آئی پی کلچر کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیں۔ وی آئی پی درشن کا تصور ہی بھگوان کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔

ہمارے ملک میں مذہبی ادارے عقیدت سے بالاتر ہیں۔ یہ کمیونٹی سروس کے مراکز ہیں اور اس جگہ نے تعلیم اور حفظان صحت میں بڑا تعاون کیا ہے جوقابل تعریف اور قابل تقلید ہے۔ میرےلیے حیرت انگیز تو دیہی بھارت کی خدمت میں اس ادارے کی  طرف سے کی گئی غیر معمولی کوششیں تھیں۔

ہمارا بھارت گاؤں میں رہتا ہے۔ ہماری ترقی کا راستہ دیہاتوں سے گزرنا چاہیے۔ گاؤں ہمارے طرز زندگی، ہماری جمہوریت، ہماری معیشت کا تعین کرتے ہیں۔ یہ دیہات ہی ہیں جہاں بھارت کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے اور بہت شدت سے سنائی دیتی ہے۔ ان علاقوں کی ترقی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

یہ ہمارا مقدس فرض ہے اور تبدیلی کا بہترین طریقہ تعلیم ہے۔ تعلیم برابری لانے کا سب سے مؤثر طریقہ کار ہے۔ یہ عدم مساوات کو ختم کرنے کا بہترین موثر طریقہ کار ہے۔

میں تمام مذہبی اداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک خاص کوشش کریں اور وہ ہے ہماری نسل، ہمارے نوجوانوں کو اپنی تہذیبی بنیاد سے آگاہ کرنا۔ مجھے ایسے مواقع پر تشویش ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوان بچے اور نوجوان ہماری متمول تہذیبی ذخائر، حکمت، علم، گہرائی سے روشناس نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ادارے اسے متحرک کر سکتے ہیں۔ عصر حاضر میں اس طرح کے اقدام کے بغیر، انمول ورثہ اور اس کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔

دوستو! دنیا ایسے انتشار اور بدنظمی دوچار ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اپنی اقتصادی ترقی، بنیادی ڈھانچے میں ترقی، گہری تکنیکی، ڈیجیٹل رسائی کو دیکھتے ہیں جس نے دنیا کو مضبوط کیا ہے۔ یہ ایسے علاقے ہیں جن میں بھارت ایک عالمی رہنما اور دوسری قوموں کے لیے ایک نمونۂ عمل کے طور پر ابھرا ہے۔

اس طرح کے طریقہ کار میں، اگر ہم ثقافت کی اس سرزمین، جوگہری تہذیبی اقدار کی سرزمین ہے، کیا ہم اپنی چمک کھونے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی ترقی کے پیش نظر مزید روشن ہونا چاہیے۔ جب انسانیت کی فلاح و بہبود ، واسودھیوا کٹمبکم کی بات آتی ہے،تو ہمارا ملک امن کا پیامبر۔ ہم ہم آہنگی، مساوات، سکون کو فروغ دیتے ہیں۔ خواتین و حضرات!ملک میں اس وقت اشد ضرورت اس کی ہےکہ گہرے سیاسی تفرقہ پر غور و فکر کو یقینی بنایا جائے اور جائزہ لیا جائے۔ملک میں سیاسی ماحول کا مسئلہ بھی گویا آب و ہوا میں تبدیلی کا مسئلہ ہے۔

ہمیں اسے ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہم اپنے طویل مدتی فوائد، قلیل مدتی فوائد کے لیے قوم پرستی کے عزم کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ معتدل مزاج لوگوں کو ملک کے سیاسی ماحول کی شدت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تمام مؤقف کو ملک کی بھلائی کے ساتھ ایک نظریہ کے ساتھ مضبوطی سے طے کرنا ہوگا۔

ہمیں ہر حال میں ملک کو آگے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہ ملک، جو انسانیت کا چھٹا حصہ ہے، کرۂ ارض کا اہم، ثقافتی اور روحانی مرکز ہے۔ ہم جیسی تہذیبیں رہی ہیں، جیسے کہ میسوپوٹیمیا، چین میں اور بھی تہذیبیں رہی ہیں، لیکن دیکھیے، ہم بچ گئے، ہم زندہ رہے، ہم ترقی کر رہے ہیں۔

 سکون ، حکمت ، علم، اپنے لیے روحانیت متلاشی لوگ اس ملک میں آتے ہیں۔ میں اس مذہبی پلیٹ فارم سے اس ملک کے ہر فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اظہار خیال اور مکالمے پر پوری توجہ دیں۔

مکالمہ اور اظہاررائے،  جمہوریت کی تعریف متعین کرتے ہیں۔ اگر ہمارا اظہار رائے کا حق سلب کرلیا جائے، اس پر روک لگائی  جائے تو فردکی بہترین صلاحیتوں کا اظہارنہیں ہوسکتا لیکن اگر ہم صرف اظہار پر اصرار کریں اور مکالمے پر یقین نہ رکھیں، اگر ہم صرف اظہار رائے پر یقین رکھیں اور یہ سمجھیں کہ صرف ہم ہی حق پر ہیں تو ہم انسانیت اور دوسرے لوگوں کے ساتھ نا انصافی کررہے ہیں۔ مکالمہ اور اظہار رائے ساتھ ساتھ چلنے چاہئیں۔ یہ مکالمہ ہے جو ہمیں دوسرے کے نقطہ نظر کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔

لہٰذا میں سب سے اپیل کرتا ہوں کہ بات چیت کسی بھی تناؤ کو دور کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔ مثبت نقطہ نظر کے ساتھ بامعنی گفتگو سے  ان مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے جو ہمارے معاشرے کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اگر لوگ اپنی رائے کا اظہار نہ کرسکیں اور بات چیت نہ کرسکیں تو جمہوریت کا کوئی مطلب نہیں۔

میں ایک فکر مند انسان ہوں۔ سب سے مقدس پلیٹ فارم، جمہوریت میں بات چیت کے لیے سب سے مستند پلیٹ فارم عوام سےبنتا ہے۔ عوام پارلیمنٹ اور مقننہ میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی آوازبنیں۔ انہیں حل پیش کرنے چاہئیں۔ انہیں عوام کی آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے لیکن اگر وہ لوگ جو مکالمے میں شامل ہونے کے لیے آئینی طور پر ذمہ دار ہیں، خلل ڈالنے، رخنہ ڈالنے میں مصروف رہیں، تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ معاملات بگڑ کر مشکل صورتحال اختیار کرلیتے  ہیں کیونکہ معاشرے میں کوئی خلا پیدا نہیں ہو سکتا۔

اگر ارکان پارلیمنٹ اور عوام کے نمائندے اپنی سرگرمی میں مصروف نہ ہوئے تو خلا پر ہو جائے گا۔ عوام سڑکوں پر آکر احتجاج کریں گے۔ لوگوں میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوجائے گاکیونکہ انہیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ انہیں ان کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

اس لیے میری گزارش ہے کہ بیدار ہوجائیے۔ ایک پارلیمانی ادارے کے طور پر ہم ایک الجھاؤ سے گزر رہے ہیں۔ ہم انحطاط کے قریب ہیں۔ ہم راہ سے بھٹک رہےہیں۔ اب جمہوریت کے مندروں کے اظہار رائے، صحت مند مکالمے، اتفاق رائے پر مبنی نقطہ نظر کے لیے متحرک ہونے کا وقت ہے جس کا تصور آئین ساز اسمبلی نے ہمارے آئین کی تیاری کے وقت کیا تھا۔

میں ہر اس شخص سے جو لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے روح کی تلاش کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ ہم اپنی آزادی کا جشن منانے کے لیے صدی کی آخری چوتھائی میں ہیں۔ ہم نے سال 2047 میں ترقی یافتہ ملک کا ہدف مقرر کیا ہے، یہ محض خواب نہیں ہے، بلکہ ہمارا مقصد ہے۔ یہ قابل حصول ہے، لیکن ہم سب کو اپنے ملک پر، ملک کی خدمت میں یقین رکھنا ہوگا اور جب ترقی یا قومی فلاح کی بات آئےتو متعصبانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔

میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ ان کے پاس سوشل میڈیا کی طاقت ہے۔ میں نوجوانوں سے کہتا ہوں، اپنے نمائندوں پر دباؤ ڈالیں۔ اپنے نمائندوں کا احتساب کریں کیونکہ آپ کی نگرانی رہے گی تو  جمہوریت کامیاب ہوگی۔ ایک بار جب آپ یہ کر لیں گے تو نمائندے چمکیں گے اور ملک کی خدمت میں آگے بڑھیں گے۔

دوستو! اب جب کہ بھارت ایسی ترقی کررہا ہےجو اس نے پہلے کبھی نہیں کی اور عالمی ادارے ہماری تعریف کررہے ہیں تومجھے آپ کو کسی اور چیز پر خبردار کرنے کی ضرورت ہے  اور وہ یہ ہے کہ بھارت کے مخالف سرگرم طاقتیں،جو  ہمارے مفادات کے خلاف اورہمارے بارے میں سوء ظن رکھتی ہیں، وہ کسی نہ کسی شکل میں سامنے آ رہی ہیں۔وہ ہمارے اداروں کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ہمارے آئینی عہدوں کو داغدار اور بدنام کرنا چاہتی ہیں۔ وہ طاقتیں ہماری ترقی کی تاریخ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان طاقتوں کو مکمل کمان کے ساتھ بے اثر کرنا چاہیے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہمہ وقت چوکسی برتی جائے۔ ہمہ وقت چوکسی آزادی کی قیمت ہے جو ہمیں ادا کرنی ہوگی۔

لہٰذا میں سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک کی خدمت کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ تصور کریں کہ ہمارے جیسے ملک میں لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلنج کرتے ہیں۔ وہ امن عامہ کو چیلنج کرتے ہیں۔ اگر انہیں عدالت سے سمن جاری ہوں  تو سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ کیا کام کرنے کا یہی طریقہ ہے؟ بھارت جیسے ملک میں، کیا ہم لوگوں کو اپنی من مانی کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ کیا ہم ان لوگوں کو معاشرے میں اشتعال انگیزی کی اجازت دے سکتے ہیں؟ جو بھی امن و امان اور امن عامہ کو چیلنج کرتا ہے اسے جوابدہ ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے لیے کتنی شرم کی بات ہے۔

جب کوئی سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتا ہے  اور سرکاری املاک کو آگ لگادیتا ہے تو یہ دیکھ کر کتنی تکلیف ہوتی ہے! کیا ہم ایسا ہونے دیں؟ یہ ملک کے دشمن ہیں۔ ان لوگوں اور ان مذموم عناصر سے مثالی طور پر نمٹا جانا چاہیے۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ ان کے مقدمات کی جلد از جلد سماعت ہونی چاہیے۔

1.4 بلین کی آبادی والایہ ملک اس قسم ک عام تکلیف دہ صورتحال، سرکاری املاک کی تباہی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ دنیا ہماری ٹرینوں کی تعریف کر رہی ہے۔ ہمارے پاس ایک کے بعد ایک ٹرینیں آرہی ہیں اور کچھ لوگ ہیں جوان ٹرینوں پر پتھر مارتے ہیں۔ وہ معاشرے کے شر پسند عناصر ہیں۔ انہیں ہمارا احترام نہیں ملنا چاہیے۔ انہیں تلاش کرکے ان کی شناخت کرنی چاہیےاور ان سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔

میں ملک کے کسی حصے سے  خوش ہوں۔ یہ کیا جا رہا ہے۔ ملک کے ہر حصے میں ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست تلخیوں کے لیے نہیں ہوتی، سیاست دان مختلف نظریات کے حامل ہوں گے۔ کیوں نہیں؟ ہونے بھی چاہئیں۔ بھارت کی تعریف اس کے تنوع سے متعین ہوتی ہے کیونکہ تنوع اتحاد میں بدل جاتا ہے لیکن سیاسی تلخی کیوں ہو؟ یہ ہمارا کلچر نہیں ہے۔

ہم سب کے لیے اخوت کے جذبے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم دنیا کو ایک اتحاد، ایک خاندان کے طور پر لیتے ہیں۔ کیا ہم 24X 7 صرف سیاست کر سکتے ہیں؟ کیا ہم24 x 7 صرف سیاسی فائدے اٹھانے میں مصروف رہ سکتے ہیں؟ سیاست کا مقصد صرف اقتدار نہیں ہونا چاہیے۔ طاقت اہم ہوتی ہے۔ اس سے سماج کی خدمت کرنی چاہیے، ملک کی خدمت کرنی چاہیے۔

میں فکر مند ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی اتنا ہی فکر مند ہوں گے۔ ہمارا معاشرہ فرقوں میں بنٹ رہا ہے۔ ہم آہنگی ہم سے دور  ہورہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمیں ایک قسم  کا بیانیہ شروع کرنا چاہیے۔ ہم سب کو، ہماری تہذیب، 5000 سال کی موت کی یاد دلائیں۔ مجھے یقین ہے کہ تمام غور و فکر کرنے والے اور صاحبان عقل رائے عامہ کو متحرک کریں گے تاکہ ہمارے پاس ایسے لوگ ہوں جو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کے بارے میں روادار ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کسی سے متفق نہ ہوں، لیکن براہ کرم اس کی بات سنیں۔ دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے سے انکار کرناآمریت ہے، غیر انسانی رویہ  ہے کیونکہ وہ نقطہ نظر صحیح نقطہ نظر ہوسکتا ہے۔

میں کارپوریٹس، بھارتی کارپوریٹس سے کہتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور اپنے سی ایس آر فنڈز سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، صحت، تعلیم، ایسے مذہبی اداروں کے ارد گرد انفراسٹرکچر کے لیے دل کھول کر حصہ ڈالیں کیونکہ یہ مذہبی ادارے عبادت گاہوں سےبالاتر ہیں۔ وہ ہماری ثقافت انتظامی مراکز ہیں۔ اس سے ہمارے نوجوانوں میں، ہمارے بچوں میں، ثقافتی اقدار کو جذب کرنے میں مدد ملے گی، جو اس ملک کو دوسرے ممالک سے مختلف بناتی ہیں۔

ہم ایک ایسی قوم ہیں جو مغربی دنیا کی طرح محض مادیت پرستی سے نہیں چل سکتی۔ ہم زندگی کی سچی قدر و قیمت، روحانیت میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم الوہیت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، الوہیت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور اسی لیے ہمارے بچوں کو ابتدائی عمر میں ہی ہماری ثقافتی اخلاق اور اقدار سے روشناس کرانا چاہیے۔

دوستو! ہماری قومی تبدیلی کی بنیاد پڑ رہی ہے لیکن اس میں تیزی آسکتی ہے اگر تمام افراد، تمام شہری پانچ ستونوں کے تئیں پُرعزم ہوں، جسے میں پنچ پران کہتا ہوں۔

ایک، ہمیں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔ ہمیں سماجی ہم آہنگی پر یقین رکھنا چاہیے جو تنوع سے بالاتر ہو، جوتنوع کو قومی اتحاد میں بدل دے۔ ہمیں بچوں کے ساتھ ابتدائی سطح پر حب الوطنی کی اقدار کی پرورش کرکے خاندانی زندگی، خاندانی روشن خیالی پر یقین رکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ماحول، ماحولیات کے موافق طرز زندگی، ماحولیاتی اقدار کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہماری عبادتوں کو نظر ڈالیے۔ وہ ماحولیات کے موافق ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پاس رہنے کے لیے دوسری زمین نہیں ہے۔ ہم اس وجودی چیلنج کوخود پر غالب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہمیں ماحول دوست ہونا چاہیے۔

میں ملک کے سبھی لوگوں سے سودیشی میں یقین رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ مقامی چیزوں کے بارے میں آواز اٹھائیں جس سے روزگار کو فروغ ملے گا، جس سے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔ آپ کو اس پر یقین کرنا چاہیے اور آخر میں ہمارا آئین ہمیں بنیادی حقوق دیتا ہے لیکن ہمیں بنیادی فرائض پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے فرائض مقدس ہیں، وہ کچھ زیادہ نہیں لیتے۔ اگر آپ بنیادی فرائض کا جائزہ لیں تو آپ ان پر عمل کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ہماری قومی تبدیلی کی بنیاد پانچ طاقتور ستونوں پر ہے:

سماجی ہم آہنگی جو تنوع کو قومی اتحاد میں بدل دیتی ہے،

زمینی سطح پر حب الوطنی کی بنیادوں کی پرورش کہاں ہوتی، خاندان مٰں ہوتی ہےاس کی شروعات کیجیے

  مادر وطن کی عزت تب ہوگی جب ہم ماحول کی حفاظت کریں گے اور تخلیق کریں گے،

سودیشی کو اپنائیں گے تو خود انحصاربھارت کی بنیاد مضبوط ہوگی، ہم خود انحصار بنیں گے؛ اور

اگرشہری کے فرائض ادا کریں گے تو ہم ترقی کے مشعل راہ بن جائیں گے۔

خواتین و حضرات، میں یہاں سے ایک پیغام لیتا ہوں کہ ہمیں قوم کے لیے کام کرنا چاہیے۔ میں یہاں سے ایک پیغام لیتا ہوں کہ ہر فرد کو ملک کو خود پر مقدم رکھنے کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔ انفرادی، نظریاتی، تنظیمی کوئی بھی مصلحت ہمارے قومی مفادات پر مقدم نہیں ہوسکتی۔

میں آپ کی انتظامیہ، آپ کے بھکتوں اور ہر ایک کی زندگی میں اچھی صحت اور شادمانی کے لیے نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں۔

بہت شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ک ح ۔رض

U-4971        


(Release ID: 2091130) Visitor Counter : 8


Read this release in: English , Hindi , Kannada