نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
اروناچل پردیش قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
30 NOV 2024 6:53PM by PIB Delhi
معزز ممبران، یہ میرے لیے انتہائی خوش قسمتی اور اعزاز کی بات ہے کہ میں اپنے خیالات کا آپ کے ساتھ اشتراک کررہا ہوں اور ایسے موقع پر اپنے خیالات کا اشتراک کر رہا ہوں جو اس ملک کے آئینی سفر میں اہمیت کا حامل ہے، جہاں انسانوں کا چھٹا حصہ آبادہے۔ اب ہم ہندوستانی آئین کو اپنانے کی صدی کی چوتھی سہ ماہی میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم نے پارلیمنٹ میں اس کا جشن بھی منایا۔
ریاست کا میرا پہلا دورہ ایک اہم موقع تھا اور یہ موقع ایک ریاست کی تشکیل کا جشن تھا جو میری اور میری اہلیہ کی یاد میں نقش ہے۔ یہ قبائلی صلاحیت اور عظیم ثقافت کا شاندار مظاہرہ تھا، وقت کی کمی تھی لیکن ہم نے ہر ایک لمحے کا لطف لیا۔
نوے کی دہائی میں جب پالیسی سازی کی گئی تب شمال مشرق نے خاص طور پرلوگوں کی توجہ مبذول کی۔عزت مآب وزیر اعظم جی لک ایسٹ پالیسی کو اگلی سطح تک لے کر گئے ، ایک زیادہ فعال سطح پر، جو زمینی حقیقت کو متاثر کرسکتا ہے، تبدیلی کا ضامن ہوسکتا ہے اور وہ ایک ایسٹ پالیسی تھی۔
مجھے تین سال تک ریاست مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے اس پالیسی کے ثمرات دیکھنے کا موقع ملا، اور اس میں دوستوں، شمال مشرقی علاقے کے محکمہ اور ہماری وزارت کے ساتھ مل کر، اس علاقے کو جو اہمیت اور فوقیت دی گئی وہ یقینی طور پر ایک ترجیح ہے۔
میں اس خطے میں کئی بار آنا پسند کروں گا، یہ فطرت، قبائلی ثقافت، آسودہ لوگوں ، ان کی گفتگو ، شفاف جھیلوں اور وہ کس چیز کی آئینہ دار ہیں؟ ہمالیہ کی چوٹیاں، قدیم مٹھ، لازوال منتروں کا جاپ، اور میں کہوں گا کہ یہ جگہ سیاحوں کے لئے جنت ہے۔پورا شمال مشرق کچھ ایسا پیش کرتا ہے جو اس زمین پر دستیاب نہیں ہے، اور اس کا اثر محسوس کیا جا رہا ہے۔
صرف پچھلے سال، 1.19 کروڑ سیاحوں نے اس خطے کی قدیم خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی بھرپور ثقافت سے بھی لطف اندوز ہوئے۔
شمال مشرق تیزی سے قومی دھارے میں داخل ہو رہا ہے، اور یہ ترقی کے حوالے سے ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔
اب 17 ہوائی اڈوں، 20 آبی گزرگاہوں، اور گہری ڈیجیٹل رسائی کے ساتھ، میں نے اسے یہاں معزز اسپیکر کو کارروائی چلاتے ہوئے دیکھا ہے، یہ خطہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ خطے کی نامیاتی اور قدرتی کاشتکاری دیگر ریاستوں کے لیے ایک مثال پیش کرتی ہے۔ بانس، ربڑ اور ریشم، جیسے دیسی وسائل جب میں یونیورسٹی گیا تو مجھے ایسا ہی لگا۔
یہ وہ علاقے ہیں جو مارکیٹ کے لئے بے پناہ مواقع پیش کرتے ہیں۔ یہاں مجھے عزت مآب وزیر اعظم کی بات یاد آرہی ہے، ووکل فار لوکل ، ایک ضلع ، ایک پروڈکٹ، اور ان معزز اراکین کا ہماری معیشت کے لئے ملکی سطح پر بہت اچھا اثر ہے۔ ذرا غور کریں کہ جب ہم ان اشیاء کودرآمد کرتے ہیں جنہیں موخر کیا جاسکتا تھا تو اس طرح کتنی غیر ملکی کرنسی کا زیاں ہوتا ہے۔
ہم اس ملک میں بننے والی چیزیں درآمد کرتے ہیں، قالین سے لے کر فرنیچر، الیکٹرانکس، کھلونے، یہاں تک کہ پتنگیں، یہاں تک کہ دیے، حتیٰ کہ موم بتیاں بھی۔ اگر ہم سودیشی کو اپناتے ہیں تو ہم ملک کے لیے تین اچھی خدمات انجام دیں گے۔
ایک، ہمارے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، ہمارے زرمبادلہ کے اخراج کو روکا جائے گا، اور کاروبار کو فروغ ملے گا۔
ہندوستان کرۂ ارض کی سب سے بڑی فعال جمہوریت ہے، جمہوریت ہم سب کے لیے اہمیت رکھتی ہے اور اس لیے، مجھے آپ کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پچھلی دہائی میں دو اہم قدم اٹھائے گئے ہیں۔
ایک قدم 26 نومبر کو یوم آئین کا جشن منانا تھا، کیونکہ یہ 1949 میں ہی آئین کو اپنایا گیا تھا۔
یہ اپنے لوگوں کو اور خود کو یاد دلانے کے لیے ہے کہ ہم نے اس دن ایک تمہید کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ سب کے لیے انصاف، مساوات، بھائی چارہ ہوگا۔ ہمیں اسے زمینی سطح پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
یوم آئین کی تقریب ہمارے لیے یاد دہانی ہوگی کہ آئین کتنا قیمتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہم نے دو اہم پہلوؤں کو ابھرتے دیکھا ہے۔
ایک، قانون کے سامنے سب برابر ۔یہ آئین میں موجود تھا، یہ زمینی حقیقت نہیں تھی۔ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ وہ قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ وہ بھول گئے کہ آپ کتنے اونچے ہیں، قانون ہمیشہ آپ سے اوپر ہوتا ہے لیکن اب سب کو قانون کے سامنے جوابدہ بنایا جا رہا ہے۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں، وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ وہ قانون سے بالا تر ہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ مراعات یافتہ خاندان ، مساوات، میرٹ اور بنیادی انصاف کے برخلاف ہے،یہ مساوات کے خلاف ہے اور اب یہ ختم ہوگیا ہے۔
ہماری متغیر ٹیکنالوجی کی بدولت اب گورننس میں شفافیت اور جوابدہی موجود ہے۔ بدعنوانی کو بے اثر کر دیا گیا ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے بے اثر کر دیا گیا ہے، کیونکہ اب رقم کی منتقلی ڈیجیٹل طور پر ہوتی ہے، براہ راست، اس کے درمیان کوئی انسانی مداخلت نہیں ہے۔
کسی کو بھی یہ کہہ کر فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو فائدہ ملتا ہے۔
ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے جو ہمارے ملک میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ دوسرا دن جسے ہم مناتے ہیں وہ دن ہے جو زیادہ اہم ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے، یاد دہانی ہی خوفناک ہے۔
اس ملک میں 21 ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ تھی، ملک سے محبت کرنے والے، جمہوریت سے پیار کرنے والے، قوم پرستی کا سانس لینے والے اور ان میں سے بہت سے آزادی پسندوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ انصاف تک رسائی نہیں، ان کے لیے آزادی کے حقوق نہیں، اس موقع پر اعلیٰ عدالتوں نے کہا کہ ایمرجنسی لوگوں کے بنیادی حقوق کو تلف نہیں کرسکتی۔
ملک کی سب سے اونچی عدالت، سپریم کورٹ نے ہار مان لی، اس کے برخلاف فیصلہ دیا۔ یہ سپریم کورٹ کے لیے لٹمس ٹیسٹ تھا۔ یہ ایک ناکامی ہے۔ یہ اس سے کبھی باہر نہیں آ سکے گا، اور ہم نے ایمرجنسی کا سامنا کیا۔
موجودہ نسل جو میں گیلری میں دائیں طرف دیکھ رہا ہوں، اس سے واقف نہیں، کتنا مشکل تھا جب اخبارات بغیر اداریے کے شائع ہوتے تھے، جب مکمل سنسر شپ تھی، جہاں آپ آزادی کا سانس نہیں لے سکتے تھے اور اسی لیے 25 جون کو ’سمویدھان ہتیا دِوس‘کی شکل میں یاد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اراکین اسمبلی اس کا نوٹس لیں گے اور ان دونوں تقریبات کا جشن تعلیم کے فروغ کے ساتھ منایا جانا چاہئے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا، اس کی معلومات سے ہم محتاط رہ سکتے ہیں۔
ہمارے رہنما اصول ہندوستانی آئین کے دیباچے سے نکلنے چاہئیں۔ یہ اتحاد کی عظیم قوت ہے۔ اس سے بڑی جمہوریت کو جرات مندانہ فیصلے لینے میں مدد ملتی ہے اور پچھلے 10 سالوں میں، ہم نے غیر معمولی اقتصادی ترقی، غیر معمولی بنیادی ڈھانچے کی ترقی دیکھی ہے۔ عالمی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے اس ملک کو اعزازات مل رہے ہیں۔
ہماری شرح ترقی ہمارے وقار میں اضافے کا باعث ہے کہ کیونکہ کوئی بھی ملک ہمارے قریب نہیں آتا ہے ، لیکن پھر مجھے آپ کے ساتھ اشتراک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ یہ ایک سنگ میل ہے۔ ہم خریداری کے شعبے میں تیسری بڑی قوت ہیں، لیکن ہمارا مقصد ایک ترقی یافتہ ملک بننا ہے اور ترقی یافتہ ملک بننے کے لئے ہمارے سامنے چیلنجز ہیں اور وہ چیلنج ہےہمارے لوگوں کی آمدنی آٹھ گنا بڑھانا ۔ یہ آٹھ گنا اضافہ تب ہو گا جب ایک اور سب کی طرف سے بڑے پیمانے پر تعاون کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس وکست بھارت ہوگا۔ اور کیوں نہیں؟ ہندوستان بحیثیت ملک کئی صدیوں تک دنیا میں بلندی پر تھا، جس کا عالمی معیشت میں ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ تھا۔
ہم ایک عالمی قوم تھے، جس میں نالندہ اور تکشلا، متھیلا جیسے کئی ادارے تھے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ توقع کرنا جائز ہے لیکن جب میں 35 سال پہلے پارلیمنٹ میں آیا تو یہ ایک مایوس کن صورتحال تھی۔ تشویشناک حد تک تشویشناک، کشمیر کے دورے کے دوران ، ہمیں سڑکوں پر دو درجن سے زیادہ لوگ نظر نہیں آتے تھے اور پچھلے سال دو کروڑ سے زائد لوگ سیاحوں کے طور پر کشمیر پہنچے، ہمارا زرمبادلہ ایک ارب، اب یہ 650 ارب ہے۔ پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے مجھے بڑا فخر تھا۔ہمارے پاس ایک سال میں کسی کو دینے کے لیے 50 گیس کنکشن ہی تھے ۔
سوچیں ہم کہاں پہنچ گئے ہیں، حکومت لاکھوں ضرورت مند خواتین کو گیس کے کنکشن مفت دے رہی ہے۔ تو اس وقت، بھارت عروج پر ہے۔ اس نے ہمارے نوجوانوں کے لیے ایک ایکو سسٹم کو آسان بنایا ہے۔
میں نے اپنے گہرے درد کا اظہار کیا ہے، ہندوستانی آئین کی منظوری کے فورتھ کوارٹر میں داخل ہوتے ہوئے ہم راجیہ سبھا میں ایک لمحہ بھی کام نہیں کر سکے، میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔
ہم، اس ملک میں جو جمہوریت کی ماں، سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے، اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم جمہوریت کو سیکولرائز کیسے کرسکتے ہیں؟ ہم آئین کی روح کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں؟ ہم اپنی ذمہ داریوں سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کی اسمبلی قدر مختلف ہے، یہ ایک روشن مثال اور امید کی کرن ہے۔
میں اس جگہ سے ایک بہت ہی ٹھوس، قابل قدر پیغام لے کر جا رہا ہوں کیونکہ ہم کبھی بھی ٹکراؤ کی ایسی صورتحال میں نہیں رہ سکتے، جس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ہمارے ملک کی ایسی تصویر نہیں ہے۔
ہمارے درمیان اختلافات ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بالآخر سب کا مفاد قوم کی خوشحالی، قوم پرستی کے پھلنے پھولنے میں ہے۔ ہم کسی بھی حالت میں کسی بھی مفاد کو اپنے قومی مفاد سے بالاتر نہیں رکھ سکتے۔
قوم سب سے پہلے ہے، قوم کا اتحاد سب سے پہلے ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے خود کو تین سال گورنر اور اب نائب صدر کے طور پر دیکھا ہے۔
شمال مشرق پر توجہ تبدیلی پر مبنی ہے، یہ وزیر اعظم اور ہر کسی کی توجہ مبذول کر رہی ہے اور جب بھی میں ملک کے اس حصے میں آتا ہوں، یا جنوب کی گہرائی میں جاتا ہوں، ہمیں ایک مختلف قسم کی ہم آہنگی ملتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی زبان جاتے ہیں،صرف اسی لئے ہم ایک نہیں ہیں،بلکہ ہم ایک عظیم ملک ہیں اس لئے ہم ایک ہیں۔
معزز ممبران، 2047 اب کوئی خواب نہیں رہا، یہ صرف خواہش مندانہ سوچ نہیں رہی،یہ ہمارا ہدف ہے۔ ہم اسے حاصل کر لیں گے، اگر پہلے نہیں، تو ابھی کے لئے سب کے تعاون کی ضرورت ہے۔
آئیے ہم اپنے تہذیبی جذبے کو سمیٹیں، اپنا ملک بنائیں جو شہریوں کے نظم و ضبط، شہری عزم کی اعلیٰ ترین مثال ہو۔ میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی باتوں کا حوالہ دیتا ہوں۔ وہ قوم کو متحد کرنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں، ان کے پاس جو بھی تھوڑا وقت تھا انہوں نے قابل ذکر کام کیا۔
اگر آپ اسٹیچو آف یونٹی پر جائیں تو آپ کو یہ معلوم ہوجائے گا لیکن آزادی کے بعد ان کے پاس جتنا بھی تھوڑا سا وقت تھا، انہوں نے بہت اچھا کام کیا اور جو انہوں نے کہا،’’مشترکہ کوشش سے، ہم ملک کو ایک نئی عظمت دے سکتے ہیں۔’’پھر انہوں نے خبردار بھی کیا کہ اتحاد کا فقدان ہمارے لئے مسائل کا باعث ہوگا۔’بہت اچھے الفاظ، بہت ہی عمدہ نصیحت‘۔
معزز اراکین ،آئیے ہم اسے ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں۔ معزز اراکین ،میں اروناچل پردیش کے لوگوں، اس اسمبلی کے ممبران کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ فعال قیادت میں ریاست نئی بلندیوں تک پہنچے گی۔
آئیے جمہوریت کو برقرار رکھتے ہوئے مل کر کام کرنے کا عزم کریں۔
****
ش ح۔ع و ۔ع د
U NO: 3268
(Release ID: 2079642)
Visitor Counter : 43