وزارت اطلاعات ونشریات
‘اماز پرائڈ’ اور ‘اونکو کی کوٹھین’-55 ویں آئی ایف ایف آئی میں پسماندہ طبقات کی آواز اٹھانے والی دو فلموں کی نمائش کی گئی
جنوب سے لے کر بنگال تک ، آئی ایف ایف آئی میں خوابوں اور جدوجہد کی کہانیوں نے سنیما کے شائقین کو مسحور کیا
اس سال کی واحد ایل جی بی ٹی کیو + زمرے کی فلم ‘امازپرائڈ’-55 ویں آئی ایف ایف آئی میں ٹرانس ویمن کی جدوجہد کی حقیقی اور دیانت دارانہ تصویر کشی ہے
‘اونکو کی کوٹھین’- ہر طرح کی مشکلات کے باوجود عزم اور خوابوں کی تلاش
ہندوستان کے 55 ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں دو مثالی فلمیں ‘اماز پرائڈ’ اور ‘اونکو کی کوٹھین’ دکھائی گئیں جن کو ملک بھر کے سنیما کے شائقین نے بہت پسند کیا۔ دونوں فلموں کے پروڈیوسروں اور اداکاروں نے آج گوا کے پنجی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں میڈیا سے بات چیت کی۔
اماز پرائڈ: قوت مزاحمت اور فخر کا سفر
رواں سال آئی ایف ایف آئی میں نمائش کی جانے والی واحد ایل جی بی ٹی کیو +فلم ، اماز پرائڈ ایک ٹرانس وومین کی حقیقی اور دیانت دار تصویر کشی ہے ، جو اپنی پوری زندگی اپنے وقار اور فخر کے لیے لڑتی ہے ۔
انڈین پینورما میں نان فیچر فلم کے سیکشن کے لیے منتخب کی جانے والی یہ مختصر فلم جنوبی ہندوستان کی ایک نوجوان ٹرانس وومین سریجا کی تکالیف اور پریشانیوں کو پیش کرتی ہے ۔ جس طرح وہ اپنی شادی کے پیچیدہ حالات سے نمٹتی ہے اور اسے قانونی حیثیت دلانے کے لیے لڑتی ہے اور جس طرح اس کی ماں ‘ولّی’ دل سے اس کی بھرپور حمایت اور رہنمائی کرتی ہے وہ فلم کا مرکزی نکتہ ہے ۔
میڈیا سے اپنی فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، ہدایت کار شیو کرشنا نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خواجہ سراؤں کے مسائل کو پیش کرنے والی فلمیں بہت کم اور کبھی کبھار بنتی ہیں ۔ انہوں نے بالخصوص یہ نشاندہی کی کہ ‘‘یہ فلمیں اکثر خواجہ سراؤں کو دقیانوسی منفی تناظر میں پیش کرتی ہیں ، جو ان کے لیے مایوس کن بات ہوتی ہے۔ فلم کا اہم کردار ماں ‘ولّی’ ہے ، جو خود اکیلی ماں ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کو اپنے طریقے سے زندگی گزارنے پر آمادہ کرتی ہیں ۔’’
خواجہ سراؤں کے بارے میں سماج کے تصور کو بدلنے کی امید کرتے ہوئے ، نوآموز ہدایت کار نے کہا ،‘‘ہم نے ایل جی بی ٹی کیو طبقہ کے سینئر کارکنوں اور بہت سے خواجہ سراؤں کی رائے جاننے کے لیے انہیں یہ فلم دکھائی اور وہ فلم میں دکھائی جانے والی مثبت نمائندگی سے مبہوت ہوئے۔ یہ میرے لیے بہت حوصلہ بخش بات تھی۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سماج پر اس فلم کا اثر پڑے اور ہم ہندوستان کے ساتھ ہی امریکہ میں بھی اس فلم کے سلسلے میں مہم چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ، جس سے مجھے امید ہے کہ خواجہ سراؤں کے لیے مرکزی دھارے کے میڈیا میں ایک مثبت لہر پیدا ہوگی۔’’
فلمی میلوں میں پذیرائی حاصل کرنے والی اس دستاویزی فلم نے اس سال کناڈا میں بین الاقوامی ساؤتھ ایشین فلم فیسٹیول میں بہترین ایل جی بی ٹی کیو فلم کا ‘شیر وینکوور’ ایوارڈ جیتا ہے۔ اسے دنیا بھر کے تعدد فلمی میلوں جیسے 64 ویں کراکو ف فلم فیسٹیول ، ووڈ اسٹاک فلم فیسٹیول 2024 ، انٹرنیشنل ساؤتھ ایشین فلم فیسٹیول کناڈا 2024 میں بھی دکھایا گیا ہے اور اسے سامعین کی طرف سے خوب پذیرائی ملی ہے ۔
اونکو کی کوٹھین-نامساعد حالات میں خوابوں کو پورا کرنے کاسفر
ورلڈ پریمئر کی حیثیت سے بنگالی فیچر فلم ‘اونکو کی کوٹھین’ کی نمائش 55 ویں آئی ایف ایف آئی میں کی گئی جس کو انڈین پینورما سیکشن کے لیے بھی منتخب کیا گیا ہے ۔ یہ فلم تین پسماندہ بچوں کی کہانی ہے جو ایک عارضی اسپتال قائم کرتے ہیں اور اسے برقرار رکھنے کی کوشش میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں ۔ کہانی کا اختتام اس امید کے ساتھ ہوتا ہے کہ آیا یہ تینوں بچے تمام مشکلات کے باوجود اپنے خواب کو پورا کر پائیں گے ۔
ہدایت کار سورو پالودھی کہتے ہیں ،‘‘یہ فلم تین بچوں بابین ، ڈالی اور ٹائر کی امید اور عزم کی کہانی ہے ۔’’انہوں نے کہا ‘‘کووڈ-19 کی عالمی وبا کے دوران بہت سے سرکاری اسکول بند ہو گئے تھے ، جس سے بہت سے پسماندہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا تھا ۔ اگر خوابوں کی فیکٹریاں ، یعنی اسکول بند ہو جائیں تو بچے خواب دیکھنا کہاں سیکھیں گے ؟ اس لئے یہی وہ بنیادی خیال تھا جو میرے ذہن میں آیا جب میں نے فلم بنانے کے بارے میں سوچا’’۔
پریس کانفرنس میں فلم کی اداکارہ اوشاشی چکرورتی بھی موجود تھیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح اس کہانی نے انہیں پروجیکٹ کا انتخاب کرنے پر آمادہ کیا۔ اداکارہ نے کہا ‘‘ہندوستانی سنیما میں پسماندہ پس منظر کے بچوں کی نمائندگی کرنے والی بہت کم فلمیں بنتی ہیں ۔ جب میں نے اسکرپٹ پڑھی تو مجھے لگا کہ یہ کہانی زیادہ سامعین تک پہنچنی چاہیے ۔ تین بچوں کی یہ کہانی ، جنہوں نے تمام مشکلات کے باوجود کبھی ہار نہیں مانی ، آنے والی نسلوں کے لیے کافی متاثر کن ہے ۔’’
سورو پالودھی نے کہا کہ ہمارے ملک میں پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو صرف دوپہر کے کھانے کے لیے اسکول بھیجتے ہیں ، ان کے لیے پڑھائی ثانوی چیزہے ۔ میں نے قریب سے یہ دیکھا ہے کہ کس طرح ان بچوں کے خواب ان کے والدین کی مجبوریوں اور مالی رکاوٹوں کی وجہ سے بکھر جاتے ہیں ۔ اس لئے یہ فلم بنانا ان بچوں کی مشقت آمیز سچائی کو سامنے لانے اور ان کے عزم اور دیانتداری کو ظاہر کرنے کی میری ایک کوشش تھی ۔
******
ش ح ۔ م ش ع۔ ع ن
U. No. 2889
(Release ID: 2076788)
Visitor Counter : 4