سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
انتہائی کم برقی کثافت کے سیلف-شاک سےکرسٹل کو شیشے میں تبدیل کرنے کا کارنامہ
Posted On:
19 NOV 2024 4:12PM by PIB Delhi
محققین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ انڈیم سیلینائیڈ نامی کرسٹل مواد کےشیلوپاورکو استعمال میں لانے سے اسے شیشے کے مرحلے میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔یہ تبدیلی سی ڈی اور کمپیوٹر کے ریمز جیسے آلات میں میموری اسٹوریج میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔ اس میں کرسٹل مواد کو شیشے میں تبدیل کرنے کے لیے روایتی پگھلانے کے عمل سے ایک ارب گنا کم بجلی درکار ہوتی ہے، اور یہ دریافت سیل فون سے لے کر کمپیوٹرز تک کے آلات میں ڈیٹا اسٹوریج میں انقلاب لا سکتی ہے۔
شیشے ٹھوس مواد کی مانند کام کرتے ہیں لیکن اس میں ایٹموں کی باقاعدہ متواتر ترتیب کا فقدان ہوتا ہے۔ شیشے کو زیادہ منظم ہونے سے بچانے کے لیے، کرسٹل کو مائع (پگھلا) کیاجاتا ہے اور پھر مینوفیکچرنگ کے عمل کے دوران تیزی سے ٹھنڈا (منجمد) کیا جاتا ہے۔ پگھلانے – جمانے کی یہ تکنیک سی ڈی، ڈی وی ڈی اور بلیو- رے ڈسک میں بھی استعمال کی جاتی ہے، جہاں ڈیٹا کو لکھنے کے واسطے لیزر حرکات کوشیشہ گری کے مرحلے میں کرسٹل لائن مواد کو تیزی سے پگھلانے اور جمانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس عمل کو ریورس کرنے سے ڈیٹا حذف ہوجاتا ہے۔ کمپیوٹروں میں اسی طرح کے مواد کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں فیز چینج ریمز کہا جاتا ہے، جس میں شیشے اور کرسٹل لائن کے مراحل کے ذریعے فراہم کردہ اعلی بہ نسبت کم مزاحمتی لحاظ سے معلومات کو محفوظ کیاجاتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ان آلات میں زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہے، خاص طور پر رائٹنگ کے عمل کے دوران۔ کرسٹل موادکو 800 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت پر گرم کیا جانا چاہیے اور پھر تیزی سے ٹھنڈا ہونا چاہیے۔ اگر درمیانی مائع سازی کےمرحلے کا استعمال کیے بغیر کرسٹل کو براہ راست شیشے میں تبدیل کرنا ممکن ہو تو میموری اسٹوریج کے لیے درکار بجلی کی مقدار کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ( آئی آئی ایس سی)، بنگلور، یونیورسٹی آف پنسلوانیا اسکول آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنس (پین انجینئرنگ)، پنسلوانیا اور میساچسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی)، ہارورڈ، امریکہ کے محققین کی ایک ٹیم نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جب ، ڈی-2 فیرو الیکٹرک مواد، انڈیم سیلینائیڈ سے بنی تاروں کے ذریعےبجلی کا کرنٹ گزرتا ہے تو مواد کے طویل حصے شیشے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس اہم تحقیقی کامیابی کے نتائج کو نیچر جرنل میں شائع کیاگیا ہے۔ اس تحقیق کو پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ: اےاین آر ایف، ایکٹ 2023 کے ذریعے قائم شدہ محکمہ اے این آر ایف ( ایس ای آر بی) کا تعاون حاصل ہے۔
سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ جب مواد کی ڈی-2 لیئرز میں متوازی طورپرمسلسل کرنٹ گزرتا ہے، تو وہ مختلف سمتوں میں ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے ڈومینز کی تشکیل ہوتی ہے ، جو مخصوص ڈوپول لمحے کی چھوٹی پیکٹ کے ڈومینز کو الگ کرنے والے منکسر خطوں میں محیط ہوتے ہیں۔ جب ایک چھوٹے سے نینواسکوپک خطے میں متعدد ٹکڑے آپس میں ملتے ہیں، جیسے دیوار میں بہت زیادہ سوراخ کیے گئے ہوں تو کرسٹل کی ساختی سالمیت ٹوٹ کر مقامی طور پر شیشہ بن جاتی ہے۔
ڈومین کی یہ باونڈریز ٹیکٹونک پلیٹوں کی مانند ہوتی ہیں۔ وہ برقی فلڈ کے ساتھ حرکت کرتے ہیں، اور جب وہ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں، تو زلزلے کی طرح مکینیکل (اور برقی) جھٹکے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ زلزلہ برفانی تودے کے جیسے اثر پیدا کرتا ہے جس کے باعث مرکز سے بہت دور تلاطم پیدا ہوتا ہے، مزید ڈومین کی حدود اور شیشے کے علاقے پیدا ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں مزیدلرزے آتے ہیں۔ برفانی تودہ کی تاثیراس وقت رک جاتی ہے جب پورا مواد شیشے میں تبدیل ہو جاتا ہے ( لانگ رینج کی امورفائزیشن)۔
پروفیسر نوکالا بتاتے ہیں کہ انڈیم سیلینائیڈ کی متعدد منفرد خصوصیات – اس کا 2ڈی ڈھانچہ، فیرو الیکٹرسٹی بپیزو الیکٹرسٹی – سب اکٹھے ہو کر اس انتہائی کم توانائی کے راستے کو جھٹکوں کے ذریعے تشکیل دینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ موجودہ تحقیق کے نتائج سے فیز چینج میموری (پی سی ایم) ایپلی کیشنز کی ایک وسیع رینج کی راہ ہموار ہوگی۔
********
(ش ح۔ م ش ع۔م ذ)
UN.2637
(Release ID: 2074716)
Visitor Counter : 8