ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

بھارت نے آذربائیجان کے باکو میں کوپ انتیس سربراہ اجلاس کے دوران ماحولیاتی فنانس سے متعلق اعلیٰ سطحی وزارتی اجلاس میں ہم خیال ترقی پدیر ممالک کی جانب سے بیان دیا


بھارت نے کہا کہ مساوات اور مشترکہ مگر مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے اصولوں کو کوپ انتیس میں نئے اجتماعی مقداری ہدف پر مضبوط نتائج کے لیے بنیاد بننا چاہیے

بھارت نے ترقی یافتہ ممالک سے کہا کہ ان کے لئے ترقی پذیر ممالک کو ترقی روکنے والی شرائط کے تحت لائے بغیر 2030 تک ہر سال کم از کم 1.3 ٹریلین امریکی ڈالر کی رقم کو متحرک کرنا ضروری ہے

Posted On: 15 NOV 2024 2:30PM by PIB Delhi

ہم خیال ترقی پذیر ممالک کی جانب سے کوپ29 کے یو این ایف سی سی سی سربراہ اجلاس میں 14 نومبر 2024 کو ماحولیاتی فنانس پر اعلیٰ سطحی وزارتی اجلاس میں مداخلت کرتے ہوئے بھارت نے اس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ایک آفت سے دوسری آفت کی صورت میں تیزی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔

کوپ29 میں بھارت کے سربراہ مذاکرات کار ایڈیشنل سیکریٹری جناب نریش پال گنگوار  نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ شدید موسمی واقعات اتنے زیادہ اور شدت سے طاقتور ہو چکے ہیں کہ ان کے اثرات خاص طور پر عالمی خطۂ جنوب کے عوام پر محسوس ہو رہے ہیں، لہٰذا موسمیاتی عمل میں بلند تر اہداف کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنی لڑائی میں ایک اہم موڑ پر ہیں۔ جو فیصلہ یہاں کیا جائے گا وہ ہم سب کو، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو، نہ صرف بڑے پیمانے پر کمی کی کارروائی کرنے کے قابل بنائے گا بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے میں مدد بھی دے گا۔ یہ کوپ اس تناظر میں تاریخی ہے۔‘‘

بیان میں یہ بات زور دے کر کہی گئی کہ تاریخی ذمہ داریوں اور صلاحیتوں میں فرق کو تسلیم کرتے ہوئے، یو این ایف سی سی سی اور اس کا پیرس معاہدہ ،موسمیاتی تبدیلی کے لیے عالمی ردعمل کا تصور کرتے ہیں، جو مساوات اور مشترکہ مگر مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ مختلف قومی حالات، پائیدار ترقی کے اہداف اور غربت کے خاتمے کا سیاق و سباق، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے حوالے سے، نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اصول، کوپ29 میں نئے اجتماعی مقداری ہدف پر مضبوط نتیجے کے لیے بنیاد بننا چاہیے۔

بھارت کی مداخلت نے یہ بات دوہرائی کہ ترقی یافتہ ممالک کو 2030 تک ہر سال کم از کم 1.3 ٹریلین امریکی ڈالر کی رقم فراہم کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔ یہ رقم گرانٹس، نرم مالیات اور قرضوں سے آزاد معاونت کے ذریعے فراہم کی جائے، جو ترقی پذیر ممالک کی بدلتی ضروریات اور ترجیحات کو پورا کرے اور جو  ان کو ترقی کو روکنے والی شرائط کے تحت لائے بغیر ہو۔

بیان میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ ایسا منظر نامہ کوپ30 کی طرف آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے، جہاں تمام فریقوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپ ڈیٹ شدہ نیشنل ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشنز(این ڈی سیز) جمع کرائیں گے۔ اس نتیجے کو حاصل کرنا ہمارے عالمی موسمیاتی اقدامات میں معنی خیز ترقی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔

نئے اجتماعی مقداری اہداف (این سی کیو جی) پر آب و ہوا فنانس کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ ایک سرمایہ کاری کا ہدف نہیں بن سکتا جب کہ یہ ترقی یافتہ ممالک سے ترقی پذیر ممالک کے لیے یک طرفہ مالیات کی فراہمی اور متحرک کرنے کا ہدف ہے۔ پیرس معاہدہ واضح طور پر کہتا ہے کہ موسمیاتی فنانس فراہم اور متحرک کرنے کا کام ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔

بھارت نے مضبوطی سے یہ نقطہ پیش کیا کہ کسی نئے ہدف کے اجزاء کو متعارف کرانا قابل قبول نہیں ہے،جو کنونشن اور اس کے پیرس معاہدے کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ بیان میں پیرس معاہدہ اور اس کے ضوابط کے دوبارہ مذاکرات کے لیے کوئی گنجائش نہ ہونے کا اعلان کیا گیا۔

یہ کہتے ہوئے کہ شفافیت اور اعتماد کسی بھی کثیرالجہتی عمل کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، بھارت نے بتایا کہ موسمیاتی فنانس کے بارے میں کوئی واضح سمجھ نہیں ہے اور  ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اپنے موجودہ مالی اور تکنیکی وعدوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔

بھارت کی مداخلت میں کہا گیا کہ موسمیاتی فنانس کی واضح تعریف، جو یو این ایف سی سی سی اور اس کے پیرس معاہدے کے ضوابط کے مطابق ہو، شفافیت کو فروغ دے گی اور تعمیری مذاکرات کو آگے بڑھانے اور اعتماد قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس حوالے سے بیان میں کہا گیا، "ہم فنانس پر قائم کمیٹی کے کام کا نوٹس لیتے ہیں، تاہم موسمیاتی فنانس کی ایک مفہوم تعریف پر پہنچنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔"

مداخلت میں ترقی یافتہ ممالک کی اس بات پر بھی تنقید کی گئی کہ انہوں نے 2020 تک ہر سال 100 ارب ڈالر مشترکہ طور پر متحرک کرنے کا عہد کیا تھا، جس کی آخری تاریخ 2025 تک بڑھا دی گئی ہے۔ اگرچہ 100 ارب ڈالر کا ہدف ترقی پذیر ممالک کی حقیقی ضروریات کے مقابلے میں پہلے ہی ناکافی تھا، لیکن جو رقم حقیقت میں متحرک کی گئی ہے وہ بھی مایوس کن رہی ہے۔بیان میں کہا گیا "100 ارب ڈالر کا عہد15 سال پہلے 2009 میں کیا گیا تھا ۔ ہمارے پاس ہر پانچ سال بعد اپنی خواہشات کا اظہار کرنے کے لیے ایک مشترکہ وقت کا تعین ہے۔ موسمیاتی فنانس کے حوالے سے بھی اسی طرح کی ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اس کوپ29 کو کامیاب بنائیں گے۔

******

ش ح۔ش ا ر۔  ول

Uno- 2510


(Release ID: 2073663) Visitor Counter : 15


Read this release in: English , Marathi , Hindi , Manipuri