نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

بنگلورو میں پارین یعنی ‘‘نم :شیواے’’پر نائب صدر کے خطاب کا متن

Posted On: 26 OCT 2024 2:37PM by PIB Delhi

قابل احترام جناب  جگد گرو شنکراچاریہ شری شری ودھوشیکھر بھارتی مہاسوامی جی، دکشن ملئی، شری شارداپیٹھم، شرن گیری جہاں بھی ہو  ہمارے ساتھ ہیں، ہمیں  ان کا آشیر واد حاصل ہے۔ وہ ہمہ گیر ہے، میں ا نہیں سلام پیش کرتا ہوں،  نمن کرتا ہوں۔

شری شری شنکھر بھارتی مہا سوامی جی، شری شری برہما نند مہاسوامی جی, عزت مآب مرکزی وزیر جناب پر ہلاد جوشی جی، عزت مآب مرکزی وزیر مملکت جناب وی سومنا جی اور یہاں موجود سبھی لوگ۔ یہاں موجود ہر ایک ہماری ثقافت کا محافظ، سفیر اور سپاہی ہے۔

یہ ناقابل یقین تھا۔ یہ سکون بخش تھا۔ یہ شاندار تھا!

یہ شاندار تھا جو میں نے دیکھا۔ یقین کرنے کے لیے دیکھنا پڑتا ہے۔ یہاں کا ماحولیاتی نظام واقعی شاندار ہے۔ روایت اور عقائد کا   ایک مسحور کن نظارہ  منتر کے تال کے ساتھ جاپ، اور  میرے من ، دل اور روح  کو ایک کردیا۔ میں کہیں اور کھو گیا تھا، ہزاروں کی تعداد میںمیں کیا گیا جاپ ہمارے دل کو پاک کرتا ہے۔

ہزاروں لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم  ایک جذبے، اور ایک رشتے سے جڑا ہوا ہے- ہندوستانی ثقافت سے۔ ہماری ثقافت میں  الوہیت کا لمس ہے کیونکہ ہماری ثقافت  پوری انسانیت کے لئے سوچھتی ہے  کی چیزیں۔ وسودھیو کٹمبکم، یہ ہمارا فلسفہ ہے۔

سناتن کا مطلب ہمدردی، رحم دلی ، رواداری، عدم تشدد، فضیلت، عظمت، مذہبیت، اور یہ سب ایک لفظ میں جمع ہوتے ہیں۔ ہمیں اس ملک میں سبق کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔

شمولیت کیا ہے؟ ہم ہر لمحہ، ہر روز شمولیت کو جیتے ہیں۔ یہ ملک، بھارت، جس میں انسانیت کا چھٹا حصہ رہتا ہے، صدیوں سے دنیا کو یہ دکھاتا آیا ہے کہ شمولیت کیا ہوتی ہے۔

اوں نم: شیواے

اوں نم: شیواے

اوں نم: شیواے

یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس منفرد  ایونٹ  سے جڑنے کا موقع ملا ہے  جس میں ہندوستان  کی ثقافت  اور روحانی دولت شامل ہے۔ ہم اس معاملے میں بے زور ہے  دنیا میں کوئی  ایسی دوسری  مثال نہیں ہے۔

اور ہم کرہ ارض پر پوری انسانیت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ تمام عاجزی اور خلوص کے ساتھ، جگت گرو شنکراچاریہ شری شری بھارتی تیرتھ مہاسوامی جی کو میرا قابل  احترام  اعزاز پیش کرنا  میرے لئے بہت بڑی خوش قسمی ہے اور ایک ایسا لمحہ ہے جسے میں ہمیشہ اپنی یاد میں رکھوں گا ، ایک ایسا لمحہ جو ہمیشہ میرے دل میں رہے گا ۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان کی رہنمائی حاصل  ہو، وہ ہمہ گیر ہیں۔ جسمانی طور پر، وہ ایک جگہ پر ہو سکتے ہیں ۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں میں رہتے ہے۔ وہ ہمارے دماغ کو متاثر کرتے ہے۔ وہ ہمیں اپنے دل کے ذریعے سب سے پیار کرنا سکھاتےہیں ۔ وہ ہماری سوچ کو  متاثر کرتے  ہیں ۔ وہ ہماری روح کو ہر ایک کے بارے میں سوچنے کے لیے مسحور کر دیتے ہیں  نہ کہ خود کے بارے میں۔

اس لیے یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ جب معاشرہ اور دنیا انتشار کا شکار ہے تو ہمیں ان کی رہنمائی نصیب ہوئی۔ ان کی حکمت اور علم  کی امید اور روشن خیالی کی کرن ہیں۔ یہ ہمارے راستے کو منفرد بناتا ہے۔

یہ اطمینان بخش  اور  عظیم موقع ہے، ایک ایسا موقع جو پانچ دہائیوں سے زائد عرصے تک انسانیت کے لیے اپنی نوعیت کی خدمت کا مظاہرہ کرتا ہے، اور یہ آگے بھی جاری ر ہےگا۔

سورن بھارتی، سنیاس کی گولڈن جوبلی تقریبات اور سنیاس کا ایک مطلب ہے جس کا خلاصہ جاننے کے لیے دنیا کے بہت سے مفکرین نے اس ملک کا سفر کیا ہے۔ یہ سنیاس لفظ س کا معنی سنیاس ہے۔ اس کی طویل  عمری ہماری برتری  ہے۔

یہ لافانی ہے لیکن زمان و مکان کے لحاظ سے پانچ دہائیاں اور اس لیے، جگت گرو شنکراچاریہ،شری شری بھارتی تیرتھ مہاسوامی جی کی سنیاس  کی سلور جوبلی تقریبات شری شرین گیری شارداپیتھم اور شری سویدانت بھارتی کے ذریعے  منعقد کیا جا رہا ہے۔

ایسے مبارک موقع پر  یہ ایک  مثالی  ملاقات ہے جو پوری دنیا کی رہنمائی فراہم کرے گی۔

ہم سب واقعی مقروض اور خوش قسمت ہیں کہ اس شاندار جشن کو شری شری شنکر بھارتی سوامی جی، یدتھور کے پیٹھادھیشور،  سری یوگنندیشور مٹھ کی فیاضانہ رہنمائی حاصل ہے۔ ہم معزز ہیں، مراعات یافتہ ہیں۔

یہ کتنا روحانی طور پر فائدہ مند اور اطمینان بخش  ماحول ہے۔   وہ لوگ خوش قسمت  ہیں  اور ہزاروں لوگ یہاں ہیں جو اس موقع پر آسکتے ہیں ، منتر کاسموپولس ۔ ایک نادر منظر، شاندار، دماغ، دل اور روح کو چھو لینے والا۔ سب متحد ہیں۔  میں نے جو اوقات جو گزارے ہیں  ، اس نے مجھے بہت زیادہ توانائی بخشی ہے، مجھے حوصلہ دیا ہے، مجھے ہمت دی  ہے کہ میں ہمیشہ کے لیے کسی بھی حیثیت میں بھارت کی خدمت  کرتارہو،  عہدے  کی مدت پوری ہونے کے بعد  رہنمائی اور روشن خیالی کے ساتھ معاشرے کی خدمت کرتا رہو۔

میں نے  پایا کی منتروں کی دھونی نے سکون ، موسیقار، تال، یکجہتی، پیدا کی لوگ اس پر یقین تب ہی کریں گے جب وہ اس کا مشاہدہ کریں گے۔

اور یہ مناسب طور پر موقع کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، یہ مناسب  موقع کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، یہ موقع شری شاردا پتٹھم شرنگیری کےیٹھادھیپتی جگت گرو شنکراچاریہ شری بھارتی تیرتھ سوامی جی کے  سنیاس دیکشا کی  میں  گولڈن جوبلی  کا موقع ہے۔ یہاں کا منظر، اور اسے عوامی سطح  پر وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے گا، یہاں کے منظر کو سمجھنا ہوگا۔

اس کی گہرائی، اس کا جوہر، اس کا امرت، کیونکہ یہاں کا منظر عظمت، روحانیت، مذہبیت،انسانی وجود کے معنی کی عکاسی کرتا ہے،   کیا ہم یہاں صرف روزی کمانے کے لیے ہیں یا زندگی گزارنے کے لیے ہے؟

اس قسم کے مواقع ہمیں اس سے کہیں زیادہ معنی دیتے ہیں جو ہم عام طور پر سوچتے ہیں۔ وہ کرہ ارض پر ہمارے وجود کا جواز پیش کرتے ہیں۔ آسمانی تجربے اور الوہیت کے ساتھ شاستروں کے ان گنت منتروں  کا جاپ کرنے  کی اپیل کرتےہیں۔

کرشن کی تیتریہ سمہتا، یجروید نے پارائن کی مشق کو ایک ایسی رسم کہا ہے جو فانی دنیا کو خود کو الہی سے جوڑتی ہے۔ اس لمحے، منتروں کا جادو ہمیں الوہیت کی خوشگوار موجودگی میں لے جاتا ہے۔

ہم کسی ایسی چیز کا اظہار کرتے ہیں جو ناقابل بیان ہے لیکن ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے، ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ ویدک منتر انسانیت کی سب سے قدیم اور غیر منقطع زبانی روایات میں سے ایک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ویدک منتر ایک پل ہے، ہمارے آباؤ اجداد کی گہری روحانی حکمت کے لیے ایک زندہ پل ہے۔

میں نے جو کچھ دیکھا ہے، ان مقدس منتروں کے عین مطابق تال، لہجے اور کمپن پیدا کرنے کے لیے جانا جاتا ہے اور اس وقت ایک طاقتور گونج پیدا کی ہے جو ذہن کو سکون اور ماحول میں ہم آہنگی لاتی ہے۔

جب ہم آج اس منتر کا تجربہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے  ہیں، جس کا ہم نے کچھ عرصہ پہلے مشاہدہ کیا تھا، ہم اپنے آپ کو انسانی تجربے کی اس ابدی زنجیر سے جوڑتے ہیں جو صدیوں سے قابل ذکر وفاداری کے ساتھ محفوظ ہے۔

دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے۔ ویدک منتروں کی منظم ترکیبیں، ان کے جاپ کے پیچیدہ اصول، یہ ہمارے قدیم اسکالرس کی سائنسی نفاست کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ قلم کے بغیر یا پین ڈرائیو کے بغیر پورا ہوا ہے۔

حرفوں کا ہم آہنگ اظہار نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے اور ہمارے پاس جذب کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ مجھے یہاں بیٹھنا نصیب ہوا۔

ایک لمحے کے لیے اس قدیم ہندوستانی ذہن کی ذہانت کا تصور کریں جس نے ان منتروں کو تحریر کیا۔ ذرا سوچئے کہ جب یہ منتر لکھے گئے تو عقل کی کیا گہرائی رہی ہوگی۔ یہ حقیقی ذہانت تھی، مصنوعی ذہانت سے بہت آگے۔ دماغ شاندار تھا۔ یہ ہمارا ورثہ ہے، اور یہ پراین اس بھرپور اعتماد کا مظہر ہے کہ ہم آنے والی نسلوں میں اس وقت کی معزز روایت کو فخر کے ساتھ پاس کریں گے۔

معزز سامعین، اشوک چکر جسے آپ ہمارے جھنڈے میں اکثر دیکھتے ہیں، یہ دھرم کی اہمیت کی علامت ہے، وہ اہمیت جو ہم نے تہذیبی دور میں دھرم کو دی ہے۔

بھارت کے پاس فہم، غیر محسوس دونوں ثقافتی ورثے کا دنیا کا سب سے بڑا مجموعہ ہے، جس میں روایتی فنون، موسیقی اور رسم و رواج شامل ہیں، اور یہ سب ہماری ثقافت، ہماری روحانیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہندوستانی ثقافت کی منفرد خصوصیت تنوع میں اتحاد ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ثقافتوں کی ترکیب سے تشکیل پاتی ہے۔

ہماری بنیادی اقدار اور دنیا اس مدت کے دوران انہیں مزید پہچاننے کے لیے آ رہی ہے۔ وہ عاجزی، عدم تشدد، بزرگوں اور اساتذہ کا احترام ہیں۔ اور اسی لیے ایک لمحے کے لیے سوچیں۔ یہ ہندومت، سکھ مت، جین مت اور بدھ مت جیسے بڑے مذاہب کی جائے پیدائش ہے۔

دھرم کو ہندوستانی ثقافت کا سب سے بنیادی تصور سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک بیرومیٹر ہے جو ہماری رہنمائی کرتا ہے، زندگی کے تمام پہلوؤں کی رہنمائی کرتا ہے۔ دھرم راستے، گزرنے کے ساتھ ساتھ منزل اور ہدف دونوں کی نمائندگی کرتا ہے، جو وجود کے تمام شعبوں سمیت الہی مخلوقات پر لاگو ہوتا ہے، اور صالح زندگی گزارنے کے لیے یوٹوپیائی آئیڈیل کے بجائے عملی طور پر کام کرتا ہے۔

دھرم آپ کو ایسی زندگی گزارنے کے لیے نہیں کہتا جو قابل عمل نہیں، قابل حصول نہیں، دستیاب نہیں۔ دھرم ہے، اگر آپ ان اصطلاحات میں تعریف کرتے ہیں، تو ایک یوٹوپیائی تصور پورا ہوتا ہے۔ ایک تضاد ہے، لیکن دھرم اس تضاد کو حل کرتا ہے۔

معزز سامعین۔ زمانہ قدیم سے ہندوستان کو دنیا کا روحانی مرکز سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہم ایک ہونا جاری رکھیں گے۔ زندگی کے معنی اور مقصد کو تلاش کرنے کے لیے ابتدائی کوئز ہندوستان کے قدیم رشیوں اور باباؤں کے گہرے غور و فکر کا موضوع تھا۔

شروتی میں موجود سچائی شاید ان میں سب سے بڑی ہے ،ان میں سے جگد گرو آدی شنکراچاریہ ہیں ، جو ویدانت کے ادویت اسکول کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ اگر کوئی ایک فلسفہ ہے،  جو اتحاد کو سمجھانے اور بیان کرنے کے لیے سب سے موزوں ہے، تو وہ آدی شنکراچاریہ کا فلسفہ ہے۔ یہ فلسفہ ہمیں پوری انسانیت، پوری دنیا، تمام کائنات کو الہی کے طور پر دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ واضح مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

 یقینی  بات یہ ہے کہ اگر ایشور  ہر جگہ رہتا ہے، اگرایشور ہی  موجود ہے، اگر ایشور سب میں ہے، تو  آپ  تفریق اور تقسیم کیسے کر سکتے ہو؟ اور اسی لیے میں نے کہا اور میں دہراتا ہوں، ہم شمولیت کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم قابل قبولیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ ہماری تہذیب ہمیں ایک تصادم کےر خ  میں رہنا نہیں سکھاتی۔

ہم فکرعمل میں روادار ہیں۔ لہذا، ہم ہندوستانی مقدس متون دیکھتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تمام قسم کے علم کے ساتھ، ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں۔ ہماری تحریروں پر جائیں۔ میں نے جو کہا ہے وہ مل جائے گا۔

میں بھگواد گیتا کا ایک حوالہ دوں گا۔ سانکھیا یوگا اور بھکتی یوگا۔ سانکھیا یوگا اور بھکتی یوگا کرما یوگا کے ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ یہ زندگی کا فلسفہ ہے۔ گیتا کی تعلیمات، قابل ذکر اور ہمیشہ یاد رکھی جانے والی ہیں۔ قانون اور حکمرانی پر  بہترین گرونتھوں میں سے ایک کو دیکھیں۔ جب قانون اور حکمرانی پر کی بات آتی ہے تو ہم  چانکیہ کو یاد کرتے ہیں۔ ہمیں چانکیا کی پالیسی کویاد کرتے ہیں، اور  انہوں نے کیا کہا؟

‘‘سکھسہ  مول دھرم، دھرمسیہ مول ارتھ’’

اور میرے دوست، سب سے زیادہ حوالہ دیا گیا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس کا مطلب سمجھ لیں تو یہ ہماری زندگی کا رخ بدل دے گا۔ ہم لاپرواہی کرنا چھوڑ دیں گے۔ ہم اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے اور یہ کہتا ہے، خوشی کی بنیاد صداقت ہے۔ یہ دولت کی نقل نہیں ہے۔ یہ طاقت یا اختیار  کااعلان  نہیں ہے۔ خوشی نیکی میں پنہاں ہے۔ اگر آپ اپنے آپ کے حق میں ہیں، آپ دوسروں کے حق میں ہیں، آپ تمام انسانوں اور جانداروں کے لیے راستبازی پر یقین رکھتے ہیں، تو آپ خوشی کی بابرکت حالت میں ہوں گے۔ اور دھرم دولت کے سوا کچھ نہیں ہے، حتمی دولت، ایسی دولت جسے آپ کو ڈیجیٹل اکاؤنٹ یا کسی محفوظ میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے کوئی نہیں چرا سکتا۔ یہ آپ کا لازمی حصہ ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا ناقابل تلافی پہلو ہے۔

دھرم میں یقین کا مطلب ہے کہ آپ غور و فکر سے بالاتر ہیں، انسانی زندگی کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ یہ ہمارے عظیم بزرگوں کی تعلیمات ہیں۔ یہاں ہونا خوش قسمت ہے۔

ہمارے ریشیوں  نے ہمیں اپنے تمام اعمال میں دھارمک اقدار کی رہنمائی کی تلقین کی ہے۔ آپ اس نوعیت کی بھیڑ کہاں دیکھ سکتے ہیں؟ اس کا متحد کرنے والا تانے بانے کیا ہے؟ دھرم، دھرم میں یقین۔ ہمارا عزم یہ ہے۔ ہر ایک جسے آپ سنتے ہیں،  وہ ہمارے مذہب کی نمائندگی ، محافظ  اور دھرم کا پرچار کرنے والے  سفیر  ہیں ۔

جب ہم دریدرا نارائن کا استعمال کرتے ہیں تو پوری دنیا میں ہماری تہذیب واحد ہے جو دریدرا نارائن کو استعمال کرتی ہے۔ یہ کیا کہتا ہے؟ غریبوں میں، پسماندہ میں، کمزوروں میں، مشکل ترین حالات میں ، دریدرا ہم نارائن کو دیکھتے ہیں، ایسے آدمی میں ہمیں خدا نظر آتا ہے، جب آپ دریدرا نارائن کو دیکھتے ہیں، معذور، چیلنج شدہ، بہرا، گونگے، پسماندہ، کمزور، کمزور طبقات یہ ہمیں پکارتا ہے۔ہمیں اپنی زندگی ان کی خدمت کے لیے وقف کرنی چاہیے۔

دوستو، ہمیں اپنے آپ کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ بھارت کیسی ثقافتی اور روحانی طاقت تھی۔ جب ہم اپنے  ماضی میں جھانکتے ہیں تو ہم دنگ رہ جاتے ہیں اور حیران رہ جاتے ہیں، اور عالمی قیادت کو یہ تیزی سے دلچسپ  ہورہی  ہے کہ انہوں نے اس قدر کے نظام کے ساتھ سخت مزاحمت کی۔ آرام دہ پہلو یہ ہے کہ ہم اسے دوبارہ حاصل کرنے کے راستے پر ہیں۔ ہمیں اسے تیزی سے ٹریک کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بہت بڑا ہون ہے، اس ہون میں ہر ایک کی قربانی کی ضرورت ہے، ہمیں بہت بڑی علمی شخصیت ملی ہوئی ہے، مکمل آہوتی بہت جلد ہونی چاہیے جو کہ ایک ہی وقت میں تھا۔

ثقافت کا سنہری دور۔ ہم اسے دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ بھارت کے روحانی خزانوں اور خزانوں میں موجود لازوال تعلیمات کی طرف واپس آکر، ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں دولت، دولت کا حصول انسانی فلاح و بہبود سے ہم آہنگ ہو۔ دولت کے حصول میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن دولت کے حصول میں لاپرواہی نہیں ہونی چاہیے، خود غرضی صرف کھانے کے لیے، صرف دکھاوے کے لیے  نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آپ اپنی دولت کی تخلیق کو انسانی فلاح و بہبود سے ہم آہنگ کریں گے تو معاشرہ آپ کی تعریف کرے گا۔

آپ کا ضمیر پاک ہو گا۔ آپ کو خوشی ملے گی۔ جب کاروباری اخلاقیات کی بات آتی ہے، تو اپنی کاروباری اخلاقیات کو روحانی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کریں، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ دھرم سب کے لیے انصاف، سب کے لیے مساوی سلوک، سب کے لیے برابری سے منسلک ہے۔ دھرم  پر عمل پیراں  معاشرے میں عدم مساوات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

ہمارا بھارت، جیسا کہ میں نے کہا، دوستو، انسانیت  کے چھٹے حصے کا مسکن ہے۔ ہم اپنی ثقافتی دولت اور تہذیبی اخلاق کی وجہ سے قوموں کی برادری میں بے مثال طور پر منفرد ہیں۔ اور یہ ایک یا دو صدی کا نہیں ہے۔

5,000 سالوں سے، دولت، بغیر کسی رکاوٹ کے حکمت اور علم کی توسیع اور حفاظت کی گئی ہے، اور ہمارے باباؤں اور گرووں نے پوری طرح سے اس کی حفاظت کی ہے۔ ایک صدی پہلے، پچھلی صدی کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔

ہماری ثقافت کو تباہ کرنے، داغدار اور  توہین  کرنے، ہمارے ثقافتی تانے بانے کو  برباد کرنے کی ہر طرح کی کوششیں کی گئیں۔ یہ متعصب ذہنوں کا  ہاتھ تھا۔ قوم اس لیے زندہ ہے کیونکہ ہماری ثقافت ناقابلِ فنا ہے۔ اسے تباہ یا ختم نہیں کیا جا سکتا، اور دوستو، اس روشن طبقے میں آدی شنکراچاریہ بھی ہیں، جنہوں نے پوری لگن سے معاشرے کو اس کے مصائب سے آزاد کرنے کے لیے کام کیا۔

ہم ان کے مقروض ہیں، ہم ہندوستان کی روحانیت اور فلسفے کی لازوال روایت کے احیاء کے لیے آدی شنکراچاریہ جی کے بہت قرض دار ہیں، آدی شنکراچاریہ کی افسانوی اور آسانی سے قابل فہم تعلیمات اور ہمارے صحیفوں پر ان کے مظاہر نے پورے بھارت میں متحد  جذبے کو متحرک کیا۔

ان کی لازوال میراث کا بوجھ، آدی شنکراچاریہ جی کی لازوال میراث، اب ہمارے زمانے میں شری شری بھارتی تیرتھ مہاسوامی جی کے ذریعہ پرورش پا رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ ہم خوش قسمت دوست ہیں جن کی کئی زبانوں پر نایاب گرفت ہے اور اسکالرشپ شری شری بھارتیتیرتھا مہاسومیت معاشرے کو راستبازی کی صحیح سمت میں متاثر کر رہے ہیں۔

یہ بڑے پیمانے پر شرکت، یہ جذباتی شرکت، اس میں شامل شرکت، یہ دلی شرکت ہمارے معاشرے میں ان کی اہم، تاریخی، غیر معمولی، نمایاں شراکت کا ثبوت ہے۔

دوستو، بلاشبہ یہ تقریبات روحانیت کے راستے پر چلنے اور آدی شنکراچاریہ جی کی تعلیمات کو آگے بڑھانے کے لیے متاثر کن ثابت ہوں گی۔

میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ یہاں کئی چیلنجز ہیں  جنہیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہمیں ان کا سامنا کرنا ہوگا۔ اپنی ثقافتی شناخت کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ احاطے کے حلقوں سے چیلنجز جنم لے رہے ہیں جن پر گہرائی سے غور کیا جانا ہے۔

رہنمائی اور روشن خیالی کے لیے ہم اپنے باباؤں اور  سنتوں اور بزرگوں کودیکھا ہوگا جو آج ڈائس کی زینت ہیں۔ یہ درست کہا گیا ہے کہ اگر آپ کسی ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو اس کی عمارتوں یا انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم کامیاب ہو جاؤ گے اگر تم اس کی ثقافت کو تباہ کر دو۔ اور اس لیے اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے ہمیشہ چوکس رہیں۔

میں ایک بار پھر منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے مجھے یہ منفرد موقع فراہم کیا، ایسا موقع جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے ملے گا۔ میں اس کے لئے ہمیشہ مقروض ہوں کہ  اپنے  معزز سنتوں  کی صحبت میں ایک اہم موقع پر اس خوشگوار تقریب میں شامل ہوں۔

آئیے ہم اس لازوال سچائی  پر غور کریں، ایک ایسی سچائی جس کے ساتھ ہم جی رہے ہیں اور ہم ہمیشہ اس کے ساتھ رہنے کے پابند ہیں - ستیم شیوم سندرم۔ دعا ہے کہ ہمارا نمہ شیوایا کا عمل ہمارے راستے کو تاریکی سے روشنی کی طرف، جہالت سے حکمت کی طرف، فانی سے لافانی کی طرف روشن کرے۔

اوم نمہ شیوایا

اوم نمہ شیوایا

اوم نمہ شیوایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ک ح ۔ر ض

U-2364


(Release ID: 2072669) Visitor Counter : 47


Read this release in: Hindi , English , Kannada