وزارات ثقافت
azadi ka amrit mahotsav

آٹھواں بین الاقوامی قدیم آرٹس فیسٹیول اور سمپوزیم


‘‘آرٹ حقیقی خودی کی جستجو ہے’’: ڈاکٹر مدھو کھنہ

‘‘دھرم، شعور، اور فن اپنے اندرروحانی جوہر کو مجسم کرتے ہیں- ایک ایسی طاقت جو دنیا پر حکومت کرتی ہے’’: ڈاکٹر سچیدانند جوشی

Posted On: 10 NOV 2024 8:36PM by PIB Delhi

اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس نے ‘ریز آف وزڈم سوسائٹی’ کے تعاون سے اور وزارت ثقافت، حکومت ہند کی حمایت سے، آٹھویں بین الاقوامی قدیم آرٹس فیسٹیول اور سمپوزیم کا 8 سے 10 نومبر، 2024 تک آئی جی این سی اےمیں انعقاد کیا۔ اس تقریب میں‘فن، مذہب اور راحت’پر ایک کانفرنس کے ساتھ ساتھ ‘بصری فنون میں مابعد الطبیعاتی، علامتی اور راحت بخش موضوعات’ کے عنوان سے ایک نمائش پیش کی گئی۔ ثقافتی پروگرام کے ایک حصے کے طور پر ڈاکٹر ریلا ہوتا نے‘انتر یاترا’ پیش کی جو کہ یوگک فلسفے کے ذریعے شعور کے سفر کو تلاش کرنے والی ایک رقص پرفارمنس ہے۔ دوسرے دن جناب شرینواس جوشی نے ایک ووکل ریسائٹل پیش کی اور آخری دن کا اختتام محترمہ یامنی ریڈی اوران کے گروپ کے ذریعہ پیش کئے گئے کوچی پوڈی رقص کے ساتھ ہوا۔تقریب کے دوران موجود معزز مہمانوں میں ثقافت کی وزارت کے جوائنٹ سکریٹری امیتا سارا بھائی،شری وی سری نواس (آئی اے ایس)، سکریٹری، حکومت ہند، محکمہ انتظامی اصلاحات اور عوامی شکایات (ڈی اے آر پی جی)، ڈاکٹر سچیدانند جوشی، ممبر سکریٹری، آئی جی این سی اے، ڈاکٹر ریلا ہوٹا، اوڈیسی رقاصہ اور بانی، ریز آف وزڈم سوسائٹی، ڈاکٹر منیندرا ٹھاکر، کانفرنس کے شریک کنوینر اور پروفیسر ریچا کمبوج، کالادرسنا،آئی جی این سی اے کی سربراہ شامل تھیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001XYU0.jpg

‘بین الاقوامی قدیم آرٹس کانفرنس’ جس کا اہتمام ریز آف وزڈم سوسائٹی نے مذہب، شعور اور روحانیت گروپ (فاؤنڈیشن برائے تخلیقی سماجی تحقیق کے ذریعہ پرورش یافتہ) کے تعاون سے کیاگیا۔اس کانفرنس میں قدیم آرٹ کی شکلوں کی شفا بخشی کی صلاحیت کا جائزہ لینے کے لیے معزز اسکالرز کو جمع ہوئے۔ ‘مذہب، شعور، روحانیت اور ذاتی اور سماجی شفایابی کے لیے اس کے مظہر’ پر مرکوز لیکچرز اور مباحثوں کے ساتھ، کانفرنس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ آرٹ کے ذریعے روحانیت کے لازوال اصولوں کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں‘آرٹ اینڈ کنفلکٹ ریزولوشن’،‘ہیلنگ ان باؤل فلسفہ’،‘اوڈیسی اور اس کے عالمی اصول’،‘ڈراما موومنٹ اینڈ تھیراپیوٹکس’، اور‘خوبصورتی کی جمالیات’ جیسے موضوعات پر بصیرت انگیز گفتگو شامل تھی۔ اسکالرز نے‘ملائی روایتی سائیکو تھراپی کے ذریعے نامکمل خواہشات سے نمٹنا’،‘روحانی موسیقی اور روحانیت’،‘شاعری میں کنڈالینی’، ‘انڈین فائن آرٹس میں روحانیت’، اور‘منی پوری موسیقی میں روحانیت کے عناصر’ کی بھی تحقیق کی۔ سماجی و ثقافتی آرٹ کی شکلوں کے طور پر مذہبی رسومات کا اثر، مندر کے فن تعمیر کی مابعد الطبیعیات اور بچوں کے تھیٹر کی علمیات بھی اہم فوکل پوائنٹس تھے۔ نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں ہندوستانی مذہب کی پروفیسر اور ٹیگور نیشنل فیلو، ڈاکٹر مدھو کھنہ نے کلیدی تقریر کی۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر سچیدانند جوشی تھے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002EHK6.jpg

افتتاحی سیشن میں ڈاکٹر سچیدانند جوشی نے ‘سناتن’ کے تناظر میں مذہب کے جوہر پر بات کی اوریہ بتایا کہ ‘دھرم’میں یہ چیز شامل  ہے کہ کوئی اپنی زندگی کیسے گزارتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ‘کٹمب’اپنے ماحول، دماغ اور ماحولیات کو شامل کرنے کے لیے قریبی خاندان سے آگے بڑھتا ہے، جس سے ‘دھرم’ کی وضاحت واضح اور جامع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ جہاں ‘مذہب’ کی اصطلاح ایک معنی رکھتی ہے، وہیں‘دھرم’ ایک الگ تفہیم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ کانفرنس کے مباحثوں سے اس بات کا پتہ چل سکے گا کہ ہم خود کے لیے‘دھرم’ کی تشریح کیسے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جوشی نے شعور پر بھی بات کی اور ہندوستانی فلسفے میں اس کے منفرد مفہوم پر روشنی ڈالی۔ انہوں  نے نوٹ کیا کہ جب ہم ایک واحد شعور کو تسلیم کرتے ہیں جو دنیا پر حکمرانی کرتا ہےتویہ شعور ہر فرد کے اندر بھی موجود ہے اور خود کے اندر ظاہر ہوتا ہے۔ اس خودی کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے جو اس تصور کو مجسم کرتا ہے کہ سچائی ایک ہے لیکن اس کا اظہار متعدد طریقوں سے ہوتا ہے۔ آرٹ کے بارے میں انہوں نے نوٹ کیا کہ اس کا اظہار سچائی میں ہے اور ہمارے لیے یہ محض تفریح ​​سے بالاتر ہے۔ فن ذاتی تسکین کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ اپنے اندرروحانی طاقت کے جوہر کو اندرونی بنانے کا ایک ذریعہ ہے - ایک ایسی طاقت جو بیک وقت دنیا پر حکومت کرتی ہے۔

اپنے کلیدی خطاب میں ڈاکٹر مدھو کھنہ نے کہا کہ‘رامائن’اور ‘مہابھارت’ جیسی عظیم رزمیہ شاعری ہمیں فن سے جوڑتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ادبی تحریریں ہمیں تصور کرنے میں مدد کرتی ہیں اور اس طرح ہمیں فنون لطیفہ سے جوڑتی ہیں۔‘رامائن’تمام آرٹ کی شکلوں کے درمیان باہمی تعلق کی ایک اہم مثال کے طور پر کام کرتی ہے، جس میں کوئی اور مہاکاویہ ہندوستان میں اس جیسا اہم کردار ادا نہیں کرتا۔ اگرچہ مختلف ادبی تحریریں مختلف ثقافتی روایات کی نمائندگی کرتی ہیں، لیکن وہ تخریب اور انحراف کے درمیان بھی تسلسل برقرار رکھتی ہیں۔ انہوں نے زور دیاکہ‘‘آرٹ حقیقی خودی کی جستجو ہے۔’’ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ‘رس’یا جمالیاتی لذت،‘بھاؤ’یعنی جذباتی ردعمل کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح فنکارانہ جذبات جمالیاتی لذت سے الگ نہیں ہوسکتے۔

اس تناظر میں ثقافت کی وزارت میں جوائنٹ سکریٹری امیتا سارا بھائی نے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ کے لیے وزارت کی لگن کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہاکہ ‘‘یہ تہوار ثقافتی بیداری، خاص طور پر نوجوان نسلوں کے درمیان، ثقافتی بیداری کو فروغ دینے کے لیے ہمارے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔’’پروفیسر(ڈاکٹر)ریچاکمبوج نے کہا کہ بھارت کی خوشحال ثقافتی وراثت اس روحانیت کے جوہرکی حامل ہے جس کا اظہارزندگی سے لے کر فنون تک میں ہوتا ہے۔ قدیم ہندوستانی آرٹ ‘روحانی غور و فکر’ کو روحانیت کے راستے کے طور پر مجسم کرتا ہے۔

فیسٹیول کے پہلے دن ڈاکٹر ریلا ہوتا اور ان کی ٹیم نے ‘انتر یاترا’ پیش کیاجویوگک فلسفہ سے جڑا ایک منفرد رقص ہے اور جس نے چکروں اور ذاتی تبدیلی کے تصور کو دریافت کیاہے۔ اس رقص کے ڈرامے میں اوڈیسی، چھاؤ اور عصری بیلے کو شامل کیا گیا تاکہ شعور کی بنیاد (مولادھرا) سے کراؤن (سہسرا) چکر تک پہنچ جائے۔ ‘انتر یاترا’ کا اختتام ‘موکش’ کی عکاسی پر ہوا جو کہ آفاقی شعور کے ساتھ خوشی اور اتحاد کی حتمی حالت ہے۔

دیگر معزز مقررین میں گرو راملی ابراہیم، ملائیشیا میں سترا فاؤنڈیشن کے چیئرمین،جانکی دیوی کالج ، دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر سواتی پال، ڈاکٹر ششی بالا،ڈین کے ایم منشی سینٹر آف انڈولوجی، ڈاکٹر اوما ریلے، پرنسپل،نالندہ نرتیہ کلا مہاودیالیہ ، پروفیسر آشیش گھوش، ریٹائرڈ تھیٹر کارکن اور دیال سنگھ کالج میں پروفیسر اور پروفیسر اروند شرما، میک گل یونیورسٹی، کینیڈا میں برکس پروفیسر آف ریلیجن شامل تھے۔ اس کانفرنس نے روحانیت، آرٹ اور شفایابی کے درمیان گہرے گفت و شنید کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا، ذاتی اور سماجی تبدیلی میں آرٹ کے گہرے کردار کو اجاگر کیا۔ آٹھویں بین الاقوامی قدیم آرٹس فیسٹیول اور سمپوزیم نے قدیم فنون کے ہیلنگ(راحت بخشی/شفایابی) کے جوہر کو اجاگر کیا، جس میں متنوع ثقافتی تاثرات کو یکجا کیا گیا تاکہ ذہنی اور روحانی تندرستی پر ان کے اثرات پر زور دیا جا سکے۔ تین روزہ تقریب نے آرٹ اور مجموعی صحت کے درمیان لازوال تعلق کواجاگرکیا۔

********

 (ش ح۔ م م ۔ م ا)

UNO -2318


(Release ID: 2072302) Visitor Counter : 23


Read this release in: English , Hindi