نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ریاستی یونیورسٹی، علی گڑھ، اتر پردیش کے پہلے کانووکیشن کی تقریب میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 21 OCT 2024 2:21PM by PIB Delhi

محترمہ آنندی بین پٹیل، عزت مآب گورنر اتر پردیش اورراجہ مہندر پرتاپ سنگھ ریاستی یونیورسٹی کی چانسلرہیں۔ گورنرنے  تعلیم کے تئیں اپنے پرُجوش عزم  کی مثال  پیش کی ہے ۔ میں نے یہاں اس کا  بات  کامشاہدہ  کیا ہے کہ وہ اس میں بڑی تبدیلی لائی ہیں ۔ یہاں سرٹیفکیٹ اور مارک شیٹس سبھی الیکٹرانک طور پر اپ لوڈ کی گئی ہیں۔

جب میں مغربی بنگال کا گورنر تھا، جب چانسلر کے کردار کی بات آئی توانہوں نے دور اندیشی اور بہت  خوش اسلوبی سےمیرا ہاتھ  بٹایا۔ عزت مآب گورنر نے چانسلر کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے  ان کے اعلیٰ اخلاق اور عزم کی مثال دی اورکہا کہ ریاست

 اتر پردیش کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے اس طرح کی ماہر تعلیم، حوصلہ افزا، متاثر کن گورنرخاص طور پر تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی شخصیت کی دوبار خدمت حاصل کرنے کا موقع ملا۔

جب میں نےکیمپس میں قدم رکھا۔ہم نے سب سے پہلے ایک کام کیا۔عزت مآب  گورنر نے اور میں نے‘ماں کے نام ایک پیڑ’ اور جب یہاں آیا۔ یہ ویدک منتر ماحول سے متعلق کتنا فکر انگیز تھا۔

ہمیں یاد رکھنا پڑے گاکہ ہمارے پاس رہنے کے لیے زمین کے علاوہ کوئی دوسری جگہ نہیں ہے۔اسی کو بچا کررکھنا پڑے گا۔

اس لیے میں یہاں موجود ہر طالب علم، اسٹاف کے ہر رکن، فیکلٹی کے  ارکان اوریہاں موجود  ہرفرد سے اپیل کرتا ہوں۔اس کیمپس کے اندر میں ماں کے نام ایک پیڑ ضرور لگائیں۔یہاں میں نے  اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ یہاں سب درست  اورترقی  کی راہ پر گامزن پرلیکن ایک پہلو کمزور ہے،یہ بہت جلد کیا جانا چاہیے۔موسمیاتی تبدیلی کا ٹائم بم ٹک ٹک کر رہا ہے ہمیں ایک وقت کے ساتھ کام کرنا ہے۔

دوستو، اس کانووکیشن میں شرکت کرنا ایک اعزاز کی بات ہے اور ایک خاص وجہ سےاس کا نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھا گیا ہے جو ایک محب وطن، قومی ہیرو اورمجاہد آزادی تھے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ برج بھومی میں رہنا ہمیشہ روحانی طور پر فائدہ مند ہوتا ہے۔ گریجویشن کرنے والے تمام طلباء، تمغہ جیتنے والے ان کے قابل فخر والدین کو بھی میری مبارکباد اور سب سے اہم بات، فیکلٹی کے ممبران کو میرا سلام اور مبارکباد۔

میرے نوجوان دوستو، آپ کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت ملک کا اثاثہ ہے۔ آپ جس بھی شعبہ میں کام کرتے ہیں اورجن شعبوں کی تعداد میں اب دن بدن اضافہ ہورہا ہے، آپ ہندوستان کی ترقی کے سفرکی کہانی کا حصہ بنیں گے۔ بھارت کی یہ کہانی وعدوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگلے 25 سال بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ  ہمارے سامنے ہوں گے جن سے فائدہ اٹھانے کی آپ سب کو ضرورت ہے۔

دوستو، آپ جیسے اعلیٰ قابلیت کے حامل ہمارے نوجوانوں کا سب سے اہم جزو ہماری ریڑھ کی ہڈی کی طاقت ہیں۔

ہمارے قومی عزائم واضح ہیں، ہمارا قومی عزائم اچھی طرح سے طے شدہ ہے ، جس کا ہدف2047 تک ایک ترقی یافتہ ملک اور ترقی یافتہ بھارت بننا ہے۔

نوجوان ذہن اس سفر میں سب سے اہم شراکت دار ہیں۔ آپ اس سفر کی تعریف کریں گے، آپ اس سفر کو توانائی دیں  گے اور آپ سب اس کو سب کے لیے باعث فخر بنائیں گے۔ آپ مستقبل کے رہنما ہیں، آپ مثبت تبدیلی لانے والے  ہیں، آپ معاشی، تکنیکی اور سماجی ترقی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ہمارے قومی عزائم کی اچھی طرح وضاحت کی گئی ہے، ہمارے قومی عزائم کو اچھی طرح سے ترتیب دیا گیا ہے اور وہ 2047 میں ایک ترقی یافتہ قوم، ترقی یافتہ حصہ ہے۔ نوجوان ذہن اس سفر میں سب سے اہم  شراکت دار ہیں، آپ اس سفر کی تعریف بیان کریں گے، آپ اس سفر کو ایندھن دیں گے،اور ہم سب کے لیےاس کو باعث فخربنائیں گے۔ آپ مستقبل کے رہنما ہیں، آپ مثبت تبدیلی لانے والے ہیں، آپ معاشی، تکنیکی اور سماجی ترقی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ کواپنے  اس یقین میں تبدیلی لانا ہے جس  پر آپ یقین رکھتے ہیں۔ تبدیلی  میں مت بہہ جائیں۔ اپنی اہلیت اور رویہ کے مطابق آپ جو تبدیلی چاہتے ہیں اسے لائیں۔

دوستو یہ موجودہ طرز حکمرانی کا ثبوت ہے کہ اس یونیورسٹی نے اتنے کم وقت میں اتنی شہرت حاصل کی ہے ۔اس کاسنگ بنیاد3 سال قبل ہمارے دور اندیش وزیر اعظم کی قیادت میں رکھا گیا تھا۔

مثالی امن و امان، شاہراہوں، بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ یہ کامیابی اس کی پیشرفت اور عروج کے لیےعمدہ ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے - تہذیبیں اداروں اور اپنے ہیروز کے حکم سے زندہ رہتی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں، نالندہ، تکش شیلا اور علم اور تعلیم کے بہت سے عالمی میناروں کا تصور کریں۔ یہ یونیورسٹی کا قیام صحیح سمت میں ایک قدم ہے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے ہے، ایک ایسے ہیروکےطور پرجس طرح جنگ آزادی کی تحریک کے دوسرے ہیروز کوتاریخ میں جگہ دی جاتی ہے، ویسی ہی انہیں بھی دی جانی چاہیے۔1915 میں اس نے کابل میں ہندوستان کی پہلی عارضی حکومت قائم کی جو کہ انگریزوں کے 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا تصور کرنے سے دو دہائیاں قبل تھا۔ بہت زبردست کوشش تھی۔ یہ آزادی کا اعلان کرنے کی سوچ تھی، جو ہمیں بعد میں ملی اور انہیں پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اچھا موقع ملا۔ ان جیسے ہیروز کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہم ایک آزاد ماحول میں پروان چڑھ رہے ہیں۔

بدقسمتی سے اب تک ہماری نصابی کتابوں میں ایسے عظیم ہیروز کی متاثر کن کہانیوں کا بہت کم یا کوئی ذکر نہیں ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آزادی کی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور اس کا سہرا ان لوگوں کو نہیں دیا گیا جنہوں نے اس کے لیے قربانیاں دی تھیں۔

یہ ہمارا اولین فرض ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو جدوجہد آزادی کے حقیقی ہیروز سے روشناس کرائیں۔ مورخین کی اگلی نسل کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ لاتعداد آزادی پسندوں کی قربانیوں نے اس نسل کو متاثر کیا۔ حالیہ دنوں میں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے گمنام ہیروزیا معروف ہیروز کی قربانیوں کو ملک بھر میں بھرپور میں بہتر طریقے سےیاد کیا  جا رہا ہے۔

کافی تاخیرکے بعد1990 میں ڈاکٹر بی امبیڈکر،2023 میں چودھری چرن سنگھ اور کرپوری ٹھاکر کو امبیڈکر پر اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھارت رتن سے نوازا جانا درست سمت میں ایک مثبت قدم ہے۔ مجھے پارلیمنٹ میں دونوں مواقع پر موجود ہونے کا شرف حاصل ہوا۔میں1990 میں مرکزی وزیر تھا اور اب میں نائب صدر اور راجیہ سبھا کا چیئرمین ہوں۔

میں خود کو خوش قسمت مانتا ہوں لیکن مجھے  تشویش بھی ہے  کہ ہمیں اپنے ہیروز کو پہچاننے میں اتنا وقت کیوں لگا؟

اسی طرح حال ہی میں بہت اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔ ہم بھگوان برسا منڈا کو ان کی یوم پیدائش پر 15 نومبر کو قبائلی فخر کے دن کے طور پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ایک عظیم قبائلی آزادی پسند، ان کے بارے میں جانیں۔  ان کے کردار سے آپ پرجوش ہوں  گے ساتھ ہی ان سے حوصلہ بھی ملے گا۔ وہ چھوٹی عمر میں ہی رخصت ہوئے لیکن ہماری جدوجہد آزادی پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ یہ دن بہادر قبائلی آزادی پسندوں کی یاد کے لیے وقف ہے تاکہ موجودہ اور ہماری آنے والی نسلیں اس ملک کے لیے  دی گئیں ان کی قربانیوںکوجان سکیں۔

اسی طرح ایک اور عظیم ہیرو جس کو ان کا مناسب مقام نہیں دیا گیا وہ نیتا جی سبھاش چندر بوس تھے، جو بے مثال ہمت اور ملک کی بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار تھے، لیکن انہیں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔ حکومت نے ان کی سالگرہ  پرہر سال 23 جنوری کو پراکرم دیوس کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔  جب یہ اہم تقریب منعقد ہوئی تو مجھے ایک بار پھرمیری خوش قسمتی رہی کہ مجھے اس میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔

کولکاتا میں، میں ریاست مغربی بنگال کا گورنر تھا۔ عزت مآب وزیر اعظم نے اس عظیم دن کا افتتاح ایک شاندار انسان، ایک شاندار روح، ایک وژنری کو یاد کرتے ہوئے کیا، جس نے قوم کی خدمت کے لیے اپنا سب کچھ، تمام آسائشیں ترک کر دیں۔

شہیدو ںکی چتاؤں پر لگیں گے ہربرس میلے

وطن پر مرنے والوں کا یہی باقی نشاں ہوگا

کبھی وہ  دن  بھی آئے گا جب اپنا راج دیکھیں گے

جب اپنی ہی زمیں ہوگی اور اپنا آسماں ہوگا

یہ آج سچ ہورہا ہے کہ آزادی کے طویل وقت کے بعد اس کو ہر لمحہ محسوس کیا جارہاہے اور ہر نقطہ نظر سے کیا جارہاہے۔

میرے نوجوان دوستو، ہم نے آپ سب کو یاد دلانے کے لیے ایسے ہی کچھ حالیہ اقدامات کی تشہیر کی ہے کہ قوم پرستی کے لیے ہماری وابستگی ہمیشہ غیر متزلزل اور اعلیٰ ہونی چاہیے۔ قوم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ قوم پرستی ہمارا مذہب ہے، ذاتی مفاد یا کسی اور مفاد کو قومی مفاد سے بالاتر نہیں رکھا جا سکتا، یہی ہمارا عزم ہونا چاہیے، یہی ہماری ثقافت کا نچوڑ ہے۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ایک بصیرت مند ماہر تعلیم بھی تھے جنہوں نے پریم مہاودیالیہ کے قیام کے لیے تکنیکی تعلیم کی ضرورت کو محسوس کیا۔

دوستو تاریخ اس بات کی شاہد ہے  کہ تکنیکی انقلاب کے بغیر کوئی بھی ملک شاندار نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ Pax Indica کو حقیقت بنتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹیکنالوجی میں رہنمائی کرنی چاہیے۔

ہم عملی طور پر چوتھے صنعتی انقلاب میں رہ رہے ہیں جہاں زراعت سے لے کر تعلیم تک مواصلات تک معلومات ہماری تمام سرگرمیوں کی کلید ہے۔ ان دنوں سب کچھ مواصلات کے ارد گرد ہے۔ ٹیکنالوجی گیم چینجر ہے۔

ہمارے ملک میں اس نے بہت خوش اسلوبی  سے متاثر کیا ہے۔ شفاف، جوابدہ طرز حکمرانی، خدمات کی فراہمی میں آسانی، اور آخری صف میں کھڑے شخص کو فوائد حاصل ہوں۔

جیسا کہ ہم Viksit Bharat@2047 کی طرف بڑھ رہے ہیں،جو کہ علمی معیشت کے ذریعے کارفرما ہے، ہمارا مقصد  دنیا کے بہترین اداروں کی مانندعمدہ اداروں کا قیام  ہونا چاہیے۔ چونکہ اس ملک میں عالمی شہرت اور ممتاز ادارے تھے، اس لیے دنیا بھر سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے یہاں آتے تھے۔

میں صنعتوں اور کارپوریٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہندوستان کے تعلیمی ماحولیاتی نظام میں سرمایہ کاری کریں۔ تعلیم میں سرمایہ کاری آپ کے حال میں سرمایہ کاری ہے، مستقبل میں سرمایہ کاری ہے، اقتصادی ترقی کے لیے سرمایہ کاری ہے، امن کے لیے سرمایہ کاری ہے اور ہم آہنگی کے لیے سرمایہ کاری ہے۔

اس کوشش کو آگے بڑھانا چاہیے، اب یہاں میری طرف سے احتیاط کا ایک لفظ ہے۔ میں اسے ایک انتباہ کہہ سکتا ہوں۔ ہمیں تعلیم کو کبھی بھی شے نہیں بنانا چاہیے، ہمیں کبھی بھی تعلیم کو تجارت نہیں بنانا چاہیے۔ یہ کوشش، یہ انٹرپرائز، یہ جذبہ تعلیم کی اجناس اور تجارت کاری سے نہیں چلنا چاہیے بلکہ اسے ہمارے روایتی گروکل نظام کے مطابق ہونا چاہیے۔

گروکل میں کیا ہوا کرتا تھا کہ کوئی فیس نہیں تھی، کوئی  روک ٹوک  نہیں تھی اوریہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے آئین  سازوں نے بہت سوچ سمجھ کر آئین میں22 تصویریں رکھی ہیں اور میں آپ سے ان تصویروں کا مطالعہ کرنے کی اپیل کروں گا۔ آج کل سوشل میڈیا، گوگل سب آپ کی مدد کرے گا، جہاں شہریت ہے، وہاں گروکل کی تصویر ہے، تعلیم کو کیا اہمیت دی گئی ہے۔ انہیں کردار سازی کے مصداق بننا ہے، انہیں ہمارے  بھارت سے وابستگی کے جذبے سے ہمیں روشن کرنا ہے۔

نصاب کی تشکیل کرنے والوں سےجو نصاب تیار کر رہے ہیں، فیکلٹی کے اراکین سے،میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ قومی تعلیمی پالیسی کو کامیاب بنائیں۔ عزت مآب گورنر اور میں قومی تعلیمی پالیسی کے ارتقاء کے مختلف مراحل میں منسلک رہے ہیں۔ ہزاروں شراکت  داروں کے ذریعہ دی گئیں معلومات پر غور وفکر کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس یہ تین دہائیوں سے زیادہ  مدت پر مبنی ہے، یہ ہمارے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ایک وژنری روڈ میپ پیش کرتا ہے۔ یہ کثیر الشعبہ سیکھنے، مہارت کی ترقی، اختراع کو فروغ دیتا ہے۔ اسے ڈگریوں پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر استاد، ہر پروفیسر، تعلیم سے وابستہ ہر فرد برائے مہربانی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے جائیں۔ آپ اسے اس وقت تک نافذ نہیں کر سکتے جب تک آپ اسے سمجھ نہ لیں، آپ کو اسے نافذ کرنے  کی ذہنیت کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔

خوش قسمتی سےآج ہمارا بھارت دنیا کے لیے ایک عظیم ترقی، ٹیکنالوجی کے معاملے میں ایک دانشورانہ  صلاحیت کے طور پرابھر رہا ہے۔ میرے نوجوان دوست، لڑکے اور لڑکیاں، اس کے بارے میں جان جائیں گے۔ ہم پیٹنٹ فیلڈ کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہیں۔ آپ پیٹنٹ کی اہمیت جانتے ہیں، آپ کو اس کے معاشی نتائج معلوم ہیں۔ آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ کس طرح ایک نرم سفارتی ہتھیار ہے اور سال بہ سال 25فیصد کے نمایاں اضافے کے ساتھ پیٹنٹ فائل کرنے کے معاملے میں ہماری سالانہ ترقی 25فیصدہے۔

مصنوعی ذہانت میں ہندوستان اپنے مضبوط انسانی تعامل اور گہری تکنیکی رسائی کے ساتھ ڈیٹا سیٹ کی تخلیق میں رہنمائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ درحقیقت، ہماری ڈیجیٹائزیشن، ہماری تکنیکی دخول، خدمات کی فراہمی کے لیے استعمال کو عالمی اداروں، ورلڈ بینک نے سراہا ہے کہ ہندوستان جب ڈیجیٹائزیشن کے ذریعہ خدمات کی فراہمی کی بات کرتا ہے تو ایک  نمونہ عمل ہے لیکن چھ سالوں میں حاصل کی گئیں ہندوستان کی کامیابیاں عام طور پر چار دہائیوں سے زائد عرصے میں بھی حاصل نہیں کی جا سکتیں۔

دوستو، ہم تکنیکی انقلاب کے امرت کال میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسے آپ جیسے نوجوان ذہنوں، روشن دماغوں سے چلنا چاہیے۔ تبدیلی کرنے والے بنیں، جدت طرازی کی قیادت کریں اور ہندوستانی مسائل کے ہندوستانی حل تلاش کریں اور انہیں عالمی برادری کے لیے بھی دستیاب کریں۔

2024 کی گریجویشن کلاس کوآپ کی کامیابی پر مبارکباد۔ رادھا مہندر پرتاپ سنگھ جیسے ہیروز سے متاثر ہوں، جنہوں نے قومی مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں جو نیا بھارت پیش کرتے ہیں، اپنی تعلیم کو دانشمندی کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لیے استعمال کریں۔

دوستو، جیسے ہی آپ دنیا میں داخل ہوں گے اور قدم رکھیں گے، آپ کو بہت سے  چیلنجز  در پیش ہوں گے،اس میں کئی آپ کے لیے سنگین چیلنجز ہوں گے، آپ کو کچھ دھچکے بھی لگ سکتے ہیں،یہ سب فطری ہیں۔

یہ آپ کے لیے خواب نہیں ہوگا، یہ سخت مقابلہ ہوگا اور ایسا ہونا چاہیے۔ ناکامی سے کبھی نہ گھبرائیں۔ کوئی بھی ناکامی کامیابی کی سیڑھی ہوتی ہے، اگر آپ کے ذہن میں کوئی اچھا آئیڈیا آجائے تو اسے  چھوڑ نہ دیں بلکہ اس پر عمل کریں۔

الحاق شدہ کالجوں اور ماہرین تعلیم سے میری اپیل ہے کہ اپنی سرگرمیوں کو یقینی بنائیں، اس ابھرتی ہوئی تکنیکی دنیا کے لیے گریجویٹ تیار کریں۔ ان میں قوم پرستی کا جذبہ پیدا کریں۔

ہو سکتا ہے آپ ہونہار ہوں، ہو سکتا ہے آپ تکنیکی طور پر ذہین ہوں، آپ کی تعریف کی جائے لیکن اگر آپ کا قوم پرستی سے لگاؤ ​​کمزور ہے۔یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

'کپاس جب کاٹتے ہیں تو دھاگہ بن جاتا ہے، اگر تھوڑی سی بھی غلطی ہوجائے تو واپس پھر سے روئی بن جاتی ہے۔ آپ کی کوششیں  بربادہوجاتی ہیں۔

دوستو، ہندوستان، انسانیت کے چھٹے حصے کا گھر، کرہ ارض کی قدیم ترین تہذیب ہے، جس میں بے پناہ اقتصادی اضافہ ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ملک %7.5 سے %8 جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔

آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جس کا خواب دیکھتے ہوئے میری عمر کے لوگوںکو ڈرلگتا ہے۔اس ملک میں ریل، سڑک، رابطے، آبی گزرگاہوں، پورے ملک میں ڈیجیٹلائزیشن کا عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ  تیارہو رہا ہے۔

یہ ہمارے نوجوانوں کا وقت ہے، اب میری آپ سے خصوصی اپیل ہے، آپ  تنہا  ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نوکری صرف حکومت کی ہے کہ آپ تھوڑا سا دیکھیں تو پتہ چل جائے گا۔مواقع کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔

ایک معلومات کے مطابق، صرف %10 طلباء جانتے ہیں کہ مواقع کہاں ہیں، %90 نہیں جانتے۔ براہ کرم تنہائی سے باہر نکلیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اگر آج کہہ رہا ہے کہ ہندوستان مواقع، منزل اور سرمایہ کاری کی سرزمین ہے، کیوں؟ وہ نوکری نہیں مانگ رہا ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، اپنے اردگرد نظر ڈالیں، آپ کی قابلیت سمندر میں بلیو اکانومی، خلائی معیشت میں استعمال کی جا سکتی ہے۔

میں آپ کو چانکیہ کے الفاظ بتاتا ہوں اور جیسے ہی چانکیہ کا نام آتا ہے، آپ میں ایک نئی توانائی آجاتی ہے، جو چانکیہ کا کردار ادا کرتا ہے، وہ کیسے بولتا ہے، لگتا ہے کہ چانکیہ  کتنے عظیم تھے۔ چانکیہ نے کہا تھا۔ ‘‘تعلیم بہترین دوست ہے، تعلیم یافتہ شخص کی ہر جگہ عزت کی جاتی ہے۔’’

اور سوامی وویکانند جی نے کہا تھا۔ ‘‘اٹھو، بیدار ہو جاؤ، اور اس وقت تک مت رکو جب تک مقصد حاصل نہ ہو جائے۔’’یہ آپ کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔

میری نیک خواہشات ان لوگوں کے لیے جو باہر جا رہے اور موجودہ طلبہ کے لیے۔ آپ ایک ماحولیاتی نظام کے ساتھ خوش قسمت نہیں ہو سکتے ہیں اور ماحولیاتی نظام وہ ہے جہاں آپ اپنی صلاحیتوں اور اپنے خوابوں اور خواہشات کو پورا کرنے کی صلاحیت کو پوری طرح سے بروئے کار لا سکتے ہیں۔

آج ڈگریاں حاصل کرنے والوں سے میری ایک اپیل ہے کہ آپ بہت ممتاز زمرے میں ہیں، آپ اس ادارے کے پہلے سابق طالب علم ہیں۔ آپ کو اس ادارے سے ہمیشہ منسلک رہنے کے لیے جگہ لینا چاہیے، اس ادارے سے جڑے رہنا چاہیے، سالانہ چندہ دینا چاہیے۔ رقم سے کوئی فرق نہیں پڑتا،  مالی تعاون کرنا سب اہم ہے۔ کرو۔ آپ کو برسوں کے دوران ملے گا، یہ ایک غبارے کی طرح بڑھے گا اور ضرورت مند طلباء کی مدد کرے گا۔ یہ تعلیمی میدان اور آپ کے ادارے کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

آخر میں میں ایک بات کہوں گا، میں آپ کو ایک سبق دے رہا ہوں کہ ہمیشہ چوکنا رہیں، ہمیشہ اسی‘نیائے ماتما بالہینن لبھیہ’ کو یاد رکھو۔ انگریزی میں اس کا مطلب ہے۔ خود شناسی کمزور ارادے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے  کہ اگر ارادہ کمزور ہےتو ہم نہیں کرپائیں گے، اس لیے مضبوط ارادہ رکھیں، ناکامی سے کبھی خوفزدہ نہ ہوں، ناکامی کے خوف کی وجہ سے کبھی دباؤاور تناؤ کا شکار نہ ہوں۔ یہ کوششوں میں خلوص اور عزم ہے جو سب اہم ہے اور یہی وہ سبق تھا جو لارڈ کرشنا نے ارجن کو کروکشیتر میں دیا تھا جو آپ کے مستقبل کے کام کے لیے رہنما ستارہ ہونا چاہیے۔

مجھے پہلے کانووکیشن کو خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کبھی میری یادوں میں نقش رہے گا۔ یہ میرے لیے اس مٹی کے عظیم فرزندوں میں سے ایک کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے۔

*******

ش ح۔م ۔ح ۔اش ق

 (U: 1530)


(Release ID: 2066778) Visitor Counter : 40


Read this release in: English , Hindi , Manipuri , Kannada