قومی انسانی حقوق کمیشن
طوائفوں اور پسماندہ طبقو ں کے بچوں کے حقوق کے بارے میں این ایچ آر سی، انڈیا اوپن ہاؤس مباحثہ کئی تجاویز کے ساتھ اختتام پذیر ہوا
این ایچ آر سی کی قائم مقام چیئرپرسن، محترمہ وجیا بھارتی سیانی کا کہنا ہے کہ متعدد پیش بندیوں کے باوجود، بہت سے بچوں کو اب بھی بدنامی، غربت اور ضروری وسائل تک محدود رسائی کا سامنا ہے جس سے ان کی کمزوری اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا سلسلہ برقرار رہتا ہے
بات چیت میں تجرباتی اعداد و شمار اور چیلنجوں پر تحقیق کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مختلف سرکاری اسکیموں کے اثرات کے جائزے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا
دیگرمختلف اہم تجاویز میں، اعتماد کو فروغ دینے اور ان بچوں کی ضروری خدمات تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے تربیت یافتہ سماجی کارکنوں کی ملازمت اور فعال شمولیت پر بھی زور دیا
سرکاری پورٹل پر والد کے نام کی بجائے ماں کا نام بچوں کی ماں کے نام کو لازمی قرار دینے کی تجویز رکھی گئی
Posted On:
01 OCT 2024 8:03PM by PIB Delhi
بھارت کے انسانی حقوق کے قومی کمیشن (این ایچ آر سی) کے ذریعہ ہائبرڈ موڈ میں منعقدہ اوپن ہاؤس ڈسکشن نئی دہلی میں اپنے احاطے میں طوائف اور پسماندہ طبقو ں کے بچوں کے انسانی حقوق کے مقصد کو بہتر بنانے کے لیے کئی تجاویز کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس بحث کا مقصد نظامی مسائل کی جامع تفہیم کو فروغ دینا اور تمام بچوں کے لیے زیادہ مساوی مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے قابل عمل حل پیدا کرنا تھا۔
بحث کی صدارت کرتے ہوئے، این ایچ آر سی کی قائم مقام چیئرپرسن محترمہ ایس وجیا بھارتی نے طوائف اور پسماندہ طبقوں کے بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بھارت کے گراں مایہ ثقافتی ورثے پر روشنی ڈالی جس میں روایتی طور پر بچوں کے تحفظ اور انہیں بااختیار بنانے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف آئینی دفعات اور قوانین کا بھی حوالہ دیا۔ اگرچہ انہوں نے نے کہا کہ متعدد پیش بندیوں کے باوجود، بہت سے بچوں کو اب بھی بدنامی، غریبی اور ضروری وسائل تک محدود رسائی جیسے سخت چیلنجوں کا سامنا ہے جس سے کمزوری اور امتیازی سلوککا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔
محترمہ بھارتی نے پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، اور کمیونٹی کے اراکین سے زور دے کر کہا کہ وہ ساز گار ماحول بنانے کے لئے مل جل کر کام کریں اور تمام بچوں کے لیے تعلیم اور حفظان صحت تک مساوی رسائی کے لیے حمایت کریں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکیں اور ایک روشن مستقبل کی جستجو کرسکیں۔انہوں نے حالیہ پروگراموں کے جائزے کی حمایت کرنے میں اور سماج کے پسماندہ طبقے کے بچوں کی شمولیت اور مساوی ترقی کی راہ میں آنے والی روکاوٹوں سے نمٹنے میں،بچوں سمیت سبھی کےحقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں این ایچ آر سی کے انتہائی اہم رول کا ذکر کیا۔
اس سے پہلے، اپنے ابتدائی کلمات میں، این ایچ آر سی کے سکریٹری جنرل جناب بھرت لال نے ان کمزور بچوں کے لیے بنیادی سہولیات، جیسے کہ تعلیم اور حفظان صحت کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت کے جاری اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے بچوں کی صحت اور غذائیت کو ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بچوں کے حقوق میں جغرافیائی اور سماجی و اقتصادی عوامل سے پیدا ہونے والے تفاوت کو اجاگر کیا اور ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کے ذریعے قبائلی بچوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا، جس میں ہر بلاک میں ایک اسکول قائم کرنے اور میدانی اور دور دراز دونوں علاقوں کے لیے مختص اہم فنڈنگ کے منصوبے شامل ہیں۔ ان پیش رفتوں کے باوجود انہوں نے پسماندہ بچوں کے لیے بنیادی خدمات اور تعلیمی مواقع کو بہتر بنانے میں پیش آنے والے چیلنجوں کااعتراف کیا۔
انہوں نے کمیشن کی فعال مصروفیت کابھی ذکر کیا، جس میں قائم مقام چیئرپرسن کے مختلف اسکولوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اداروں کے دورے شامل ہیں۔ انہوں نے این ٹی/ ڈی این ٹی طبقوں کے بچوں کو مساوی تعلیم تک رسائی فراہم کرنے اور اس طرح ان کے مواقع کو شہری بچوں کے لئے دستیاب مواقع سے ہم آہنگ کرنے میں ٹیکنالوجی کی صلاحیت کا ذکر کیا۔ انہوں نے قومی اوسط کے تناسب سے بچوں کی ترقی اور نشوونما کے مختلف اشاریوں میں فرق کو دور کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
این ایچ آر سی کی جوائنٹ سکریٹری محترمہ انیتا سنہا نے اوپن ہاؤس بات چیت کا ایک جائزہ پیش کیا اور طوائفوں اور پسماندہ طبقوں کے بچوں کو سماجی بدنامی، تعلیم اور حفظان صحت تک محدود رسائی، اور استحصال کے بڑھتے ہوئے خطرے جیسے درپیش اہم چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔ساتھ ہی ان کی ترقی کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بچوں کے حقوق سے متعلق مسائل پر این ایچ آر سی کے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔
پہلے اجلاس میں طوائفوں کے بچوں کے حقوق اور ان کو درپیش چیلنجوں کا جائزہ لیا گیا، جن میں سماجی بدنامی، تعلیم اور حفظان صحت تک رسائی کی کمی اور استحصال کا بڑھتا ہوا خطرہ شامل ہے۔ دوسرے اجلاس میں پسماندہ طبقوں کے بچوں کے حقوق پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں ان کی مخصوص ضروریات اور ضروری خدمات تک رسائی میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کیا گیا۔ آخر میں، پالیسی سازوں، این جی اوز اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سمیت مختلف شراکت داروں کے درمیان بات چیت میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کو بڑھانے کے لئے آئندہ منصوبوں، اختراعی حکمت عملیوں اورمشترکہ کوششوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔
بات چیت کے دوران سامنے آنے والی چند اہم تجاویز درج ذیل تھیں:
• تجرباتی اعداد و شمار کی فوری ضرورت ہے، جس کے لئے ایسی تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس میں طوائفوں کے بچوں اور پسماندہ طبقوں کے بچوں کو درپیش بہت سے چیلنجوںپر توجہ مرکوز کی جائے اور مختلف سرکاری اسکیموں کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔
• اساتذہ، پولیس افسران، سماجی کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے لیے صلاحیت سازی اور حساسیت کے پروگرام ضروری ہیں تاکہ انھیں ان بچوں کے منفرد پس منظر اور تجربات سے آگاہ کیا جا سکے، جس سے بہتر بات چیت اور افہام و تفہیم میں آسانی ہوسکے۔
• طوائفوں اور ان کے بچوں کو آدھار کارڈ جیسی مناسب دستاویزات ملنی چاہئے تاکہ اسکولوں میں ان کے داخلوں میں سہولت ہوسکے ان کی ضروری شناخت اور دستاویزات کے حصول کے عمل کو ہموار کیا جاسکے۔
• سرکاری پورٹلز پر والد کے بجائے ماں کا نام لازمی طور پر فراہم کیا جانا چاہیے۔ سرپرست کا نام دینے کا اختیار شامل کیا جانا چاہئے؛
• طوائفوں اور پسماندہ طبقوں کے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وضع کردہ موجودہ اسکیموں اور قوانین کے مناسب نفاذ کو یقینی بنایا جائے؛
•ان بچوں کو مجموعی تعاون فراہم کرنے کی خاطر ان گروپوں کی منفرد ضروریات کے مطابق کمیونٹی پر مبنی دیکھ بھال کے ماڈل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
• تربیت یافتہ سماجی کارکنوں کی ملازمت اور فعال مشغولیت کی بھی ایک اہم ضرورت ہے تاکہ اعتماد کو فروغ دیا جا سکے اور طوائفوں اور پسماندہ طبقوں کے بچوں کے لیے ضروری خدمات تک رسائی کو آسان بنایا جا سکے۔
اوپن ہاؤس ڈسکشن میں این ایچ آر سی میں ڈائرکٹر جنرل جناب اجے بھٹناگر(تفتیش)،رجسٹرار جناب جوگندر سنگھ(قانون)، خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت (ایم ڈبلیو سی ڈی)کے ایڈیشنل سکریٹری جناب سنجیو کمار چڈھا، امور داخلہ کی وزارت (ایم ایچ اے) کے ڈپٹی سکریٹری جناب گنگا کمار سنہا، خواتین کے لیے قومی کمیشن کے ممبر سکریٹری محترمہ میناکشی نیگی،سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت کے ڈی او ایس جے ای میں اقتصادی مشیر جناب اجے سریواستو،پرشم کی بانی محترمہ نسیمہ خاتون، سوسائٹی فار پارسیپیٹری انٹیگریٹڈ ڈیولپمنٹ (ایس پی آئی ڈی) کی نائب صدر محترمہ للیتا ایس اے، یونیسیف میں حقوق اطفال کےتحفظ کے اسپیشلسٹ جناب پربھات کمار، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس میں رائٹس اینڈ کانسٹیٹیوشنل گورننس کے بنیاد گزار ڈین اور قانون کے سابق پروفیسر(ڈاکٹر) آشا باجپائی، چیتھنیا مہیلا منڈلی (سی ایم ایم) کے بانی/جنرل سکریٹری جناب جیا سنگھ تھامس، دہلی یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف سوشل ورک کی پروفیسرنینا پانڈے، اڈیشہ کی نیشنل لاٍٍء یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر ،پروفیسر(ڈاکٹر) پارومیتا چتوراج، سمویدنا کے ڈائرکٹر (آئی پی ایس) ڈاکٹر ویریندر مشرا،رتی فاؤنڈیشن کی ڈائرکٹر محترمہ اوما سبرامنیم،رتی فاؤنڈیشن کے شریک بانی جناب سدھارتھ پلئی، حقوق اطفال کی وکیل ایڈوکیٹ سنیہا سنگھ، گڑیا کے بانی اور ڈائرکٹر جناب اجیت سنگھ،دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر جیوتی ڈوگرا، کٹ کتھا کی نمائندہ محترمہ پریا کرشنن، گورن بوس گرام بکشا کیندرا (جی جی بی کے) کی پروگرام مینیجر محترمہ سبھاشری رپتن،دربار مہیلا سمانویہ کمیٹی کی سکریٹری محترمہ بشاکھا لسکرنے شرکت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ک ح ۔ر ض
U-1091
(Release ID: 2063764)
Visitor Counter : 35