خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
بچوں حقوق کے تحفظ کے لیے قومی کمیشن نے آر ٹی ای ایکٹ، 2009 کی دفعہ 32 کے تحت ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تیار کردہ شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر ایک روزہ قومی سطح کے جائزہ اور مشاورت کا اہتمام کیا
Posted On:
05 AUG 2024 8:33PM by PIB Delhi
بچوں کےحقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے 5 اگست 2024 کو وگیان بھون کے ہال نمبر 5 میں آر ٹی ای ایکٹ، 2009 کی دفعہ 32 کے تحت ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تیار کردہ شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر ایک روزہ قومی سطح کے جائزہ اور مشاورت کا نئی دلی میں اہتمام کیا۔
پروگرام کا بنیادی مقصد مختلف ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں شکایات کے ازالے کے عمل کا جائزہ لینا اور ان طریقوں پر غور کرنا تھا جن کے ذریعے میکانزم کو زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا جائزہ اور مشاورت ہے جو قومی سطح پر کمیشن کے ذریعے منعقد کیا جا رہا ہے۔
کمیشن نے ریاستی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (ایس سی پی سی آر ز)، ریاستی تعلیم کے محکموں اور 32 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی نمائندگی کرنے والے ضلعی تعلیمی افسران کے نمائندوں کو مدعو کیا۔
اس مشاورت کا آغاز جناب پریانک کانونگو، چیئرپرسن، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے افتتاحی خطاب کے ساتھ کیا گیا جس میں بچوں کے تعلیم کے حق کی کسی بھی خلاف ورزی سے نمٹنے کے لیے تمام ریاستوں میں ایک مضبوط میکانزم کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ انہوں نے 'چلڈرن چارٹر' رکھنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ شکایات کا بروقت ازالہ کیا جا سکے، اور بچے قانون کے مطابق اپنے حقوق سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ ایک مقررہ وقت ہونا چاہیے جس میں شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ شکایت کے حل کے لیے جو وقت لیا جائے اس کی تشریح شکایت کی نوعیت کے مطابق کی جانی چاہیے۔ اتھارٹی کی سطح بھی طے کی جانی چاہیے کہ شکایت کی نوعیت کی بنیاد پر شکایت کے ازالے کے لیے کہاں بھیجی جائے۔ اسکولوں کو آر ٹی ای ایکٹ، 2009 کے پروویژن کے تحت ہر ریاست/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مطلع کردہ مقامی اتھارٹی اور اپیل اتھارٹی سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے 73ویں ترمیمی ایکٹ اور آئین کے 11ویں اور 12ویں شیڈول اور آر ٹی ای ایکٹ کے سیکشن 6 اور 9 پر زور دیا جو بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری پنچایت اور مقامی اتھارٹی پر عائد کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسکول ڈویلپمنٹ پلان بچوں کی ضروریات اور شکایات کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حق تعلیم ایکٹ 2009 کے آغاز کو 14 سال ہو چکے ہیں۔ شکایات اور اپیلوں کا ازالہ بچوں کے حقوق کو یقینی بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز اکثر ان عملی مسائل کے بارے میں نہیں جانتے جن کا بچوں کو روزمرہ کی سرگرمیوں میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی ایسی شکایات ہیں جن پر توجہ نہیں دی جاتی اور ان کے حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ حاصل ہونے والے تجربات کو ان لوگوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جو اس وقت مسائل کا شکار ہیں۔
انہوں نے تمام ریاستی عہدیداروں سے مزید درخواست کی کہ گرمیوں کی تعطیلات/سردیوں کی تعطیلات کے بعد اسکولوں کو دوبارہ کھولنے سے پہلے این سی پی سی آر کے ذریعہ تیار کردہ اسکول سیفٹی مینول کی بنیاد پر اسکولوں کا آڈٹ کریں، جس کی رپورٹ ایس پی سی پی آر کو بھیجی جانی چاہیے۔ اس عمل کو مزید موثر بنانے کے لیے اساتذہ کو اس میں شامل ہونا چاہیے۔ بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن بچوں کو اس میں حصہ لینے کا حق دیتا ہے اسی لیے سال میں کم از کم ایک بار بچوں سے مشورہ کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے اسکولوں میں کیا چاہتے ہیں۔پروگرام کو ایک مثبت نوٹ پر ختم کرنے کے لیے، انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کسی اور کی زندگی میں تبدیلی لانے کا موقع کتنا نایاب ہے۔ چونکہ بچے خود یہ کام نہیں کر سکتے، اس لیے ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس میں قدم رکھنے اور اس تبدیلی کو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے بعد، ریاستی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال اور ریاستی تعلیم کے محکموں نے آر ٹی ای ایکٹ، 2009 کے تحت 32 کے مطابق اپنی متعلقہ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جس طریقہ کار پر عمل کیا جا رہا ہے، پیش کیا۔
جائزہ کے بعد ایک کھلی ہاؤس بحث ہوئی، جہاں متعلقہ ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ضلعی سطح کے تعلیمی افسران سمیت تمام شرکاء کے خیالات اور تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پروگرام کے اختتام پر، محترمہ روپالی بنرجی سنگھ، ممبر سکریٹری، این سی پی سی آر نے تمام شرکاء کا ان کی فعال شرکت کے لیے شکریہ ادا کیا اور مستقبل میں بھی ان کے تعاون کی اپیل کی۔
************
ش ح۔ا م ۔ ر ش۔
(U: 9369)
(Release ID: 2041911)
Visitor Counter : 38