نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

قانون اورروحانیت : رشتوں کو دوبارہ جوڑنے کے عنوان سے کتاب کے اجراء کے موقع پرنائب صدرجمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 12 APR 2024 6:43PM by PIB Delhi

ٓپ سبھی کو شام کا سلام ،

میرے لئے  یہ ایک پرمسرت لمحہ ہے کہ میں یہاں موجود ممتازشخصیتوں کے ساتھ ڈائس پرموجود ہوں ۔میں پروفیسر رمن متل اورڈاکٹرسیماسنگھ کی تصنیف کردہ کتاب ‘‘قانون اورروحانیت :رشتوں کو ازسرنوجوڑناکے موضوع پرکتاب کے اجراء کاحصہ ہوں ۔

یہ موضوع کافی مشکل ہے اور کافی پیچیدہ بھی ہے ۔ تاہم یہ موضوع کافی تجریدی ہے ۔میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں نے کچھ آرٹیکل کاجامع طورپرمطالعہ کیا۔

میں  استثنیٰ کے بغیردیکھ سکتاہوں کہ ہرتعاون کرنے والا تعریف کا مستحق ہے ، جس نے آرٹیکل میں پورے صدق دلی اورجذبے کے ساتھ اپنا تعاون دیا  اوراس لئے یہ خوشی کا لمحہ ہے اوراس اہم موقع پرآپ سب کے ساتھ خوشی اور مروت میں میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ یہ کتاب جس کا عنوان ہے قانون اورروحانیت :رشتوں کو ازسرنوجوڑنا، سب کے لئے ہے ۔

بھارت ،جو دنیا کاایک روحانی مرکز ہے انسانیت کا 6/1یہاں آباد ہے ۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔ہرجذبہ سے یہ ہماری پانچ ہزارسال پرانی تہذیبی قدروں کو ظاہرکرتاہے اوریہ انتہائی بامعنی انداز میں پوری دنیا میں پھیلائی گئی تھیں ۔ اس ہمعصرکے دورمیں ہماری جی 20کی صدارت کے ذریعہ دنیا کو اس عظیم ملک کی روحانیت کو نمایاں کرنے کا موقع فراہم ہوا۔جب تقریبا60مقامات پر جی 20کی تقریبات اس ملک کی ہرریاست اورمرکز کے زیرانتظام علاقوں میں منعقد ہوئی تھیں اور جی 20 کی اصل تقریب بھارت منڈاپم یشوبھومیں بھی پی 20کی تقریب منعقد ہوئی تھی ۔

یہ ہمارے لئے وقت ہے کہ ہم اس بات کو نمایاں کریں کہ ہم کس طرح اپنی  صدیوں پرانی وراثت کو برقراررکھیں ۔ یہ وراثت بہت سے طریقہ کار کے ذریعہ سخت محنت کے بعد حاصل کی گئی ہے ۔ میں پارلیمنٹ  کے قابل احترام ارکان کا پتہ لگانے کے لئے خوش قسمت تھا جب کہ آپ میں سے کچھ لوگوں نے کس طرح عملی طورپرہمارے ویدوں  ، ہمارے اپنیشدوں ، ہمارے پرانس کو دیکھاہے ۔ہم آئے دن ان کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن کیاآپ نے اس کی گہرائی میں جاکر اصلیت کو حاصل کیاہے ۔ اس لئے میں قابل احترام وزراء کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ ہرپارلیمنٹیرین کو ویدوں کی دستیابی کرائیں ۔

 مجھ پربھروسہ کریں کہ انسانوں کی وجہ سے انسانیت کے لئے آپ  کے بستروں پررکھے ہوئے ویدآپ کو کافی جانکاری فراہم کریں گے ۔ جو ویدوں  کا مطالعہ کرے گا وہ اپنی روح کے اندرسے بات کرے گا، نہ کہ اپنے چھوٹے دل سے ۔ جب کو ئی ذہن سے نکل کربات کرتاہے تو معقول پسندی اس پر غالب آجاتی ہے ۔ جب کو ئی دل سے بات کرتاہے تو جذباتی پہلوبھی اس پرغالب آجاتے ہیں لیکن جب ایک روح کی بات ہوتی ہے توجیزیں بہت مختلف ہوجاتی ہیں ۔

دوستو،بھارت  نے، اپنی پانچ ہزارسال پرانی تہذیب کو دھرم کے پیغام کولگاتار پھیلایاہے  اوراپنے دائمی صحیفے ، فلسفیانہ مقالوں اورثقافتی طورطریقوں کے ذریعہ دنیا میں روحانیت کو بھی پھیلایاہے ۔

قانون وسیع طورپرایک نظام کے بارے میں وضاحت کرتاہے جو کہ اس بات کی تشریح کرتاہے کہ لوگ کیاکرسکتے ہیں اورکیانہیں ۔قانون کے ضابطے پرعمل پیرارہنا جمہوریت کے لئے آب حیات ہے ۔ ایسی بہت سی حکومتیں آئیں جہاں قانون کی حکمرانی پرعمل درآمداوراس پرقائم رہنے سے کوسوں دور  رہاگیااوراس موثرڈھنگ سے  اورفعال طورپرعمل نہیں کیاگیا۔ جب کہ جمہوریت میں قانون کی حکمرانی سب سے اہم چیز ہے ۔  لیکن جمہوریت کی روح ، جمہوریت کے لئے آب حیات قانون کی حکمرانی میں پنہاں ہے اوریہ قانون کے سامنے برابری کے تصور کے ساتھ گہرائی سے جڑاہواہے ۔ اگر قانون کے سامنے مساوات نہیں ہیں تو جمہوریت کے قطعی کوئی معنی نہیں ہیں۔

 

میں نے گزشتہ چند سالوں میں ایک نمایاں اورتغیراتی تبدیلی دیکھی ہے، جس نے قانون کے سامنے مساوات کے تصور کو مضبوط کیا ہے، اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ سب قانون کے تابع ہیں، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، اور کوئی بھی قانون سے استثنیٰ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

ایک وقت تھا جب کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ قانون کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں قانون کی خلاف ورزی میں ملوث ہونے کے بعد کوئی فائدہ اٹھا کر فرار ہو جائے تو وہ واحد فائدہ اٹھانے والے ہیں مگراس سے  پورا معاشرہ نقصان اٹھاتا ہے۔ جمہوریت میں، ہم دل کی دھڑکن  کی وہ تیزی محسوس کرتے ہیں جو واضح طور پر سوال کرتا ہے کہ ‘‘کوئی مجھ سے زیادہ حقدار کیسے ہے؟’’ یہی قانون کے سامنے برابری ہے۔ وہ تبدیلی ہم نے دیکھی ہے۔

قانون کے سامنے مساوات کا ایک براہ راست نتیجہ یہ ہے کہ عدم مساوات  کو قابو میں کرلیاگیا ہے۔ اگر سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے تو کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ شکایات اس وقت جنم لیتی ہیں جب ہم جانبداری میں مشغول ہوتے ہیں، جب ہم کسی ایسے طریقہ کار پر یقین رکھتے ہیں جو صلاحیت کے خلاف ہو۔ اس طرح کا طریقہ کار جمہوری حقوق، انسانیت کے پھلنے پھولنے، اور میں کہوں گا، جمہوریت کی بقا کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

دوستو، یہ بات خوش آئند ہے کہ مراعات یافتہ نسل کو جبری طور پر قانون کی حکمرانی کے سامنے جوابدہ بنایا گیا ہے۔ ہم اسے دیکھ رہے ہیں، اور جب لوگوں کے ساتھ بہت مختلف سلوک کیا جاتا ہے، جب ان کی پرورش یا دوسری صورت میں یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ انہیں قانون سے کسی قسم کا استثنیٰ حاصل ہے تو اس کے خلاف مزاحمت ضرور ہوگی۔ اور جب وہ قانون کی حکمرانی کو اپنے قریب آتے ہوئے پاتے ہیں، ایک عام عمل میں انہیں جوابدہ بناتے ہیں، تو ہم سب کو بنیادی طور پر یاد رکھنا چاہیے کہ جب قانون اپنا راستہ اختیار کرتا ہے، تو یہ معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہم قانونی علاج کا سہارا لیں۔  بدقسمتی سے جب قانونی عمل حرکت میں آتا ہے تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ سڑکوں پر کیوں نکلیں کیونکہ جمہوریت کا بنیادی اصول قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔ کیا یہ منصفانہ انتظامیہ ہے؟ اور منصفانہ انتظامیہ ایک مضبوط عدالتی نظام سے پھوٹتی ہے۔ ہم اپنی عدلیہ پر فخر کر سکتے ہیں کہ یہ شہریوں پر مبنی مسائل پر کتنی جلدی جواب دیتی ہے۔ کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس قسم کا مضبوط عدالتی طریقہ کار ہے جیسا کہ ہمارے پاس اس ملک میں ہے —  جوتیز اورمحرک کے علاوہ انصاف پرمبنی ہے۔

پچھلے چند سالوں میں آنے والی اس بڑی تبدیلی نے ہماری جمہوریت کو مزید متحرک کر دیا ہے۔ یہ ترقی پر مبنی بن گیا ہے اور عالمی نظام  کی طرف سے تسلیم کیا گیا ہے۔ اس نے قوم میں ایک پرجوش موڈ پیدا کیا ہے، اور ہمارے متاثر کن نوجوانوں کے  ذہنوں میں ہے، وہ اب ایک ایسے ماحول میں امید اور امکان سے بھرے ہوئے ہیں جو جائز اورقانونی ہے۔

روحانیت کا ایک اور پہلو ہے جو بہت تجریدی معلوم ہوتا ہے۔ اگر آپ سطح کو کھرچتے ہیں، تو آپ روحانیت سے جوڑ نہیں پائیں گے۔ مجھے ایک عالمی روحانی کانفرنس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔

روحانیت دوسروں کے لیے اعلیٰ فکر اور سب کی فلاح و بہبود کی عکاسی کرتی ہے۔ روحانیت ہمیں یہ دریافت کرنے میں رہنمائی کرتی ہے کہ ہماری زندگیاں عام وجود، ذاتی خدشات اور خود غرضی سے بالاتر ہیں۔ ہم میں سے اکثر ان برائیوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہم بہت دیر سے سیکھتے ہیں، قیمتی وقت گزارنے کے بعد کہ ہمیں دوسرے موڈ میں رہنے کی ضرورت ہے۔ روحانیت ہمارے اندر سب کے لیے خوشی، سب کی ترقی، سب کی فکر کرے گی۔

دوستو، اس طرح قانون اور روحانیت کا امتزاج ایک ایسا تصور ہے جو ہمیں یوٹوپیائی طرز حکمرانی، عالمی امن اور ہم آہنگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ان دونوں کے امتزاج سے ایک قانونی حکومت اور حکمرانی سامنے آئے گی جو انسانیت کے لیے غیر جارحانہ اور صحت بخش ہوگی۔

پروفیسر رمن متل اور پروفیسر سیما سنگھ کی اس کتاب ‘‘قانون اور روحانیت:رشتوں کو دوبارہ جوڑنا’’ کو منظر عام پر لانے کی کوشش یقیناً قابل تعریف ہے۔

تعاون کرنے والوں کو انسانی سرگرمیوں کے مختلف پہلوؤں سے تیار کیا گیا ہے- حکمرانی اور آئین پرستی سے؛ قانون اور انصاف سے؛ روحانیت اور اخلاقیات سے؛ اور اسی طرح۔

کتاب ‘‘قانون اور روحانیت’’ کے موضوع کے حوالے سے اہم پہلوؤں سے گزرتی ہے جس میں انصاف، قانونی اقدار، حقوق نسواں اور جرائم کے دائرے کا احاطہ کیا گیا ہے۔

کچھ مضامین کے کچھ حصے پڑھنے کے بعد، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ ایک خزانہ ہے۔ آپ کو مصنف کی فہم و فراست اور ماہرانہ معلومات سے آگاہ کیا جائے گا جسے کم سے کم الفاظ میں اچھی طرح سے تیار کیا گیا ہے۔

یہ کتاب ہر ایک کے بستر پر رہنے کی مستحق ہے کیونکہ اس سے گزرنا ایک افزودہ تجربہ ہوگا اور فرد کی روشن خیالی کا باعث بنے گا، قارئین کو انسانیت کی خدمت میں مصروف رہنے کی ترغیب دے گا۔

میں ایڈیٹرز، تعاون کرنے والوں کو اس بہترین کاوش اور انسانی سرگرمیوں کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے علم اور ہنر کو یکجا کرنے کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

دوستو، میں اور بھی  کچھ کہہ سکتا تھا لیکن کچھ مضامین اور  مضامین کے کچھ حصے کو دیکھنے کے بعد، میں آپ سب کو مشورہ دیتا ہوں کہ کتاب کو اپنے بستر کے پاس رکھیں، اسے دیکھنے کی عادت بنائیں۔ ایک بار جب آپ اس سے گزریں گے، مجھ پر بھروسہ کریں پوری کتاب میں 1 وقت یا دوسرے وقت پر بغیر کسی رکاوٹ کے  رہنمائی حاصل ہوگی اور آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔

میں نے جو قیمتی وقت لیا، اس کے لیے میں حاضرین کا مشکور ہوں۔

شکریہ۔

*********

 (ش ح۔ح ا۔ع آ)

U-6552



(Release ID: 2017906) Visitor Counter : 91


Read this release in: Hindi , English