نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

  کیرالہ میں کوولم ترواننت پورم میں کے ٹی ڈی سی سمدرا کے مقام پر منعقدہ راجنکا پرسکار تقریب کے دوران نائب صد جمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 08 MAR 2024 5:48PM by PIB Delhi

یہاں موجود تمام لوگوں کو میری  طرف سے خوش آمدید،

ڈاکٹر آر رامانند، ڈائریکٹر اور معزز سامعین۔ یہ میرے لیے اعزاز اور احترام کی بات ہے کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہماری ثقافت پر اعتماد، ہماری تہذیبی اقدار پر یقین، علماء کی پہچان ہماری تہذیب کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ پہچان ہماری سوسائٹی کی ریڑھ کی ہڈی کی طاقت ہے اور یہ ہمیں مجموعی طور پر بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔

اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مستند طریقے سے علمائے کرام کی پہچان ہونی چاہیے۔

یہ بات انتہائی اطمینان بخش اور باعث مسرت ہے کہ آج ان دونوں نامور علماء کو اعزاز سے نوازا جا رہا ہے۔ یہ واقعی معاشرے کے لیے باعث احترام ہے۔ یہ ہم سب کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ انہیں اس حقیقی عمدہ کام کے لیے اعزاز سے نوازا جا رہا ہے جو انہوں نے شمال اور مشرق کو جوڑنے اور ہماری تہذیبی گہرائی کوازسرنو دریافت کرنے کے لیے کیا ہے۔ میں دونوں علماء کرام کو انسانیت اور خاص طور پر اس موضوع کی کی خدمت کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔

  آپ نے  جوعزت مآب گورنر کو سناہے اس  کے بعد، میں نے سوچا کہ یہ کچھ زیادہ ہی متعلقہ ہے، اس لیے میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا ایک حصہ پڑھوں گا، جو سنسکرت زبان کی مطابقت  اورافادیت پر تقریباً 30 سال پہلے سنایا گیا تھا لیکن یہ کہ وہ فیصلہ ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔  یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہے ۔

‘‘کیمبرج یونیورسٹی کا ایک پروفیسر اپنے پرسکون چیمبر میں اپنی پڑھائی میں بہت مگن ہے۔ ایک مشتعل انگریز سپاہی اسٹڈی روم میں داخل ہوتا ہے اور پروفیسر پر الزام لگاتا ہے کہ وہ جنگ کے صدمے کو شیئر نہیں کر رہا، جس کا سامنا وہ اور اس جیسے بہت سے دوسرے  فوجی ،جرمنوں سے لڑتے ہوئے کر رہے ہیں۔ پروفیسر نے سکون سے نوجوان سپاہی سے پوچھا کہ وہ کس کے لیے لڑ رہا ہے۔ فوری جواب دیتے ہیں کہ ملک کا دفاع کرنا ہے۔ عقلمند یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جس کے دفاع کے لیے وہ اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہے۔ سپاہی جواب دیتا ہے کہ یہ علاقہ اور اس کے لوگ ہیں۔ مزید پوچھ گچھ پر سپاہی کا کہنا ہے کہ یہ صرف یہی نہیں بلکہ یہ ملک کی ثقافت ہے، جس کا کہ وہ دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ پروفیسر خاموشی سے کہتا ہے کہ وہ اس ثقافت میں حصہ ڈال رہا ہے۔ سپاہی پروفیسروں کے سامنے احترام سے جھکتا ہے اور اپنے ملک کے ثقافتی ورثے کا زیادہ بھرپور طریقے سے دفاع کرنے کا عہد کرتا ہے۔’’

  دوستو، سپریم کورٹ کا یہ اقتباس اس احساس کو بیان کرتا ہے کہ ثقافت کیا ہے۔ اگر کسی تہذیب کو پروان چڑھنا ہے تو اس کی ثقافت کو پروان چڑھنا ہوگا۔ قوم اپنی سرحدوں یا بنیادی ڈھانچے سے نہیں بلکہ اس کی ثقافت کی گہرائی سے پہچانی جاتی ہے۔

  اس لیے مجھے یہ جان کر بہت خوشی اور مسرت ہوئی ہے کہ یہ واقعہ اس لمحے اس موقع پر دو عظیم اسکالرز کی غیر معمولی اسکالرشپ کا جشن منا رہا ہے جو ایک خاص کورس کے لیے دیے گئے ہیں۔ میری طرف سے بہت بہت مبا رکباد۔

دوستو، کیا اتفاق ہے! آج تین اہم واقعات رونما ہوئے:

1. مہاشیو راتری کے ایک اہم موقع پر آپ سب کو میری مبارکباد۔

2. خواتین کا عالمی دن اور پس منظر پر نظر ڈالیں۔ صرف چند ماہ قبل 75ویں یوم جمہوریہ کے موقع پرکرتویہ پتھ پر ہم نے کس بات کا مشاہدہ کیاتھا؟ ہم نے اپنی خواتین کی طاقت کا مشاہدہ کیا، خواتین ترقی کی رہنمائی کرتی ہیں اور اس عظیم دن پر، ایک خوش کن خبر آتی ہے، جو کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین بننے سے  زیادہ خوش کن ہے۔ ایک ایسا عہدہ جو میں ملک کا نائب صدر ہونے کی وجہ سے رکھتا ہوں۔

سماجی ترقی کے لیے وقف اور سماج کے کمزور طبقوں کی ترقی کے لیے پرعزم ایک نامور خاتون ڈاکٹر سُدھا مورتی کو ہندوستان کی صدرجمہوریہ نے – جو کہ  خود ایک قبائلی خاتون ہیں ، راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارا ملک بہتر ی کے لیے بدل رہا ہے۔ یہ واقعہ، یہ نامزدگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں۔

3. دوستو مجھے موقع کی عظمت سے یاد ہے - کشمیری شیو روایت آدی شنکراچاریہ- جو کہ بھارت کی روح اور خیال کو ایک عظیم یکجا کرنے والا ہے،کی اس مقدس سرزمین میں منائی جا رہی ہے –

 ‘راجنکا’  ایوارڈز - قدیم خطاب  جو طاقت اور حکمت کے اتحاد کی علامت ہے - کشمیر شیو مت کے علما کو اعزاز بخشتا ہے اور ہندوستان کے پائیدار فکری اور روحانی اتحاد کا جشن مناتا ہے۔

وہ اعزاز جو آج ڈاکٹر مارک ڈیزکوسکی اور ڈاکٹر نوجیون رستوگی (پدم شری ایوارڈیافتہ) کو کشمیر شیو مت کے لیے ان کی لگن کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ ان کے لیے اعزاز کی بات نہیں یہ ہم سب کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہم ان کی عزت  افزائی کر رہے ہیں۔

ابھینوگپتا انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز کو مبارک ، دوست کسی ایسے شعبے میں کام کرنا آسان نہیں ہے جس میں آپ کو چیلنجوں کے خلاف کام کرنا  پڑے ، بہت مشکل ہے ۔مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ انسٹی ٹیوٹ نے  قدیمی تعلق کو بحال کرنے میں واقعی مصروف عمل ہے جس کی نشان دہی کشمیر شیو مت کے تریکا درشن کو کیرالہ واپس لا کرآدی شنکراچاریہ کے کشمیر کے سفر میں کی گئی تھی۔

یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، میں اس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سبھی کو اس عظیم حصولیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔

یہ ممتاز ادارہ جدیدترین مطالعہ  اور تحقیق کو فروغ دیتا ہے جو کہ مقامی دانشورانہ روایات اور قدیم علمی نظاموں کے احیاء کے لیے کوشاں ہے، جو کہ ہندوستان کے ازسرنوابھرنے  کے اہم پہلو ہیں۔

دوستو، ثقافت نہ صرف ایک ملک کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے سب سے زیادہ اثر انگیز متحد کرنے والی قوت ہے۔

اگر ہم ثقافت میں سنجیدگی سے تمام چمک دمک میں شامل ہو جائیں، تو ہمیں امن اور ہم آہنگی کی ثقافت ملے گی۔ ثقافت ہمدردی ہے ثقافت رواداری ہے جب کوئی ادارہ اس سمت میں مصروف ہو تو ہم صرف ان پر تبصرہ کر سکتے ہیں، وہ ہماری ضرورت کی مثال دیتے ہیں اور ان کی کامیابی ہماری کامیابی ہے۔

دوستو، ہماری قوم کی 5000 سال قدیم تہذیبی اقدار ہمیشہ سے روحانی یگانگت سے متاثر رہی ہیں، تنوع سے بالاتر ہیں۔

بہت سے لوگ اس سے واقف نہیں ہیں، کیونکہ وہ آئین جو لڑکے اور لڑکیاں لاء کالجوں میں پڑھتے ہیں یا وہ آئین جسے وکلاء عدالتوں میں استعمال کرتے ہیں، اس میں ہندوستانی آئین کا خاص بنیادی حصہ شامل نہیں ہے۔

  اگر آپ دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے دستخط کردہ آئین کو دیکھیں تو آپ کو یہ چھوٹے چھوٹے نمونے ہمارے پانچ ہزار سال قدیم تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتے ہوئے پائیں گے۔ گروکل، وادی سندھ کی تہذیب، رامائن سے، آئین کے حصہ 3 کا منظر - بنیادی حقوق: اس میں رام، لکشمن اور سیتا ایودھیا واپس آ رہے ہیں۔

اگر ہم ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں پر نظرڈالیں تو ہمیں بھگوان کرشنا کوروکشیتر  میں ارجن کو اپنی تقریر اور مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ہمارےلازوال اتحادکی ہمارے آئین کے اکثر گمشدہ پہلوؤں میں سے ایک میں عکاسی ہے۔

کیرالہ میں ہونے والی تقریب، جس کے 13 کالی مندر اب بھی کشمیر شیو مت کی پیروی کرتے ہیں، کشمیر سے کیرالہ تک ہندوستان کی روح کے گہرے انضمام کی مثال  پیش کرتی  ہے۔ یہ کشمیر اور کیرالہ کے درمیان پرانے دانشورانہ تعلقات کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

ہمارے  علم ودانش کےروایتی  نظام کوازسرنو دریافت کرنا اور ان کے خلاف تعصبات کا مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔

ایسے کچھ لوگ ہیں جن کو میں کم فہم  کہوں گا۔ وہ افراتفری کے لئے ہمیشہ تیاررہتے  ہیں۔ وہ سوالات اٹھاتے ہیں اور ان سوالات کی ہمیں نفی کرنی پڑتی ہے۔

ہمارے روایتی علم ودانش  کو اس کے مطالعہ کے بغیر غیر سائنسی، قدیم،فرسودہ اور توہم پرستی کے طور پر مسترد کرنا صرف ایک سست تعصب ہے جس میں علم  اور ثقافت کی سمجھ میں کمی نیز جہالت کی وجہ سے پیدا ہوئی اوراس میں صحیح چیزیں سیکھنے کی خواہش نہیں ہے۔

علمی گفتگو کے بعض حصوں میں ہندوستانی علم ودانش کے  نظام کے خلاف اس طرح کا تعصب، جدید سائنسی مزاج کے تصور کے خلاف ہے۔

دوستو، میں آپ کی توجہ اپنے آئینی نسخوں کی طرف مبذول کرواتا ہوں۔ اگر آپ بنیادی فرائض کی طرف جائیں یا ہم ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں پر جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ  ہماری ثقافت  اورہمارے ورثے  کو محفوظ رکھنے کی ضرورت کو اہمیت دی گئی ہے۔ جب ہم اپنے آئین میں دولت کی منصفانہ تقسیم کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی کہ زمانوں سے ہمارا ثقافتی جوہر رہا ہے۔

درحقیقت یہ ہماری تہذیب کا امرت تھا لیکن میں آپ کے ساتھ اس وقت کی ایک بہت بڑی تشویش کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب لوگوں کو ان  بنیادوں پر ایک شاندار حیثیت دی گئی ہے جو حیران کن ہیں۔ ہم یہ سوال نہیں کرتے کہ انہیں ایسا کیوں کہا جاتا ہے اور یہ مشہور شخصیات لوگوں کی جہالت پر تجارت کرتے ہیں، وہاں جاہلیت کو مائلیج حاصل کرنے کے لیے نظر انداز کرتے ہیں۔

وقت آ گیا ہے جب ہمیں گہرائی سے تجزیہ کرنا چاہیے اور یہ ایک مناسب موقع  بھی ہے۔ 140کروڑافراد میں سے کسی بھی ذی روح کو اس پہچان کے بارے میں دوسری سوچ نہیں ہوگی جو آج ہمیں دی گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ وہ  جوسول ایوارڈز ہیں، پدم ایوارڈز ان کے بعد ان لوگوں کو دیے گئے جو معاشرے میں نہیں پہچانے جاتے، ایک ہی ردعمل ہے، وہ صحیح لوگوں کو دیا گیا ہے۔ جناب رستوگی ایسے ہی ایک شخص ہیں۔

میں آپ سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمیں یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کو میڈیا نے ایونٹ مینجمنٹ کی طرف سے مثالی  درجہ دیا ہے اور جو دن رات ایک ایسے بیانیے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ہماری تہذیب اور ہمارے آئینی اداروں کو زک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ ہماری ترقی کی ناقدری کرتے  ہیں ہمیں انہیں بے اثر کرنا چاہیے۔

یہ انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز بہت اچھا  اورغیرمعمولی کام کر رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ دوسرے ادارے بھی آگے آئیں گے کہ ان کے خدشات کے دائرے میں ہم ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو اس کے اہل ہوں۔ جس لمحے ہم ان لوگوں کی عزت کرتے ہیں جن کو عزت دیئے جانے کی ضرورت ہے  توآپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہم بڑے پیمانے پر معاشرے کی عزت  افزائی کر رہے ہیں۔

کوئی بھی معاشرہ اس وقت  تک ترقی نہیں کر سکتا جب اس میں  بدعنوانی کی بھرمار ہو، ایک معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب اس میں مرعات یافتہ  پیڑھی موجود ہو،کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک  ترقی نہیں کر سکتا جب ہم معاشی طور پرزوال کاشکار ہوں۔ کوئی بھی  معاشرہ اس وقت تک ترقی  نہیں کر سکتا جب نوجوان متاثر کن ذہن امید چھوڑدیں اور آج ملک کے منظر نامے کو دیکھیں۔ ملک میں اس سے زیادہ خوش کن موڈ نہیں ہو سکتا۔

ہمارے نوجوان، روشن ذہن آج کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ آج ہمارے معاشرہ  کی حکمرانی قانون کی حکمرانی،  سب کے لئے برابری کے مواقع، قانون کی مساویت سے ہورہی ہے۔ اگر قانون کے سامنے سب لوگ برابرنہ ہوں اور سب کے لیے یکساں مواقع نہ ہوں تو کوئی جمہوری  اقدار نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ثقافت کی بقا ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے  زیادہ مراعات یافتہ ہیں۔ ان کے پاس اقتدار اور موقع کی مخالفت کا حق ہے، سرکاری نوکری یا ٹھیکہ، پھر آپ کا رواج ہے جہاں مستحق کو محروم رکھا جا رہا ہے۔ وہ ثقافت جو معاشرے کو طویل عرصے تک تباہ کر رہی تھی وہ تیز رفتاری کا معاملہ ہے اور اس لیے ثقافت کے فروغ کے لیے ایک مثالی پلیٹ فارم ہے۔

دوسرا اہم پہلو جو ہماری ثقافت کے فروغ کے لیے بنیادی  حیثیت رکھتاہے ،وہ یہ ہے کہ کیا یہ معاشرہ  بدعنوانی سے پاک ہے؟ آپ سب نے ایک ایسا وقت ضرور دیکھا ہوگا جب چند درمیانی، رابطہ کاروں اوربچولیوں کی مٹھی گرم کئے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ اقتدارکے گلیارے ان کے کنٹرول میں تھے، ہرچیرپرسخت کنٹرول تھا اور اب یہ ماضی کی بات ہے۔

میرے تیسرے  نکتے پرغورکریں، ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، ایساعروج ملک نے کبھی نہیں دیکھا ،اب یہ  نہیں رک سکتا۔ ہمارے عوام کسانوں اور صنعت و تجارت کی سخت محنت ،حکومتی پالیسی، بصیرت افروز قیادت کی محنت کی بدولت جو پہلے ہی تیسری عالمی قوت خرید ہے۔ عالمی معیشت کے لحاظ سے ہم پانچویں نمبر پر ہیں۔ ہم کینیڈا، برطانیہ اور فرانس سے آگے ہیں۔

یہ دوتین برسوں کی  بات ہے کہ  ہم جاپان اور جرمنی سے آگے  دنیا کی تیسری بڑی عالمی معیشت ہوں گے۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ صحیح وقت ہے کہ اس کی ثقافت کو واقعی ترقی دی جائے۔

میرے لیے یہ بالکل حیرت انگیز  اورتسلی بخش تجربہ تھا کہ جی 20  کے موقع پرجب وزیر اعظم نے غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کیا۔ کونارک مندر کے پس منظر میں دیکھیں، پوری دنیا اسے دیکھنے آئی اور جب ریاستوں کے سربراہان گیلری سے گزرتے ہیں، تو انہوں نے ہماری 5000 سال پرانی تہذیب کا مشاہدہ کیا اور اسی نے ہندوستان کو بدل دیا۔

دوستو، میرے مطابق ثقافت سفارت کاری کا ایک بہت اہم پہلو ہے۔ یہ سب سے موثر سفارتی ہتھیار ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے۔ جب آپ کچھ ممالک میں جاتے ہیں، تو رابطہ آپ کے ثقافتی رشتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔

اب اگلے نکتے کی طرف آتے ہیں جس کا میں نے اشارہ کیا ہے۔ ہماری پہچان  کی خود ہم نے دعویداری  نہیں کی ہے۔ ہماری ترقی کے لیے، ہمارے معاشی عروج کے لیے عالمی اداروں کی طرف سے تعریفیں مل رہی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، ورلڈ اکنامک فورم، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  ابھی صحیح وقت ہے، تاکہ ہمیں اپنے ثقافتی اقدار کے ساتھ گہرائی سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ آئیے کچھ وقت یہ دیکھنے کے لیے چھوڑ دیں کہ ہماری ثقافتی اقدار پروان چڑھیں اور پھلتی پھولتی رہیں۔

دنیا بھر میں نظرڈالیں ،ایسے  بہت  کم ملک ہیں جو 500 سال 1000 سال یا 2000 سال کی تہذیب  پرفخرکرسکتے ہوں ،لیکن یہاں ایک ایسا ملک ہے جہاں انسانیت کا چھٹا حصہ  آبادہے جہاں ثقافتی گہرائی 5000 سال سے بھی زیادہ ہے۔

ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا پر پوری دنیا نے خوشی منائی۔ ہم نے دو چیزوں کا مظاہرہ کیا۔ سب سے پہلے، ہم اپنی ثقافتی شناخت پر یقین رکھتے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اسی  وقت میں قانونی حکمرانی  پر بھی اعتمادکرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ 5 صدیوں کے درد کو ختم کرنے والی سب سے زیادہ قابل قبول ترقی رہی ہے۔

جب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کیا ہوا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ  کی ترقی ہویا ریل روڈ کنیکٹیویٹی کو دیکھیں، یہ انقلابی نوعیت کی تبدیلی ہمارے تصور سے باہر ہے اور جب ہم دوسرے پہلوؤں کی طرف آتے ہیں تو ہماری ڈیجیٹل رسائی دنیا کی بہترین میں سے ایک ہے۔ ہمارے  یو پی آئی جیسے پلیٹ فارم  کو دوسری قومیں اپنا رہی ہیں لیکن یہ سب معیشت کے لحاظ سے  بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے ہے لیکن انسانی سکون اورروح کی تسکین، اس وقت ملتی ہے  ،جب آپ ثقافت سے  ہم آہنگ ہوتے  ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہم اپنی ثقافت کے لیے مزید وقت  مختص کریں گے اور میں اس کی گہرائی کو جانتا ہوں۔ ریاست مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے میں نے ایسٹرن زون کلچرل سینٹر کی سربراہی کی اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اس سے بہت لاعلم تھا۔ اس عمل میں مجھے نہ صرف مغربی بنگال بلکہ  آٹھ دیگر ریاستوں سے بھی نمٹنا ہے۔

لہٰذا میں نوجوان ذہین افراد پرزوردیتا ہوں ، میں کارپوریٹ اداروں سے اپیل کرتاہوں ، میں تعلیمی اداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ انہیں لمحہ بہ لمحہ معاملات پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ  ہماری ثقافتی دولت کو کبھی نظر انداز نہیں کرناچاہیئے۔ انہیں اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری ثقافتی دولت کو نہ صرف محفوظ کرنا ہے ،نہ صرف برقرار رہنا ہے بلکہ اسے فروغ دینا اورپروان چڑھانا  بھی ہے۔

دوستو، مجھے آپ سب کے درمیان آکر خوشی اور مسرت ہے ہورہی ہے۔ میں  جناب نند کمار جی کو دو دہائیوں سے زیادہ  عرصے سے جانتا ہوں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ انسان  ہیں۔ میں نے انھیں ہمیشہ توجہ سے سنا ہے۔ آج انھوں نے جو بھی  ایک ایک لفظ بولا ہےوہ بہت  اچھی طرح سے تیار اور گہرائی سے بھرپور تھا۔ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب ایسے باصلاحیت لوگ اس  باوقاراورمعروف  ادارے سے وابستہ ہوں گے تو انسٹی ٹیوٹ کا مقصد احسن طریقے سے حاصل ہوگا۔

آپ سب کے لیے میری نیک خواہشات!

ایک بار پھر مہاشیو راتری کے موقع پر سب کو اور خاص طور پر خواتین کو مبارکباد!

خواتین کا عالمی دن، ہندوستان خواتین کی قیادت میں بااختیار بنانے کا مخزن ہے۔

آپ تصور نہیں کر سکتے کہ ستمبر 2023 میں جب لوک سبھا اور ریاستی  لیجسلیچرس میں خواتین کو ایک تہائی ریزرویشن دیا گیا تو یہ کتنابڑا سنگ میل حاصل کیاگیاتھا۔ توآپ  تیار رہیں۔ میں اس  ثقافت کو محفوظ ہاتھوں میں رکھوں گا کیونکہ خواتین پالیسی سازی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گی۔

بہت بہت شکریہ!

اپنا قیمتی  وقت دینے کے لئے   میں آپ کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں!

*********

 (ش ح۔ ع م ۔ع آ)

U-6089



(Release ID: 2014812) Visitor Counter : 49


Read this release in: English , Hindi , Malayalam