خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
جےاے ایم اے نیٹ ورک پر12 فروری 2024 کو ہندوستان میں نام نہاد صفرخوراک بچے’ کے موضوع پر شائع ہونے والا مضمون فرضی خبروں کو سنسنی خیز بنانے کی جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کوشش ہے
‘‘صفر خوراک والے بچوں’’ کی کوئی سائنسی توضیح نہیں ہے اوراس کا طریقہ کار مبہم ہے
جے اے ایم اے کا مضمون نوزائیدہ بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے
مطالعہ میں ملک بھر کے 13.9 لاکھ آنگن واڑی مراکز کے ذریعے پوشن ٹریکرکے بارے میں ر ماپا جانے والے 8 کروڑ سے زیادہ بچوں کے عوامی طور پر دستیاب ڈیٹا کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے
عالمی بینک کی طرف سے کئے گئے ایک تحقیقی مطالعہ نے عام طور پر جسم کی نشوونماء رُک جانے ، ضائع ہونے اور کم وزن کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں پوشن 2.0 کی اثرانگیزی کو سراہا ہے
پی ایم ایم وی وائی اسکیم کے تحت حاملہ خواتین کو پہلے بچے کے لیے 5,000 روپے اور دوسرے بچے(لڑکی) کے لیے 6,000 روپے فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ مناسب صحت کے متلاشی رویے اور بچے کے حفاظتی ٹیکے کی حوصلہ افزائی کی جاسکے
Posted On:
12 MAR 2024 8:45PM by PIB Delhi
خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت نے کہا ہے کہ 12 فروری 2024 کو جے اے ایم اے نیٹ ورک پر ہندوستان میں نام نہادصفرخوراک بچوں کے بارے میں شائع ہونے والا مضمون فرضی خبروں کو سنسنی خیز بنانے میں کی دلچسپی رکھنے والی لابیوں کی جانب سے جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی ایک کوشش ہے۔ مضمون کی تردید کرتے ہوئے ، وزارت نے کہا ہے کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ جناب ایس وی سبرامنیم اور اس مطالعہ کے شریک مصنفین کی طرف سے مطالعہ میں ہندوستان میں بچوں کی غذائیت کی حیثیت کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی تھی ۔
مصنفین نے خود اعداد و شمار پر گہری بدگمانیوں کا اعتراف کیا ہے اور کم از کم ایسی 9 حدود کا حوالہ دیا ہے جو ان کے مطالعہ کو بالکل ناقابل اعتبار بناتی ہیں۔ صفر خوراک والے بچوں’’ کی کوئی سائنسی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ جس طریقہ کار کی پیروی کی گئی ہے وہ مبہم اورغیرواضح ہے اور اس نے ان لوگوں کے ذریعہ، جن سے رابطہ قائم کیاگیاتھا،ان کی ایک دن کی یادداشتوں کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بھارت میں کسی بھی ریاستی حکومت یا کسی نجی ادارے نے بھوک سے مرنے والے بچوں کے بارے میں کبھی کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔
جے اے ایم اے مضمون میں چھ ماہ سے زیادہ عمر کے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیاگیا ہے اور اس کے بجائے صرف جانوروں کے دودھ/فارمولے، ٹھوس یا نیم ٹھوس خوراک وغیرہ کے ساتھ دودھ پلانے پر غور کیا گیا ہے۔ یہ بات باعث حیرت ہے کہ مضمون میں چھ سے تئیس ماہ کی عمر کے بچوں کے لیے خوراک کی تعریف سے ماں کے دودھ کو خارج کیاگیا ہے۔ نام نہاد 19.3فیصد صفرخوراک والے بچوں میں سے جن کا مطالعہ نے حوالہ دیا ہے، 17.8فیصد بچوں کو ماں کا دودھ ملا تھا اور صرف 1.5 فیصد بچوں کو ماں کادودھ نہ ملنے کا دعوی کیا گیا ہے۔
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اس مطالعہ میں 8 کروڑ سے زیادہ بچوں کے عوامی طور پر دستیاب اعداد و شمار کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے جنھیں پورے ملک میں 13.9 لاکھ آنگن واڑی مراکز (اے ڈبلیوسیز) کے ذریعے پوشن ٹریکر پر ماہ درماہ غذائیت کے اشارے پر ماپا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نہ ہی مصنفین کی طرف سے سرکاری حکام سے وضاحت طلب کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ یہ مضمون بدنیتی پرمبنی ہے جسے سیاسی طور پر اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کیاگیا ہے۔
حکومت کا معاون اوراضافی تغذیہ بخش خوراک پروگرام 6 سال سے کم عمر کے بچوں کو روزانہ 500 کے سی اے ایل خوراک فراہم کرتا ہے جس کے تحت صرف کیلوریز پر نہیں بلکہ متوازن غذا پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اضافی غذائیت میں مائیکرو نیوٹرینٹ، مقوی بنائے گئے چاول اور موٹے اناج شامل ہیں۔ یہ پروگرام عام طور پرسب کے لئے دستیاب ہے اور کسی بھی دودھ پلانے والی ماں اور 6 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے فراہم کیاگیا ہے۔ عالمی بنک کی طرف سے کئے گئے ایک تحقیقی مطالعے میں عام طور پرجسمانی نشونما رک جانے، ضائع ہونے اور کم وزن کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں پوشن 2.0 کی اثرانگیزی کو سراہا گیا ہے۔
ہندوستان میں 6 ماہ سے 6 سال کی عمر کے تقریباً 13.7 کروڑ بچوں میں سے 8.9 کروڑ آنگن واڑی مراکز میں رجسٹرڈ ہیں اور ان میں سے 95 فیصد آدھار پوشن ٹریکر پر تصدیق شدہ ہیں۔ پوشن ٹریکر کے اعداد و شمار کے مطابق، صرف 6.26 فیصد ضائع شدہ پایا جاتا ہے اور صرف 1.9 فیصد شدید غذائیت کی کمی کے شکار ہیں۔
اس کے علاوہ پی ایم ایم وی وائی اسکیم کے تحت حاملہ خواتین کو پہلے بچے کے لیے 5,000 روپے اور دوسرے بچے (لڑکی)کے لئے6000روپے فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ مناسب صحت کے متلاشی رویے اور بچے کی حفاظتی ٹیکہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ 3 کروڑ80 لاکھ خواتین کو تقریبا 14,756 کروڑ روپے کے بقدر براہ راست فائدہ منتقل کیا گیا ہے۔
*********
(ش ح۔ع م۔ع آ)
U-6037
(Release ID: 2014100)
Visitor Counter : 97