نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
بھارت اسٹارٹ اپ اور ایم ایس ایم ایز سربراہی اجلاس میں نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
16 FEB 2024 1:55PM by PIB Delhi
بھارت، جو انسانیت کے 1/6 ویں حصے کا گھر ہے، جمہوریت کی ماں ہے، سب سے قدیم جمہوریت، متحرک جمہوریت، فعال جمہوریت ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ جمہوری عمل سے محترمہ دروپدی مرمو ملک کی پہلی شہری(صدر جمہوریہ) ہیں۔
ہماری معیشت مثبت تبدیلی کی جانب گامزن ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ ایک زبردست تبدیلی ہے، ایک اہم تبدیلی ہے، ایک اچھا احساس دلانے والا عنصر ہے۔ ایم ایس ایم ای اور اسٹارٹ اپس نے بڑے پیمانے پر تعاون کیا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ہم پہلے ہی 5ویں سب سے بڑی عالمی معیشت ہیں اور اگلے 2-3 سالوں میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کے راستے پر ہیں۔
حالیہ برسوں میں، ہندوستان ایک فروغ پزیر اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم اور کامیابی کی متعدد کہانیوں کے ساتھ اختراع اور انٹرپرینیورشپ کے لیے ایک عالمی مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ تجارتی اور صنعتی اداروں کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ کاروباری ثقافت سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں جو متحرک ایم ایس ایم ایز سیکٹر کے ذریعے ملک کے اندرونی علاقوں میں جڑ پکڑ رہی ہے۔
یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کی کارکردگی کی بات کی جائے تو اس کی درجہ بندی کم ہوتی ہے۔ اس کی کارکردگی شہری علاقوں میں اس کے تصور سے زیادہ ہے۔ یہ انتہائی اثر انگیز ہے؛ یہ ٹائر 2 اور 3 شہروں اور دیہاتوں میں انقلابی تبدیلی پیدا کر رہا ہے۔ ان کاروباریوں کی دستگیری اعتمادسازی کا اقدام ہونے کے علاوہ کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد کرے گی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ یہ پہلے سے ہی آپ کے ایک سیشن میں ہے، اور اس پر غور و خوض بہت نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔
ایم ایس ایم ایز ہندوستان کی جی ڈی پی کا تقریباً 30فیصد ، مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ کا 45فیصد ہیں، اور 11 کروڑ سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو بہترین ذہنوں کو پیدا کرتا ہے جو معیشت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ کاروباری پالیسیوں اور اقدامات میں آسانی کے ساتھ مثبت طرز حکمرانی نے کاروباری اور اختراع کے جذبے کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں ایک نیا معمول، ایک زبردست معمول جو اس عظیم قوم کے منظر نامے کو بدل رہا ہے۔
اسٹارٹ اپ انڈیا اور اسٹینڈ اپ انڈیا جیسی اسکیمیں گیم چینجرر ہی ہیں، جو اسٹارٹ اپ کو فنڈنگ، رہنمائی اور نیٹ ورکنگ کے مواقع تک رسائی فراہم کرتی ہیں۔ یہ الفاظ نہیں ہیں۔ یہ زمینی حقیقت ہیں۔ آپ کو مالی وسائل اور رہنمائی تک بہت زیادہ طریقوں سے رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں اسٹارٹ اپ منظر نامے میں ایک قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔
2014 میں صرف 350 سے زیادہ اسٹارٹ اپس سے، اب ہمارے پاس 1.30 لاکھ سے زیادہ اسٹارٹ اپ ہیں، جس میں یونی کورن کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ آپ ذرا تصور کریں۔ ذرا غور کریں، انتہائی دشوار گزار علاقے میں سفر کرنے کے بعد، ہم نے ان غیر معمولی نتائج حاصل کیے ہیں۔ یہ ترقی ہمارے ملک کے کاروباری جذبے اور اختراعی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تسلیم شدہ اسٹارٹ اپس نے تقریباً 13 لاکھ براہ راست ملازمتیں پیدا کرنے، ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کو فروغ دینے اور مجموعی اقتصادی ترقی میں اہم تعاون پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ صرف روزگار پیدا کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ لوگوں کو بااختیار بنانے اور زندگیوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہے۔
آج، ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ اختراعی اسٹارٹ اپس میں سے کچھ کا گھر ہے، جو روایتی صنعتوں میں تبدیلی پیدا کر رہا ہے اور عمدگی کے نئے معیارات قائم کر رہا ہے۔ فنٹیک سے لے کر ہیلتھ ٹیک تک، ایگریٹیک سے صاف توانائی تک، ہمارے اسٹارٹ اپ نہ صرف دولت پیدا کررہے ہیں بلکہ روزگار بھی پیدا کررہے ہیں اور سماجی و اقتصادی ترقی کو آگے بڑھا رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری قوم اور دنیا کو درپیش چند انتہائی اہم چیلنجوں سے نمٹ رہے ہیں۔
ایک اہرامی عروج ہماری جمہوری قوم کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہمیں ایک سطح مرتفع قسم کا عروج چاہیے تاکہ معاشرے کا ہر طبقہ بلند ہو۔ ہمیں یقینی طور پر عمودی کی ضرورت ہے لیکن افقی اہم ہیں۔ اسٹارٹ اپس اور ایم ایس ایم ای اس میں بہت اچھا کردار ادا کرتے ہیں۔
صنفی مساوات میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ پارلیمنٹ نے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں، ہم نے تاریخی قانون سازی کی جس میں لوک سبھا اور ریاستی قانون سازوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی ریزرویشن فراہم کیا گیا ہے۔ یہ کوئی سیاسی ریزرویشن نہیں ہے، یہ سیاسی ریزرویشن سے پرے ہے۔ یہ ریزرویشن اس صنف کی پالیسی سازی میں ان پٹ فراہم کرے گا جو انسانیت کا نصف ہے۔ وہ پالیسیاں بنائیں گی۔ ایک لمحے کے لیے تصور کریں اگر یہاں 50فیصد خواتین ہوں تو ماحولیاتی نظام کیا ہوگا، یہ مختلف اور زیادہ مثبت ہوگا۔
خواتین کاروباریوں کو مزید بااختیار بنانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے اسٹارٹ انڈیا کے ایک حصے کے طور پر ویمن انٹرپرینیورشپ پلیٹ فارم (ڈبلیو ای اپی) کا آغاز کیا۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہمیں خواتین کو بااختیار بنانا ہے اور خواتین کو بنیادی طور پر بااختیار بنانے کے لیے انہیں کسی اور سے پیسے لینے سے مالی طور پر خود مختار ہونا ہوگا۔ ان میں مردوں سے زیادہ کمانے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ خاندانوں کی تعمیر میں بھی مصروف رہتی ہیں، وہ گھریلو ماحولیاتی نظام میں بھی اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور جہاں تک ترقی کا تعلق ہے تو انہیں جب موقع ملے گا تو چیزیں یکسر بدل جائیں گی۔
اقتصادی قوم پرستی ہماری اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی طور پر لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ میرے الفاظ پر دھیان دیں، قوم پرستی اہم ہے، سب سے اہم چیز ہمیں اسے سبسکرائب کرنا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم معاشی قوم پرستی کو بھی قبول کریں۔ ہمیں ووکل فار لوکل ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ اتم نربھر بھارت کا ایک پہلو ہے۔ یہ ہماری آزادی کی جدوجہد کے سودیشی تحریک کے جوہر کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں صرف وہی درآمد کرنے کی ضرورت ہے جو ناگزیر طور پر ضروری ہے۔
ہمیں معاشی قوم پرستی کی رکنیت نہ لینے کے برے اثرات سے محفوظ رہنے کی ضرورت ہے۔ زرمبادلہ کے قابل گریز نکاسی کے علاوہ یہ نکاسی فلکیاتی ہے، ایک برا اثر یہ ہے کہ زرمبادلہ کی نکاسی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے ہمارے روزگار کے مواقع میں کمی آتی ہے۔ ان اہم اشیاء کا تصور کریں جنہیں یہاں بنایا جا سکتا ہے۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنے ملک میں ہاتھوں کو کام سے محروم کر رہے ہیں اور باہر کے ہاتھوں کو کام دے رہے ہیں۔ تیسرا، یہ انٹرپرینیورشپ کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ ہمیں معاشی قوم پرستی کے گہرے اثرات کے بارے میں بہت زیادہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور پہلو جس پر تجارت اور صنعت کی توجہ کی ضرورت ہے وہ خام مال کی برآمد ہے۔ ہم خام مال اس وقت برآمد کرتے ہیں جب ہمارے ملک میں قدر میں اضافے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اگر ہم خام مال میں قدر بڑھادیں تو کچھ لوگوں کو نوکریاں ملیں گی اور کچھ لوگ کاروباری ہوں گے۔ ہم ان دوہرے فوائد کو قربان کرتے ہیں جو ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی طاقت بن سکتے ہیں اور خام مال برآمد کرتے ہیں کیونکہ خام مال کی برآمد سے پیسہ کمانا آسان ہے۔ وہ پیسہ فرد کے لیے آسان ہے، وہ پیسہ قوم کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ ایسے ممالک ہیں جنہوں نے طریقہ کار وضع کیا ہے، وہ اپنا خام مال برآمد نہیں کریں گے۔ وہ قدر میں اضافہ کریں گے اور ویلیو ایڈ کرنے کے لیے بھی معمولی ویلیو کا اضافہ نہیں کریں گے بلکہ اس میں حقیقی قدر کا اضافہ کریں گے اور پھر آپ ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوں گے۔
دنیا بھر میں، تجارت اور صنعت تحقیق اور ترقی کو ایندھن فراہم کرتی ہیں اور ان کو پائیداری عطا کرتی ہیں۔ میں تحقیق اور ترقی میں آپ کی گہری شمولیت کی اپیل کرتا ہوں۔ میں اس کے بارے میں بہت سنجیدہ ہوں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں جائیں، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں، تحقیق اور ترقی کو صنعتوں کے ذریعے ایندھن، مالی امداد، فروغ دیا جاتا ہے اور برقرار رکھا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کی کمی ہے۔ آئیے اس سمت میں ایک بڑا قدم اٹھائیں، کارپوریٹ قیادت کو بھی اس سمت میں مصروف ہونے دیں۔ میں نے ایک تعلیمی ادارے کے دوسرے پلیٹ فارم سے اشارہ کیا ہے کہ اگرچہ باہر کی یونیورسٹیوں کو بھاری مالی امداد دینا اچھا ہے لیکن اپنی توجہ مقامی یونیورسٹیوں پر بھی مرکوز رکھیں۔ کمپنی یا کارپوریٹ کے لیے یہ خوشی کی بات ہو سکتی ہے کہ انھوں نے ایک غیر ملکی یونیورسٹی کے لیے 50 ملین امریکی ڈالر مختص کیے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ 10 سال پہلے کیا گیا تھا۔ لیکن ہماری یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں پر توجہ مرکوز کرنا بھی ضروری ہے۔
دوستو، کچھ چیزیں ایسی ہوئی ہیں جو نوجوانوں کے ذہنوں کو سکون بخشنے والی ہیں۔ آپ اپنے آپ کو کیا دیکھتے ہیں؟ آپ میرٹ کا احترام چاہتے ہیں، آپ کو بدعنوانی سے نفرت ہے، آپ قانون کے سامنے برابری چاہتے ہیں، آپ کو سرپرستی نہیں چاہیے اور اب ہمارے پاس کیا ہے، اب اس ملک میں بدعنوانی کو نہیں نوازا جاتا ہے۔ بدعنوانی سے نہ آپ کو بھرتی ملتی ہے، نہ نوکری اور نہ ہی کوئی ٹھیکہ۔ بدعنوانی ان دنوں جیل کا سب سے محفوظ راستہ ہے۔
***********
ش ح۔ ا ک ۔ ر ب
(U: 5048)
(Release ID: 2006611)