نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

نائب صدر کی تقریر کا متن - گوہاٹی میں آسام سویلین ایوارڈز کی تقسیم (اقتباسات)

Posted On: 13 FEB 2024 7:24PM by PIB Delhi

شروع میں مجھے یہ بتانا ضروری ہے کہ میں عزت مآب چیف منسٹر اور سابق چیف جسٹس آف انڈیا دونوں کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے  عزت بخشی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کی وجہ سے میں اس دن یہاں حاضری نہیں دے سکا جس دن مجھے یہاں ہونا چاہیے تھا۔

اس اعزاز اور قدرافزائی کے لیے شکر گزار ہوں، میں اس اعزاز اور قدرافزائی کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ میں نے پچھلے ایک گھنٹہ سے جو کچھ دیکھا ہے وہ معاشرتی ترقی کے لئے مکمل عزم کے ساتھ ایک حیرت انگیز تقریب ہے۔ ریاست کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات - آسام بیبھو، آسام سورو اور آسام گورو  تفویض کرنے اور اس کامشاہدہ کرنے کو میں اپنے لئے واقعی اعزاز سمجھتا ہوں ۔

آسام کے اعلیٰ ترین ریاستی سول ایوارڈ سے نوازا جانا محض انفرادی کامیابی کا جشن نہیں ہے۔ یہ آسام، اس کے لوگوں اور ایک عظیم قوم کی ترقی اور ثقافتی تنوع میں ان کی انمول شراکت کا بھی عکاس ہے۔

دوستو، میں نے سوچا کہ ایوارڈز ان لوگوں کو دیے جائیں گے جو مستحق ہوں گے، لیکن میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ تنوع اتنا گہرا، اتنا اثرانگیز اوراتنا جذبات سے بھر پور ہوگا۔ جن لوگوں کو نوازا جاتا ہے وہ وہ ہوتے ہیں جو واقعی اس کے مستحق ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے لایا گیا ہے اوران کی عزت افزائی کی گئی ہے۔ اس کے لئےحکومت کو مبارکباد۔

آسام کو اکثر ‘شمال مشرق کا گیٹ وے’ کہا جاتا ہے، یہ مسحور کن مناظر اور متنوع ثقافتوں کی سرزمین ہے، اوراس کی ایک تاریخ ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ اس کے زرخیز میدان، سرسبز و شاداب پہاڑیاں اوربہتی ندیاں اسے ہماری عظیم قوم کے تاج میں ایک نگینہ بناتی ہیں۔ شمال مشرق کی اشتلکشمیوں کو فطرت اور ثقافت کے اس خوبصورت اور شاندار سنگم سے نوازا گیا ہے۔ مشرق کی طرف دیکھو – مشرقی انداز اختیار کرو، پالیسی اشتلکشمی کے غیرمعمولی انفراسٹرکچر اور کنیکٹیویٹی کی ترقی میں کارگر ثابت ہو رہی ہے۔

ریاست کا ثقافتی پچی کاری کا فن،جس میں مختلف کمیونٹیز کے اثرات  کامشاہدہ کیا جاسکتا ہے، آسام کی انفرادیت میں اضافہ کرتا ہے۔ میں نے اسے یہاں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ فصل کی کٹائی کے تہوار کے دوران گونجنے والے بیہو رقص سے لے کر روایتی آسامی موسیقی کی روح کو گرما  دینے والی دھنوں تک، اس سرزمین کا ہر پہلو ایک کہانی سناتا ہے – لچک، اتحاد اور ہم آہنگی کی کہانی۔ اس قابل ذکر سرزمین - آسام میں - ہمیں کثرت میں وحدت کا جوہر ملتا ہے، ایک ایسا تصور جو ہماری عظیم قوم کا سنگ بنیاد ہے۔

2014 میں اعلان کردہ ‘ایکٹ ایسٹ’ پالیسی بھرپور منافع بخش رہی ہے۔ حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کی وجہ سے، بھارت کا شمال مشرقی خطہ قومی اور تاریخی بیانیہ میں اپنا صحیح مقام حاصل کر رہا ہے۔ شمال مشرق نے حالیہ برسوں میں ہندوستان کی سال بھر طویل جی20 صدارت کے دوران پہلی بار بڑے پیمانے پر بین الاقوامی واقعات کا مشاہدہ کیا۔ اس کا اس خطے کے مستقبل پر زبردست مثبت اثر پڑے گا!

آج کے ایوارڈز، آسام بیبھو، آسام سورو، اور آسام گورو، مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات کے اعتراف کی علامت ہیں۔ دوستو، میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ میدان اتنے متنوع ہوں گے، کہ وصول کنندگان معاشرے کے ہر طبقے میں پھیلے ہوئے پائے جائیں گے۔ متعلقہ افراد نے حیرت انگیز کام کیا۔ ہم نے حالیہ دنوں میں دیکھا ہے کہ پدم ایوارڈز نے انقلابی تبدیلی سے دوچار ہوتے ہوئے ‘‘پیپلز پدم’’  کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہم ان دنوں کو جانتے ہیں جب جزوی سرپرستی محرک ہوا کرتی تھی، تقریب کے بندوبست کو مینجمنٹ پدم ایوارڈز کے حاصل کرنے  کے لئےاستعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن میں یہاں تقسیم اعزازات کی تقریب میں اتنا بڑا، حقیقی، مستند تبدیلی کا طریقہ کار دیکھ رہا ہوں۔ جنہوں نے یہ کام کیا ہے انہیں مبارکباد ۔

اس سال، آسام بیبھو ایوارڈ آسام کا سب سے بڑا شہری اعزاز - ریاست کا سب سے بڑا شہری اعزاز، مناسب طور پر ممتاز طور پر مستحق سابق  سی جے آئی اور شمال مشرق سے سب سے پہلے اعلی ترین عدالتی عہدہ حاصل کرنے والے - جسٹس رنجن گوگوئی کو دیا جا رہا ہے۔

جناب رنجن گوگوئی، قانون اور انصاف کے میدان میں نمایاں شخصیت، ہمارے ملک کے قانونی منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس اور راجیہ سبھا کے نامزد رکن کے طور پر، جسٹس گوگوئی نے دیانتداری، دانشمندی اور انصاف کے عزم کے اعلیٰ ترین معیارات کی مثال قائم کی ہے۔ ان کی خدمات صرف کمرہ عدالت تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ قانون سازی کے دائرے تک پھیلی ہوئی ہیں، جہاں وہ ہمارے ملک کی بہتری کے سلسلے میں اپنا کردارادا کر رہے ہیں۔

مجھے 7 اگست 2023 کو ہاؤس آف ایلڈرز میں ان کا پہلا خطاب واضح طور پر یاد ہے۔ ممتاز ایوارڈ یافتہ جسٹس گوگوئی، سابق سی جے آئی، پارلیمنٹ کے ایک موجودہ رکن نے اپنے پہلے خطاب میں جو کچھ پیش کیا، میں اس کا حوالہ دیتا ہوں – ‘‘جناب، مجھے اس کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ بنیادی خصوصیت... میرا خیال یہ ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا نظریہ قابل بحث ہے، قانون سازی سے متعلق ایک بہت ہی قابل بحث بنیاد ہے۔ یہ ان کی فہم و فراست  کو خراج عقیدت ہےاور اختیارات کی علیحدگی کے نظریے کے لیے  ایک حوالہ ہے۔

کھیل کے میدان میں، ہمیں ایک نوجوان اور متحرک کھلاڑی، ہما داس کو آسام سورو ایوارڈ سے نوازنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہیما داس نے ایتھلیٹکس میں اپنی شاندار کامیابیوں سے آسام اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ آسام کے چاول کے کھیتوں سے بین الاقوامی کھیلوں کے میدان تک اس  کھلاڑی کا سفر استقامت اور عزم کی طاقت کا ثبوت ہے۔

دعا ہے کہ آسام کا حقیقی جذبہ ہم سب کو متاثر کرتا رہے اور یہ ایوارڈ آنے والی نسلوں کے لیے امید اور حوصلہ کی کرن کا کام کرے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ تین برسوں میں، جو کہ کسی بھی قسم کا تاثر پیدا کرنے کے لئے کم ترین وقت ہے، ایوارڈز کو پوری عزت، اعتبار اور احترام کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔

امرت کال میں، 2047 تک ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کی مضبوط بنیادیں رکھی گئی ہیں۔ ہم سب نے یہ نظارہ 26 جنوری کو 75 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر کرتویہ پتھ پر دیکھا ہے۔ اس ملک میں خواتین کی طاقت کے ظہور کو پوری دنیا نے بے اعتباری سے دیکھا۔ وہ چیز جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا، جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا... یہ سب سے بڑی کامیابی تھی، جو اس وقت ملک میں موجود ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔

میں اس پروگرام سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں اوراس سلسلے میں آپ کی توجہ دو چیزوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔پہلی چیز ہے معاشی قوم پرستی! اب وقت آگیا ہے کہ ہر ہندوستانی کو قوم پرستی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم بیرون ملک سے کون سی چیزیں درآمد کرتے ہیں - موم بتیاں، لیمپ، پتنگیں، فرنیچر - کیا یہ چیزیں درآمد کرنی ہیں؟ جب ہم بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں تو ہمارا زرمبادلہ باہر چلا جاتا ہے۔ جب ہم درآمد کرتے ہیں تو اپنے لوگوں کے ہاتھوں سے کام چھین رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم درآمد کرتے ہیں تو ہم کاروباری صلاحیت کو ختم کر رہے ہوتے ہیں، اگر ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم عزت مآب وزیر اعظم کی طرف سے دیے گئے ۔ ‘مقامی کے بارے میں آواز اٹھائیں’ اصول پر عمل کریں گے اس سے انقلابی تبدیلیاں آئیں گی۔

دوسری چیز ہے - خام مال ہمارے ملک سے باہر کیوں جاتا ہے؟ صنعتکار... وہ تمام لوگ جو تاجر ہیں سوچیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو خام مال باہر بھیجنے سے کچھ فائدہ ہو لیکن اگر آپ خام مال باہر بھیجتے ہیں تو فوراً دو باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اس میں ویلیو ایڈ نہیں کر سکتے اور دوسری یہ کہ دوسرے لوگ اس میں ویلیو ایڈ کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

اس لیے میں یہاں ایک بیان دیتا ہوں جو بالکل ضروری ہے۔ کیا ہماری معاشی طاقت اس بات کا تعین کرے گی کہ ہم قدرتی وسائل کو کس طرح استعمال کرتے ہیں؟ ہر کوئی کہے گا کہ میں جتنا چاہوں پٹرول خرچ  کر سکتا ہوں، جتنی میری جیب اجازت دیتی ہے۔ نہیں! ہم قدرتی وسائل کے امانت دار ہیں، ہمیں قدرتی وسائل کا اس طرح استعمال کرنا ہے کہ ان کا فطری حسن متاثر نہ ہو، ہمیں قدرتی وسائل کو بچانا ہے۔

ہماری 5000 سال پرانی ثقافت جو ہمیں ورثے میں ملی ہے اس نے ہمیں سکھایا ہے کہ ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہم نے دنیا کو راستہ دکھانا ہے اور ہم دنیا کو راستہ دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ ملک کے حالات اب ایسے ہو چکے ہیں کہ جو لوگ بہت پہلے ہمیں رائے دیتے تھے اب ہماری رائے مانگتے ہیں۔ دنیا کے بڑے اداروں کو دیکھ لیں، ہم کہاں سے آئے ہیں۔ دنیا کے بڑے ادارے ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ہمیں کہتے تھے کہ آپ نازک صوررتحال والےپانچ میں شامل ہیں، آپ نچلے پانچ میں ہیں، آپ دنیا پر بوجھ ہیں، پریشانی کا باعث ہیں۔ آج ہم سب سے اوپروالے پانچ میں شامل ہیں۔ دو تین بس کے اندرسرفہرست تین میں پہنچ جائیں گے۔

یہ میرے لیے ایسا موقع نہیں کہ میں مزیدکچھ کہوں۔ میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں ایک زبردست اوراچھے احساس کے ساتھ جا رہا ہوں۔ یہ ایوارڈز بڑی معتبریت پیدا کریں گے اور دوسری ریاستوں کو بھی متاثر کریں گے - ایک ایسا ایوارڈ جسے سرپرستی، دوستی، ایونٹ مینجمنٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے ، یہ ایوارڈ صرف معتبریت کی بنا پر حاصل ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ۔ وصول کنندگان میں سے ہر ایک کوآپ  کسی بھی معیارپر رکھ کران کا تجزیہ کریں، کسی بھی  کسوٹی پران کو پرکھ کردیکھیں  توآپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اس کے وا قعی مستحق ہیں۔ تمام ایوارڈ حاصل کرنے والوں کو مبارکباد!

 

************

ش ح۔س ب۔ف ر

 (U: 4929)



(Release ID: 2005784) Visitor Counter : 62


Read this release in: English , Hindi , Assamese