خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
خواتین اور اطفال کی ترقی کی وزارت اور محنت اور روزگار کی وزارت نے آج نئی دہلی میں مشترکہ طور پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا‘‘ سکشم ناری- سشکت بھارت ورک فورس میں خواتین برائے وکست بھارت’’
تقریب کا مقصد ایک جامع، مکمل حکومتی نقطہ نظر کو اپناتے ہوئے خواتین کی قیادت میں ترقی کے لیے ایک راستہ طے کرنا ہے
‘‘کم سے کم قومی معیارات اور پروٹوکول برائے دارالاطفال (کارروائی اور بندوبست)’’ کا آغاز کیا جائے گا
محنت اور روزگار کی وزارت نے صنفی مساوات اور خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت کو فروغ دینے کے لیے آجروں کو ایک ایڈوائزری جاری کی
ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت، روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کی وزارت کے ساتھ، عمارت، تعمیرات اور شاہراہوں کے شعبوں میں خواتین کی افرادی قوت کی شرکت اور حفاظت کے لیے مشورے جاری کرتی ہے
تقریب نے امپلائز پراویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن کے اندر آجر کی درجہ بندی کے سروے کے آغاز کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کیا
ایڈوائزری کا اجراء ایک تاریخی قدم ہے کیونکہ یہ افسروں اور وزارتوں کو ملک بھر میں ہونے والے اثرات کا تخمینہ کرنے اور اندازہ لگانے کے قابل بناتا ہے: مرکزی ڈبلیو سی ڈی وزیرمحترمہ اسمرتی ایرانی
ایک جامع حکومتی نقطہ نظر اور ہم آہنگی کے وزیر اعظم کے وژن کو ہم سب کے لیے ناری شکتی کو بڑھانے کی کوشش کرنے کے لیے رہنما اصول کے طور پر کام
Posted On:
30 JAN 2024 10:37PM by PIB Delhi
خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت اور محنت اور روزگار کی وزارت نے آج نئی دہلی کے بھارت منڈپم میں مشترکہ طور پر اس پروگرام کی میزبانی کی، جس کا عنوان تھا‘‘سکشم ناری- سشکت بھارت۔وکست بھارت کی افرادی قوت میں خواتین’’۔ اس تقریب کی صدارت خواتین اور بچوں کی ترقی اور اقلیتی امور کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی اور مرکزی وزیر محنت و روزگار اور ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی، جناب بھوپیندر یادو نے ریاستی وزیر، خواتین اور اطفال کی ترقی اور آیوش، ڈاکٹر منجپرا مہندر بھائی کی موجودگی میں کی۔
اس تقریب کا مقصد ایک جامع، مکمل حکومتی نقطہ نظر کو اپناتے ہوئے خواتین کی قیادت میں ترقی کے لیے ایک راستہ طے کرنا تھا۔ اس پروگرام کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ دو اہم وزارتوں کو اکٹھا کیا گیا۔ اس مشترکہ کوشش کے تحت ایک مربوط حکمت عملی کا تصور اور فروغ دینے کی کوشش کی گئی جو دونوں وزارتوں کی طاقتوں اور اقدامات کو یکجا کرتی ہے، خواتین کو بااختیار بنانے اور ترقی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دیتی ہے اور وکِسِت بھارت کی طرف پیش رفت کو یقینی بناتی ہے۔ اس تقریب میں ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت، سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی وزارت، وزارت تعلیم اور صنعتی تنظیموں کے نیٹ ورک کے نمائندوں ،کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی) ، فیڈریشن آف انڈین چیمبرز کامرس اینڈ انڈسٹری(فکی)،ایسوچیم، پی ایچ ڈی سی آئی آئی، اسکوپ اور اقوام متحدہ کی تنظیمیں - یونیسیف،یو این وومن اور آئی ایل او کی طرف سے شرکت کی گئی ۔ اس پروگرام نے ایک بڑی تعداد میں ورچوئل سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا، جس میں صنعت اور مختلف ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں دونوں کے 2.5 لاکھ سے زیادہ شرکاء ویب کاسٹ کے ذریعہ شامل ہوئے۔
اس تقریب میں وزارت محنت اور روزگار کی طرف سے آجروں کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کئے جانے کامشاہدہ کیا گیا ، جس میں صنفی مساوات کو فروغ دیا گیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے خواتین کی افرادی قوت کی شرکت کو فروغ دیا گیا۔ مزید برآں، ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت نے سڑک نقل و حمل اور شاہراہوں کی وزارت کے ساتھ عمارت، تعمیرات اور شاہراہوں کے شعبوں میں خواتین کی افرادی قوت کی شرکت اور حفاظت کے لیے مشورے جاری کیے ہیں۔ اس تقریب نے ایمپلائیز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن کے اندر آجر کی درجہ بندی کے سروے کے آغاز کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کیا۔ یہ مشورے درحقیقت آجروں کے لیے ایک معاون ماحول پیدا کرنے کے لیے ایک رہنما قوت کے طور پر کام کریں گے جو معیشت میں خواتین کی شرکت کو آسان بناتا ہے۔
دیرینہ مطالبات کے جواب میں، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کی طرف سے نیشنل کم از کم معیارات اور پروٹوکول برائے دارالاطفال (کارروائی و بندوبست) جاری کیا گیا۔ اس کا مقصد انفرادی/سروس ایجنسیوں/کارپوریشنوں/کمپنیوں/یونیورسٹیوں/ہسپتالوں/دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنے والے/سرکاری تنظیموں/غیر سرکاری تنظیموں وغیرہ کو رہنمائی فراہم کرنا ہے، جنہیں حکومت ہند کے مختلف قوانین اور ضوابط کے تحت دارالاطفال قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ معیارات اور پروٹوکول ‘خواتین کی زیر قیادت ترقی’ کے وژن میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے کیئر اکانومی(اطفال کی نگہداشت کی معیشت) کو معیاری اور ادارہ جاتی بنانے پر پوری توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
خواتین اور اطفال کی ترقی اور اقلیتی امور کی مرکزی وزیر محترمہ زوبین ایرانی نے رہنما خطوط کی کئی اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی اور وزارت محنت و روزگار کے اس اقدام کی تعریف کی جس میں یہ یقینی بنانے کے لیے ایک قدم اٹھایا گیا کہ خواتین تعمیراتی کارکنوں کو ان کے کھاتوں میں استحصال کاخاتمہ کرتے ہوئے براہ راست آن لائن ادائیگی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ہم فخر کے ساتھ اپنے وزیر اعظم کی قیادت میں ڈیجیٹل جمہوریت کا حصہ ہیں اور آج ملک بھر میں 24 کروڑ سے زیادہ خواتین کے بینک اکاؤنٹس ہیں’’۔ انہوں نے اس ایڈوائزری کی اہمیت پر مزید زور دیا جو آج جاری کی گئی ہے، جس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مہاجر خواتین کارکنوں کو سہولیات دی جائیں۔ انہوں نے اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تائید کی کہ پوشن اسکیم کے تحت ہر آنگن واڑی کو ڈیجیٹل طور پر بااختیار بنایا گیا ہے اور پوشن ٹریکر کے ذریعے 10 کروڑ سے زیادہ استفادہ کنندگان ، اس میں شامل مہاجر خواتین کو خدمات فراہم کرنے کے خصوصی انتظام کے ساتھ اس سے منسلک ہیں اور یہ کہ 1.10 لاکھ سے زیادہ مہاجر خواتین نے بغیر کسی رکاوٹ کے اسکیم کی سہولت حاصل کی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں آج عمارت اور دیگر تعمیراتی کارکنوں سے متعلق ایڈوائزری میں 26 ہفتوں کی زچگی کی چھٹی لازمی ہے۔ ایڈوائزری کا اجراء ایک تاریخی قدم ہے کیونکہ یہ افسروں اور وزارتوں کے ذریعہ ملک بھر میں ہونے والے اثرات کا تخمینہ کرنے اور اندازہ لگانے کے لیے نگرانی اور عمل درآمد کے قابل بناتا ہے۔
خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نے محنت اور روزگار کی وزارت کے ساتھ مشترکہ طور پر وزارت تعلیم کو تجویز پیش کی ہے کہ مرکزی یونیورسٹیوں کو یونیورسٹیوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے ہاسٹل بنانے میں مدد مل سکتی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور کام کر رہی ہیں، اور 7 یونیورسٹیوں نے اپنی تجاویز پیش کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سی ابھرتی ہوئی صنعتوں میں تمام سطحوں اور مہارت کے شعبے میں مختلف صلاحیتوں کی حامل خواتین کو ملازمت دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے آجرین کی درجہ بندی و الے سروے کی بھی تعریف کی جو کہ حال ہی میں شروع کیا گیا ہے، جو خواتین کے تاثرات کی بنیاد پر کام کے حالات کے بارے میں بہترین معلومات فراہم کرے گا۔
محنت اور روزگار اور ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے مرکزی وزیر جناب بھوپیندر یادو نے اپنے کلیدی خطاب میں خواتین کو معیشت میں مساوی اور باوقار مواقع فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے عمارت اور دیگر تعمیراتی کاموں میں مصروف افراد کے علاوہ اینٹ سازی، بیڑی بنانے اور گنے کی صنعتوں میں کام کرنے والی خواتین بالخصوص اہم صلاحیتوں کی حامل خواتین کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے وزارت کے مختلف قوانین پر توجہ دی۔ انہوں نے اس حقیقت پر زور دیا کہ 2022 میں افرادی قوت میں خواتین کی شرکت بڑھ کر 37 فیصد ہو گئی ہے۔ خواتین کی شرکت کا گراف اب اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے اور انہوں نے زور دیا کہ افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کو فعال کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت اعلیٰ تعلیمی پروگراموں میں خواتین کے اندراج کی شرح 32 فیصد ہے۔ زراعت اور ماہی گیری جیسے شعبوں میں خواتین کی شرکت زیادہ ہے۔
جناب بھوپیندر یادو نے کہا کہ ‘‘وزیر اعظم کے ایک جامع حکومتی نقطہ نظر اور ہم آہنگی کے وژن کوہم سب کے لیے ناری شکتی کو بڑھانے کی کوشش کرنے کے سلسلے میں ،مردوں اور عورتوں دونوں کے ساتھ دیکھ بھال کی ذمہ داریاں بانٹتے ہوئےرہنما اصول کے طور پر کام کرنا چاہیے۔’’
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے محنت اور روزگار کی وزارت کی سکریٹری محترمہ آرتی آہوجانے اجتماع کے اس مقصد پر روشنی ڈالی کہ ہمارے کام کی جگہوں کو صنفی امتیاز سے پاک بنانے کا عہد کیا جائے۔ انہوں نے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانے کے لیے پچھلے دس برسوں میں کئی حکومتی اقدامات کا مزید حوالہ دیا۔ مثال کے طور پر، میٹرنٹی بینیفٹ ایکٹ، جس میں 2017 میں ترمیم کی گئی ہے، زچگی کی تنخواہ میں 12 ہفتوں سے 26 ہفتوں تک کی چھٹی، قبل از پیدائش کی چھٹی 6 ہفتوں سے 8 ہفتوں تک، نرسنگ کے وقفے اور لازمی بچوں کی دیکھ بھال کے عمل سے متعلق سہولیات فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ای ایس آئی نے 2023 میں زچگی کے فوائد کے لیے تقریباً 418 کروڑ روپے ادا کیے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر کااختتام سامعین کا خیرمقدم کرتے ہوئے اور ان سے اس نیک اقدام میں شریک ہونے کیلئے کہتے ہوئے کیا۔
خواتین اور اطفال کی ترقی کی وزارت کے سکریٹری جناب اندریور پانڈے نے ایک ماحولیاتی نظام کو یقینی بنانے کے وزارت کے مینڈیٹ پر روشنی ڈالی جو افرادی قوت میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت میں مددگار ہوتا ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح وزارت کی مشن شکتی اسکیم خواتین کی زندگی کے تسلسل کی بنیاد پر مدد کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے اور اس کا مقصد افرادی قوت میں حصہ لینے والی خواتین کے لیے سہولت فراہم کرنا اور ان کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کئی ذیلی اسکیموں پر توجہ مرکوز کی جیسے پی ایم ایم وی وائی، پالنا، سکھی نواس (کام کاجی خواتین کا ہاسٹل)، اور خواتین کو بااختیار بنانے کا مرکز جو خواتین کی شرکت کو بڑھانے میں براہ راست تعاون کرتے ہیں۔ انہوں نے پالنا اسکیم کی مزید وضاحت کی جس کا مقصد نگہداشت کی معیشت میں پائے جانے والی خامیوں کو دور کرنا اور ہر علاقے میں آنگن واڑی-کم-دارالاطفال کی دستیابی کو بڑھانا ہے تاکہ خواتین افرادی قوت میں آزادانہ طور پر حصہ لے سکیں۔ اس کے بعد پالنا پر ایک مختصر فلم بنائی گئی جس میں اس اسکیم کے اصل واصول اور رہنما خطوط کی کچھ خصوصیات شامل ہیں۔
فکی کے سکریٹری جنرل جناب ایس کے پاٹھک نے تمام صنعتی تنظیموں کی جانب سے صنعت کےحوالے سے عہد لینے میں رہنمائی کی، جس میں 1000 سے زیادہ آجر ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بیداری پیدا کرنے اور اسے وکست بھارت کے حصول کے لیے ایک عوامی تحریک بنانے کی ضرورت ہے۔ صنعت کے عہد کا مقصد خواتین کے لیے محفوظ کام کی جگہوں کی تشکیل کو ترجیح دیتے ہوئے پالیسیوں اور مشورے کے نفاذ کے ذریعے خواتین کی معاشی شراکت میں اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے خواتین کو اپنے کام اور دیکھ بھال کی ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنے میں مدد کرنے کے اقدامات پر بھی زور دیا۔ ایک ٹھوس عزم کے طور پر، اس عہد نے اگلے تین برسوں کے اندر خواتین کی افرادی قوت کی شرکت میں 10 فیصد اضافہ کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اس تقریب نے صنعت کے رہنماؤں جیسے کہ ہندوستان یونی لیور، آدتیہ برلا کیپٹل، پرنوڈ ریکارڈ، رینڈسٹڈ، سینٹ گوبین، اور ٹاٹا کیمیکلز کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا تاکہ صنف کے ساتھ مل کر کام کرنے کی جگہوں کو فروغ دینے میں اپنے اچھے طریقوں کو ظاہر کیا جا سکے۔ ان کمپنیوں نے صنفی مساوات اور آجر کی مدد کے لیے قابل ذکر لگن کا مظاہرہ کیا، کام کی جگہ پر ایک جامع ماحول بنانے کے لیے اپنی وابستگی پر زور دیا۔ تقریب کے دوران، کلیدی معلومات کا اشتراک کیا گیا، جس میں زچگی سے پہلے سے لے کر زچگی کے بعد کے مراحل تک جامع معاون خدمات کو اجاگر کیا گیا۔ قابل ذکر اقدامات میں زچگی کی چھٹی کی توسیعی پالیسیوں کا نفاذ، نئی ماؤں کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لچکدار کام کے اوقات، سائٹ پربچوں کی نگہداشت سے متعلق سہولیات کی فراہمی اور علاج کی خدمات کو انشورنس کوریج میں شامل کرنا شامل تھا۔ مجموعی طور پر، یہ اقدامات تمام ملازمین کے لیے ایک معاون اور مساوی کام کی جگہ بنانے کے لیے تنظیموں کے عزم کو واضح کرتے ہیں۔
*******
ش ح۔ س ب ۔ف ر
(U: 4176)
(Release ID: 2000769)
Visitor Counter : 124