بجلی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

نئی دہلی میں پاور سیکٹر کی جائزہ، منصوبہ بندی اور نگرانی(آر پی ایم) سے متعلق دو روزہ میٹنگ کا انعقاد


بجلی  اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر نے سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے پاور سیکٹر کو مالی طور پر فائدہ مند بنانے کی ضرورت پر زور دیا

بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر آر کے سنگھ نے ریاستوں سے کہا،‘‘غیر ضروری لوڈشیڈنگ پر جرمانہ عائد کیا جائے گا’’

Posted On: 18 JAN 2024 6:37PM by PIB Delhi

بجلی کے شعبے کی جائزہ، منصوبہ بندی اور نگرانی (آر پی ایم) میٹنگ، تمام ریاستوں کے تمام ڈسکام کے پاور/توانائی سکریٹریز اور سی ایم ڈیز/ ایم ڈیز کے ساتھ، مرکزی وزیر برائے بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی جناب آر کے سنگھ کی صدارت میں نئی دہلی میں، 18 اور 19 جنوری 2024 کو منعقد ہو رہی ہے۔بجلی کے  مرکزی سکریٹری، نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی سکریٹری، ریاستوں کے ایڈیشنل چیف سیکریٹریز/ سیکریٹریز/ پرنسپل سیکریٹریز (بجلی/ توانائی)، ریاستی پاور یوٹیلیٹیز کے سی ایم ڈیز اور مرکزی پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے افسران اس میٹنگ شرکت کر رہے ہیں۔

اپنے افتتاحی خطاب میں پاور سیکٹر کے فریقوں سے خطاب کرتے ہوئے، بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر نے لوڈشیڈنگ کو ماضی کی بات  بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔‘‘میں ایسے مستقبل کو قبول نہیں کرتا جہاں ہندوستان ترقی پذیر ملک ہی رہے۔ اس مستقبل اور ترقی یافتہ ملک کے درمیان فرق بہت آسان ہے: ایک ترقی یافتہ ملک میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی، ہر ڈسکام کے پاس بجلی خریدنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں، لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور بجلی میں خلل 20-25 سال میں ایک بار پڑتا ہے۔ اس لیے لوڈشیڈنگ پر جرمانہ ہو گا، یہ عوام کی توہین ہے۔ آپ کو صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا، پی پی اے پر دستخط کرنے ہوں گے اور وسائل کی مناسبیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ آپ کو زیادہ کارگزار بننا ہوگا۔’’ وزیر موصوف نے واضح کیا کہ جب کہ بلنگ کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے، وصولی کی کارکردگی 92.7 فیصد پر رُکی ہوئی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001LDDD.jpg

جناب سنگھ نے کہا کہ کس طرح پاور سیکٹر نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ وزیر نے مزید کہا ‘‘دیہی علاقوں میں بجلی کی اوسط یومیہ دستیابی16-2015 میں 12.5 گھنٹے سے بڑھ کر اب تقریباً 21 گھنٹے ہو گئی ہے، اور شہری علاقوں میں تقریباً 20-21 گھنٹے سے 23.8 گھنٹے ہو گئی ہے۔ توانائی کی قلت 2014 میں 4.5 فیصد سے کم ہو کر آج 1 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ہم نے ڈسکام کے اے ٹی اینڈ سی نقصانات کو16-2015 میں 27فیصد سے کم کر کے 15.41فیصد کر دیا ہے۔ لوگوں کو اب جنریٹر نظر نہیں آتے۔جہاں تک توانائی کی منتقلی کی بات ہے ، ہم بہت آگے ہیں۔ ’’ لہٰذا، ہم نے ایک طویل راستہ طے کیا ہے، لیکن ہم ابھی تک نہیں پہنچے ہیں۔ وزیرموصوف نے کہا،‘‘اے سی ایس / اے آر آر کا فرق 15 پیسے سے بڑھ کر 45 پیسے کے قریب ہو گیا ہے، جو کچھ تشویش کا باعث ہے۔ کچھ ریاستوں میں اب بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ لوڈشیڈنگ تاریخ بننے جا رہی ہے۔”

‘‘ہمیں تیزی سے منتقلی کرنی ہوگی اور اپنی ترقی کے لیے وافر بجلی کو بھی یقینی بنانا ہوگا’’

وزیر موصوف نے حاضرین کو بتایا کہ ملک کی توانائی کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے مطابق صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔‘‘دنیا اس طرح سے ارتقاء پذیر ہے جو چیلنجنگ ہیں۔ 2030 کے بعد تھرمل صلاحیت کو نصب کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لہذا، ہمیں تیزی سے منتقلی کرنی ہوگی اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے پاس اپنی ترقی کے لیے کافی بجلی موجود ہو، کیونکہ ہمارا ملک اگلی تین دہائیوں تک 7.5فیصد سے زیادہ کی شرح سے ترقی کرنے والا ہے۔ 2030 میں، ہماری سب سے زیادہ مانگ آج 243 گیگا واٹ سے بڑھ کر 366 گیگاواٹ ہو جائے گی۔ ہماری قائم شدہ صلاحیت کو 900 گیگا واٹ تک جانا ہے، جو آج تقریباً 427 گیگا واٹ ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002RZ8K.jpg

‘‘اس سیکٹر کے قابل عمل ہونے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا’’

یہ واضح  کرتے ہوئے کہ بڑھتی ہوئی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے صلاحیت میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، وزیرموصوف نے کہا کہ اس شعبے کے قابل عمل ہونے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘اگر ڈسکام قابل عمل نہیں ہیں تو  سرمایہ کاری نہیں ہوگی، صلاحیتیں حاصل  نہیں ہوپائیں  گی، ہمارے پاس اپنی ترقی کے لیے توانائی نہیں ہوگی، ہم بجلی کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے، اور پھر ہندوستان کبھی ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکے گا۔’’

وزیر موصوف نے یاد کیا کہ ایک وقت تھا جب ڈسکام کے پاس ٹرانسفارمرز کو تبدیل کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ ٹیرف حقیقی لاگت  کے مطابق نہیں ہوتا تھا، اس کی ایک وجہ جزوی طور پر ان کی عدم استعداد تھی اور جزوی طور پر سیاست کی وجہ سےتھی۔‘‘ہم نے جو طے کیا ہے وہ ہے نظام کو غیر سیاسی بنانا۔ اگر کوئی ریاستی حکومت بجلی مفت دینا چاہتی ہے تو اس کے لیے سبسڈی ریاستی حکومت کو ادا کرنی ہوگی۔ ہم نے کہا ہے کہ صارفین کو 24x7بجلی کا حق حاصل ہے اور اگر کوئی غیر ضروری لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو جرمانہ  عائد کیاجائے گا اور معاوضہ دینا ہوگا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003V06F.jpg

‘‘پاور ریگولیٹرز یا ڈسکامس الیکٹرسٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے تو  ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، ہم اس وقت تک رکنے والے نہیں جب تک ہم اس نظام کو قابل عمل نہیں بناتے’’

وزیر موصوف نے ریاستوں سے کہا کہ وہ پاور سیکٹر کے قابل عمل ہونے  کو یقینی بنانے کے لیے قوانین اور مختلف قواعد پر عمل کریں۔ ‘‘ورنہ، آپ کو مرکز سے کوئی بجلی نہیں ملے گی، آپ کوپی ایف سی یا آر ای سی سے کوئی قرض نہیں ملے گا۔ اگر ٹیرف کے اپ ٹو ڈیٹ نہ ہونے، ٹیرف حقیقی  لاگت کے مطابق نہ ہونے، یا سبسڈی کی ادائیگی نہ ہونے کی کوئی مثال ملتی ہے تو قانون کے تحت مطلوبہ کارروائی کی جائے گی۔ اور چونکہ ہم نے یہ تمام دفعات قانون میں رکھی ہیں، اس لیے متعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔’’ وزیر نے کہا کہ ہم اس وقت تک رکنے والے نہیں جب تک ہم اس نظام کو قابل عمل نہیں بناتے، جب تک ہم ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک نہیں بناتے۔

میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے، بجلی کے مرکزی سکریٹری جناب پنکج اگروال نے اس بات پر زور دیا کہ کچھ ڈسکام نے از سر نو  ترتیب دی گئی  ڈسٹری بیوشن سیکٹر اسکیم کے تحت نقصان میں کمی کے کام نیز اسمارٹ میٹرنگ کے کام میں زیادہ پیش رفت نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ڈسکام کی جانب سے اسے جاری کردہ مجموعی بجٹ سپورٹ کو مکمل طور پر استعمال کرنے میں ناکامی کی صورت میں کچھ دیگر ترقی پسند ڈسکام کو غیر استعمال شدہ فنڈز مختص کرنے کے لیے وزارت کو پیشگی مطلع کیا جا سکتا ہے۔

جناب اگروال نے بتایا کہ پردھان منتری جنجاتی آدیواسی نیائے-مہا ابھیان (پی ایم- جے اے این ایم اے این ) کے تحت بجلی کی وزارت نے 7,090 بستیوں میں 87,457 خاص طور پر کمزور قبائلی گروپوں کے گھروں کو بجلی دینے کی منظوری دی ہے۔ آج تک، 10,013  پی وی ٹی جی گھرانوں کو بجلی فراہم کی جا چکی ہے۔ سکریٹری نے ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مشورہ دیا کہ وہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں کو بغیر کسی امتیازی سلوک  کے 24x7 گھنٹے سپلائی فراہم کرنے کی پوری کوشش کریں۔

نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی سکریٹری، جناب بھوپندر سنگھ بھلا نے کہا کہ حکومت ہند نے 2030 تک 500 گیگا واٹ غیر فوسل بجلی کی صلاحیت  حاصل کرنے کے حوصلہ مندانہ اہداف مقرر کیے ہیں اور ہم نے اس سمت  پہلے ہی اہم قدم اٹھائے ہیں۔31 دسمبر 2023 تک، ہم نے غیررکازی  ایندھن کے ذرائع سے ایک متاثر کن 187.5 گیگاواٹ صلاحیت نصب کی ہے۔ یہ ہماری نصب شدہ پیداواری صلاحیت کا 44فیصد ہے۔ مسابقتی بولی کے فریم ورک، ٹرانسمیشن چارجز پر مراعات، مانگ پیدا کرنے کے اقدامات اور مختلف ترغیبی پروگراموں جیسے اقدامات نے نجی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے اور صلاحیت میں اضافے کو ممکن بنایا ہے۔

سکریٹری موصوف نے کہا کہ نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن ایک تبدیلی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور ریاستوں کو مشن کی سرگرمیوں کی تکمیل کے لیے سہولتی اقدامات کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ‘‘مختلف ریاستوں کی طرف سے مخصوص  گرین ہائیڈروجن پالیسیوں کو وضع کرنا ایک مضبوط ماحولیاتی نظام کی تعمیر کی طرف ایک امید افزا قدم ہے۔ گرین ہائیڈروجن کی پیداوار اور الیکٹرولائزر مینوفیکچرنگ کے لیے مراعات کے لیے حالیہ ٹینڈرز کے تعلق سے  صنعت کی طرف سے مثبت ردعمل ملاہے۔ ہم ریاستوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان منصوبوں میں سہولت فراہم کریں۔

دو روزہ آر پی ایم میٹنگ میں تقسیم، آر اینڈ آر، روف ٹاپ سولر، گرین ہائیڈروجن، گرین ایپلائینسز،پی ایم کُسم ، صارفین کے حقوق کے قوانین،30-2029 تک کے لئے  منصوبہ بند کیے گئے پروجیکٹوں  کے لیے ریاست وار جائزہ،ڈسکومس کے قابل عمل ہونے،آر ڈی ایس ایس کے تحت پیش رفت کا ریاست وارجائزہ،بجلی کی فراہمی کا ریاست وار استحکام اور دیگر کے ساتھ ساتھ مانگ اور وسائل کی بہتات کو پورا کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی ریاست وار تفصیل کے اُمور پر تبادلہ خیال کیاجائے گا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004D5BB.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ف ا۔ع ن

(U: 3786)


(Release ID: 1997703) Visitor Counter : 89


Read this release in: English , Hindi