امور داخلہ کی وزارت
مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر جناب امت شاہ نے آج راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل 2023 اور جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل 2023 پر بحث کا جواب دیا، ایوان نے بحث کے بعد بلوں کو منظور کر لیا
یہ دن جموں و کشمیر اور ہندوستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا جب سپریم کورٹ نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو کے فیصلے کے ارادے اور عمل کو آئینی طور پر برقرار رکھا ہے
ان بلوں پر اٹھنے والے سوالات انصاف کی خاطر نہیں بلکہ پی ایم مودی کے فیصلے میں تاخیر کرانے کی نیت سے تھے
سپریم کورٹ نے آج اس موقف کو برقرار رکھا کہ جموں و کشمیر کو کبھی بھی داخلی خودمختاری حاصل نہیں تھی اور دفعہ 370 ایک عارضی شق تھی
کسی کو حق نہیں کہ وہ اپنا بڑا دل دکھانے کے لیے ملک کے کسی حصہ سےدست بردار ہوجائے ،ہم اپنی سرزمین کے ایک ایک انچ کے لیے لڑیں گے
جو لوگ کہتے ہیں کہ دفعہ 370 مستقل ہے وہ آئین اور دستور ساز اسمبلی کی توہین کر رہے ہیں
اب کشمیر سے بے گھر ہونے والے لوگ کشمیر میں الیکشن لڑ سکیں گے اور وزیر بھی بن سکیں گے
ہماری فوج جیت رہی تھی، اور دشمن کی فوج پیچھے ہٹ رہی تھی، اس وقت اگر نہرو جی جنگ بندی کیے بغیر دو دن اور جنگ جاری رکھتے تو آج پورا کشمیر ہمارا ہوتا
550 سے زیادہ شاہی ریاستیں ہندوستان کے ساتھ ضم ہوئیں، کہیں بھی دفعہ 370 نہیں لگائی گئی، نہرو جی صرف جموں و کشمیر کی دیکھ بھال کر رہے تھے، تو یہ صرف وہاں کیوں لگائی گئی؟
آرٹیکل 370 سے لطف اندوز ہونے والے تین خاندانوں نے جموں و کشمیر کے درج فہرست قبائل کو ان کے حقوق سے محروم رکھا
جموں و کشمیر میں 42,000 لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ دفعہ 370 علیحدگی پسندی کے جذبات کو ہوا دیتی تھی اور اسی کی وجہ سے وہاں دہشت گردی پیدا ہوئی تھی
جموں میں 37 سیٹیں تھیں جو اب 43 ہو گئی ہیں، پہلے کشمیر میں 46 سیٹیں تھیں جو اب 47 ہو گئی ہیں اور 24 سیٹیں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے لیے رکھی گئی ہیں، کیونکہ پاک مقبوضہ کشمیر انڈیا کا ہے اور اسے ہم سےکوئی نہیں لے سکتا
جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار درج فہرست قبائل کے لیے 9 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں اور نشستیں درج فہرست ذاتوں کے لیے بھی محفوظ کی گئی ہیں
بکروال برادران کو گرجر برادران کی سیٹوں میں کمی کے بغیر ریزرویشن کا فائدہ ملے گا
جہاں تک ملک کی ایک انچ زمین کا تعلق ہے تو مودی حکومت سخت رویہ رکھتی ہے اور رکھےگی، ہم ایسے معاملات پر بے ضرورت سخاوت نہیں دکھا سکتے
اگر آرٹیکل 370 اتنا ہی مفید تھا تو نہرو جی نے اس سے پہلے عارضی لفظ کیوں استعمال کیا؟
اب جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق نہیں لیپ ٹاپ ہوں گے، وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ایک نیا کشمیر بن رہا ہے
سب جانتے ہیں کہ کشمیر کا انضمام اس لیے تاخیر کا شکار ہوا کہ شیخ عبداللہ کو خصوصی درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا اور اسی وجہ سے انضمام میں تاخیر ہوئی اور پاکستان کو حملے کا موقع مل گیا
Posted On:
11 DEC 2023 10:00PM by PIB Delhi
مرکزی وزیر داخلہ اورباہمی تعاون کے وزیر جناب امت شاہ نے آج راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل 2023 اور جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل 2023 پر بحث کا جواب دیا۔ راجیہ سبھا نے بحث کے بعد بلوں کو منظور کر لیا۔ لوک سبھا دونوں بلوں کو پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔
بلوں پر بحث کا جواب دیتے ہوئے جناب امیت شاہ نے کہا کہ یہ دن جموں و کشمیر اور ہندوستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا جب سپریم کورٹ نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے فیصلے کے ارادے اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو، بطور آئینی عمل کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان بلوں پر اٹھائے گئے سوالات انصاف کی خاطر نہیں بلکہ وزیر اعظم مودی کی طرف سے لئے گئے فیصلے میں تاخیر کرانےکی نیت سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور بہت سی چیزیں جنہیں ہم 1950 سے اجاگر کر رہے تھے انہیں قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آج اس موقف کو برقرار رکھا ہے کہ جموں و کشمیر کو کبھی بھی داخلی خودمختاری حاصل نہیں تھی اور آرٹیکل 370 ایک عارضی شق ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ اگر آرٹیکل 370 عدالتی اور ضروری تھا تو اس سے پہلے عارضی لفظ کیوں لکھا گیا؟ انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ دفعہ 370 مستقل ہے وہ آئین اور دستور ساز اسمبلی کے مقصد کی توہین کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین اور ملک کی پارلیمنٹ کو آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا پورا حق ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے بھی یہ موقف برقرار رکھا کہ گورنر راج اور صدر راج کے اعلان کو چیلنج کرنا درست نہیں ہے اور یہ پوری طرح سے آئینی عمل کے مطابق ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 (3) کو آئین ساز اسمبلی نے خود رکھا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے معزز صدر آرٹیکل 370 میں ترمیم کر سکتے ہیں، اس کے نفاذ کو روک سکتے ہیں اور اسے آئین سے باہر بھی لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ 5 اگست 2019 کو اس وقت کے صدر کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا پورا حق حاصل تھا۔ جناب شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی اس بات کو برقرار رکھا کہ آرٹیکل 370 کے تحت دیئے گئے اختیارات کے استعمال میں صدر یکطرفہ نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے جس کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے سادہ اکثریت سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی برقرار رکھا کہ جب دفعہ 370 کو ختم کر دیا گیا ہے، تو جموں و کشمیر کا آئین اب موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ جناب شاہ نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے خود ایوان کو انتخابات کرانے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ دفعہ 370 کو غلط طریقے سے ہٹایا گیا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں 42,000 لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ دفعہ 370 نے علیحدگی پسندی کو ہوا دی اور اسی کی وجہ سے وہاں دہشت گردی پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جب وقت ثابت کرے کہ کسی نے غلط فیصلہ کیا ہے تو قومی مفاد میں اسے درست کرنا چاہیے اور اس کے لیے ابھی بھی وقت ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ کمزور اور محروم طبقہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے کسی بھی شہری کی عزت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے اس قانون میں کمزوروں اور محروموں کی جگہ دیگر پسماندہ طبقات کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی 1989 میں شروع ہوئی اور اپنے عروج پر پہنچ گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے، خاص طور پر کشمیری پنڈت اور سکھ اپنے ہی ملک میں بے سہارا ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک نے ان بے گھر کشمیریوں کو گلے لگایا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر سے 46,631 خاندان بے گھر ہوئے اور مودی حکومت کی مختلف کوششوں کی وجہ سے اب تک 1,57,967 افراد کو رجسٹر کیا جا چکا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ نریندر مودی حکومت بے گھر لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، ایسے لوگ ووٹ ڈال سکیں گے، الیکشن لڑ سکیں گے اور وہ جموں و کشمیر میں وزیر بھی بن سکتے ہیں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ سال 1947 میں 31,779 خاندان پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے بے گھر ہوکر جموں و کشمیر میں پناہ گزیں ہوئے اور ان میں سے 26,319 خاندان جموں و کشمیر اور 5,460 خاندان ملک کے دیگر حصوں میں رہنے لگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے بعد 10,065 خاندان بے گھر ہوئے اور مجموعی طور پر 41,844 خاندان بے گھر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ان بلوں کے ذریعے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کشمیری تارکین وطن کے لیے 2 نشستیں اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے بے گھر ہونے والوں کے لیے 1 نشست نامزد کرنے کا کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں میں پہلے 37 سیٹیں تھیں جو اب 43 ہو گئی ہیں، کشمیر میں پہلے 46 سیٹیں تھیں جو اب 47 ہو گئی ہیں اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کی 24 سیٹیں ریزرو رکھی گئی ہیں، کیونکہ پاکستان مقبوضہ کشمیر بھارت کا ہے اور کسی کا نہیں اور کوئی بھی اسے ہم سے نہیں لے سکتا۔ جناب شاہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار درج فہرست قبائل کے لیے 9 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں اور نشستیں درج فہرست ذاتوں کے لیے بھی محفوظ کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی جنگ ہوئی اور دہشت گردوں نے حملہ کیا تو ہمارے گجر بکروال بھائیوں نے ہمیشہ ملک کا ترنگا سربلند کیا اور آج کئی سالوں بعد انہیں انصاف ملنے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 سے لطف اندوز ہونے والے تین خاندان جموں و کشمیر کے درج فہرست قبائل کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ جناب شاہ نے کہا کہ بکروال برادران کو گرجر برادران کی ایک بھی نشست چھینے بغیر انتہائی حساسیت کے ساتھ تمام فوائد فراہم کیے جائیں گے۔
مرکزی وزیر داخلہ اورباہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ جہاں تک ملک کی ایک انچ زمین کا تعلق ہے، مودی حکومت کا ہمیشہ سخت رویہ ہے اور رہے گا اور اس طرح کے مسائل پرہم خواہ مخواہ کی سخاوت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو حق نہیں کہ وہ خاموش تماشائی بن کر بیٹھ جائے خاص طور پر ایسے وقت میں کہ جب صرف اپنا بڑا دل دکھانے کے لیے ملک کی سرزمین کھو دی جائے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جو لوگ جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد ہندوستان کیسے وجود میں آیا وہ جانتے ہوں گے کہ حیدرآباد میں کشمیر سے بڑا مسئلہ تھا، لیکن کیا جواہر لال نہرو وہاں گئے تھے یا جواہر لال نہرو جوناگڑھ، لکشدیپ یا جودھپور گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جواہر لعل نہرو نے صرف جموں و کشمیر کا کام دیکھا تھا اور وہ بھی درمیان میں ہی چھوڑ دیا۔ جناب شاہ نے کہا کہ 550 سے زیادہ شاہی ریاستیں ہندوستان کے ساتھ ضم ہوئیں، کہیں بھی دفعہ 370 نہیں لگائی گئی، نہرو جی صرف جموں و کشمیر کی دیکھ بھال کر رہے تھے، تو یہ صرف وہاں کیوں لگائی گئی؟ کشمیر کے انضمام میں تاخیر کے بارے میں جناب شاہ نے کہا کہ مہاراجہ سے شیخ عبداللہ کو خصوصی جگہ دینے کی درخواست کی گئی تھی اور اسی وجہ سے انضمام میں تاخیر ہوئی اور پاکستان کو حملہ کرنے کا موقع ملا۔ مرکزی وزیر داخلہ نے اپوزیشن سے سوال کیا کہ اتنی سخت ریاستوں کا انضمام کیا گیا، لیکن آرٹیکل 370 کیوں نہیں ہے؟ جناب شاہ نے کہا کہ نہ تو جوناگڑھ، جودھپور، حیدرآباد اور نہ ہی لکشدیپ میں آرٹیکل 370 ہے، انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی شرط کس نے رکھی اور وہاں کیوں؟ فوج بھیجنے میں تاخیر ہوئی، اپوزیشن کو اس کا جواب عوام کو دینا پڑے گا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اگر بے وقت جنگ بندی نہ ہوتی تو پاکستان کے زیر قبضہ کشمیرکا کوئی حصہ نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس وقت مزید دو دن انتظار کرتے تو پورا پاکستانی مقبوضہ کشمیر ترنگے کے نیچے آجاتا۔ جناب شاہ نے کہا کہ پہلے تو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں نہیں لے جانا چاہیے تھا اور اگر لے جایا بھی گیا تو آرٹیکل 51 کے تحت معاملہ کیوں اٹھایا گیا؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس معاملے کو آرٹیکل 35 کے تحت لیا جاتا تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دو دہائیوں کے بعد بھی اگر ایسا لگتا ہے کہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا تو ہم مانیں گے کہ یہ ہمارا اور ہماری حکومت کا فیصلہ تھا۔ جناب شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے یہ فیصلہ لیا ہے اور نہ شری مودی اس فیصلے سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ہی کابینہ اور پارٹی اس سے پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہم فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ پورا کشمیر اور کشمیر آنے والے 2 کروڑ سیاح، لاکھوں امرناتھ یاتری اور وشنو دیوی کے درشن کرنے والے عقیدت مند متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ کشمیر کی صورتحال اچھی ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ کشمیر میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے، کئی باپ اپنے بیٹے کی لاش کو کندھوں پر اٹھا کر آخری رسومات کے لیے لے گئے، بہت سے لوگ اپنی بیٹی کی شادی بھی نہیں دیکھ سکے اور کئی بہنیں اپنے بھائیوں سے محروم ہو گئیں۔ ان کے درد کو صرف حساس دل والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ 2014 میں جناب نریندر مودی کی حکومت کے قیام اور دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد آج کشمیر کے نوجوانوں کا مستقبل تاریک نہیں ہے، بلکہ اسکول کا بلیک بورڈ ان کا مستقبل بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ان نوجوانوں کو لیپ ٹاپ سونپے ہیں جو پتھر اٹھائے گھومتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ایک تبدیلی آئی ہے کہ اب کشمیر کے لوگ ان لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں جو آرٹیکل 370 کی بنیاد پر دہشت گردی اور علیحدگی کی بات کرتے ہیں اور جمہوریت اور ترقی کی بات کرتے ہیں۔
وزیر داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ انہوں نے کہا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں علیحدگی کا احساس ختم ہو جائے گا اور جب علیحدگی کا احساس ختم ہو جائے گا تو دہشت گردی بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ جناب شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کو لگتا ہے کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی گزشتہ 40 برسوں کی ان کی غلطیوں کو چار برسوں میں درست کریں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کشمیر میں 2004 سے 2014 تک کل 7,217 دہشت گردی کے واقعات ہوئے، لیکن 2014 سے اب تک پچھلے 10 سالوں میں صرف 2197 دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے صرف چار سالوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ 2004 سے 2014 تک کشمیر میں مجموعی طور پر 2829 سیکورٹی اہلکار اور عام شہری مارے گئے جبکہ 2014 سے 2023 تک 891 سیکورٹی اہلکار اور عام شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جو کہ پہلے کے مقابلے میں 70 فیصد کم ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ سیکورٹی اہلکاروں کی اموات میں بھی 50 فیصد کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2010 میں منظم پتھراؤ کے 2654 واقعات ہوئے جب کہ 2023 میں آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے صرف چار سال بعد پتھراؤ کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ 2010 میں پتھر بازی میں 112 شہری مارے گئے تھے، جب کہ 2023 میں پتھر بازی کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا، اس لیے کسی جانی نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ 2010 میں وادی کے 6235 شہری پتھراؤ کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے لیکن 2023 میں یہ تعداد صفر ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ 2010 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے 70 واقعات اور 2023 میں صرف 6 واقعات ہوئے۔ 2010 میں دراندازی کی 489 کوششیں ہوئیں جب کہ اس سال اب تک صرف 48 کوششیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2010 میں دہشت گردوں کی تعداد 2010 تک پہنچ گئی ہے۔ وادی سے فرار ہونے والوں کی تعداد 18 تھی جب کہ 2023 میں یہ تعداد 281 تھی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے بلکہ دہشت گردی کے پورے ایکو سسٹم کو تباہ کرنے کے لیے بھی کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے دوران، این آئی اے نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے 32 مقدمات درج کیے، جب کہ 2014 سے پہلے، ایک بھی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔ ریاستی تحقیقاتی ایجنسی نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے 51 مقدمات درج کیے جبکہ اس سے قبل ریاستی تحقیقاتی ایجنسی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے مقدمات میں اب تک 229 گرفتاریاں کی گئی ہیں، 150 کروڑ روپے سے زائد کے اثاثے ضبط کیے گئے ہیں، 57 جائیدادیں ضبط کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ این آئی اے نے 134 بینک کھاتوں میں 100 کروڑ روپے سے زیادہ کو منجمد کرنے کا کام کیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ 2014 سے پہلے کشمیر میں دہشت گردوں کے جنازوں پر 25,000 لوگوں کی بھیڑ جمع ہوتی تھی لیکن دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی دہشت گرد کے مارے جانے کے بعد اسے پوری مذہبی رسومات کے ساتھ جائے وقوعہ پر دفن کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پتھراؤ کے واقعات بھی رک گئے کیونکہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کسی امیدوار کے خاندان میں پتھراؤ کا معاملہ ہے تو اسے سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر پاکستان میں بیٹھ کر کسی کے خاندان کا کوئی فرد ہندوستان میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو اسے سرکاری نوکری نہیں ملے گی۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ اگر ٹیلی فون ریکارڈ کی بنیاد پر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی کے خاندان کا کوئی فرد دہشت گردی کو فروغ دینے میں ملوث ہے تو اسے نوکری سے برطرف کرنے کے لیے سروس رولز بنائے گئے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ زیرو ٹیرر پلان اورعلاقے پر مکمل غلبے کے ذریعہ دہشت گردی سے متاثرہ پورے علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے کام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیلیں پہلے اڈے تھیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے جیلوں میں جیمرز لگا کر قوانین کو سخت کرنے کی کارروائی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں 105 کروڑ روپے کی لاگت سے دہشت گردوں کے لیے ایک جیل بنائی جا رہی ہے، جس کی سیکورٹی سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بار کونسل میں دہشت گردی سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی پیغام دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمت، پاسپورٹ اور سرکاری ٹھیکوں کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہماری حکومت کے دور میں بھی دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ اڑی اور پلوامہ میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے لیکن ہم نے ان کا منہ توڑ جواب دیا۔ ہمیں دہشت گردوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اگر دہشت گرد ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں تو ان کا خیر مقدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمال مشرق میں بہت سے لوگ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں واپس آئے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت نے کشمیر کے نوجوانوں کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے نے نہ صرف کشمیری عوام کے ساتھ ناانصافی کی بلکہ ملک کی عزت نفس کو بھی نقصان پہنچایا۔ جناب شاہ نے کہا کہ جناب شیاما پرساد مکھرجی نے ملک میں دو آئین، دو نشانوں اور دو سربراہوں کے مسئلہ پر سوالات اٹھائے اور اس وقت وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ مشتعل ہو گئے اور مشتبہ حالات میں ان کی موت ہوگئی۔ جناب شاہ نے کہا کہ آج وہ خوش ہیں کہ کشمیر کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے سپاہیوں سے لے کر شیاما پرساد مکھرجی تک، ہر شخص کی روح اس ملک سے دو سربراہوں ، دو آئینوں اور دو نشانوں کے خاتمے کے بعد اطمینان کی سانس لے رہی ہوگی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ آج آرٹیکل 370 پر سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ آیا ہے اور 130 کروڑ عوام کی طرف سے وہ اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے ملک میں ایک آئین، ایک قومی پرچم اور ایک وزیر اعظم ہے اور اب شری شیاما پرساد مکھرجی کا خواب پورا ہو گیا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ پہلے کشمیر میں دو دارالحکومت اور دو عدالتیں تھیں اور سالانہ 200 کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے، جب کہ اب ایک مرکزی قانون ہے جو پورے ملک کی طرح کشمیر پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیری، ڈوگری اور ہندی کو پہچان دینے کا کام کیا ہے۔ 35 اےکے تحت کشمیر میں پہلی بار نریندر مودی حکومت نے کشمیر کی خواتین کو انصاف فراہم کرنے، تعلیم یا نوکریوں میں ریزرویشن، اسمبلی میں درج فہرست قبائل کی برادری ( ایس ٹی کمیونٹی) کو ریزرویشن، زمین کے حصول اور بازآبادکاری میں منصفانہ معاوضہ دینے کے قانون کا نفاذ، جنگلات کے حقوق کا قانون، درج فہرست ذات اور قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ اور وِسل بلوئر پروٹیکشن ایکٹ فراہم کرکےکشمیر میں تعلیم کے حق کے قانون کے نفاذ کا کام کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 جنوری کو لال چوک پر ہر گھر پر ترنگا لہرایا گیا تھا۔ کشمیر میں 30 سال سے تھیٹر نہیں چل رہے تھے لیکن اب تین تھیٹر چل چکے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں کشمیر میں 100 فلموں کی شوٹنگ ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے لوگ اب سمجھ چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کی جڑ جواہر لال نہرو کی غلطیوں میں پنہاں ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے اس ملک سے وعدہ کیا تھا کہ کشمیر کے نوجوانوں کو کبھی بندوق اور پتھر ہاتھ میں نہیں لینا پڑے گا۔ ان کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اور کتابیں ہوں گی اور اب دہشت گردی سے پاک نیا کشمیر بننے کا آغاز ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک بنے گا تو کشمیر ملک کی تمام ریاستوں کے برابر ہو جائے گا اور دنیا بھر سے سیاح کشمیر کا رخ کریں گے۔
*************
ش ح۔س ب ۔م ش
(U-3412)
(Release ID: 1994449)
Visitor Counter : 167