نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
این آئی ٹی، ہمیر پور میں نائب صدرجمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
06 JAN 2024 7:05PM by PIB Delhi
مجھے موقع دینے کے لئے میں آپ سب کا ممنون ہوں کیونکہ ہمارے پاس وقت کی پابندی ہے۔ ہیلی کاپٹر صرف ایک مخصوص وقت تک ہی اڑان بھر سکتے ہیں لیکن آپ کے ساتھ رہنے کے لیے مجھے سڑک کا راستہ اختیار کرنے میں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
عملے کے ارکان کے تعاون کے بغیر کسی ادارے میں کچھ بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ میں نے دیکھا ہے، جب سے میں نے قدم رکھا ہے، وہ بہت ملنسار اور ہمدرد ہیں۔ ان کا مشکور ہوں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں آپ سب کی وجہ سے یہاں ہوں۔
میرے پیارے طلباء، تصور کیجئے کہ میرے سامنے کتنا مشکل کام ہے ۔ جناب انوراگ ٹھاکر نے کھیل کے میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جیسا کہ وہ پارلیمنٹ میں بھی کرتے ہیں۔
یہاں بھی، ان کی صلاحیت کی آئینی توثیق میں، اب میں مزید کیا کہوں؟
تو مجھے ایک غزل یاد آئی جس کایہ شعر مجھے بہت پسند ہے:
کتنے حصوں میں بنٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
ہم کہتے تھے کہ آسمان کی حد ہے۔ وزیر اعظم نے اس انداز میں کام کیا کہ آسمان کی کوئی حد نہیں ہے۔ اب، ہم آسمان سے آگے نکل چکے ہیں، اور آج کا دن بہت اچھا ہے۔ ہمارا آدتیہ ایل 1 سورج کے انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
میں آپ کے ادارے کے اس نعرے سے بہت متاثر ہوا ہوں، 'کڑی محنت کا کوئی متبادل نہیں' لیکن پھر آپ کے پاس ایک چیلنج ہے، 'مصنوعی ذہانت' اور اس لیے میں کچھ ایسے مسائل پر خطاب کروں گا جنھیں کسی دوسری جگہ بیان نہیں کر سکتا۔
میں اس صورت حال کے ساتھ پوری طرح گرفتار رہا ہوں کہ میں ان ذہین لوگوں کے سامنے ہوں جو سمجھدار، قابل اور اہل ہیں، جو ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے اس سطح پر ہیں جسے ہم تباہ کار ٹیکنالوجی کہتے ہیں اور جب تک ہم ان کا مقابلہ نہیں کرتے، ان پر قابو نہیں پاتے اور ریگولیٹ نہیں کرتے، تب تک وہ ایسا ہی کریں گے ۔
میں ڈائریکٹر اور جناب انوراگ ٹھاکر جی سے درخواست کروں گا۔ میں اس باوقار ادارے کے طلباء کو پارلیمنٹ میں اپنے مہمان بننے، پارلیمنٹ کی نئی عمارت، بھارت منڈپم، یشوبومی، وزیر اعظم میوزیم، اور انوراگ ٹھاکر جس کا مشورہ دیں ، دیکھنے کے لئے مدعو کروں گا۔
طلبا وطالبات ، بسمارک کہا کرتے تھے، 'تبدیلی کی ہوا چلنے دو'۔
جرمن بہت زیادہ باصلاحیت لوگ ہیں لیکن انہیں 2030 میں ایک دھچکا لگے گا۔ دھچکا بھارت کی شکل میں ہوگا جو ان کی معیشت کو پیچھے چھوڑ دے گا، اور ہم تیسری بڑی معیشت ہوں گے۔
میں آپ کو رکاوٹوں سے پرے دیکھنے کی تاکید کروں گا۔ ہمیں جغرافیائی حدود سے باہر دیکھنا چاہیے اور اسی لیے بسمارک کہتا ہے 'تبدیلی کی ہو ا کو چلنے دو'۔ اسی لئے عالمی امور کی ہندوستانی کونسل کا صدر ہونے کے ناطے میں اگلے ایک ماہ میں اس ادارے اور انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت کو متحرک کروں گا اور وہ مفاہمت نامے سے آپ کو دنیا کے بہترین ذہنوں میں سے کچھ یہاں آپ کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل بنائے گا اور شاید موقعوں پر انڈین کونسل برائے عالمی امور آپ کو دہلی میں سپرو ہاؤس میں مدعو کریں گے۔
موضوع، 'وکست بھارت @ 2047 میں نوجوانوں کا کردار'، اور لوکل دیو بھومی، دیوتا کی سرزمین، لہذا ہم اس پر توجہ دینے کے لیے بالکل مناسب ہیں۔ میں ان پیدل فوجیوں کے سامنے ہوں جو ہمارے خوابوں کو تعبیرآشنا کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ وہ یہ یقینی بنائیں گے کہ 2047 میں آزادی کی صد ی مکمل ہونے پر ببھارت کیسا ہوگا، کس شکل کا ہوگا ۔
میں تعلیم کی وجہ سے اس مقام تک پہنچا ہوں۔ میں گاؤں سے آیا ہوں۔ میں نے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ اگر اسکالرشپ نہ ہوتی تو میں شاید اپنے گاؤں سے آگے نہ جاپاتا اور اس لیے مجھے آپ سے یہ کہنے میں کوئی دقت نہیں ہے ، کہ تعلیم سب سے اہم تبدیلی کا مؤثر طریقہ کار ہے، تعلیم برابری لاتی ہے جیسا کہ کوئی دوسرا ادارہ نہیں کرسکتا، کوئی دوسرا اصول نہیں کرسکتا۔ تعلیم عدم مساوات کو ختم کرتی ہے جو ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اسے حاصل کر رہے ہیں۔ انسانیت کا 1/6 حصہ بہترین تعلیم کے ساتھ اس ملک میں رہتا ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ موقع ضائع نہ کریں۔
میرے نوجوان دوستو، آپ آئندہ کے بھارت کے معمار ہیں۔ میری عمر کے لوگ یہ دیکھنے کے لیے نہیں ہوں گے کہ بھارت 2047 میں کیسا ہو گا لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ میں سے ہر لڑکا اور لڑکی بھارت @2047 کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔
جب آبادیاتی فائدہ کی بات آتی ہے تو ہندوستان اس میں کامیاب ہے۔ ہماری 65 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر کے لوگوں کی ہے۔
اب ہمارے پاس آبادیاتی منافع کی وجہ سے امکانات ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں، 1980 اور 90 کی دہائیوں میں جن ممالک میں آبادیاتی فائدہ موجودتھا ، انہوں نے بہت اہم پیش رفت کی ہے۔
پیشرفت ہندسی، کفایتی اور بالکل غیر معمولی تھی۔ یہ ہندوستان کی صدی ہے۔ بھارت خود اپنے لئے پرفارم کرے گا، دنیا کے لئے کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔
ہم امرت کال میں ہیں۔ وزیر اعظم کی دور اندیش قیادت کی بدولت ہم یہ امرت کال حاصل کر سکے اور ہم سب اس سے باشعور ہو گئے۔ ہمارے پاس 5000 سال کی تہذیب ہے۔ ہماری اخلاقیات کو دیکھیں اور یہ کہ صورتحال کے پیش نظر، اقدامات کا ایک سلسلہ ہے جس نے ہمارے امرت کال کو گورو کال سے بھی بلند بنا دیا ہے۔
ایک نوجوان ذہین کے طور پر، میں آپ کو بتاتا چلوں، آپ میں فرق کرنے کی خواہش ضرور ہونی چاہیے۔ آپ کو علم کی پیاس ضرور ہے اور مجھ پر بھروسہ کریں کہ آپ کی تعلیم آپ کی ڈگری کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ آپ کی تعلیم پوری ہونی چاہیے۔ دریا میں بھی جب آپ کھڑے ہوتے ہیں تو فزکس سے وابستہ افراد کو یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ کے پاس قدم تال نہیں ہے تو آپ کے نیچے کی ریت چلی جائے گی اور آپ نیچے گر جائیں گے۔ اس لیے اسی مقام پر بنے رہنے کے لئے بھی آپ کو سیکھنا ہوگا اور آگے بڑھنے کے لیے آپ کو بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔
ہمارا ایک شاندار ماضی تھا، جو 5000 سال قدیم ہے جس کا دعویٰ بہت سے ممالک نہیں کر سکتے۔ میں کچھ ترقی یافتہ اور بہت زیادہ ترقی یافتہ ممالک کا حوالہ دے رہا ہوں۔ آج دنیا میں کوئی ا یسا علم نہیں ہے جس کی دنیا نشاندہی کر سکے، جس کا ذخیرہ ہمارے ویدوں اور اپنشدوں میں نہیں ہے۔ ہم ایک قدیم تہذیب ہیں جہاں پھلتی پھولتی تجارت دنیا کو کنٹرول کر رہی تھی، ہمیں سونے کی چڑیا کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اس ملک کا سونا سوئٹزرلینڈ کے دو بینکوں میں رکھنے کے لئے ہوائی راستے سے بھیجا گیا تھا، تاکہ ہم اپنے مالی استحکام اور اعتبار کو برقرار رکھ سکیں۔ اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ ایک ملین سے 2 ملین ڈالر کے درمیان اوپر نیچے ہو رہا تھا اور اب یہ 6 بلین سے زیادہ ہے اور ایسے ہفتے بھی آئے ہیں جب اچھال 4-5 بلین سے زیادہ رہا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو پوری کی گئی ہے۔
صدی کے ابتدائی حصے میں ہمیں ملک میں ناقابل تصور جہت کے گھوٹالوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اس ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا ، انہوں نے اس ملک کے ایکو سسٹم کو تباہ کر دیا، بدعنوانی پورے شباب پر تھی۔
2012-13 میں، ہماری معیشت کو دنیا میں "نازک" قرار دیا گیا تھا۔ ہم عالمی معیشت پر بوجھ تھے۔ تصور کریں کہ ایک ایسا ملک جہاں انسانیت کا 1/6 حصہ ہے عالمی معیشت پر بوجھ بن رہا ہے اور دیکھیں کہ ہم کہاں آگئے ہیں۔
ہم نے چیلنجوں سے بھرے دشوار گزار علاقے پر قابو پانے کے بعد اتنا طویل فاصلہ طے کیا ہے۔ ہم پہلے ہی پانچویں بڑی عالمی معیشت ہیں ہم امریکی ڈالر میں پانچ ٹریلین عالمی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہیں اور 2030 تک جیسا کہ محترم وزیر نے اشارہ کیا ہے، عالمی معیشت کے لحاظ سے جرمنی اور جاپان ہمارے پیچھے ہوں گے۔
لیکن تب ہمارا بینچ مارک سب سے اوپر ہونا نہیں ہے۔ ہمارا بینچ مارک اتنا اوپر ہونا ہے کہ دوسرا نمبر ہمارے پیچھے نظر نہ آئے اور یہی ہمارے لیے چیلنج ہے @2047۔
ایک وقت تھا جب دنیا میں بھارت کی آواز سنی نہیں جاتی تھی، نظر انداز کر دی جاتی تھی اور اقوام متحدہ میں بھارتی وزیر اعظم کے پہلے خطاب کو دیکھیں۔ وہ ہندی میں بات کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ یہ ادارہ کیسے کام کر سکتا ہے اگر انسانیت کا چھٹا حصہ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں رکھا گیا ہے اور پھر انھوں نے اقوام متحدہ کا استعمال کرکے پوری دنیا کو یہ اعلان کیا کہ یوگا ہیلتھ میکنزم جو سب کے لیے مفید ہے۔اس میں وہ سب ہے ، جو ہمارے پاس زمانوں سے رہتا آیا ہے- ان کی اپیل پر دنیا نے بین الاقوامی یوگا ڈے کے طور پر اپنایا۔ دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے مختصر وقت میں 21 جون کو بین الاقوامی یوگا ڈے کی شکل میں منظوری دی ۔
مجھے آپ کو G20 کی چار اہم چیزیں بتانی ضروری ہیں:
-
تصور کریں کہ تمام عالمی رہنماؤں کا وزیر اعظم نے استقبال کیا اور پیچھے کی طرف دیکھیں- کونارک سن ٹیمپل! وہ ایک گیلری میں سے گزرے جہاں انہوں نے ہندوستان کی 5000 سالہ تہذیب کی ترقی کی روایت کو دیکھا۔
-
بھارتی وزیر اعظم کی پہل سے یورپی یونین پہلے ہی جی 20 کا حصہ تھا۔ وزیر اعظم نے اسے ایک نقطہ بنایا اور افریقی یونین کو جی 20 میں شامل کر لیا گیا: کیا یکسانیت ہے!
-
گلوبل ساؤتھ کا تعاون عالمی مجموعی گھریلو پیداوار کا 60% سے زیادہ ہے لیکن آواز کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ ہمارے وزیر اعظم نے کامیاب پہل کی اور گلوبل ساؤتھ کی آواز بن گئے، اہم کانفرنسیں کیں اور اب ہمارے پاس دنیا میں ایک بہت ہی مستحکم عنصر ہے۔
-
ہمارے پاس اب ایک راہداری ہے، ہماری زمین سے ہمارے سمندر اور مشرق وسطیٰ تک جو پہلے سے ہی موجود ہے۔ یہ ہمارے لیے اقتصادی مواقع کے راستے کھول دے گی !
ہمارا آئین دفعہ 370 اور سخت دفعہ 35 اے سے دوچار تھاآئین سازوں نے اسے عبوری کہاتھا لیکن ملک نے اسے اس طرح جھیلا کہ مستقل ہوگیا ۔ آخرکار اسے کالعدم کر دیا گیا- ایک تاریخی قدم! اور تبدیلی دیکھو! جی 20 کا اہم ترین اجلاس سری نگر میں ہوا۔ عالمی رہنما وہاں موجود تھے۔ جموں و کشمیر میں اب ایک حد تک سیاحت ہے جو قابل ذکر ہے! سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کے ایک گروپ نے سوچا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں ہے- یہ غلط فہمی ختم ہو گئی ہے۔ ایک بڑی تبدیلی ہے ۔
نازک مسائل پر آپ کی خاموشی آپ کے کانوں میں گونجے گی کیونکہ جو لوگ طویل عرصے تک خاموشی اختیار کرتے ہیں جب انہیں بولنا چاہیے تھا وہ ہمیشہ کے لیے خاموشی کا شکار رہیں گے۔ بھارت ایسا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ عالمی استحکام اور امن اور خیر سگالی کا انحصار بھارت پر ہے۔
میں خواتین کی طاقت کو جانتا ہوں، ایک بہت بڑی طاقت۔ یہ میرے لیے ایک خوش کن لمحہ تھا جب مجھے کل قومی راجدھانی دہلی میں این سی سی پروگرام کے لیے مدعو کیا گیا۔ وہاں 39% لڑکیاں ہیں۔ جب ہم چندریان 3 کی بات کرتے ہیں تو ہم راکٹ خواتین کی بات کرتے ہیں، جب آپ فائٹر پائلٹ کی بات کرتے ہیں تو ہم خواتین کی بات کرتے ہیں۔ زندگی کا ہر وہ پہلو جس پر ہمیں فخر ہوتا ہے، اس میں خواتین کا تعاون بہت بڑا ہے۔ اگر آپ پوری دنیا کو دیکھیں تو عالمی کارپوریٹ سسٹم میں ہماری خواتین کی شرکت کو دیکھیں۔
ایک تشویش جس کو بہت مؤثر طریقے سے حل کیا گیا ہے وہ ہے کمرے میں آخری شخص کی تشویش۔ اپنے اندر سوچیں، کیا آپ کبھی سوچ سکتے ہیں کہ اس ملک میں ہر گھر میں بیت الخلاء ہوگا۔ ہمارے پاس یہ ہے۔ کیا آپ کبھی سوچ سکتے ہیں کہ 100 ملین غریب گھروں میں جہاں پھکنی مار کر ہماری ماں ، دادی ، نانی ، بہن ، بیٹی کھانا پکاتی تھیں آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ انھیں گیس کنکشن ملے گا ۔ کیا آپ کبھی سوچ سکتے ہیں کہ ہر گھر جل منصوبے تیارکرکے 250 ملین سے زیادہ گھر وں کو پانی مہیا کرایا گیا اور جہاں خواتین کی ملکیت ہے ان میں زیادہ تر گھر کامیاب ہوتے ہیں ؟ یہ بڑی تبدیلیاں ایک ہی سبب سے آئی ہیں: مضبوط قیادت، عمل پر مبنی قیادت، مناسب وژن، مکمل مشن، درست عمل درآمد، مہم کے ساتھ شرکت ۔
بچو اور بچیو، میں اب ایک بہت سنجیدہ بیان دے رہا ہوں اور یہ آپ کے استعمال کے لیے ہے تاکہ آپ اس کے لیے ایک تحریک پیدا کر سکیں، سب سے خطرناک چیز ایک باخبر ذہن، ایک تسلیم شدہ ذہن، ایک ایسا ذہن ہے جو کسی عہدہ پر فائز ہو چکا ہو۔ طاقت، ایک ایسا دماغ جس کو سب کچھ معلوم ہونا چاہیے، ایک ایسا دماغ جس میں لوگوں پر یہ یقین ہو کہ وہ کچھ بھی غلط نہیں کہہ سکتا، وہ اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے اور سیاسی فائدے کے لیے لوگوں کی جہالت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس قسم کے بیانیے کو ابتدائی مرحلے میں ہی کچل دینا چاہیے۔
میں آپ کو بتاتا چلوں جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں صرف بیک بینچ ہوتی ہے کئی بیک بنچر نہیں ہوتا ہے ۔ جو آخری صف میں ہوتے ہیں اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنے سامنے والے۔ پہل کریں اور قوم کے تعاون میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں۔
خلل ڈالنے والی ٹیکنالوجی، عام طلبہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن مجھ سے پہلے والے اس سے پریشان ہیں۔ آپ کو مصنوعی ذہانت، چیزوں کا انٹرنیٹ، مشین لرننگ پر توجہ دینی ہوگی اور اسی لیے آپ کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہندوستان سنگل ہندسوں میں ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے کوانٹم کمپیوٹنگ کے حوالے سے پہل کی ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ کمیشن کے لیے 6000 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
گرین ہائیڈروجن مشن میں ہم دنیا کے ان سات ممالک میں سے ایک ہیں جو اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں وسیع امکانات ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2030 تک توانائی میں 8 لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری اور 6 لاکھ ملازمتیں ہو سکتی ہیں۔ مشین لرننگ پر توجہ مرکوز کریں، یہ بہت اہم ہے !
حکمرانی کو سہولت آمیز بنانے کے لئے ، ہم نے 15 اگست 1947 کواپنی تقدیر کے ساتھ جوڑ لیا، لیکن جب جی ایس ٹی نظام لاگو کرنے کی بات آئی تو آدھی رات کو پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا۔ جدت کے ساتھ ایک ملاقات اشیا وخدمات ٹیکس اچھا اور آسان ٹیکس بن گیا ۔ہر کوئی خوش ہے اب ہمیں وہ تبدیلی لانی ہے جو ملک کے لیے بہترہو۔
میں اس پلیٹ فارم کا استعمال کارپوریٹ لیڈروں، بزنس ٹائیکونز، صنعتوں، چیمبر آف انڈسٹری، کاروبار اور تجارت میں مصروف لوگوں کو پیغام بھیجنے کے لیے کرتا ہوں: براہ کرم اداروں کو سنبھالیں ! تحقیق اور ترقی صرف دنیا کے کارپوریٹس کے ذریعہ چلتی ہے جہاں ممالک ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ آپ کو ہمارے اداروں پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے! ہمارے ادارے، ہمارے بچے اور بچیوں میں دوسروں کے مقابلے بہت زیادہ صلاحیت اور ذہانت ہے ! اگر ادارے کے باہر ذہانت دستیاب ہے تو یہ ہندوستانی جزو کی وجہ سے ہے۔
*****
U.No:3345
ش ح۔ج ق۔س ا
(Release ID: 1993934)
Visitor Counter : 100