نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

پنجاب یونیورسٹی کی گلوبل ایلومنائی سمٹ 2023 میں نائب صدر کی تقریر کا متن (اقتباسات(

Posted On: 23 DEC 2023 5:26PM by PIB Delhi

سب کو نمسکار!

ہمیں اس ملک میں بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمارےبھارت میں وہ تبدیلیاں آرہی ہے جو  پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ خواتین و حضرات، میں 1989 میں ممبر پارلیمنٹ تھا۔ میں مرکزی وزیر تھا۔ حکومت میں رہتے ہوئے مجھے یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ جس ہندوستان کو ہم سونے کی چڑیا کہتے تھے اس ہندوستان کاسونا ہوائی جہاز سے بھارت کے باہر گیا اور سوئٹزر لینڈ کے دو بینکوں میں جمع کردیا گیا۔

اب دیکھو ہم کہاں ہیں! ایک بلین، دو بلین(امریکی ڈالر غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر) کے درمیان اس وقت ہم اتار چڑھاؤ کر تے  رہتے تھے۔ اب ہمارے یہ ذخائر 600 بلین  امریکی ڈالر  سے زیادہ  ہیں۔

اسرو کے چیئرمین کے ساتھ بامعنی بات چیت ہوئی۔

 سال 1960 میں ہمارا اپنا سیٹلائٹ کسی دوسرے ملک کے پیڈ سے لانچ کیا گیا تھا اور ہمارے پڑوسی پاکستان نے اپنی سرزمین سے یہ کام کیا تھا لیکن اب چاہے وہ امریکہ ہو، برطانیہ ہو یا سنگاپور، ہم نے ان کے سیٹلائٹ لانچ کیے ہیں۔ یہ وہ ترقی ہے جو ہندوستان نے حاصل کی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کی شاندار تاریخ ہے۔ اس میں اس  مقام سے بہت آگے جانے کی صلاحیت ہے جہاں یہ  آج  موجود ہے۔ اس کمرے میں موجود  ہم سب  لوگوں کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں ۔ اگر ہم نے عزم کر لیا تو مجھ پر بھروسہ کریں، پنجاب یونیورسٹی عالمی اُفق کی صف اول کی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہوگی۔ ہمیں اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مجھے کچھ اعلیٰ قابل شخصیات کی صحبت میں رہنا بہت خوشی کا باعث ہے، جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف شعبوں میں اپنی شناخت بنائی ہے اور وہ پنجاب یونیورسٹی کی شاندار میراث کو لے کر چل رہے ہیں، یہی سب کو ایک ساتھ باندھے رکھنے والی ڈور ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے سابقہ طلباء نے عالمی سطح پر ہر شعبے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں سابق طلباء کا نام نہیں لے سکتا،  کیونکہ ان میں سے کچھ کے نام میں مجھے یاد نہیں آپائیں گے۔ وہ ملک کے صدر، ملک کے نائب صدر، ملک کے وزیر اعظم، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، ججز، سائنسدان،  ایک بڑی تعداد میں سینئر بیوروکریٹس، کاروباری شخصیات رہے ہیں۔

اب ایسی یونیورسٹیاں جس کے پاس سابق طلباء کی طاقت،  ذہن  سابق طلباء  کا بے مثال ذخیرہ ہے، آج کہاں ہیں؟ ہمارے پاس  سابق طلباء  کے ذریعہ تیار کردہ دستاویزی ذخیرہ  کیوں نہیں ہونا چاہئے جو عالمی اداروں کے لئے قابل رشک ہوسکتا ہے؟ اس یونیورسٹی کے سابق طلباء  حالات کے توازن کےمطابق  کارکردگی کا مظاہرہ  کیوں نہیں کر سکتے؟

امریکہ کی ایک یونیورسٹی جہاں ہمارے ملک کے لوگ موجود ہیں ، وہاں  صرف ہمارے ملک کے طالب علم ہی ایسے ہیں جو  اپنے ہی ملک کا  مذاق اڑاتے ہیں۔  ایسا کوئی اور نہیں کرتا۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی انہیں آئینہ دکھائے۔ یہ صرف سابق طلباء  ایسوسی ایشنز ہی کر سکتی ہیں۔

ہماری قومی تعلیمی پالیسی تین دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد تمام شراکت داروں کی رائے لینے کے بعد تیار کی گئی۔ ریاست مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے میں ان میں سے ایک تھا۔ میں نے ہر ماہر تعلیم سے معلومات حاصل کیں اور اس  طریقے سے  ہم نے ایک ایسا طریقہ کار تیار کیا جو طالب علم کو مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔

جب مطالعہ کی بات آتی ہے تو ہم نہر کے پانی کی طرح  ساکت نظام پر یقین نہیں کر سکتے، اسے دریا ہونا چاہیے۔ انسانی ذہن کو دریا کی طرح بہنے دو۔ ہم  اس بات کا سراغ لگا  سکتے ہیں کہ یہ  پر پیچ  راستہ  کیوں اختیار کیاجارہا  ہے؟  اس کے دائرے کا ر میں زمین کا بہت بڑا رقبہ آ رہا ہے لیکن جب آپ سائنسی طور پر جائزہ لیں گے  تو دیکھیں گے کہ یہ اردگرد کی زمین کی پرورش کرتا ہے۔ تہذیب دنیا میں کسی نہر کے آس پاس نہیں آئی، تہذیبیں پھلی پھولیں، اور ان کی ترقی صرف دریاؤں کے آس پاس ہوئی۔ ہمارے نوجوان اثر پذیر ذہنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔

ہمیں فخر ہے کہ قدیم  ہندوستان  میں متعدد یونیورسٹیاں تھیں- نالندہ، تکشیلا اور ان کی ایک اچھی خاصی تعداد۔ اس سطح کے عالمی ادارے  تیار کرنے سے ہمیں کیا چیز  روکتی ہے اور پنجاب یونیورسٹی وہ ہے جو اس سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ  سطح سینیٹ یا سنڈیکیٹ یا حکومت یا وائس چانسلر کے زور پر نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ کامیابی صرف سابق طلباء کی شرکت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

یونیورسٹی کی طاقت انفرااسٹرکچر میں نہیں ہے۔ ان دنوں صنعتیں انفرااسٹرکچر بناتی ہیں۔ وہ تعلیم اور صحت کے کاروبار میں لگ گئے ہیں۔ آزاد ہندوستان سے پہلے، تعلیم اور صحت دونوں کو  ایک  خدمت کے طور پر تصور کیاجاتا تھا۔ اب یہ صنعت و تجارت بن چکی ہے۔ لیکن یونیورسٹی کی پہچان اس کی فیکلٹی اور اس کے سابق طلباء سے ہوتی ہے۔ میں یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اگر اس ملک کی کسی بھی یونیورسٹی کا کوئی معروضی تجزیہ کیا جائے تو پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالب علم پہلے نمبر پر آئیں گے اور اس لیے مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق طلباء  یونیورسٹی کو عالمی سطح تک لے جانے کا یہ کام یقینی طور پر کر سکتے ہیں۔

ایک پلیٹ فارم پر ہونے کا وقت آگیا ہے۔ سابق طلباء  کا ایک پلیٹ فارم پر ہونا ضروری ہے اور سابق طلباء کو  پورے ہندوستان کی نمائندگی اور عالمی نمائندگی ملنی چاہیے۔ جس  لمحہ میں  یہ صورت حال پیدا ہوجائے  گی  تو اس کے نتیجے میں  ایک بڑی تبدیلی آئے گی جو یہاں پڑھنے والے طلباء کے لیے کئی مثبت حالات پیدا کرے گی۔

عالمی شہرت کی چند عالمی یونیورسٹیاں، میں ان کا نام نہیں لوں گا، ان کی ساکھ سابق طلباء  کے زور پر پروان چڑھتی ہے۔ ان کے مالی ذخائر کا تعین  سابق طلباء کی  شراکت سے ہوتا ہے۔ اب اس بات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی  کہ  ایک فرد زیادہ حصہ ڈالتا ہے اور دوسرا تھوڑا سا حصہ ڈالتا ہے۔ وہ بے معنی ہے۔  اصل  نظریہ  ہے کہ ہم کیسے ایک دوسرے کے ساتھ  جڑتے ہیں۔

میں کسی امریکی یونیورسٹی کا نام نہیں بتانا چاہتا لیکن کوئی بھی ہندوستانی جس نے اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے عملی طور پر یہ عہد کرتا ہے کہ میں ہر مہینے اتنا  تعاون پیش کروں گا۔  مجھے اس بات سے دلی  تکلیف  پہنچی  جب میں نے دیکھا کہ 2009 میں ہندوستانی حکومت نے امریکہ میں ایک غیر ملکی یونیورسٹی کو 5 ملین امریکی ڈالر کا تعاون کیا، کس لیے؟ کیا ہمارے یہاں اتنی یونیورسٹیاں نہیں ہیں کہ وہ پروان چڑھ سکیں؟ ایک بڑے صنعتی گھرانے نے 50 ملین امریکی ڈالر کا عطیہ دیا۔ میں اس کے خلاف نہیں ہوں۔ آپ وہی کرتے ہیں جو آپ کو  مناسب لگتا ہے لیکن اپنے ہوم گراؤنڈ کو نظر انداز نہ کریں۔ ہمیں اس کے لیے انتہائی باخبر اور حساس ہونے کی ضرورت ہے۔

غیر ملکی یونیورسٹیوں نے ممبئی جیسی جگہوں پر اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں۔  سابق طلباء  کا طبقہ  صنعت اور کاروبار کو بھی حساس بنا سکتا ہے کیونکہ آپ کلیدی عہدوں پر ہیں۔ پھر پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والے کو یہ تاثر ملے گا کہ ہاں میرے حقیقی سرپرست میرے  سابق طلبا ء  ہیں۔ اگر میں اپنے اندر کوئی استعداد رکھتا ہوں ، میں اچھی تعلیم حاصل کرتا ہوں تو میری تقرری میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ یہ یقین دہانی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والے ہر لڑکے اور لڑکی کے لیے ہو گی۔ ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنےکی ضرورت ہے۔

مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس ملک میں دانشورانہ  تجربوں کے امتزاج کا، مختلف اداروں کے  سابق طلباء  کی نمائش کا وقت آگیا ہے۔ ہمارے پاس آئی آئی ایم ہے، ہمارے پاس آئی آئی ٹی ہے، ہمارے پاس سائنس کے ادارے ہیں، کئی یونیورسٹیاں ہیں - فارنسک، پیٹرولیم۔ ہمارے پاس اہم کالج ہیں۔ اب اگر ان اداروں کے ایلومینی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں تو ایسی پالیسیاں بنانے میں مدد کریں گے جو آنکھیں کھولنے والی ہوں گی۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ ہندوستان نے کون سی تبدیلی حاصل کی ہے۔ ایک مثال لے لیں، 3 دہائیوں کی زبردست جدوجہد اور ناکامی کے بعد، وزیر اعظم اس وقت اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں جب لوک سبھا اور ریاستی مقننہ میں خواتین کو ایک تہائی کی حد تک ریزرویشن حاصل ہو۔ یہ عمودی اور افقی ہے۔ لہذا  درج فہرست قبائل (شیڈولڈ ٹرائب) کوٹہ میں سے ایک تہائی اور درج فہرست ذات ( شیڈول کاسٹ) کوٹہ میں سے ایک تہائی بھی ہوگا۔ کیا ایک عظیم مساوی صورتحال ہو سکتی ہے؟

میں ایک گاؤں سے تعلق رکھتاہوں اور ان عورتوں کی حالت زار کا تصور کرسکتا ہوں جنہیں طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد جانا تھا۔ اب ہر گھر میں بیت الخلا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ان خواتین کے لیے گیس کنکشن کتنی بڑی راحت ہے جو ہمارے لیے کھانا پکاتی تھیں ہمیں کھانا کھلاتی تھیں۔ ، اور خیال رہے کہ 100 ملین گیس کنکشن یا اس سے زیادہ ضرورت مندوں کو مفت دیا گیا ہے، یہ کوئی آسان  کام نہیں ہے۔

میں جو تجویز کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہندوستان کے ارد گرد  کا منظر نامہ  بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ ہندوستان بدل رہا ہے کیونکہ کوئی دوسرا ملک نہیں بدل رہا ہے لیکن ہندوستان کی زبردست پیش رفت ( کوانٹم لیپ) اس کی یونیورسٹیوں سے ہی سامنے آئے گی۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ آج اس بات کاعہد کریں  کہ آپ کے پاس شراکت کا ایک منظم طریقہ کار ہوگا۔ مالیاتی شراکت شراکت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، اگرچہ بہت اہم ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ شراکت 3.5 کروڑ کم ہے۔ یہ بہت اہم ہے، کسی کا تعاون دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں یہ  اس لئےبھی کہہ رہا ہوں کیونکہ میں بھی وکیل ہوں  اور کہاجاتا ہے کہ  وکیل تو  تعاون نہیں دیتا۔

اس دن ،جو ہم سب کے لیے اہم ہے میں جو کچھ تجویز کرتا ہوں ، وہ یہ ہے  کہ  ایک تھنک ٹینک ہونا چاہیے، عملدرآمد کے لیے ایک کاغذی تحریر ہونا چاہیے۔ آپ اسے دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں، پھر آپ کے پاس ایک طریقہ کار ہو گا کہ کیا شامل کیا جا سکتا ہے، تقرری کیسے ہو سکتی ہے، ہم کس طرح ان لوگوں کی دست گری کر سکتے ہیں جنہیں مالی امداد کی ضرورت ہے؟

اس عالمی  اجلاس کو  مشن کے ساتھ نئے سرے سے شروع  کیاجانا چاہئے..  اس کے پاس عمل درآمد کی دستاویز  موجود ہونی چاہئے ، جوش  وخروش کے ساتھ تبدیلی لائی جانی چاہئے ، اس طرح آپ کو اطمینان حاصل ہوگا۔ مجھ پر بھروسہ کریں، انسانی وسائل کی نگہداشت  اور  پرورش سے بڑھ کر کوئی اطمینان  بخش کام نہیں ہو سکتا۔ آپ کی  مادر علمی ( الما میٹر)  کی نگہداشت    کرنے کے عمل  سے بڑھ کر ہمارے لئے  کوئی چیز باعث  اطمینان نہیں ہو سکتی جس نے آپ کو آج  اس مقام پر پہنچایا ہے  جہاں آپ آج ہیں ۔

آپ پوری دنیا کو دیکھیں، نام نہاد ترقی یافتہ دنیا، تحقیق کو کارپوریٹس کی طرف سے فنڈ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہو رہا۔ ہمیں ایک ماحولیاتی نظام تیار کرنا ہے کہ کارپوریٹس مقناطیسی طور پر اس کی طرف راغب ہوں۔ مجھے پنجاب یونیورسٹی کے سابق طلباء کی صلاحیت پر کوئی شک نہیں ہے۔ ان کے پاس پنجاب یونیورسٹی کے لیے آپ بڑے نتائج  فراہم کرسکیں ، اس میں مدد کرنے کی استعداد، صلاحیت، تجربہ اور نمائش ہے۔

اس یونیورسٹی کو بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے بات کو طول نہیں دینا  چاہئے، لیکن میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ بعض  معاملات میں، ہم عالمی یونیورسٹیوں کے ساتھ برابری کی حیثیت سے آگے بڑھ رہے  ہیں، اور ان معاملات میں  تحقیق ہے: جدید ترین  ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، چیزوں کا انٹرنیٹ شامل ہیں۔ ذرا مشین لرننگ کا تصور کریں۔ ہم لغوی  بحث میں نہیں  پڑنا چاہتے ۔ مشین لرننگ کیا ہے؟ ہم 5جی  کے تناظر میں 6 جی  بات کرتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس آپ کے ہاتھ میں ایک موبائل فون ہے۔ 6جی  بہت مختلف ہے۔ یہ ان تمام مسائل پر ہندسی  معلومات فراہم  کرے گا۔ سابق طلباء  کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ وہ یہاں ایک  انتظامی  مرکز تشکیل دے  سکتے ہیں۔ لڑکے اس میں  دلچسپی کااظہار کریں  گے، اور پنجاب یونیورسٹی کے ایک زمینی سپاہی کی حیثیت سے، بطور چانسلر، مجھے اپنا  کردار ادا کرتے ہوئے  واقعی خوشی اور مسرت ہوگی۔

 میں جو کچھ کہناچاہتا ہوں وہ یہ ہے: کہ آپ کوئی  گروپ  بنائے یا بہت سے  گروپ بنائے ۔ مجھے پنجاب یونیورسٹی کے ایک ایجنڈے کے ساتھ سابق طلباء کا استقبال کرتے ہوئے خوشی ہوگی کہ وہ مجھ سے ان کی سہولت کے مطابق، جس حد تک میں اپنے دونوں دفاتر میں ممکن سمجھتا ہوں، بات چیت کریں، اور  غورو خوض کریں ...  اس طرح ہم آگے بڑھیں گے،

ہمیں ایک ایسا کلچر پیدا کرنا ہے  کہ جہاں  ہر کوئی مقناطیسی طور پر  مادر علمی (الما میٹر)  کی طرف ایسے ہی  متوجہ ہو جیسے بچہ ماں کی طرف راغب ہوتا ہے۔

*************

( ش ح ۔ س ب۔ رض (

U. No.2964


(Release ID: 1990378) Visitor Counter : 146


Read this release in: English , Hindi , Punjabi , Tamil