زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

کاشتکاری میں خواتین کا کردار

Posted On: 05 DEC 2023 5:56PM by PIB Delhi

             حکومت ہند 20-2019 سے بھارتیہ پرکرتک کرشی پدھتی (بی پی کے پی) کے تحت قدرتی کھیتی کو فروغ دے رہی ہے، جو پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا (پی کے وی وائی) کی ذیلی اسکیم ہے۔ قدرتی کاشتکاری کی طاقت اور کچھ ریاستوں میں حاصل کی گئی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے، بی پی کے پی کو مشن موڈ میں ’’قدرتی کاشتکاری کا قومی مشن‘‘ (این ایم این ایف) کے طور پر الگ اسکیم کی شکل میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ این ایم این ایف کے نفاذ بشمول ما قبل پیداوار، پیداوار اور مابعد پیداوار کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی، کمیونٹی پر مبنی تنظیموں یعنی خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) اور ان کی انجمنوں – کرشی سکھیوں، پشو سکھیوں وغیرہ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ یہ ایجنسیاں بائیو ان پٹ ریسورس سینٹرز کے قیام اور/یا آپریشن کے لیے بھی مثالی انتخاب ہو سکتی ہیں اور مشن کے نفاذ کے لیے مختلف مرکزی اداروں کی توسیعی شاخوں کے طور پر بھی کام کر سکتی ہیں۔

زرعی توسیعی خدمات میں صنفی فرق کو دور کرنے کے لیے، ’’سپورٹ ٹو اسٹیٹ ایکسٹینشن پروگرام فار ایکسٹینشن ریفارمز‘‘ کے تحت جسے زرعی ٹیکنالوجی مینجمنٹ ایجنسی (اے ٹی ایم اے) کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک مرکزی امداد یافتہ اسکیم نے کاشتکاری میں خواتین کے لیے مناسب انتظامات کیے ہیں۔ اے ٹی ایم اے کے رہنما خطوط کے مطابق، خواتین کے فوڈ سیکورٹی گروپس کو فروغ دیا جاتا ہے۔ گھریلو خوراک اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے، ہر سال کم از کم 2 فی بلاک پر فارم ویمنز فوڈ سیکورٹی گروپس (ایف ایس جی) بنائے جائیں گے۔ ان ایف ایس جیز کو تربیت، اشاعت اور ان پٹس تک رسائی کے لیے 10000 روپے فی گروپ کے حساب سے مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یہ ایف ایس جی کچن گارڈن، گھر کے پچھلے حصہ میں مرغ پروری، بکری، مویشی پروری اور ڈیری، مشروم کی کاشت وغیرہ کے ذریعے ’’ماڈل فوڈ سیکورٹی ہب‘‘ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ نیز اے ٹی ایم اے کے رہنما خطوط کے مطابق، 30 فیصد مستفیدین خواتین کاشتکار/کاشتکار خواتین ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ، رہنما خطوط (i) 4.1.4 کے تحت پروگراموں اور سرگرمیوں کے لیے کم از کم 30 فیصد وسائل خواتین کاشتکاروں اور خواتین توسیعی کارکنان کے لیے مختص کیے جانے کی ضرورت ہے۔ رہنما خطوط کے مطابق، اے ٹی ایم اے کی گورننگ باڈی میں، اس طرح نامزد کیے گئے غیر سرکاری اراکین میں سے، ایک تہائی خواتین کسان ہوں گی۔ اس کے علاوہ، بلاک فارمر ایڈوائزری کمیٹی (بی ایف اے سی) اور اسٹیٹ فارمرز ایڈوائزری کمیٹی (ایس ایف اے سی) میں ترقی پسند کسانوں میں خواتین کے طور پر کم از کم ایک تہائی ممبران ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ فارمرز ایڈوائزری کمیٹی (ڈی ایف اے سی) کو بھی خواتین کو مناسب نمائندگی دینی چاہیے۔ اے ٹی ایم اے کے تحت صنفی معاون کار خواتین کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے درج ذیل کام انجام دے گا۔

  • خواتین کسانوں کو تمام اسکیموں کے تحت فوائد کی فراہمی کو یقینی بنانا
  • صنفی تفریق کے اعداد و شمار کا مجموعہ، اور اہم توجہ والے علاقوں میں مطالعہ اور کارروائی کی تحقیق کا کام
  • کاشتکار خواتین کے فوڈ سیکورٹی گروپس کو فروغ دینا اور تربیتی ماڈیول تیار کرنا تاکہ گھریلو غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
  • زراعت میں خواتین سے متعلق بہترین طور طریقوں/کامیابی کی کہانیاں/ شراکتی مواد کو دستاویزی شکل دینا
  • بلاک وار دستاویزات، ترجیح اور زراعت اور تمام متعلقہ شعبوں میں کاشتکار خواتین کی ضروریات اور تقاضوں کا پتہ لگانا
  • جنس سے متعلق معلومات کے لیے ریاستی معاون کار کو رپورٹ کریں گے۔

اے ٹی ایم اے کے تحت اختراعی سرگرمیوں کی حمایت کے لیے دیہاتوں میں خواتین کو کسان دوست کے طور پر بھی کام کرنے والی سمجھا جاتا ہے۔ زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی وزارت کے ایگری کلینکس اور ایگری بزنس سنٹرز (اے سی اور اے بی سی) کی مرکزی امداد یافتہ اسکیم کے تحت خواتین مستفیدین کو  44 فیصد سبسڈی مل رہی ہے، جب کہ دیگر کو 36 فیصد سبسڈی ملے گی۔

یہ معلومات زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے آج لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں دی۔

ضمیمہ

*****

ش ح – ق ت – س ا

U: 1836



(Release ID: 1982893) Visitor Counter : 47


Read this release in: English , Telugu