نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

سپریم کورٹ میں گلوبل ساؤتھ میں انصاف تک رسائی سے متعلق پہلی علاقائی کانفرنس میں نائب صدر کی تقریر کا متن

Posted On: 27 NOV 2023 1:16PM by PIB Delhi

معزز مہمانان، قانونی ماہرین، پالیسی ساز اورمقصد کےتئیں پابند عہدافراد،

 ‘‘کمزور لوگوں کی معیاری قانونی امداد تک رسائی کو یقینی بنانا: گلوبل ساؤتھ کے لیے چیلنجز اور مواقع’’ کے موضوع پر پہلی علاقائی کانفرنس کا حصہ بننا اعزاز کی بات ہے۔ اس کانفرنس کا موضوع ہمارے مقصد اور اجتماعی کوشش کے جوہر کی عکاسی کرتا ہے۔ حصص داروں کی ہم آہنگی، عصری مطابقت کے ان اہم مسائل پر غور کرنے کے لیے مناسب اور بروقت ہے، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے لیے۔

ایک طرح سے، کانفرنس کا تھیم وزیراعظم جناب نریندر مودی کی طرف سے گلوبل ساؤتھ کے لیے اٹھائے گئے بصیرت انگیز اقدامات کی تکمیل کرتا ہے۔

2023 میں جی20 کی ہندوستان کی صدارت کے دوران، وزیر اعظم جناب نریندر مودی گلوبل ساؤتھ کے لیے ایک سرکردہ آواز کے طور پر ابھرے، جنہوں نے عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک کے مفادات کو واضح اور مؤثر طریقے سے بیان کیا۔

وزیر اعظم مودی نے ماحولیاتی تبدیلی، پائیدار ترقی اور ڈیجیٹل انقلاب جیسے مسائل پر روشنی ڈالی، جامع اور مبنی بر انصاف حل کی ضرورت پر زور دیا جو ترقی پذیر ممالک بشمول گلوبل ساؤتھ کو درپیش منفرد چیلنجوں سے نمٹ سکتے ہیں۔

یہ کانفرنس، جس کا اہتمام نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی آف انڈیا نے انٹرنیشنل لیگل فاؤنڈیشن، یو این ڈی پی اور یونیسیف کے تعاون سے کیا ہے، سب کے لیے انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک اجتماعی راستہ بنانے کا ایک منفرد موقع پیش کرتی ہے، ایک بنیادی انسانی حق جو  طویل عرصے سے ایک منصفانہ اور غیرجانبدار  معاشرے کی بنیاد رہا ہے۔

چیف جسٹس چندرچوڑ قانونی امداد کی دستیابی اور انصاف تک آسان رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مشن موڈ میں ہیں، خاص طور پر پسماندہ لوگوں تک  انصاف کی رسائی کے لیے۔

چیف جسٹس چندر چوڑ نے گزشتہ ایک سال کے دوران عوام پر مبنی اور کاز پر مبنی مثبت اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے، جو معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے قانونی امداد اور انصاف کے نظام تک ان کی آسان رسائی کو فروغ دینے میں انقلابی ثابت ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس چندر چوڑ کی قیادت میں آئندہ گول میز کانفرنس نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ انصاف کی فراہمی میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے ان کا اختراعی نقطہ نظر انقلابی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ معزز گروپ قابل قدر بصیرت حاصل کرے گا اور اس سے بے پناہ فائدہ اٹھائے گا۔

آج ہم، سب کے لیے انصاف کے حصول میں ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ بلاشبہ، بنیادی انسانی اقدار کی آبیاری اور پرورش  اور مساوی معاشرے کی تعمیر کے لیے قانونی امداد اور انصاف کے نظام تک عالمی رسائی ضروری ہے۔

ایسے ماحولیاتی نظام کی ترقی سے عالمی نظم و نسق اور انسانیت کی بھلائی کو فروغ ملے گا۔ ہندوستانی آئین کے تمہید ‘‘ہم ہندوستان کے لوگ’’ کا شاندار اعلان ایک جامع دستاویز کے جوہر اور روح کی عکاسی کرتا ہے جس کا مقصد پس منظر، حالات یا سماجی حیثیت کے امتیاز کے بغیر ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

ہمارا آئین قانون کے سامنے برابری اور قانون کے مساوی تحفظ کے اصولوں کو قائم کرتا ہے۔ یہ دفعات ایک منصفانہ اور مبنی برانصاف معاشرے کی بنیاد کے لازم و ملزوم پہلو کے طور پر کام کرتی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 32 میں دی گئی شق، بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ہر فرد کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حق، کو ڈاکٹر بی آر پر امبیڈکر نے  واضح طور ‘‘آئین کی روح’’ قرار دیا ہے۔

تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے،نالسا (این اے ایل ایس اے) ہندوستان کی پسماندہ برادریوں کے لیے جامع اور سستی قانونی امداد کے ایک آئیکن کے طور پر موجود  ہے۔ نالسا (این اے ایل ایس اے)کی متعدد کوششوں نے انصاف تک رسائی کو یقینی بنایا ہے، خاص طور پر 50 لاکھ سے زیادہ ٹیلی قانونی مشاورتوں کے توسط سے  قانونی خدمات اور ضرورت مندوں کے درمیان کے فرق کو ختم کیا ہے جو انصاف تک رسائی کے لیے ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانے کے تئیں اس کی عہدبستگی کو ظاہر کرتا ہے۔

جسٹس کول کی قیادت میں، نالسا (این اے ایل ایس اے) ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لیے انتھک محنت کر رہا ہے جہاں انصاف سب کا بنیادی حق ہو۔ انصاف کی فراہمی کا نالسا (این اے ایل ایس اے) ماڈل گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لیے قابل تقلید ہے۔

ہندوستانی پارلیمنٹ، جس کا میں راجیہ سبھا کے چیئرمین  ہونے کے ناطے ، ایک حصہ ہوں ،نے آئینی وعدوں کو ٹھوس حقیقتوں میں بدلنے کی اپنی  غیرمتزلزل عہدبستگی کے  ضمن میں قانونی اصلاح، ثالثی کو فروغ  دینے، ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والے پرانے  قوانین کو منسوخ  کرنے اور  عصری چیلنجوں کا ازالہ کرنے والے نئے قوانین بنانے کا سفر شروع کیا ہے۔

ہندوستان کی ثقافت کا اعلان ‘واسودھیو کٹمبکم’ کے تصور میں گہرا پن ہے۔ ‘‘ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل’’ نے اس کی خارجہ پالیسی اور گلوبل ساؤتھ کے ساتھ اس کے معاملات کو تشکیل دیا ہے۔

ہندوستان مستقل طور پر تمام ممالک کے حقوق اور خواہشات کے لیے ایک مشعل بردار اور جنگجو کے طور پر کھڑا رہا ہے، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے نوجوان اور نئے آزاد ممالک کے حقوق اور خواہشات کے لیے۔

یہ عزم، ناوابستہ تحریک میں ہندوستان کی قیادت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے اس کے مسلسل مطالبے اور جی20 میں افریقی یونین کی حالیہ شمولیت میں اس کے اہم کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔

اقوام کے متنوع منظر نامے کو پیش نظر رکھتے ہوئے گلوبل ساؤتھ  کی  معیاری قانونی امداد تک رسائی کو یقینی بنانے میں غیرمعمولی  چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ غربت، جغرافیائی دور درازیت، ثقافتی رکاوٹیں، اور ایک پیچیدہ قانونی نظام انصاف کے متلاشی افراد کے لیے اکثر ناقابل تسخیر رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔

پھر بھی ان چیلنجوں کے درمیان، قانونی امداد کے مقصد کو آگے بڑھانے کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں ضرورت مندوں کے لیے سرنگ کے دوسری طرف روشنی کو یقینی بنانے پر غور کیا جائے گا۔ آج جو بحث میں نے دیکھی ہے اس کی بنیاد پر مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سرنگ جلد ختم ہو جائے گی اور نظام عدل اور قانونی امداد کا روشن سورج وہاں نظر آئے گا۔

جیسے جیسے گلوبل ساؤتھ ایک روشن مستقبل کی طرف اپنا سفر شروع کر رہا ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے نوآبادیاتی ماضی کی بیڑیاں اتار دیں اور ان تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے مل کر کام کریں جنہوں نے ناانصافی اور عدم مساوات کو دوام بخشا ہے۔ درحقیقت یہ ایک عام خطرہ ہے۔ نوآبادیاتی قانونی حکومت کی وراثت ان ممالک کے معاشرے کے کمزور طبقات پر ایک بوجھ رہی ہے، جس کا مقصد مقامی آبادی کے لیے بہت سخت اور استحصالی ہونا تھا۔

خودمختار اقوام کے طور پر، گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو فرسودہ نوآبادیاتی قوانین پر نظرثانی کرنے پر غور کرنا چاہیے جو مقامی آبادی کے خلاف تعصب برتتے ہیں۔ ہمارا ملک اس عمل میں ہے اور ایسے قوانین پارلیمنٹ کے زیر غور ہیں جو ہمارے نقطہ نظر میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائیں گے اور اس موڑ کو مکمل طور پر کنٹرول کر کے ہم طریقہ کار اور تعزیری اصولوں میں ان استحصالی دفعات کو ختم کر دیں گے۔

بہترین طور طریقوں کا اشتراک، تعاون کو فروغ دینا اور مقامی مہارت سے فائدہ اٹھانا پورے خطے میں قانونی امداد کی خدمات کی فراہمی کو مضبوط بنانے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔

اس ملک سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے اس لیے کہ ہم ایک متنوع ملک ہیں جس میں مختلف خطوں، مختلف ثقافتوں، مختلف زبانوں اور قانونی امداد تک رسائی ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت عدلیہ میں ہمارے پاس جو لیڈر ہیں وہ یہ سب دیکھ رہے ہیں اور یہ بہت ہموار طریقے سے ہو رہا ہے۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لیے اچھا ہو گا کہ وہ ان شعبوں میں ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا باریک بینی سے مطالعہ کریں اور انہیں اپنے حالات کے مطابق ڈھال کر اپنے ممالک میں نافذ کریں۔

جی20 کی ہندوستان کی صدارت، گلوبل ساؤتھ کے ممالک میں ڈیجیٹل پبلک انفرااسٹرکچر کے نفاذ میں مدد کے لیے سوشل امپیکٹ فنڈ میں 25 ملین ڈالر کا تعاون اور وزیر اعظم مودی کے ذریعے منعقدہ دو وائس آف گلوبل ساؤتھ سمٹ ، گلوبل ساؤتھ کے لیے بھارت کی مضبوط عہد بستگی کے پختہ ثبوت ہیں۔

  صرف چند سال پہلے تک گلوبل ساؤتھ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم اسے ایک ایسے پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب رہے جس پر بنیادی طور پر ترقی یافتہ ممالک کا غلبہ ہے اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ افریقی یونین کو شامل کرکے حاصل کی گئی کامیابی قابل ذکر ہے۔

یہ کانفرنس تجربات کو شیئر کرنے، حل تیار کرنے اور ایک بہتر مستقبل  کی تعمیر  کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گی، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے لوگوں کے لیے۔

بحیثیت قوم ہمارا گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے ساتھ ثقافتی اور اس کے علاوہ دوسرے نوعیت کا بھی گہرا جذباتی تعلق ہے۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے برے تجربات ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں۔ ہم نے صدیوں سے تکالیف جھیلی  ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے سیکھ کر اپنے دکھوں کو کم کرنا ہوگا۔

جیسا کہ پہلے ہی اشارہ کیا جا چکا ہے، ہمارا ملک اس وقت ایسی ترقی کی طرف گامزن ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ ہماری ترقی بے مثال ہے۔ ہمارا عروج جسے دنیا نے سراہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ہندوستان کو سرمایہ کاری اور مواقع کے لیے ایک ترجیحی عالمی منزل کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ ورلڈ بینک نے ہماری ڈیجیٹل پیشرفت کی تعریف کی ہے جس کی تقلید دوسرے کر رہے ہیں۔

اگر میں اعداد و شمار کو بلند آواز سے پڑھوں تو آپ حیران رہ جائیں گے، 2022 میں ہمارے ڈیجیٹل لین دین امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے مشترکہ لین دین سے چار گنا زیادہ تھے۔

ہماری فی کس انٹرنیٹ کی کھپت چین اور امریکہ سے زیادہ ہے۔ تصور کریں، ہمارے جیسے ملک میں، جہاں 110 ملین کسان سال میں تین بار براہ راست اپنے کھاتوں میں رقم حاصل کر سکتے ہیں۔ اہم بات یہ نہیں ہے کہ حکومت ایسا کر سکتی ہے۔کیا زیادہ اہم ہے ، اسے میں ایک  کسان کے بیٹے کے طور دیکھتا ہوں، کسان اسے حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور اس نے ہندوستان کی حکمرانی کو شفاف اور جوابدہ بنا دیا ہے۔ گلوبل  ساؤتھ کے  ممالک اس ملک سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بدعنوانی کے لیے گراؤنڈ زیرو کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ اقتدار کی راہداریوں کو ناکارہ بنانا،  پاور بروکرز جو تجارتی میدان میں فیصلہ سازی میں غیر قانونی فائدہ اٹھاتے ہیں وہ مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنا  آسان نہیں ہے۔ ہندوستان  نے یہ کردکھایا ہے۔ اس نقطہ نظر سے، میں اس پروگرام کو ایک مضبوط آغاز کے طور پر لیتا ہوں۔ ایک چھوٹا سا قدم جو ہمیں بڑی چھلانگ لگانے میں مدد دے گا۔

خیالات کے تبادلے، بہترین پریکٹس ایکسپلوریشن اور شراکت داری کی تعمیر کے ذریعے، ہم اختراعی طور طریقوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں جو سب کے لیے انصاف تک رسائی کو یقینی بناتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب گلوبل ساؤتھ کے ممالک اور ہندوستان جیسے ممالک دوسرے ممالک کی طرف دیکھتے تھے جنہیں ہم شمال کہتے ہیں۔ وہ ہمارا ایجنڈا طے کرتے تھے۔ اب ہندوستان عالمی سطح پر ایک ایجنڈا ترتیب دینے والے ملک کے طور پر ابھرا ہے۔

تو آئیے ہم متحد ہوکر دوبارہ تصور کریں، حکمت عملی بنائیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کریں، کمیونٹیز کو بااختیار بنائیں اور قانونی خدمات اور ضرورت مندوں لوگوں کے درمیان خلیج کو پُر کریں۔ آئیے، ایک ایسی دنیا کے لیے جدوجہد کریں جہاں پس منظر، حالات یا جغرافیہ  سے قطع نظر انصاف  سبھی کے لیے  دستیاب ایک بنیادی حق ہو۔

میں اس ملک میں غیر ملکی مندوبین کا خیرمقدم کرتا ہوں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ہندوستان کی ثقافت عالمی فلاح و بہبود سے وابستہ ہے۔ ہم نے صدیوں سے اپنے ہندوستان کو دنیا کا حصہ بنایا ہے اور پوری دنیا ہمارا خاندان ہے۔ اور اس کا مظاہرہ ہندوستان نے اس وقت کیا جب دنیا کووڈ کی وبا کا سامنا کررہی تھی۔ ملک میں وبا کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اس ملک کے ذریعے تقریباً 100 ممالک کو کووڈ کے ٹیکے کی سپلائی کرکے مدد کی گئی۔ اس لیے بھارت کی سوچ اب زمینی حقیقت میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس کا اثر پوری دنیا پر پڑا ہے۔ گلوبل ساؤتھ کا عروج میری نظر میں، دنیا کے لیے طاقت کا توازن ہوگا اور یہ دنیا کی ترقی کی راہ کا تعین کرے گا۔ اسے کنٹرول کریں، اسے سرپٹ  دوڑائیں اور اسے برقرار رکھیں۔

دوستو، گلوبل ساؤتھ کی روایات اور ثقافتی اقدار سے تحریک لیتے ہوئے، آئیے ایک ایسی دنیا کی راہ ہموار کریں جہاں انصاف کا مطلب ہے ،پسماندہ لوگوں کی آوازیں سنی جائیں اور سبھی کے لیے برابری کا استعمال  ہو۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا  ہےجب بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ان تمام مسائل پر غور کیا تھا۔ وہ ایک ایسے نظام پر یقین رکھتے تھے جس کے مطابق زمین کے پاس ہر ایک کی ضرورت کے لیے سب کچھ ہے لیکن لالچ کے لیے نہیں۔ اب یہ وہ رشتے ہیں جو ہمیں باندھتے ہیں۔ اب ہم کہیں زیادہ معیاری طریقے سے شمال کے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر سکیں گے۔ لہذا ہمارے ساتھی اپنی فطری صداقت کو باضابطہ طور پر ترقی دے رہے ہیں۔ مجھے بہت خوش ہے کہ یہ اقدام کیا گیا ہے۔ یہ ہمیں بہت آگے لے جائے گا۔

سفر کا فاصلہ کانفرنس میں ہوئی بات چیت سے طے ہو گا۔ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات ختم  کرتا ہوں کہ نظام انصاف تک رسائی کی کمی، قانونی امداد سے انکار، کمزور طبقات کے لیے ایک وجودی چیلنج ہے اور ہمیں ان کے لیے انصاف کے حصول کے لیے مثبت پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے چیلنجوں کو بے اثر کرنا ہو گا۔ ہم اس وقت جہاں ہیں اس سے زیادہ متاثر کن آغاز نہیں ہو سکتا۔

میں سوچ میں تبدیلی لانے، پالیسیوں میں تبدیلی لانے اور سپریم کورٹ کو ورچوئل موڈ میں ملک میں ہر کسی کے لیے دستیاب کرانے کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا کو مبارکباد دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

آپ کے صبر اور وقت کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ش ح۔ م م  ۔ع ن

(U: 1479)



(Release ID: 1980349) Visitor Counter : 57


Read this release in: English , Hindi , Odia