زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت
خواتین اور نوجوان زرعی صنعت کاروں کو زرعی خوراک کے منصفانہ اورمستحکم نظام کو فروغ دینے کے لیے مدد کی ضرورت ہے
عالمی سطح پر زرعی خوراک کے نظام میں صنفی عدم مساوات ایک بہت اہم چیلنج بنا ہوا ہے - مجموعی طور پر مردوں کے مقابلے خواتین اکثر کم خوراک سے دوچار ہوتی ہیں: ڈاکٹر نکولین ڈی ہان
Posted On:
11 OCT 2023 3:06PM by PIB Delhi
خواتین اور نوجوان زرعی صنعت کاروں کو اب بھی ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جو انہیں زرعی خوراک کے منصفانہ اور لچکدار نظام بشمول مالیات تک رسائی کی کمی، زمین کی محدود ملکیت، غیر رسمی اور بلا معاوضہ کام اور اپنی ضروریات کا اظہار کرنے کے چند مواقع کی طرف پیش رفت کرنے سے روکتے ہیں۔ 9 سے12 اکتوبر 2023 کو یہاں آئی سی اے آر - این اے ایس سی پوسا میں ‘‘زرعی خوراک کے مصفانہ اور مستحکم نظام کی طرف: تحقیق سے لے کر اثرات تک ’’ کے موضوع پر جاری بین الاقوامی صنفی کانفرنس میں کاروباری رہنماؤں، ماڈل کسانوں اور سائنس دانوں کے ایک پینل نے مذکورہ باتیں کہی ہیں۔اس کانفرنس کی میزبانی سی جی آئی اے آر جینڈر امپیکٹ پلیٹ فارم اور انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) نے کی اور اس کا افتتاح پیر کو صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو نے کیا۔
چار روزہ کانفرنس کے دوسرے دن کل یکے بعد دیگرے 18 اجلاس منعقد کئے گئے جن میں موٹے اناج کی کٹائی کے بعد کی پروسیسنگ میں خواتین کسانوں کی مشکلات کو کم کرنے کے طریقہ کار ، ریڑھی پٹری والی خواتین اور ہاکرز کے درمیان صنفی امتیاز کا جائزہ؛ اور آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے کسانوں کے درمیان بیج کے انتخاب کے عمل میں صنف محرکات جیسے موضوعات پر 80 سے زائد سائنسی پوسٹرز پر مشتمل پریزینٹیشن پیش کی گئیں۔
اس کانفرنس کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے سی جی آئی اے آر جینڈر امپیکٹ پلیٹ فارم کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نکولین ڈی ہان نے کہا کہ ‘‘عالمی سطح پر زرعی خوراک کے نظام میں صنفی عدم مساوات ایک بہت اہم چیلنج بنا ہوا ہے - مجموعی طور پر مردوں کے مقابلے میں اکثر خواتین کم خوراک کے مسئلے سے دوچار ہوتی ہیں، اور وہ بیرونی آفات جیسے سیلاب اور خشک سالی سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ہم پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کی بہترین شرط کے حل کی طرف رہنمائی کے لیے تحقیق، شواہد اور عملی سمجھ بوجھ کو یکجا کر رہے ہیں جو صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے عالمی اہداف کو حاصل کرنے کے راستے پر گامزن ہونے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے دن پینل مباحثے میں اظہار خیال کرنے والوں میں شہد کی پیداوار کرنے والی کمپنی بی فریش پروڈکٹس کی بانی اور ڈائریکٹر محترمہ انوشا جوکوری؛ ایک بار استعمال ہونے والے دودھ میں ملاوٹ ٹیسٹنگ کارڈ تیار کرنے والی کمپنی، ایم لینس ریسرچ پرائیویٹ لمیٹڈ کے بانی اور منیجنگ ڈائریکٹر جناب دھرو تومر، اسٹارٹ اپس اور صارفین کو جوڑنے والے آن لائن پلیٹ فارم لکھنؤ فارمرز مارکیٹ کی سی ای او محترمہ جیوتسنا کور حبیب اللہ اور اے جی-ٹیک انکیوبیٹر پوسا کرشی کی سی ای او اور آئی سی اے آر میں سینئر سطح کی سائنس داں ڈاکٹر اکریتی شرما شامل تھیں۔ اس اجلاس کا عنوان تھا ’زمینی سطح پر تحقیق: میدان سے تجربات تک‘ ۔ اس اجلاس کی صدارت تمل ناڈو ایگری کلچرل یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر وی گیتھا لکشمی نے کی۔
محترمہ جیوتسنا کور حبیب اللہ نے کہا کہ جب آپ کھیتوں میں نکلتے ہیں تو خواتین ہی کھیتوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں لیکن وہ خواتین نہ تو زمین کی مالک ہوتی ہیں اور نہ ہی اپنی محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی مالک ہوتی ہیں۔ زیادہ تر وقت ان کے کاموں پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اور ان کو ادائیگی نہیں کی جاتی ہے۔
محترمہ انوشا جوکوری، جنہوں نے چار سال کے عرصے میں اپنے کاروبار کو پانچ سے بڑھ کر 1500 شہد کی مکھیوں کے چھتے تک پہنچایا، فنانس تک رسائی کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے پہلی بار یہ کام شروع کیا تو بینک اسے قرض دینے سے گریزاں تھے اور اب بینک صرف اس بات پر راضی ہیں کہ انہوں نے پہلے ہی کاروباری کامیابی حاصل کر لی ہے۔
جناب دھرو تومر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کامیاب کاروبار کے لیے استقامت اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ محترمہ شرما نے کہا کہ صلاحیت سازی اور ٹیکنالوجی کی مدد کسانوں کو اپنی ذہنیت کو تبدیل کرنے اور زرعی صنعت کار بننے میں مدد دے سکتی ہے۔
پینل کے شرکا ءکے تجربات کو مہیلا کسان ادھیکاری منچ- ماکام کے پالیسی تجزیہ کار ڈاکٹر سوما کے پارتھا سارتھی کی ایک کلیدی پریزنٹیشن سے مکمل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح خواتین اور زمین کی ملکیت سے محروم کرایہ دار کسان متعددسرگرمیوں کے ذریعے زرعی خوراک کے نظام میں لچک پیدا کر سکتے ہیں، جس میں کاشتکاری، اجتماع اور ماحولیاتی نگہداشت کے کام شامل ہیں۔
ڈاکٹر پارتھا سارتھی نے تجویز پیش کی کہ مدوّر معیشت کی طرف ایک قدم - یکجہتی، باہمی تبادلے اور شریک ملکیت - خواتین کو ایسی جگہوں تک جہاں وہ اپنی آواز سن سکیں، خواتین کو ڈیٹا میں شمار کر کے اور بیجوں کے تبادلے کے ذریعے انہیں رسائی فراہم کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی گفتگو کے ساتھ ساتھ زمین اور جنگلات کے تحفظ سے متعلق پالیسیوں کی تشکیل میں خواتین کے کردار اور آواز کو بڑھایا جانا چاہیے۔
آسٹریلین سنٹر فار انٹرنیشنل ایگریکلچرل ریسرچ ( اے سی آئی اے آر) میں رسائی اور صلاحیت سازی کے جنرل مینیجر اور ڈین جناب ایلینور نے اجلاس کا اختتام کیا۔ ڈین نے کہا کہ غربت اور عدم مساوات کی بنیاد غیر مساوی طاقت کے تعلقات ہیں جو صرف صنف کے لیے مخصوص نہیں ہیں اور یہی ایک وجہ ہے کہ اے سی آئی اے آر نے نہ صرف صنفی مساوات بلکہ سماجی شمولیت کو بھی شامل کرنے کے لیے اپنے کام کو وسعت دی ہے، جیسا کہ حال ہی میں شائع ہونے جینڈر اکوٹی اینڈ سوشل انکلوژن (جی ای ایس آئی) حکمت عملی اور ایکشن پلان میں ظاہر کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔م ع۔ ن ا۔
U-10667
(Release ID: 1966649)
Visitor Counter : 101