وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری
ماہی پروری محکمہ کے سکریٹری ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی نے آج لاہلی گاؤں میں جھینگے کے فارموں اور آئی سی اے آر- سی آئی ای ایف کے علاقائی مرکز، روہتک، ہریانہ کا دورہ کیا
ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی نے آئی سی اے آر- سی آئی ایف ای کی فارم سہولیات پر جھینگا کسانوں کے ساتھ بات چیت کی تاکہ بنیادی سطح کے مسائل کو سمجھا جا سکے
ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی نےآئی سی اے آر- سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف فشریز ایجوکیشن، روہتک کی طرف سے کی جانے والی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جس میں پی ایم ایم ایس وائی کے تحت تعاون یافتہ کامن کارپ کے جینیاتی بہتری کے پروگرام شامل ہیں
ہریانہ، یوپی، راجستھان اور پنجاب میں آئی سی اے آر – سی آئی ایف ای کے ذریعہ تیار کردہ ٹیکنالوجی کے ساتھ جھینگا فارمنگ کو اپنانا وقت کی ضرورت ہے: ابھیلکش لیکھی
Posted On:
29 SEP 2023 4:37PM by PIB Delhi
ماہی پروری محکمہ کے سکریٹری ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی نے آج لاہلی گاؤں، روہتک میں جھینگے کے فارموں اور آئی سی اے آر- سی آئی ایف ای کے علاقائی مرکز، روہتک، ہریانہ کا دورہ کیا۔ آئی سی اے آر- سی آئی ایف ای کی فارم سہولیات کے دورے کے دوران، ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی نے ہریانہ کے جھینگا کسانوں کے ساتھ بات چیت کی تاکہ کھارے پانی کے جھینگا کسانوں کو درپیش زمینی سطح کے مسائل کو سمجھا جاسکے۔ مرکزی سکریٹری نے منتخب کسانوں میں این اے ایچ ای پی اسکیم کے تحت مرکز کی طرف سے تیار کردہ پیڈی گریڈ کامن کارپ سیڈ (بیج) بھی تقسیم کیا۔
ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی نے ایکوا فارمنگ کے ذریعے بیکار زمین کو دولت میں تبدیل کرنے کے مستقبل کے منصوبے پر زور دیا۔ آئی سی اے آر- سی آئی ایف ای کے سائنسدانوں نے اپنے دورے کے دوران بتایا کہ ملک کی اندرون ملک ریاستوں میں زمینی پانی کے کھارے پن نے بڑے اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی اثرات مرتب کئے ہیں، جس سے ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور اترپردیش میں تقریباً 8.62 ملین ہیکٹر اراضی متاثر ہوئی ہے۔ کھارا زیر زمین پانی آبی زراعت کے طور طریقوں کے ذریعے معاشی طور پر قابل عمل (وی ایبل) ہوسکتا ہے، جس میں پانی کا ایک بڑا حصہ ایکوا کلچر تالابوں سے بخارات کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے اور آمدنی پیدا کرنے والی مچھلی/جھینگا/جھینگے کی فصلیں پیدا کر سکتا ہے۔
اس وقت 8554.15 میٹرک ٹن سالانہ جھینگا، چار شمالی ہندوستانی ریاستوں یعنی ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور یوپی سے 2167 ہیکٹیئر کھارے پانی کی آبی زراعت (ایکوا کلچر) سے پیدا ہوتا ہے۔ ان چار ریاستوں میں 58000 ہیکٹیئر رقبہ کھارے پانی کی آبی زراعت کے لیے موزوں ہے۔ اس لیے ان چار ریاستوں کے اندرون ملک کھارے پانی والے علاقوں میں جھینگا اور مچھلی کی زراعت کی کافی گنجائش ہے۔ ان علاقوں میں کھارے پانی کی آبی زراعت میں انواع کے تنوع کو فروغ دینے کے لیے، ماہی پروری کے محکمہ نے پی ایم ایم ایس وائی کے تحت سی آئی ایف ای، روہتک کے کامن کارپ سائپرینس کارپیو کی جینیاتی بہتری کے لیے اندرون ملک کھارے آبی زراعت کے لیے کل 9.29 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک پروجیکٹ کو منظوری دی ہے۔
ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی، سکریٹری نے آئی سی اے آر- سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف فشریز ایجوکیشن (سی آئی ایف ای)، روہتک کی طرف سے کی گئی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا جس میں پی ایم ایم ایس وائی کے تحت تعاون یافتہ کامن کارپ کے جینیاتی بہتری کے پروگرام شامل ہیں۔ ڈاکٹر ایس جاگیردار، پرنسپل سائنٹسٹ، آئی سی اے آر نے روہتک سنٹر کے آئی سی اے آر-سی آئی ایف ای کے تحت کی جانے والی مختلف سرگرمیوں اور پروجیکٹوں کے بارے میں بتایا۔ سی آئی ایف ای، روہتک سنٹر کی سینئر سائنس داں اور سائنٹسٹ انچارج ڈاکٹر ببیتا رانی نے مرکز میں کی جا رہی تحقیقی سرگرمیوں کے بارے میں ایک تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ سی آئی ایف ای کے انچارج سائنسدان، روہتک نے بتایا کہ آئی سی اے آر- سی آئی ایف ای، روہتک مرکز نے اندرون ملک کھارے پانی میں کم آئنوں کو مضبوط کرنے اور اسے جھینگا اور دیگر اقسام کی آبی زراعت کے لیے موزوں بنانے کی خاطر ٹکنالوجی تیار کی ہے۔ روہتک کے سی آئی ایف ای کے انچارج نے بتایا کہ ٹیکنالوجی کو سال 2022-23 تک ہریانہ میں 2942 ایکڑ، پنجاب میں 1200 ایکڑ، راجستھان میں 1000 ایکڑ اور اترپردیش میں 20-25 ایکڑ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اس سال ہریانہ میں پیداوار کے رقبے میں مزید 1200 ایکڑ کا اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر ابھیلکش لیکھی نے آئی سی اے آر- سی آئی ایف ای کے سائنس دانوں کو اندرون ملک کھارے پانی میں کم آئنوں کو مضبوط کرنے اور اسے جھینگا کی کھیتی کے لیے موزوں بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے لیے مبارکباد دی۔ انہوں نے ہریانہ، یوپی، راجستھان اور پنجاب میں اس ٹیکنالوجی کو اپنائے جانے کے لیے مزید بیداری پیدا کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ آئی سی اے آر – سی آئی ایف ای کی طرف سے تیار کردہ ٹیکنالوجی کے ساتھ چاروں ریاستوں میں جھینگا فارمنگ کو اپنایا جائے۔ 58,000 ہیکٹیئر رقبہ کھارے پانی کی آبی زراعت کے لیے موزوں ہے، جبکہ موجودہ استعمال صرف 2,167 ہیکٹیئر ہے، جو سالانہ 8,554.15 میٹرک ٹن پیداوار دیتا ہے۔ مرکزی سکریٹری نے بتایا کہ حکومت ہند کا مقصد ان چار ریاستوں کے 58000 ہیکٹیئر رقبے کی پوری صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے، تاکہ مچھلی کاشتکاروں کی آمدنی کو دوگنا کرنے میں مدد کی جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔م م ۔م ر
(U:10126)
(Release ID: 1962178)
Visitor Counter : 79