جل شکتی وزارت

سیلاب کی پیش گوئی اور انتظام

Posted On: 07 AUG 2023 6:47PM by PIB Delhi

جل شکتی کے مرکزی  وزیر مملکت جناب بشویسور ٹوڈو نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے جس کا سامنا بھارت کو تقریباً ہر سال مختلف زمروں میں کرنا پڑتا ہے۔ سیلاب کے متواتر واقعات کو مختلف عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے، جن میں  وقت اور جگہ دونوں میں بارش میں وسیع تغیرات اور معمول کے انداز سے متواتر روانگی، دریاؤں کی لے جانے کی ناکافی صلاحیت، دریا کے کنارے کٹاؤ اور دریا کی تہہ کا گاد، مٹی کے تودے کھسکنے ، پانی کی ناقص نکاسی کا نظام، سیلاب زدہ علاقوں، برفانی جھیلوں کے پھٹنے وغیرہ  شامل ہیں۔

شدید بارش اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ریاستی اعداد و شمار متعلقہ ریاستوں سے تصدیق کی وصولی کے بعد سنٹرل واٹر کمیشن (سی ڈبلیو سی) کے ذریعے مرتب کیا جاتا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں (2021-2017) کے دوران ملک میں سیلاب/موسلا دھار بارش کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو ظاہر کرنے والا بیان، ریاست/ مرکزی کے زیر انتظام علاقہ کے لحاظ سے ضمیمہ – I میں ہے۔

سیلاب سے نمٹنے کا بندوبست ریاستوں کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ سیلاب کے انتظام اور کٹاؤ پر قابو پانے کے منصوبے متعلقہ ریاستی حکومتیں اپنی ترجیحات کے مطابق اپنے وسائل سے مرتب اور نافذ کرتی ہیں۔ مرکزی حکومت اہم علاقوں میں سیلاب کے انتظام کے لیے تکنیکی رہنمائی اور ترغیبی  مالی امداد فراہم کر کے ریاستوں کی کوششوں کی تکمیل کرتی ہے۔ مربوط سیلاب کے نقطہ نظر کا مقصد اقتصادی قیمت پر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے خلاف معقول حد تک تحفظ فراہم کرنے کے لیے ساختی اور غیر ساختی اقدامات کے معقول امتزاج کو اپنانا ہے۔

سیلاب کے انتظام کے ڈھانچہ جاتی اقدامات کو مضبوط کرنے کے لیے، مرکزی حکومت نے XI اور XII منصوبوں کے دوران سیلاب کے بندوبست کے پروگرام (ایف ایم پی ) کو نافذ کیا تھا تاکہ سیلاب پر قابو پانے، انسداد کٹاؤ، نکاسی کی ترقی، انسداد سمندری کٹاؤ وغیرہ سے متعلق کاموں کے لیے ریاستوں کو مرکزی مدد فراہم کی جا سکے، جو بعد میں 18-2017سے 21-2020 تک کی مدت کے لیے "فلڈ مینجمنٹ اینڈ بارڈر ایریاز پروگرام" (ایف ایم بی اے پی) کے جزو کے طور پر جاری رہا اور محدود اخراجات کے ساتھ ستمبر 2022 تک بڑھا دیا گیا۔ ایف ایم بی اے پی کے ایف ایم پی جزو کے تحت 427 مکمل شدہ منصوبوں نے تقریباً 4.994 ملین ہیکٹر (ایم ایچ اے) کے رقبے کو تحفظ فراہم کیا ہے اور تقریباً 53.57 ملین کی آبادی کو تحفظ فراہم کیا  گیاہے۔

سنٹرل واٹر کمیشن (سی ڈبلیو سی) ایک نوڈل تنظیم ہے جسے ملک میں سیلاب کی پیشن گوئی اور سیلاب کی پیشگی انتباہات کا کام سونپا گیا ہے۔ فی الحال، سی ڈبلیو سی 338 پیش گوئی اسٹیشنوں (138 انفلو فورکاسٹ اسٹیشنز اور 200 لیول فورکاسٹ اسٹیشن) کے لیے سیلاب کی پیش گوئی جاری کرتا ہے جس میں 25 ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے  شامل ہیں۔ یہ نیٹ ورک ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ مشاورت سے قائم کیا گیا ہے۔ مقامی حکام کو لوگوں کے انخلاء کی منصوبہ بندی کرنے اور دیگر تدارکاتی اقدامات کرنے کے لیے زیادہ وقت فراہم کرنے کے لیے سی ڈبلیو سی نے اپنے پیش گوئی اسٹیشنوں پر 5 دن کی پیشگی ایڈوائزری کے لیے بارش کے بہاؤ کے حسابی ماڈلنگ پر مبنی طاس کے اعتبار سے  سیلاب کی پیش گوئی کرنے والا ماڈل تیار کیا ہے۔

آفات کے بندوبست کی بنیادی ذمہ داری متعلقہ ریاستی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت ریاستی حکومت کی کوششوں کی تکمیل کرتی ہے اور ضروری لاجسٹک اور مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ ریاستی حکومت بارش اور سیلاب سمیت 12 مطلع شدہ قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگاتی ہے اور حکومت ہند کے منظور شدہ اصولوں کے مطابق ریاستی ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ (ایس ڈی آر ایف) سے امداد فراہم کرتی ہے۔ 'شدید نوعیت' کی آفت کی صورت میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ (این ڈی آر ایف ) سے اضافی مالی امداد فراہم کی جاتی ہے جس میں بین وزارتی مرکزی ٹیم (آئی ایم سی ٹی) کے دورے کی بنیاد پر تشخیص بھی شامل ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ایس ڈی آر ایف  اور این ڈی آر ایف کے تحت مختلف ریاستوں کو جاری کردہ کل فنڈز ضمیمہ-II میں ہیں۔

دہلی کو جولائی 2023 کے دوسرے ہفتے کے دوران دریائے یمنا میں انتہائی سیلاب کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ ہتھنی کنڈ بیراج کے اوپری حصے میں ہمالیائی علاقے میں بہت زیادہ بارش ہوئی۔ ہتھنی کنڈ بیراج سے پانی کا بہاؤ بہت زیادہ خارج ہوا، جس کے نتیجے میں 13 جولائی، 2023 کو 18:00 بجے دہلی کے اولڈ ریلوے پل پر 208.66 میٹر پانی کی سطح ریکارڈ کی گئی، جو ستمبر 1978میں ریکارڈ کیے گئے 207.49 میٹر کے پہلے کی بلند ترین سیلاب کی سطح کو پیچھے چھوڑ گئی۔

ضمیمہ-1                                                                                                           

 

بھاری بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ریاست کے لحاظ سے کل نقصانات (2017-2021)

 

(روپے کروڑ میں)                                                                                                              

ریاستیں/مرکز کے زیر انتظام علاقے

2017

2018

2019

2020

2021

آندھرا پردیش

-

3687.171

698.05

917.66

6320.46

اروناچل پردیش

1574.68

1913.82728

 

1390.08

567.9

آسام

4164.81

2480.98

3121.98

2439.73

1072.43

بہار

-

5.5598

-

810.19

6444.86

چھتیس گڑھ

-

41.689

-

31.34

1.24

گوا

-

-

-

-

218.62

گجرات

3555.87

118.048

2.79

2915.31

1259.98

ہریانہ

18.007

89.026

0.6

-

614.63

ہماچل پردیش

51.3667

65.9

229.11

60.55

1127.47

جھارکھنڈ

0.667

0.2

13.25

0.89

1.49

کرناٹک

-

4620.78

-

9833

1975.81

کیرالہ

-

3320.76

-

-

این آر

مدھیہ پردیش

-

1.67

-

-

این آر

مہاراشٹر

-

-

-

-

این آر

منی پور

-

-

-

-

این آر

میگھالیہ

0.14

0.0663

3.66

-

این آر

میزورم

104.02

-

-

0.05

0.4

ناگالینڈ

551.59

-

-

-

این آر

اوڈیشہ

334.315

299.84

454.82

1509.33

379.51

پنجاب

18.64

124.52

-

-

46.61

راجستھان

1876.8578

31.7275

8820.91

191.17

5477.18

سکم

245.44

-

-

349

92.43

تملناڈو

-

-

1.21

-

7039.56

تلنگانہ

-

-

-

-

این آر

تریپورہ

132.824

946.1775

437.65

137.92

38.12

اتر پردیش

308.053

547.4233

809.63

602.96

825.26

اتراکھنڈ

-

-

-

-

این آر

مغربی بنگال

17727.94

54.006

1269.83

-

16079.45

انڈومان و نکوبار جزائر

-

-

-

-

0.11

چھتیس گڑھ

-

-

-

-

0

دادر ونگر حویلی

0.1

-

0.03

-

0

لداخ

-

-

-

-

این آر

دہلی

-

-

-

-

18.39

جموں وکشمیر

-

-

-

-

این آر

لکشدیپ

-

-

5

5

این آر

پڈوچیری

-

0.6

-

-

15.71

دمن ودیو

0.525

-

-

-

-

TOTAL

30665.8455

18349.97168

15868.52

21194.18

49617.62

 

ضمیمہ-1                                                                                                           

سال 201 اور19  سے 23-2022 تک (31-03-2023 تک) کے دوران این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کے تحت فنڈز مختص کئے جانے اور انہیں جاری کرنے کی تفصیلات ریاست کے اعتبار سے بیان میں ظاہر کی گئی ہے۔

) روپے کروڑ میں(

 

SI. NO.

State

Allocation under SDRF including Centre and State share

Centre’s Share of SDRF Released

Release from NDRF (For all calamities)

2018-19

2019-20

2020-21

2021-22

2022-23

2018-19

2019-20

2020-21

2021-22

2022-23

2018-19

2019-20

2020-21

2021-22

2022-23

1.

Andhra Pradesh

509.00

534.00

1192.80

1192.80

1252.80

458.10

324.15

895.20

895.20

940.00

1004.88

570.91

657.029

351.43

 

2.

Arunachal Pradesh

60.00

63.00

222.40

222.40

233.60

54.00

56.70

200.00

200.00

210.40

132.49

 

59.34

 

 

3.

Assam

532.00

559.00

686.40

686.40

720.80

478.80

503.10

617.60

617.60

648.80

 

 

44.37

 

250.00

4.

Bihar

543.00

570.00

1510.40

1510.40

1586.40

101.815

631.12

1132.80

1132.80

1189.60

--

953.17

1255.27

1038.96

 

5.

Chhattisgarh

278.00

292.00

460.80

460.80

484.00

349.575

177.30

345.60

345.60

181.60

 

 

 

 

 

6.

Goa

4.00

4.00

12.00

12.00

12.80

1.80

4.20

9.60

9.60

9.60

 

 

 

 

 

7.

Gujarat

816.00

856.00

1412.00

1412.00

1482.40

449.95

886.80

1059.20

1059.20

556.00

 

 

 

1000.00

 

8.

Haryana

356.00

374.00

524.00

524.00

550.40

320.40

227.10

392.80

392.80

412.80

 

 

 

 

 

9.

Himachal Pradesh

273.00

287.00

363.20

363.20

380.80

245.70

197.23

327.20

327.20

342.40

227.29

518.06

290

 

214.26

10.

Jammu & Kashmir *

295.00

310.00

 

 

 

252.90

405.00

 

 

 

 

 

 

 

 

11

Jharkhand

421.00

442 00

605.60

605.60

63520

315.75

331.50

454.40

454.40

 

 

 

 

200.00

 

12.

Karnataka

320.00

336.00

843.20

843.20

885.60

288.00

204.00

632.80

632.80

664.00

959.84

3208.28

689.27

1623 30

939.83

13.

Keraia

214.00

225.00

335.20

335.20

352.00

192.60

136.65

251.20

251.20

264.00

2904.85

 

 

 

 

14

Madhya Pradesh

1016.00

1066 00

1941.60

1941.60

2038.40

914.40

647.10

1456.00

1456.00

1528.80

334.00

1712.14

1891.79

600.50

 

15.

Maharashtra

1717.00

1803.00

3436.80

3436.80

3608.80

1287.75

1352.25

2577.60

2577.60

2706.40

2088.59

5189.40

420.12

1056.39

 

16.

Manipur

22.00

23.00

37.60

37.60

39.20

9.90

30.60

33.60

33.60

35.20

 

 

26.53

 

 

17.

Meghalaya

28.00

29.00

58.40

58.40

60.80

 

38.70

52.80

52.80

27.20

--

 

16.52

 

 

18.

Mizoram

20.00

20.00

41.60

41.60

43.20

18.00

18.00

37.60

37.60

39.20

 

 

 

 

 

19.

Nagaland

11.00

12.00

36.80

36.80

38.40

9.90

10.80

32.80

32.80

34.40

195.99

176.52

1.335

--

107.304

20.

Odisha

865.00

909.00

1711.20

1711.20

1796.80

778.50

552.00

1283.20

1283.20

1348.00

341.72

3294.10

500.00

500.00

 

21.

Punjab

451.00

474.00

528.00

528.00

554.40

321.99

412.37

474.43

396.00

416.00

-

 

 

 

 

22.

Rajasthan

1277.00

1340.00

1580.00

1580.00

1659.20

957.75

1005.00

1184.80

1184.80

1244.80

526.14

1949.59

68.65

--

13.46

23.

Sikkim

36.00

36.00

44.80

44.80

47.20

32.40

34.20

40.00

40.00

42.40

54.93

--

73.86

55.23

 

24.

Tamil Nadu

786.00

825.00

1088.00

1088.00

1142.40

707.40

500.85

816.00

816.00

856.80

900.31

 

286.91

566.36

 

25.

Telangana

317.00

333.00

479.20

478.20

503.20

226.50

487.50

359.20

359.20

188.80

--

 

 

 

 

26.

Tnpura

36.00

38.00

60.80

60.80

63.20

32.40

34.20

54.40

54.40

56.80

171.74

--

12.93

 

 

27.

Uttar Pradesh

781.00

2062.40

 

2062.40

2165.60

351.45

849.30

1546.40

1546.40

812.00

157.23

 

 

 

 

28.

Uttarakhand

243.00

255.00

832.80

832.80

874.40

218.70

229.50

749.60

749.60

787.20

 

 

 

 

 

29.

West Bengal

598.00

628.00

1078.40

1078.40

1132.80

269.10

650.40

808.80

808.80

849.60

--

958.33

2250.28

350.13

 

TOTAL

12825.00

13465.00

23186.40

23186.40

24344.80

9658.13

10937.62

17825.63

17747.20

16392.80

10000.00

18530.50

8257.11

7542.30

1524.854

 

* اب مرکز کے زیر انتظام  جموں و کشمیر اور مرکز کے زیر انتظام  لداخ

******

ش ح ۔ س ک ۔ ع ر

U. No.8752



(Release ID: 1951639) Visitor Counter : 98


Read this release in: English