نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

سینک اسکول چتور گڑھ میں نائب صدرجمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 22 AUG 2023 2:51PM by PIB Delhi

سب کو صبح بخیر!

آج ہم سب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے دو بہت ہی معزز اساتذہ، مسٹر راٹھی اور مسٹر دویدی یہاں موجود ہیں۔ مجھ پر یقین کریں، یہ لوگ مزاج کے  بہت سخت واقع ہوئے تھے۔جب مسٹر دویدی راہداریوں میں چہل قدمی کرتے تھے تو چاروں طرف نظم و ضبط  کاماحول  چھا جاتا تھا۔ مسٹر راٹھی نے کئی دہائیوں سے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے، وہ اس عمر میں بھی لباس کی باریکیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ آج کے دور میں بھی کسی بھی نوجوان لڑکے کے لیے رول ماڈل ثابت ہو سکتے ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتےکتنی بڑی تبدیلی آگئی ! کہاں آگئے ہم لوگ،کتنا اچھا لگ رہا ہے، کبھی سوچا نہیں تھا، فوجی اسکول کے اندر کوئی ایجوکیشن کا موقع ملےگا۔

جب ریاست مغربی بنگال کے گورنر کے طور پر، میں سینک اسکول، پرولیا گیا، تو مجھے بہت مضبوطی سے اپنا دفاع کرنا پڑا،اس لئے کہ کسی کی مادر تعلیمی کے بجائے دوسرے سینک اسکول میں جانا آسانی سے قابل معافی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ سینک اسکولوں نے  کرۂ ارض پربسنے والے سب سے اہم انسانی وسائل یعنی لڑکیوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی تعداد اب تیس کے قریب ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، ایک مثبت تبدیلی ہے اور یہ آنے والے وقت میں بہت زیادہ اثر انداز ہوگی۔ یہاں ہماری تمام بیٹیوں کو میرا خصوصی سلام، آپ ہمیں ہر وقت فخر کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔

میں مسٹر دویدی اور مسٹر راٹھی کے ساتھ رابطے میں ہوں، جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ دل کو چھونے والی تھی وہ جنرل منڈاٹا کے وژن کی بدولت تھی، انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جب میں نے حلف اٹھایا تو شرکت بہت زیادہ  نمائندگی پر مشتمل اور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ تو جنرل صاحب حلف برداری کی تقریب میں موجود تھے، دوست بھی تھے، مسٹر راٹھی بھی تھے، سینک اسکول کے لڑکے اور لڑکیاں بھی موجود تھے۔ یہ میرے لیے بہت دل کو چھو لینے والا لمحہ تھا۔

جب نائب صدر کے طور پر مجھے کیرالہ جانے کا موقع ملا تو مجھے ایک بات یاد آئی، جب میں نے 30 جولائی 2019 کو ریاست مغربی بنگال کے گورنر کے عہدے کا حلف لیا تو بورڈ پر کیرالہ سے ایک کال آ رہی تھی۔ اور کال مسلسل ڈراپ ہو رہی تھی۔ میں نے راج سنگھ کو فون کیا اوران سے محترمہ رتنا نائر کا نمبر دریافت کیا،مجھے نمبر ملا اور پتہ چلا کہ یہ انہیں کا نمبر تھا۔میں نے انہیں اس  وقت واپس کال لگائی ، جب میں اپنے پہلے دورے پر کیرالہ گیا تھا، وہ راج بھون آنا چاہتی تھیں، میں نے کہا نہیں میڈم، ایک بار اپنے طالب علم کی بات سن لیں، میں کنور میں آپ کے گھر آؤں گا۔ میں وہاں گیااور ہم نے ساتھ وقت گزارا۔

میرے نوجوان دوستو، میں آپ کو یہ سب کچھ ایک وجہ سے بتا رہا ہوں، میڈم پرنسپل نے اس بات کی عکاسی کی کہ میں 18 مئی 1951 کو پیدا ہوا تھا۔ وہ حیاتیاتی پیدائش تھی، میری اصل پیدائش یا پنر جنم سینک اسکول، چتور گڑھ میں ہوا تھا۔ میں جو کچھ یہاں ہوں، جو کچھ میں آج دنیا میں ہوں، اس  سب  کے لئےمیں سینک اسکول اور اپنے اساتذہ کا مرہون منت ہوں،اور اس مٹی کو میں سلام کرتا ہوں۔

مجھے وہ دن یاد ہے جب لوگ مجھ سے کہتے تھے، یہ رٹو ہے ،یہ رٹتا ہے۔جب بھی میں اساتذہ سے بات چیت کرتا تھا، ہمارے پاس امول مکھن نہیں ہوتاتھا بلکہ ہمارے پاس پولسن مکھن ہوا کرتاتھا، تو پیچھے سے آواز آتی تھی، پولسن، پولسن۔

مجھےیاد ہے کہ چتور گڑھ میں سیلاب آیا تھا، ہم نے اس پر ایک مضمون لکھا، دوسرا بڑا کھانا تھا، تو میں نے اور میرے دوست نے اس پر بھی مضمون لکھا۔ ہمارے انگلش ٹیچر، عجیب و غریب حصوں میں نشان لگاتے تھے، استاد میرے دوست کا مضمون درست کرتے تھے اور میں اسے نقل کرتا تھا ،پھر استاداسے مزید درست کیا کرتے تھے۔

میں نے سوچا کہ مجھے اسکول میں کوئی بہت خاص کام کرنا چاہیے، جب ہمارے پاس بڑا کھانا تھا، ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ کھانا شاندار ہے، میں نے سوچا کہ مجھے کچھ مختلف ہونا چاہیے، اس لیے میں لائبریری گیا، مترادفات کی ایک ڈکشنری حاصل کی اور ایک مخصوص لفظ کا انتخاب کیا۔ میں نے کہا کھانا تھا....، استاد نے پڑھا، پوچھا کس نے لکھا ہے، میں اٹھا، پھر استاد نے مجھے بیلٹ اتارنے کو کہا، اور میں پیچھے چلا، اچانک استاد کو معلوم ہوا کہ میں ہونہار طالب علم ہوں توانہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں یہ احمقانہ خیال کہاں سے آیا؟ میں نے کہا کولنز کی لغت کی کتاب سے انہوں نے مجھ سے پوچھا کتاب کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ یہ ہاسٹل میں ہے، مجھ سے یہ کتاب لانے کو کہا گیا۔ اس دوران  پیریڈ ختم ہوگیا، لیکن لڑکوں او ر لڑکیوں، میں نے جو لفظ استعمال کیا وہ یہ تھا کہ کھانا بہت لذت دار تھا اوریہ  میری غلطی نہیں!

میں ایک گاؤں سےتعلق رکھتا ہوں، اس دور میں پانچویں جماعت تک اے بی سی ڈی نہیں پڑھائی جاتی تھی اور مجھے سینک اسکول بھیج دیا گیا۔ ہمارے پرنسپل ٹوپی کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کرا سکول آتے تھے۔ گاؤں کے اس لڑکے نے زندگی میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی  تھی، اس کے لیےطلسماتی  دنیا تھی۔ خوش قسمتی سے وہ میری کلاس کے سامنے گھوڑے سے اترے اور اندر کمرے میں آگئے۔ کلاس روم میں لکھا گیا کہ ایٹم مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ ہے۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ بورڈ پر کیا لکھا ہے، لیکن میں اسے حفظ کر سکتا تھا۔ پرنسپل کی توجہ مجھ پر مرکوز تھی،انہوں نے مجھ سے ایٹم کی وضاحت کرنے کو کہا۔ ایک ذہین  شخص کی طرح، میں نے کہا کہ ایٹم مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ ہے۔ پھرانہوں نے اگلا سوال کیا، میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا پوچھ رہے ہیں ، مجھے تو انگریزی  آتی ہی نہیں تھی ۔انہو  ں نے مجھ سے تیسرا سوال پوچھا،ہوش اڑ گئے کہ یہ کیا بات کررہے ہیں ، مجھے تو کچھ نہیں آتا تھا۔میں صرف رٹنے کا عادی تھا۔نتیجے میں یہ بات چاروں طرف پھیل گئی کہ  مجھے ایسی مایوس کن ناکامی پر بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ لیکن، مجھے پرنسپل کی رہائش گاہ پر آنے کا دعوت نامہ ملا، جن کی تین نامور بیٹیاں تھیں، اور ایک بہت ہی خوبصورت بیوی تھی۔ میں وہاں گیا، چائے کا وقت تھا، میں تو گاؤں سے آیا تھا اور میں نے جو چیزیں وہاں دیکھی وہ کبھی نہیں دیکھی تھیں، میں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ چائے پیش کی گئی اور وہ غیر ملکی تعلیم کے ساتھ سخت نظم و ضبط کے پابند تھے۔ میں کسی طرح ہمت جمع کرکے انہیں بتایا کہ‘‘میں ہوشیار لڑکا ہوں، مجھے انگریزی نہیں آتی’’۔اس شریف انسان نے میری زندگی بدل دی۔ مجھے انسائیکلوپیڈیا کی جانکاری دو سال میں ہوگئی،پیکاسو کون تھا ،مجھے معلومات حاصل ہوئی ۔انہوں نے مجھے اس فوجی اسکول میں رہنمائی دی، اس لیے میں کہتا ہوں کہ، میں دوبارہ سینک اسکول میں پیدا ہوا تھا۔

اب گاؤں کی کہانی سنئے۔ ہم تین بھائی تھے ۔میرے والدین کو محسوس ہوا کہ میں چونکہ پڑھائی میں بہت اچھا ہوں اس لئےکسی بھی اسکول میں پڑھ لوں گا۔ اس بنا پر دونوں بھائیوں کو پلانی بھیج دیا گیا ۔میں اس معاملے پر اپنی ناراضگی کا اظہا ر کرنا چاہتا تھا لیکن کر نہیں پایا۔اسی وقت یہ بات سامنے آئی کہ سینک اسکول کا داخلہ امتحان ہورہا ہے ۔ مجھے 100فیصد اسکالرشپ ملی جو کہ 250 روپے ماہانہ تھی۔ گاؤں میں لوگوں نے کہاکہ پوری کی پوری رقم کیوں خرچ کردیتے ہو؟ آدھی  گھر کیوں نہیں بھیجتے؟ گاؤں کے بزرگ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ تم ڈھائی سو روپے کیوں خرچ کر رہے ہو، اس وقت یہ بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ آپ 50فیصد اپنے کنبے کے افراد کے لئے کیوں نہیں بھیجتے؟ میرا بڑا بھائی بھی سینک اسکول میں تھا، ہم لوگوں کے درمیان  اتنا پیار تھا کہ اس نے چھٹی جماعت میں داخلہ لیا اور میں پانچویں جماعت میں تھا،وہ چھٹی جماعت میں رک گئے یہ سوچ کر کہ چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ آنا چاہئے،اس طرح ہم ساتھ ساتھ تھے۔سینک اسکول سے ہمارے گاؤں خط جایا کرتے تھے جن میں ہمارے میں بارے میں لکھا ہوتا تھاکہ تمہارے بچے کو اونٹ کی سواری کرنے کے لئے سزا دی گئی ہے۔ یہ بات میرے بڑے بھائی کے بارے میں لکھی جاتی تھی ۔آس پاس کے کئی گاؤں میں کوئی انگریزی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ شاید کشور پورہ میں کوئی استاد اسے پڑھنے میں کامیاب ہوا،اورچونکہ خط میں سزا کے ساتھ انگریزی کا لفظ ایوارڈ استعمال ہوا تھا تو اس نے یہ سمجھا کہ ایوارڈ سے مراد انعام ہے ۔ مجھے اپنے والد کی طرف سے ایک خط ملاجس میں لکھا گیا تھا کہ  ہوشیار تم ہو لیکن انعام بڑے بھائی کو مل رہا ہے۔دیکھے وہ دن بھی کیا دن تھے۔میری والدہ ہمیشہ سے میرے بارے میں بہت پرجوش رہتی تھیں، اس لیے میں انہیں روزانہ ایک پوسٹ کارڈ لکھتا تھا،اور اس میں لکھتا تھا کہ محترمہ والدہ صاحبہ ،قدم بوسی ،میں یہاں ٹھیک ہوں  اور وہ پوسٹ کارڈ، میری ماتا جی  اکٹھا کرلیا کرتی تھیں اور جب ہم گھر جاتے تھے تو ہمیں دکھایا کرتی تھیں۔سینک اسکول کے طالب علم کے طور پر جب ہم پکنک پر بھوپال ساگر گئے تو ہم نے دیکھا کہ اس کے ذریعہ  ہر طریقے سے، شخصیت کی مربوط نشوونما ہوتی ہے، اس وقت مایو کالج کے پرنسپل تھے، مسٹر گِبسن، جو تھوڑے طبقہ اشرافیہ سے مانے جاتے تھے۔ سینک اسکول میں اشراف سے تعلق رکھنے والا اور کوئی نہیں ہے۔ہم بنیادی طور پر ملک کا سب سے مضبوط تعلیمی ادارہ ہیں۔ لیکن مایو کالج کی ٹیم ہمیں فٹ بال میں اکثر ہرا دیتی تھی۔ آہستہ آہستہ پتہ لگا کہ، سینک اسکول کے لڑکوں اور اب یقیناً لڑکیوں کا اضافہ قابل ذکر، غیر معمولی، بے مثال تھا، ایسامیں نے کہیں  نہیں دیکھا تھا۔ انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے میں، ایک سینک اسکول کا طالب علم قائدانہ خصوصیات اور ان مقاصد کے لیے جو ہم نے یہاں حاصل کیے ہیں کے لیے نمایاں طورپردکھائی دےگا ۔

اس جگہ سے نکلنے کے بعد، ان اسناد، ہمت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے ساتھ، جب وکیل بنا تو دنیا کی معلومات پہلی بار ہوئی، میں آپ کو یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ خوش نصیب ہیں، آپ  ایک ایسے وقت میں بھارت میں رہ رہے ہیں جب  بھارت عروج پر ہے جیسا کہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ ملک کا عروج رک نہیں سکتا۔ اگر ہم چند اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو 2022 میں کل براہ راست ڈیجیٹل منتقلی میں، ہندوستان نے عالمی لین دین  میں 46 فیصدکردار ادا کیا، جو کہ یو کے ، یو ایس اے، فرانس اور جرمنی سے چار گنا تھا۔ آپ ان دنوں میں جی رہے ہیں۔ آپ ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جہاں بھارت کے انٹرنیٹ کی فی کس ڈیٹا کی کھپت، امریکہ اور چین سے زیادہ ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں میرا خواب تھا کہ ایک اچھی لائبریری ہو،تو پتہ لگاکہ ہریانکہ کے بھیوانی ضلع میں ایک لائبریری برائے فروخت ہے۔اب سوال یہ تھا کہ اس کے لئے درکار 6000 روپے کہاں سے آئیں؟۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جس بینک مینجر نے مجھے 6000روپے دیئے اس نے میری پیشہ ورانہ زندگی میں انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔

جب میں سیاق و سباق پرمڑ کر نگا ہ ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ لوگ کتنے بہتر ہیں، آپ ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جو آئی ایم ایف کے مطابق مواقع اور سرمایہ کاری کی سب سے پسندیدہ منزل ہے۔ آپ کو صرف اپنے ذہن میں ایک خیال رکھنے کی ضرورت ہے، باقی چیزیں اس کے بعد آئیں گی۔ یہ میرا آپ کو مشورہ ہے، میں اس کا شکار ہوا ہوں، مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ میں کلاس میں پہلے نمبر پر نہیں آؤنگاتو کیا ہوگا؟اس ڈر کے ساتھ میں نے زندگی گزاری ہے۔ اپنے اسکول کے دنوں میں مجھے مسلسل صدمے کا سامنا تھا اگر میں کلاس میں ٹاپ نہیں کروں گا تو کیا ہوگا؟ ایک وقت میں بخار کی وجہ سے کسی خاص دن کا پرچہ چھوٹ گیا، تب بھی میں ٹاپر تھا۔بہت وقت گزرنے کے بعد سمجھ میں آیاکہ اس ڈر کی وجہ سے میں نے بہت کچھ کھودیا۔کوئی آسمان  تو گرنے والا تھا نہیں ،اور تاریخی طور پر آسمان کبھی گرا بھی نہیں ہے۔اس لئے مسابقت کے بارے میں کبھی پاگل نہ ہوں۔ نمبر 1نہیں آتا، نمبر 2، 3 آتا توکتنا اچھا ہوگا کچھ کھیلنا کا موقع ملتا ، کچھ غیر نصابی سرگرمیاں کرنے کو ملتی، بہت کچھ ہوجاتا۔ مربوط ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کبھی بھی تناؤ میں نہ ہوں، کبھی دباؤ میں نہ ہوں، ہمیشہ اپنی اہلیت کے مطابق چلیں۔ کاغذ کے اوپرنہر بنانا بہت آسان ہے اس پر عمل کرنا بھی آسان ہےلیکن ندی کی بات بھی خاص ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ دریا کا گھومنا قدرت کا ہمیں دیا ہوا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ اس کا اثر بہت بڑے علاقے میں محسوس ہوتا ہے۔ تو ایک دریا کی طرح آزادانہ طور پر گھومیئے اور جس طرح سے آپ چاہتے ہیں محسوس کریں۔آپ کو کسی طرح ڈکٹیٹ نہیں کیا جانا چاہئے۔

ہمارے زمانے  میں تو کیا تھا ایک عجیب و غریب بات تھی، بچے کی پیدائش ہوتی تھی تواس کی کنڈلی نہیں بنتی تھی  بلکہ ماں باپ ہی اپنے آ پ یہ طے کرلیا کرتے تھے کہ یہ کوئی فوجی بنے گایا ڈاکٹر بنے گا،انجینئر بنے گا،یہ آئی اے ایس بنے گا۔ یہ سب وہ پہلے ہی طے کرلیا کرتے تھےاور بچے کو زندگی بھر اسی گروپ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

لڑکوں اور لڑکیوں، آپ  لوگ خوش قسمت ہیں، زمانہ بدل گیا ہے۔ آج، آپ کے پاس ایک ماحولیاتی نظام ہے جہاں پہل قدمیوں اور پالیسیوں کی وجہ سے آپ اپنی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، آپ اپنی توانائی  کا اظہار کر سکتے ہیں، آپ اپنے ٹیلنٹ کو سمت دے سکتے ہیں، آپ بڑے مقاصد  حاصل کر سکتے ہیں۔ اور کہتے ہیں نا ‘ہاتھ کنگن کو آرسی کیا’۔

اس ملک میں ہمارے پاس جتنے اسٹارٹ اپ ہیں اور جتنے  یونیکورن ہیں،ان کی وجہ سے  دنیا میں ہماری بے مثال حیثیت ہے۔ دنیا میں آج بھارت کی جو شناخت قائم ہوئی ہے میں آپ سے دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی ،کبھی نہیں ۔ اپنے تین غیر ملکی دوروں کے دوران میں نے عالمی رہنماؤں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے ۔ان رہنماؤں میں امریکی صدر جو بائیڈن  بھی شامل ہیں اور میں آپ کوبتاسکتا ہوں کہ اس وقت بھارت کانائب  صدر ہونااپنے  آپ میں میرے لئے فخر کی بات ہے۔اور وہ اس لئے ہے کہ دنیا میں بھارت کی عظمت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ 1989، میری زندگی  میں ایک بڑی تبدیلی والا سال تھا۔میں ایک ایسا شخص تھا جو یہ کہتا تھا کہ سیاست میں کبھی نہیں جاؤں گالیکن بھٹک کر سیاست ہی میں آگیا۔ 1989 میں لوک سبھا کے لئے منتخب ہوکر آیا اور مرکزی وزیر بنا ۔میں اس وقت بھی غیر ملکی دورے پر گیا تھااور1989 کا کیا نظارہ دیکھا کہ ملک کی اقتصادی ساکھ  کو بچانے کے لئے دنیا ہمیں دیوالیہ نہ کہہ دے اور ہم اقتصادی دنیا میں بلیک لسٹ نہ کردئے جائیں ، ہمیں ہوائی جہاز سے سونا باہر بھیجنا پڑا ،ہمارا غیر ملکی ذرہ مبادلہ کا ذخیرہ ایک یا دو بلین امریکی ڈالر ہی رہ گیا تھا،جو آج کی تاریخ میں 600 بلین ہے۔کئی بار تو یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہوں اور ان دنوں کی یاد آتی ہے کہ دو بلین کل ذخیرہ تھا اور کئی بار پتہ لگتا ہے کہ ایک مہینے میں 6 بلین کا اچھال آگیا،یہ بھارت کی طاقت ہے۔

لڑکوں اور لڑکیوں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ستمبر 2022 ہم سب کے لیے بہت فخر کا لمحہ تھا۔ ستمبر 2022 میں، ہندوستان پانچویں سب سے بڑی عالمی معیشت بن گیا اور اس عمل میں ہم نے اپنے سابقہ نوآبادیاتی لیڈر- برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اور اس دہائی کے اواخر  تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔

آپ سب  سے ،میں یہ سب کیوں کہہ رہا ہوں ؟ جو اگلی صف میں بیٹھیں ہیں، ہم میں  سے کچھ لوگ اس وقت شاید موجود نہیں ہوں گےجب 2047 میں بھارت اپنی آزادی کا صد سالہ جشن منائے گا لیکن آپ بھارت @ 2047 کے سپاہی ہیں۔ آپ سب کی وجہ سے ہندوستان دنیا میں سرفہرست ہوگا اور یہ دراصل طے ہوچکا ہے۔

دوسری بات، ہم نے تو کرکے دکھایا ہے۔130 کروڑ لوگ کووڈ-19 کی چپیٹ میں آجائیں اور اس دوران 100 ممالک کی ہم مدد کریں یہ ہماری تہذیب کا بنیادی اصول ہے۔ یہ ہماری تہذیبی اخلاقیات کا نچوڑ ہے کہ بحران کے وقت ہم دنیا کو ایک خاندان کے طور پر تصور کرتے ہیں اوردوسروں کی دستگیری کرتے ہیں۔

ایسا دنیا کے کسی بھی ملک نے نہیں کیا۔آپ کو حیرت انگیز بات بتارہا ہوں، اورجس کی معلومات آپ سب کو ہے بھی،اور وہ ہے 220 کروڑ کو ویکسین سرٹیفکیٹ! بھارت تنہا  ملک ہے جو ڈیجیٹل ہے۔ امریکہ میں بھی ابھی تک کاغذ پر انحصار کیا جاتا ہے ،یہ عظیم کامیابی کس بنا پر ہے۔اس بنا پر کہہ ہم ہندوستانیوں کا ڈی این اے مضبوط ہے۔ ہم مہارتوں کو  فوری طور پر  سمجھ لیتے ہیں، ہم ٹکنالوجی کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ہمیں کوئی ٹکنالوجی سکھائے یا نہ سکھائے، گاؤں کا آدمی بھی ٹکنالوجی سمجھ سکتا ہے، ورنہ اگر گاؤں کا آدمی ٹکنالوجی نہیں سمجھتا ہے تو 11  کروڑ کسانوں کوسال میں تین بار معاشی امداد براہ راست کیسے ملتی ہے؟۔ ہم جس زمانے میں رہتے تھے وہاں پاور کوریڈورس کے اندر پاور بروکر رہتے تھے۔ ملک میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے ،اب یہاں  کرپشن کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاور کوریڈورز کو ان لوگوں سے صاف کیا گیا ہے جنہوں نے حکومتی فیصلوں کو قانونی طور پر استعمال کیا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ اور یہ تبدیلی کسی حکومت اورانتظامیہ  کا اکیلا تعاون نہیں ہے،بلکہ اس میں ہر ہندوستانی کا تعاون شامل ہے ۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ اتنی بڑی ترقی ہونے کے ساتھ بڑے چیلنج بھی آتے ہیں ۔نیوٹن کا تیسرا اصول کیا کہتا ہے؟(ہر عمل کا اس کے برابر اور برعکس رد عمل ہوتا ہے) ،تو دنیا میں بھی رد عمل ہورہا ہےکہ بھارت کی اتنی عظیم حصولیابیوں کو ہم کس طرح ہضم کرپائیں گے۔میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بہت سمجھدار اور فیصلہ کن بنیں، ہر چیز پر غور کریں اور ایک موقف اختیار کریں۔ اگر میں فوجی اسکول چتوڑ گڑھ میں جہاں میرا غیر حیاتیاتی جنم ہوا ہےوہاں میں اپنی فکر کا اظہار نہیں کروں گاتو پھر کہیں نہیں کرپاؤں گا۔آج کے دور میں  ہمارے ملک کے اندرضرورت اس بات کی ہے کہ  ہر شخص  قانون کی بات کرے، قانون کے دائرے میں رہے۔کوئی شخص کتنا ہی بڑا ہو، کتنا ہی متاثر کن پس منظر سے تعلق رکھتا ہو،کتنے ہی بڑے عہدے پر وہ فائز ہو،اسے قانون کے دائرے میں رہ کر ہی کام کرنا پڑےگا۔

قانون کے مطابق انصاف حاصل کیے بغیر انصاف کے حصول کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا رجحان انتشار کا باعث بنے گا اور ہمارا عدالتی نظام بہت مضبوط ہے۔ آپ نے دیکھاہوگا کہ حالیہ دنوں میں  غیرجانبداری کے ساتھ اہم فیصلے کئے گئے ہیں ۔ اس بات کی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی ہے کہ ہمارے اداروں سے ہمارا اعتماد اٹھنے لگے گااور ہم کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتےکہ  آپ  ہمارے اداروں پر اندھا دھند حملے کریں۔ان کی ساکھ کو داغدار کریں  اور ان کی معتبریت کو بٹا لگانے کی کوشش کریں ۔یہ سب سوچ کر تکلیف ہوتی ہے  میں یہ نہیں کہتاکہ  سب کچھ ٹھیک ہے، ضرور کچھ ایسی باتیں ہیں جن میں  تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس تبدیلی  کےلئے  ایک پلیٹ فارم موجود ہے۔

راجیہ سبھا کا اسپیکر ہونے کے ناطے میں اپنے درد کا اظہار کررہا ہوں ،قانون ساز اسمبلی نے تین سال تک کئی اجلاس کئے اور ان کے سامنے جو مسائل بحث کے لئے پیش تھے وہ آج کے موضوعات کے حساب سے کافی سخت تفرقہ انگیز، متنازعہ تھے ۔ان مسائل کا حل بات چیت کے ذریعہ نکالا کیونکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ اور قانون سازیہ بلآخر مکالمہ، بحث، غور و خوض، بات چیت کے لئے ہی تو ہے۔وہ انتشار اور خلل پیدا کرنے کے لئے نہیں ہے۔ آئین ساز اسمبلی میں  ایک بھی دن ، ایک بھی لمحے کے لئے کوئی خلل اندازی نہیں ہوئی۔اس تناظر میں جب آج کی صورتحال کو دیکھتا ہوں تو یہ لمحہ فکریہ ہے ،تشویش کا باعث ہے ،آپ لوگوں کے لئے غورو خوض کرنے کا مقام ہے۔اگر آپ اسکول کے ماحول میں خوشگواریت کا اظہار نہیں کریں گے ،نظم و ضبط نہیں دکھائیں گے تو سارا نظام چرمرا جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کام کرنا چاہئے جس سے ملک کا نام سر بلند رہے ،میں بہت زیادہ وقت نہیں لونگا، لیکن میں اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے کہوں گا کہ ہمیشہ اپنے قومی مفاد کو ہر چیز سے بالاتر رکھیں۔ یہ اختیاری نہیں ہے لیکن یہی واحد راستہ ہے۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے ملک کو ہر چیز کو فوقیت دینی ہوگی۔ہم اپنے قومی مفاد سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں ہمیشہ اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کرنا چاہیے اور اپنی تاریخی غیر معمولی کامیابیوں پر فخرکا اظہار کرنا چاہئے۔

آج کے دن  نظم و ضبط کی صورتحال بدل گئی ہے۔پہلے یہ ہوتاتھا کہ کاروبارکرنے کے لیے بڑے خاندان سےتعلق ہوناضروری تھا،اب حالات بدل گئے ہیں۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو باہر نکل کر آرہے ہیں اپنے اپنے اسٹارٹ اپ چلاتے ہیں  اور بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ارب پتی ہوگئے ہیں۔سب سے زیادہ یونیکورن انہوں نے ہی تیار کئے ہیں۔

آپ سب کے لئے میری بہت بہت نیک خواہشات!اورآخر میں میری  ایک بات کا خیال رکھنا کہ ناکامی سے ڈرنا نہیں ،ناکامی کا خوف سب سے بڑی بیماری ہے جو انسانیت کو تباہ کر سکتی ہے۔ کسی نے بھی پہلے قدم پر کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ 20 جولائی 1969 کو نیل ارمسٹرانگ جب چاند پر پہنچے تو اس سے پہلے بھی کوششیں کی جاچکی تھیں۔اب چندریان-3 جا رہا ہے، کل ہم سب انتظار کریں گے،لیکن  جب چندریان-2 بھیجا گیا تھا توآدھی رات کے وقت  میں 500 لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تھا جو سب تمہاری عمر کے بچے تھے، میں نے سب کو مدعو کیاتھا اور آخر میں جب چندریان کی  سافٹ لینڈنگ نہیں ہو پائی تو سنناٹا چھا گیا،میں نے کہا خوش ہو جاؤ! 95فیصد کامیابی مل چکی ہے اور بس 5فیصد نہیں ملی ہے۔

آپ سب کو وہ دن یا د ہوگا جب اسرو کے اس ڈائریکٹر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے گلے لگایا اور کہا کہ ‘‘ہم یہ اگلی بار کریں گے’’ کبھی امید نہ ہاریں، کبھی ہمت نہ ہاریں، اپنے عزم پر یقین رکھیں، اچھے خیالات کواپنے ذہن میں صرف ایک خیال کی حیثیت سے پڑا نہ رہنے دیں ۔بلکہ  اختراعی بنیں،صورتحال اپنے آپ ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی چلی جائے گی۔ بہت بہت شکریہ!

 

*************

ش ح۔  س ب ۔م ش

(U-8703)


(Release ID: 1951350)
Read this release in: English , Hindi , Manipuri , Tamil