بھارتی چناؤ کمیشن

ای سی آئی نے اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ وسیع مشاورت کے بعد ریاست آسام کی اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کے لیے حتمی حد بندی کا حکم جاری کیا


تجویز کو حتمی شکل دینے سے پہلے موصول ہونے والی 1200 سے زیادہ نمائندگیوں پر غور کیا گیا؛ موصول ہونے والی تجاویز/ اعتراضات میں سے 45 فیصد کو حتمی ترتیب میں حل کر دیا گیا ہے

حتمی حکم میں، ای سی آئی نے 19 اے سی اور 01 پی سی کے موجودہ ناموں پر نظر ثانی کی ہے

اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 126 اور لوک سبھا کی 14 نشستوں پر برقرار ہے

19 اے سی اور 2 پی سی ایس ٹی کے لیے محفوظ ہیں؛ 9 اے سی اور 01 پی سی ایس سی کے لیے مخصوص ہیں

Posted On: 11 AUG 2023 6:19PM by PIB Delhi

الیکشن کمیشن آف انڈیا نے آج ریاست آسام کے لیے پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندی کے لیے حتمی حکم نامہ شائع کیا، جیسا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ، 1950 کی دفعہ 8-A میں فراہم کیا گیا ہے۔ حتمی حکم نامہ مرکزی حکومت اور ریاست آسام کے گزٹوں میں مطلع اور شائع کیا گیا تھا۔ کمیشن نے مختلف اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ ایک وسیع اور مضبوط مشاورتی مشق کے بعد حتمی تجویز تیار کی ہے جس میں جولائی 2023 میں مسودہ تجویز پر گوہاٹی میں تین دن کی عوامی سماعت اور مارچ 2023 میں رپورٹ کے مسودے کی تیاری سے پہلے کی میٹنگ شامل تھی۔

کمیشن کو حد بندی کی تجویز کے مسودے پر عوامی سماعت کے دوران کچھ پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کے ناموں کی تبدیلی کے لیے عوام، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے متعدد متضاد نمائندگیاں موصول ہوئیں، جس میں اس علاقہ کی تاریخی، ثقافتی، سیاسی اور نسلی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ سی ای سی جناب کمار نے تصادم یا دشمنی پیدا کیے بغیر مختلف مسائل پر اپنے متضاد دعووں کو احترام اور دوستانہ انداز میں پیش کرنے کے لیے آسام کے مختلف گروپوں کی قابلیت کی تعریف کی۔

چیف الیکشن کمشنر جناب راجیو کمار، الیکشن کمشنر جناب انوپ چندر پانڈے اور جناب ارون گوئل پر مشتمل کمیشن کی طرف سے تمام نمائندگیوں کو مناسب طریقے سے سنا گیا اور تجویز کو حتمی شکل دینے سے پہلے آئینی اور قانونی دفعات کے اندر غور کیا گیا اور ان کا جائزہ لیا گیا۔ کمیشن کی تجویز کے مسودے کے حوالے سے عوامی اجلاسوں میں یا دوسری صورت میں کل 1222 نمائندگیاں موصول ہوئیں۔ کمیشن کو موصول ہونے والی کل 1222 تجاویز/ اعتراضات میں سے تقریباً 45  فیصد کو حتمی تجویز میں حل کیا گیا ہے۔ تقریباً 5 فیصد نمائندگیوں میں، جو مطالبات اٹھائے گئے وہ آئینی اور قانونی دفعات سے ماورا پائے گئے اور اس لیے ان کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ باقی تمام تجاویز/ اعتراضات میں دی گئی درخواستیں قابل عمل نہیں پائی گئیں۔

ریاست میں تمام اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی 2001 کی مردم شماری کی بنیاد پر کی جائے گی جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 170 اور آرٹیکل 82 میں فراہم کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف 2001 کے مردم شماری کے اعداد و شمار پر غور کیا گیا ہے، جیسا کہ مردم شماری کمشنر نے شائع کیا ہے۔ ریاست آسام میں قانون ساز اسمبلی اور عوامی ایوان کی نشستوں کی تعداد کو بالترتیب 126 اور 14 کے طور پر برقرار رکھا گیا ہے۔ آرٹیکل 170 اور 82 میں کہا گیا ہے کہ ہر ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں نشستوں کی تعداد اور ریاستوں کو عوام کے ایوان میں نشستوں کی تقسیم میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی جب تک کہ سال 2026 کے بعد کی گئی پہلی مردم شماری کے متعلقہ اعداد و شمار سامنے نہ آ جائیں۔

قانون ساز اسمبلی میں 09 نشستیں درج فہرست ذاتوں کے لیے مختص کی گئی ہیں، جب کہ ہاؤس آف پیپل میں درج فہرست ذاتوں کے لیے 1 نشست مختص کی گئی ہے۔ 19 اسمبلی حلقے اور دو پارلیمانی حلقے درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے حلقوں کا ریزرویشن آئین ہند کے آرٹیکل 330 اور 332 میں درج دفعات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

 

چند نمایاں خصوصیات:

 

  • سب سے نچلی انتظامی اکائی کو دیہی علاقوں میں ’گاؤں‘ اور شہری علاقوں میں ’وارڈ‘ کے طور پر لیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، گاؤں اور وارڈ کو برقرار رکھا گیا ہے اور ریاست میں کہیں بھی توڑا نہیں گیا ہے۔ یہ تجویز ترقی کی انتظامی اکائیوں یعنی ڈیولپمنٹ بلاک، پنچایتوں (بی ٹی اے ڈی میں وی سی ڈی سی) اور دیہی علاقوں میں گاؤں اور میونسپل بورڈ، شہری علاقوں کے وارڈوں کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
  • ایس سی اسمبلی کی نشستیں 8 سے بڑھ کر 9 ہوگئی ہیں۔ ایس ٹی اسمبلی کی نشستیں 16 سے بڑھ کر 19 ہوگئی ہیں۔
  • مغربی کربی اینگلونگ ضلع میں خود مختار اضلاع میں 01 اسمبلی سیٹ کا اضافہ
  • بوڈو لینڈ کے اضلاع میں اسمبلی حلقہ جات (اے سی) کی تعداد 11 سے بڑھا کر 15 کر دی گئی ہے۔
  • دیفو اور کوکراجھار پارلیمانی سیٹوں کو برقرار رکھا گیا ہے جو ایس ٹی کے لیے مخصوص ہے۔
  • لکھیم پور پارلیمانی سیٹ کو غیر محفوظ کے طور پر جاری رکھا گیا ہے
  • دھیماجی ضلع میں 01 غیر محفوظ اے سی
  • 01 پارلیمانی نشست یعنی ’دیفو‘ ایس ٹی کے لیے مخصوص ہے جس میں 03 خود مختار اضلاع کے 06 اے سی شامل ہیں
  • 02 پارلیمانی نشستیں بارک ویلی کے اضلاع یعنی کچھر، ہیلاکنڈی اور کریم گنج اضلاع کو دی گئی ہیں۔
  • 01 پارلیمانی سیٹ کا نام ’کازیرنگا‘ جبکہ 01 اسمبلی حلقہ کا نام ’مانس‘ رکھا گیا ہے۔

 

کچھ اے سی اور پی سی کا نام تبدیل کرنا

نمائندگیوں پر غور کرنے کے بعد، کمیشن نے حتمی حکم میں 19 اے سی اور 01 پی سی کے موجودہ ناموں پر نظر ثانی کی ہے جیسا کہ نیچے دیے گئے جدول میں دیا گیا ہے۔

جدول 1

اسمبلی حلقے

نمبر شمار

اسمبلی حلقہ کا موجودہ نام

اسمبلی حلقہ کا نظر ثانی شدہ نام

9

منکاچر

بیرسنگ جروا

11

جنوبی سلمارہ

منکاچر

17

مانک پور

سری جنگرام

21

بھوانی پور

بھوانی پور-سوربھوگ

25

روپشی

پاکابیٹباری

28

بوکو (ایس ٹی)

بوکو-چھائے گاؤں (ایس ٹی)

30

ہاجو (ایس سی)

ہاجو-سوالکوچی (ایس سی)

41

گوبردھن

مانس

55

بتردربا

دھنگ

60

نگاؤں

نگاؤں – بتردربا

69

سوتیا

نادور

87

چھبوا

چھبوا – لاہوال

89

موران

کھووانگ

113

دیما ہساؤ (ایس ٹی)

ہفلانگ (ایس ٹی)

122

الگاپور

الگاپور – کٹلیچیرا

123

بدرپور

کریم گنج شمالی

124

شمالی کریم گنج

کریم گنج جنوبی

125

جنوبی کریم گنج

پتھرکنڈی

126

رتاباری (ایس سی)

رام کشن نگر (ایس سی)

پارلیمانی حلقے

4

دارنگ

دارنگ - ادلگوری

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

وسیع مشاورت:

  1. 19 سے 21 جولائی 2023 کے دوران مسودہ حد بندی کی تجویز پر عوامی سماعت

چیف الیکشن کمشنر جناب راجیو کمار اور الیکشن کمشنر جناب انوپ چندر پانڈے اور جناب ارون گوئل پر مشتمل کمیشن نے گوہاٹی شہر میں منعقدہ عوامی اجلاسوں کے دوران سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی تنظیموں کے نمائندوں اور عوام کے ارکان سے حد بندی تجویز کے مسودے پر سماعت کی اور 19، 20 اور 21 جولائی 2023 کو عوام، عوامی نمائندوں، سیاسی رہنماؤں اور دیگر اسٹیک ہولڈروں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا۔ عوامی سماعتیں حد بندی کے عمل کے دوران کمیشن کی مشاورتی مشق کا حصہ تھیں۔ پبلک نوٹس کے جواب میں جن لوگوں نے تجاویز اور اعتراضات داخل کیے ان کو خصوصی طور پر سنا گیا۔ ان تین دنوں کے دوران، کمیشن نے 31 اضلاع سے 1200 سے زیادہ نمائندگیوں کو سنا اور 20 سے زیادہ سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کیں۔

مجموعی طور پر 6000 سے زائد افراد نے عوامی سماعتوں میں حصہ لیا۔ تین دنوں میں منعقدہ عوامی اجلاسوں کے دوران، کمیشن نے تحمل سے سماج کے مختلف طبقوں، تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی تمام نمائندگیوں کو سنا اور تمام نمائندگیوں پر آئینی اور قانونی دفعات کے اندر غور کرنے کا یقین دلایا۔ کمیشن کی تجویز کے مسودہ کے حوالے سے، عوامی اجلاسوں میں یا دوسری صورت میں کل 1222 نمائندگییں موصول ہوئیں۔ عوامی نوٹس کے جواب میں تمام تجاویز، عوامی اجلاسوں کے دوران تحریری یا زبانی طور پر دی گئیں اور مختلف اسٹیک ہولڈروں سے موصول ہونے والی نمائندگیوں کو کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا اور کمیشن نے تمام تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے اندرونی اجلاسوں کا ایک آخری دور منعقد کیا اور اس پر فیصلہ کیا۔ حکومت ہند کے ساتھ ساتھ ریاست آسام کے سرکاری گزٹ میں اس کی اشاعت سے پہلے حتمی آرڈر کی تیاری کے دوران ایسی تمام تبدیلیاں شامل کی گئی ہیں۔

 

پس منظر:

ہندوستان کے الیکشن کمیشن کو عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعہ 8-A کے تحت ریاست آسام میں پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

ریاست آسام میں اسمبلی اور پارلیمانی نشستوں کی حد بندی آخری بار 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر 1976 میں کی گئی تھی۔ متعلقہ قوانین کے مطابق حد بندی کے طریقہ کار پر عمل کیا گیا ہے جیسا کہ آر پی ایکٹ، 1950 کا سیکشن 8 اے جسے حد بندی ایکٹ، 2002 (33 کا 2002) کے سیکشن 9 (1) (c) اور (d) کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

 

حد بندی کی تجویز کا مسودہ تیار کرنے سے پہلے میٹنگ:

یاد رہے کہ کمیشن نے 26.3.2023 سے 28.03.2023 تک آسام کا دورہ کیا تھا اور سیاسی جماعتوں، عوامی نمائندوں، سول سوسائٹیوں، سماجی تنظیموں، عوام کے ارکان اور ریاست میں انتظامیہ کے افسران بشمول چیف الیکٹورل آفیسر، ریاست کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی الیکشن افسروں کے ساتھ ریاست میں حد بندی کی مشق سے متعلق ذاتی طور پر بات چیت کی تھی۔ مجموعی طور پر، 11 سیاسی جماعتوں اور 71 دیگر تنظیموں کی نمائندگی موصول ہوئی اور ان پر غور کیا گیا۔

 

(یہاں اس لنک پر پڑھیں: حد بندی کی تجویز کے مسودے پر جون 2023 میں جاری کردہ پریس ریلیز: https://eci.gov.in/files/file/15050-eci-publishes-draft-delimitation-proposal-for-assam-suggestions-objections-invited-till-july-11-2023/)

 

رہنما خطوط اور طریقہ کار:

  • کمیشن نے آئینی اور قانونی دفعات اور نمائندگیوں میں موصول ہونے والی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے رہنما اصول اور طریقہ کار وضع کیے۔
  • ریاست میں انتخابی حلقوں کی حد بندی کے مقصد کے لیے ریاست آسام کے چیف الیکٹورل آفیسر سے شماریاتی ڈیٹا اور نقشے طلب کیے گئے، جنہوں نے تمام اضلاع سے 2001 کی مردم شماری کے لحاظ سے اور انتظامی اکائیوں یعنی، ضلع/ ترقیاتی بلاک/ پنچایت یا وی سی ڈی سے (ویلج کونسل ڈیولپمنٹ کمیٹی)/ گاؤں/ وارڈ وغیرہ سے ڈیٹا حاصل کیا۔ جیسا کہ 1 جنوری 2023 کو موجود تھا۔
  • تمام حلقوں کو، جہاں تک ممکن ہو، جغرافیائی طور پر کمپیکٹ ایریاز کے طور پر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ان کی حد بندی میں، طبعی خصوصیات، آبادی کی کثافت، انتظامی اکائیوں کی موجودہ حدود، مواصلات کی سہولیات اور عوامی سہولت کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ جغرافیائی خصوصیات، آبادی کی کثافت، مواصلات کے ذرائع، عوامی سہولت، علاقوں کی مطابقت اور ضرورت جیسے عوامل کے لحاظ سے بعض معاملات میں بڑے بین ضلعی تغیرات کی وجہ سے ریاست اور ضلعی اوسط سے ایک حد تک انحراف کی اجازت دی گئی ہے۔ انتظامی اکائیوں کو توڑنے سے گریز کیا گیا ہے اور چونکہ تمام صورتوں میں بالکل مساوی آبادی والے حلقوں کی حد بندی نہیں کی جا سکتی، ریاست آسام میں، پچھلی حد بندی (1976) کے بعد سے، اضلاع کی تعداد 10 سے بڑھ کر 31 ہو گئی ہے اور اسی طرح ترقیاتی بلاک اور گرام پنچایت کی سطح پر انتظامی اکائیوں کی تعداد میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں۔
  • ریاست آسام میں آبادی میں غیر مساوی اضافے کے انداز کی نشاندہی کرتے ہوئے کمیشن کو کئی نمائندگیاں بھی موصول ہوئیں۔ جبکہ کچھ اضلاع میں آخری حد بندی کے بعد سے زیادہ آبادی میں اضافہ ہوا ہے، کچھ اضلاع میں آبادی میں کم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
  • ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے، کمیشن نے تمام 31 اضلاع کو تین وسیع زمروں A، B اور C میں درجہ بند کیا ہے جس سے فی اسمبلی حلقہ (اے سی) کو اوسط آبادی کا 10 فیصد مارجن دیا گیا ہے۔
  • ریاست کی اوسط آبادی کی کثافت 338 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی کی کثافت کی حد 304 (اوسط آبادی کی کثافت سے 10 فیصد کو گھٹا کر) 372 تک (اوسط آبادی کی کثافت میں 10 فیصد کا اضافہ) قائم کی گئی ہے اور اس بنیاد پر، تین زمرے بنائے گئے ہیں جیسا کہ ذیل میں دیا گیا ہے:
  1. جن اضلاع میں آبادی کی کثافت 304 افراد فی مربع کلومیٹر سے کم ہے۔
  2. 304 سے 372 افراد فی مربع کلومیٹر کے درمیان آبادی کی کثافت والے اضلاع۔
  3. جن اضلاع میں آبادی کی کثافت 372 افراد فی مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔

 

ایس سی اور ایس ٹی کے لیے نشستوں کا ریزرویشن

 

  • ایس سی کے لیے مخصوص کیے جانے والے حلقوں کی کل تعداد کا تعین ریاست کی کل آبادی سے ای سی کی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر کیا گیا ہے:

 

2001 میں ایس سی کی آبادی = 1825949

2001 کی کل آبادی = 26655528

ایس سی کا تناسب = 0.0685

ریاست میں اے سی کی کل تعداد = 126

اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی تعداد = 8.63، یعنی، 9

پی سی کی کل تعداد = 14

محفوظ کیے جانے والے پی سی کی تعداد = 0.96، یعنی، 1

  • اس کے بعد، ریاست کی کل ایس سی آبادی کے تناسب سے ضلع میں ایس سی کی آبادی کے تناسب سے پہلے اضلاع میں ایس سی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ اضلاع کے اندر، سب سے زیادہ متناسب ایس سی آبادی والی نشستیں (اے سی کی کل آبادی کے لیے) ایس سی کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ اسی طرح، سب سے زیادہ متناسب ایس سی آبادی والا پی سی (پی سی کی کل آبادی کے ساتھ) ایس سی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
  • آئین کے آرٹیکل 332 کی شق (6) کے مطابق، ”کوئی بھی شخص جو ریاست آسام کے کسی خود مختار ضلع کے درج فہرست قبیلے کا رکن نہیں ہے، وہ اس ضلع کے کسی بھی حلقے سے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا۔“
  • آئین کے آرٹیکل 332 کی شق (6) کے مطابق، ”بشرطیکہ ریاست آسام کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے، بوڈولینڈ کے علاقے میں شامل حلقوں میں درج فہرست قبائل اور غیر درج فہرست قبائل کی نمائندگی ہو، مطلع کردہ بوڈولینڈ ٹیریٹوریل ایریاز جو ڈسٹرکٹ کے آئین سے پہلے موجود تھے، ان کو برقرار رکھا جائے گا“۔ اس کے مطابق، 04 بوڈولینڈ اضلاع میں 06 اے سی (موجودہ 06 ایس ٹی حلقے کل 11 میں سے) ایس ٹی کے لیے کل 15 سیٹوں میں سے تجویز کیے گئے ہیں۔
  • باقی 07 نشستیں (13-6) باقی اضلاع (03 خود مختار اضلاع اور 04 بی ٹی اے ڈی اضلاع کے علاوہ) کو الاٹ کی گئی ہیں۔ اس کے بعد، ان اضلاع میں اے سی میں متناسب ایس ٹی آبادی (اے سی کی کل آبادی کے حساب سے) کے گھٹتے ہوئے ترتیب میں اے سی کا انتظام کیا گیا ہے اور ایس ٹی کے لیے ٹاپ 7 سیٹیں مختص کی گئی ہیں۔

03 خود مختار اضلاع میں ST نشستوں کی تعداد = 6

باقی 28 اضلاع میں ST کی کل آبادی = 2727179

باقی 28 اضلاع کی کل آبادی = 25654138

ان 28 اضلاع میں ایس ٹی کا فیصد = 10.63 فیصد

ان 28 اضلاع میں ST نشستوں کی تعداد = 120*10.63/100 = 13

بی ٹی اے ڈی میں ایس ٹی نشستیں = 6

باقی 24 اضلاع میں ایس ٹی نشستیں = 7

کل ایس ٹی نشستیں = 19

  • آرٹیکل 330 (2) کے مطابق: شق (1) کے تحت درج فہرست ذاتوں یا درج فہرست قبائل کے لیے کسی بھی ریاست یا یونین کے زیر انتظام علاقے میں مخصوص نشستوں کی تعداد، تقریباً جتنا ہو سکے، نشستوں کی کل تعداد کے برابر تناسب کو برداشت کرے گی۔ ریاست یا یونین کے زیر انتظام علاقے میں درج فہرست ذاتوں کی آبادی کے طور پر یا ریاست یا یونین کے زیر انتظام علاقے میں یا ریاست یا یونین کے زیر انتظام علاقے کا حصہ، جیسا کہ معاملہ ہو سکتا ہے، اس ریاست یا یونین کے زیر انتظام علاقے کو عوام کے ایوان میں الاٹ کیا گیا ہو، جس کے سلسلے میں محفوظ کی جانے والی سیٹیں ریاست یا مرکز زیر انتظام علاقہ کی کل آبادی پر منحصر ہے۔

2001 ایس ٹی آبادی = 33,08,570

2001 کی کل آبادی = 26655528

ایس ٹی کا تناسب = 0.124

ایس ٹی پی سی کی تعداد = 1.74، یعنی 2

تفصیلی حد بندی کی رپورٹ جلد ہی ای سی آئی کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہو گی جس میں تمام قانونی اور آئینی دفعات، حد بندی کے اعداد و شمار، رہنما خطوط اور طریقہ کار، ورکنگ پیپر، نوٹیفائیڈ حد بندی آرڈر، ریاست کے پی سی کے نقشے، اے سی کے ضلع وار نقشے، پریس نوٹ اور سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور عوام کے ارکان سے مسودہ تجویز پر موصول ہونے والی نمائندگیوں کی فہرست شامل ہے۔

 

**************

ش ح۔ ف ش ع- م ف

U: 8261



(Release ID: 1947976) Visitor Counter : 202


Read this release in: English , Hindi