صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال نےنوعمروں کی صحت اور بہبود پر جی20 مشترک برانڈ والی تقریب کے لیے ٹاؤن ہال سیشن میں کلیدی خطبہ دیا
آج کے نوجوان بچے ہمارا مستقبل ہیں، اور ہمارا مستقبل ان پر منحصر ہے: ڈاکٹر وی کے پال
سماجی سطح پر ہمیں صحت مند غذا ، جنسی، تولیدی صحت، ذہنی صحت جیسے مسائل کے بارے میں بات کرنے کوزندگی کا معمول بنانے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر وی کے پال
’’وزارت صحت اور نیتی آیوگ نوجوانوں کی دیکھ بھال کے کام کا جائزہ لینے، اس کے بہتر بنانے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس عمر سے تعلق رکھنے والا گروپ تمام اقوام کے لیے بہت اہم ہے، ہندوستان کے لیے بہت زیادہ اہم‘‘
’’اسکولوں کو صحت کا خالق اور فروغ دینے والا ہونا چاہیے‘‘
Posted On:
20 JUN 2023 8:40PM by PIB Delhi
’’آج کے نوجوان بچے ہمارا مستقبل ہیں، اور ہمارا مستقبل ان پر منحصر ہے۔‘‘ یہ بات ڈاکٹر وی کے پال، رکن (صحت) نیتی آیوگ نے آج یہاں زچہ، نوزائیدہ اور بچے کی صحت کے لیے شراکت داری (پی ایم این سی ایس) کے تعاون کے ساتھ مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے زیر اہتمام جی 20 کے تعاون سے منعقدہ ایک پروگرام ’ہیلتھ آف یوتھ - ویلتھ آف نیشن‘ کے ٹاؤن ہال اجلاس میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہی۔
روزمرہ کی زندگی میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر زور دیتے ہوئے، ڈاکٹر پال نے خبردار کیا کہ ’’انٹرنیٹ ایک ضرورت ہے۔ اس نے کچھ مثبت انداز میں زندگیوں کو بدل دیا ہے، تاہم دیگر چیزوں کی طرح یہ بھی اپنے ساتھ کچھ منفی اثرات بھی لے کر آتا ہے ‘‘۔ ذاتی زندگیوں پر مصنوعی ذہانت(اے آئی ) کے اثر و رسوخ کے خطرات پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ’’وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر والدین، اسکول، میڈیا اور ہم انٹرنیٹ کے درست اور ضرورت سے زیادہ استعمال کے بارے میں بات کریں۔ تعلیم، اعتدال، اصول پرستی بڑے پیمانے پر خاندانوں اور معاشرے کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہونا چاہیے۔ تاہم، مصنوعی ذہانت اپنے اثر ات کے اعتبار سے خطرناک بھی ہو سکتی ہے اور اس بنا پر طلباء کو ضرورت کے مطابق مشاورت، علاج اور مدد تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر پال نے زور دے کرکہا کہ ’’ہمیں اس حوالے سے ایک اجتماعی ردعمل کے بارے میں سوچنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا اس طریقے سے استعمال کیا جائے جو ایسے چیلنجز ہمارے سا منے پیش کررہی ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔‘‘ مزید وضاحت کرتے ہوئے، ڈاکٹر پال نے کہا کہ ’’معاشرتی سطح پر ہمیں صحت مند غذا ، جنسی، تولیدی صحت، ذہنی صحت جیسے مسائل کے بارے میں بات کرنے کوروز مرہ کا معمول بنانے کی ضرورت ہے ۔‘‘ انہوں نے صحت کی دیکھ بھال سے تعلق رکھنےوالےایک ایسے شعبے کے متعلق بھی زور دیا جسے نظر انداز کیا جاتا رہتا ہے اور وہ ہے نیند کی اہمیت اور صحت پر اس کے اثرات ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’وزارت صحت اور نیتی آیوگ نوجوانوں کی دیکھ بھال کے کام کا جائزہ لینے، اس کے بہتر بنانے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس عمر سے تعلق رکھنے والا گروپ تمام اقوام کے لیے بہت اہم ہے، ہندوستان کے لیے بہت زیادہ اہم ہےکیونکہ اگلے پچیس برسوں کے لیے ہم نے ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سےاپنے لئے اہداف مقرر کیے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر پال نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ’’اسکولوں میں خدمات، مشاورت اور فلاح و بہبود کو یکجا کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘‘۔ انہوں نے نوجوانوں کے نمائندوں کو اسکول ہیلتھ پروگرام کے ڈیزائن میں ان کی معلومات پیش کرنے کے لئے مدعو کیا جو آج کے طلباء کی ضروریات کے مطابق ہے اور اس پروگرام میں ان کی فلاح و بہبود کو بڑھانے والے عناصر شامل ہیں۔
ٹاؤن ہال سیشن کے دوران نوجوانوں کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی گئی جو اُن کی صحت پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں جیسے کہ ذہنی صحت، ماہواری کی صفائی، سائبر بلنگ۔ ہندوستان اور بیرون ملک کے نوجوانوں کے نمائندوں نے ان چیلنجوں کی تفصیل کے ساتھ کامیابیوں کی داستانیں اور تجربات سے روشناس کرایا اور تمام خطوں میں ان مشکلات کو کم کرنے کے ممکنہ طور طریقوں پر غور کیا۔ مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان مسائل پر گفتگو کرنے میں شرم و حیا کا احساس ایک ایسا بدنما داغ ہے جوترقی کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹ ڈالتا ہے اور اس میں کامیابی کاہدف حاصل کرنے کے لیے بیداری اور وسائل کی لوگوں تک بہم رسانی ضروری ہے۔ ’’دنیا بھر میں جنسی مسائل کے متاثرین خاموشی اختیار کرنےمیں ہی عافیت سمجھتے ہیں ، لیکن موجودہ سیشن جیسے فورمز میں ایسے موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے کہ رسوائی کے احساس کے اس بدنما داغ کا کس طرح ازالہ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ نوجوانوں کے نمائندوں نے کامیابی کی کچھ کہانیاں بھی شیئر کیں جن میں کچرے سے نئی مصنوعات تیار کی گئیں۔ مشاورتی خدمات جو حیض کے حوالے سے لڑکیوں میں حفظان صحت کے بارے میں زیادہ بیداری کا باعث بنیں۔ تاہم کامیابی کی ان کہانیوں نے بہت زیادہ اثر ا نگیز ہونے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ایمس کے پروفیسر یتن بلہارا ، اےایم آر ای ایف افریقہ کے سی ای او گتھنجی گیتھائی ،یو ایس اے آئی ڈی میں نوعمروں اور نوجوانوں کے امور کے تکنیکی ماہر ایمی یوسیلو ، یواین ایف پی اے انڈیا کے ملکی نمائندے انڈریا ویجنار ، بی ایم جی ایف کے منصوبہ بندی پروگرام کے ڈائریکٹر این اسٹارس نے اس اجلاس کےمباحثہ کے لیے سہولت فراہم کی۔
دو پینل مباحثے بھی منعقد کئےگئے ۔ نوعمروں اور نوجوانوں کی صحت اور فلاح و بہبود کے مرکز کے پہلے سیشن میں نامور ماہرین صحت نے صحت کے پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر کپل یادو، ایمس نے مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی گئی صحت بخش کھانا کھاؤ(ایٹ رائٹ) مہم کا حوالہ دیتے ہوئے صحت مند کھانا کھانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’’نوخیزی اچھا کھانا کھانے کی عادات پیدا کرنے کے لیے اولین عمر ہے جو دیرپا اچھی صحت کی بنیاد رکھتی ہے۔‘‘
شراکت داری برائے زچگی، نوزائیدہ اور بچوں کی صحت (پی ایم این سی ایچ) کے بورڈ ممبر ڈاکٹر فلاویا بسٹریونے اس سیاسی عزم کی تعریف کی جس کا مظاہرہ ہندوستان نے اس مسئلے کو اپنی جی20 صدارت کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو سامنے لانے میں کیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ’’آبادیاتی منافع نوجوانوں کی اچھی صحت کو یقینی بنائے بغیر مکمل طور پر حاصل نہیں کیا جا سکتا، جو قوم کا مستقبل ہیں۔‘‘ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ صحت کے میدان می نوجوانوں کو بہت سے مسائل اور چیلنجوں کا ہر وقت سامنا رہتا ہے، انہوں نے نوجوانوں کے لیے وسائل اور صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے پائیدار حل نکالنے کے لیے ایک فورم کے طور پر ہندوستان کی جی20 صدارت کا فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون پر زور دیا۔
ڈاکٹر پرتیما مورتی ڈائریکٹر،این آئی ایم ایچ اے این ایس نے دماغی صحت کے چیلنجوں سے جڑے احساس رسوائی کے بدنما داغ کی طرف اشارہ کیا جو مریض کے لیے بروقت طبی دیکھ بھال کے حصول میں رکاوٹ کا کام کرتے ہیں۔ مباحثوں میں بہترین طریقوں پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے جو معاشرے میں وسیع تر مقبولیت پیدا کرنے اور مطلوبہ وسائل تک رسائی کے لیے ایک سازگار ماحول کو فروغ دینے کے لیے وضع کئے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ہیملتا، سلویا وونگ، پروگرام ہیڈ یو این ایف پی اے، گیرتھ جونز، یوتھ نمائندہ میشوا پرمار، پیر ایجوکیٹر (انڈیا) اور شیتانشو ڈھاکل یوتھ ایڈوکیٹ، نیپال، اس سیشن کے لیے ڈائس پر موجود تھے۔
صحت اور بہبود کے لیے نوعمروں اور نوجوانوں کے درمیان رابطہ کاری کےلئے کثیر شعبہ جاتی شراکت داری کے موضوع پر دوسرے سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف فکر انگیز پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا جیسے کہ نوعمروں پر مختلف شعبوں کے پڑنےوالے اثرات اور اس بات پر زور دیا گیا کہ نوعمروں کی فلاح و بہبود صحت کے شعبے سے بالاتر ہے۔اوراس بنا پر کثیر جہتی نقطہ نظر کااپنا یا جانا ضروری ہے۔ اس سیشن میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسٹیک ہولڈرز جیسے کہ تعلیمی برادری، پرائیویٹ سیکٹر، کمیونٹی اور بہت سے دوسرے سامعین کے ساتھ مختلف شعبوں سے معلومات حاصل کرنے کی اہمیت کے بارے میں سوچنے اور مشغول ہونے کے لیے آگے آئے اور انہوں نے ایک جامع نقطہ نظر کو یقینی بنانے کے لیے پروگرام بنائے۔ اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اداروں کی شمولیت وسائل اور مواصلات کو آخری میل تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ مرکزی اسٹیک ہولڈرز تک نچلی سطح کے تاثرات پہنچانے میں بڑے پیمانے پر تعاون کرتی ہے۔ انوریتا بینس، ایسوسی ایٹ دیر، ہیلتھ/ڈائریکٹر ایچ آئی وی یونیسیف، ڈاکٹر اپراجیتا گوگوئی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سی3، ڈاکٹر جے دیپ ٹانک، نومنتخب صدر ، ایف اوجی ایس آئی ، میرٹ خلیل، وائٹ ربن الائنس، ڈاکٹر شالینی بھارت، ڈائریکٹر، ٹی آئی ایس ایس ، اسٹیفن اومولو نے اس سیشن کے لیے ڈائس پراس موضوع پر سرگرم تبادلہ خیال میں حصہ لیا۔
جناب اشوک بابو، جوائنٹ سکریٹری نے ممتاز مقررین شرکاء اور سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریب کو اختتام تک پہنچایا۔ تبادلہ خیال اور حاصل کی گئی قیمتی بصیرت افروز معلومات کو سراہتے ہوئے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان مباحثوں نے پالیسی میں پیش رفت اور قوم کی ترقی کے لیے اہم تاثرات کو اجاگر کیا۔
اس موقع پر وزارت صحت کے سینئر حکام، بین الاقوامی تنظیموں، غیر سرکاری تنظیموں، فورمز اور شراکت دار ایجنسیوں جیسے گیٹس فاؤنڈیشن، یو این ایف پی اے، یو ایس ایڈ، ڈبلیو ایچ او، یونیسیف کے حکام اور جی۔20 ممالک کی اہم نوجوان شخصیات بھی موجود تھیں۔
*******
ش ح ۔ س ب ۔ ف ر
U. No.6492
(Release ID: 1935302)
Visitor Counter : 134