نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

مالویہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جے پور میں ماہرین تعلیم سے بات چیت کے اجلاس میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 23 JUN 2023 4:56PM by PIB Delhi

آپ سب کو گڈآفتڑنون اور نمستے

ایک بہت پرانی کہاوت ہے

گرو گووند دوؤ کھڑے کاکے لاگو پائے

بلہاری گرو آپنے، گووند دیو بتائے

اگر آپ ہماری ہزاروں سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ٹیچر اور طالب علم کے درمیان تعلق زندگی بھر کا ہوتا ہے۔ یہ انقلاب آفریں ہے، اس شخص کے کیریئر اور زندگی میں ایک فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے۔  آپ ہمیشہ دیکھیں گے کہ آپ کی زندگی کو جس نے رخ دیا ہے وہ ضرور کوئی ٹیچر  ہے، جس نے آپ کی زندگی کو تحریک دی ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات ہے۔

جب مجھے سینک اسکول میں داخل کرایا گیا تھا، تو میں گاؤں کے ایسے اسکول سے آیا تھی جہاں انگریزی بھی نہیں پڑھائی جاتی تھی اور سینک اسکول میڈیم انگریزی تھا۔ لہٰذا آپ کی ذہانت کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ آپ انگریزی نہیں جانتے تھے اور جس طرح کی مدد مجھے اپنے ٹیچر سے ملی ، مجھے دو سال کے اندر ہی برٹانیکا انسائیکلوپیڈیا، پکاسو کے بارے میں پتہ چل گیا اور 100 لوگوں کی چھوٹی چھوٹی سوانح حیات سے بھی واقف ہو گئی جو سیکڑوں برسوں سے دنیا میں اہمیت کے حامل تھے۔

یہ تحریک جو خاص توانائی کی حامل ہے، ایک ٹیچر نے بخشی تھی۔ جب میں نے ریاست مغربی بنگال کے گورنر کے عہدے کا حلف لیا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ کیرالہ سے بار بار فون آ رہا ہے۔ کیرالہ کا کوئی شخص مجھ سے رابطہ قائم کرنے کا بہت خواہشمند ہے۔ لیکن کال ختم کی جا رہی تھی۔ میں جانتا تھا کہ یہ سینک اسکول کی میری ٹیچر مس نائر ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا. نائب صدر جمہوریہ ہند کی حیثیت سے میں نے کیرالہ کا دورہ کیا اور ان کے گھر گیا کیونکہ آپ ایک ٹیچر کو کبھی نہیں بھلاسکتے۔

ایک ٹیچر انسانی وسائل پیدا کرتا ہے اور انسانی وسائل باقی چیزیں تخلیق کرتے ہیں۔ سب سے مشکل کام انسانی وسائل کی تخلیق ہے، انسانی وسائل پیدا کرنا ہے، انسانی وسائل میں وہ توانائی شامل کرنا ہے جو انسان کو اپنی توانائی کو مکمل طور پر استعمال کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ہم ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جہاں ہمارے ٹیچر خوش قسمت ہیں کیونکہ انہیں ایکو سسٹم کی سپورٹ مل رہی ہے۔ ایک ٹیچر اس وقت بھی کام کرتا ہے جب ایکو سسٹم اچھا نہیں ہوتا ۔ وہ طلبہ کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن اب حکومت کی پالیسیوں، مثبت اقدامات کے سلسلے کی وجہ سے ایک ایکوسسٹم موجود ہے کہ ایک نوجوان ذہن اپنی صلاحیتوں اور صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے، یہ موقع اب دستیاب ہے۔ کوئی انسٹی ٹیوٹ کتنا اچھا ہے، یہ اس کے بنیادی ڈھانچے، عمارتوں سے نہیں معلوم ہوتا ، بلکہ اس کا پتہ فیکلٹی سے لگایا جاتا ہے۔ یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا کہ فیکلٹی کتنی اچھی ہے، فیکلٹی کتنی پرعزم ہے۔ کسی یونیورسٹی یا کالج یا انسٹی ٹیوٹ کی درجہ بندی کبھی بھی بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے۔ میں آپ کو کچھ یونیورسٹیوں کے بارے میں بتا سکتا ہوں جہاں بنیادی ڈھانچہ تو بہت اچھا ہے لیکن فیکلٹی موجود نہیں ہے۔

عالمی سطح پر بھارتی ذہن اس وقت غالب ہے تو صرف ہمارے اساتذہ کی وجہ سے۔ میں اس جگہ پر آکر بہت پرجوش ہوں۔ ان دنوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اساتذہ بالکل فرنٹ فٹ پر سیدھے بلے سے کھیل رہے ہیں۔ کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ میں سب سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ بہت مسائل سے نبرد آزما ہے کیونکہ ہم اپنے اساتذہ کو وہ عزت دینے سے قاصر ہیں جو انہیں ملنی چاہیے۔

اپنے بچے کی رہنمائی کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسروں کے بچوں کی اس لگن کے ساتھ رہنمائی کرنا، اس عزم کے ساتھ، اور ہر اس چیز کا پتہ لگانا کہ بچوں کو کیا تکلیف ہے، لڑکیوں کو کیا پریشانی ہے، اور پھر ان کی حوصلہ افزائی کرنا، ایک مشکل چیلنج ہے اور ایک ٹیچر ہی ایسا کرتا ہے۔

ڈاکٹر رادھا کرشنن ایک عالمی شہرت یافتہ فلسفی، 10 سال تک بھارت کے نائب صدر اور صدر جمہوریہ ہند کے طور خدمات انجام دینے کے لیے معروف ہیں۔ ان کی پہچان اس لیے نہیں ہے کہ وہ نائب صدر یا فلسفی تھے، ان کی پہچان 'ٹیچر' کی وجہ سے تھی اور یہی وجہ ہے کہ پانچ ستمبر ہم سب کے لیے جشن منانے کا دن ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالکلام ایک ٹیچر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ شمال مشرق میں طلبہ سے بات چیت کرتے ہوئے فوت ہوئے۔ معاشرے کو ٹیچر کو بدلے میں دینا سیکھنا چاہیے، جیسا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارے طالب علم، جب وہ بڑی دنیا میں چھلانگ لگاتے ہیں، تو وہ معاشرے کو، ٹیچر کو، مادرعلمی کو بدلے میں کچھ دیں گے۔

میں سبھی سے اپیل کروں گا—میں نے گورنر، کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے نائب صدر کی حیثیت سے یہ کام کیا ہے—میں سب کو کہتا ہوں کہ سماج کو اساتذہ کو جو فوقیت دینی چاہیے وہ سرکاری پروٹوکول سے اوپرہے۔ یہ ایسا پروٹوکول ہے جو دل اور دماغ کے ساتھ مل کر کام کرنے سے نکلتا ہے۔

میں کل جموں یونیورسٹی میں تھا۔ میں بہت خوش تھایاور بالکل مطمئن کیونکہ وہاں کی فیکلٹی مطمئن تھی۔ یہ ہر معروف ادارے کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اساتذہ کو دستیاب سہولیات کو ترجیح دے۔ یہ ٹیچر ہی ہے جو لیک سے ہٹ کر سوچے گا۔ یہ ٹیچر ہی ہے جو آپ کو جدت طرازی کی راہ پر لے جائے گا۔ یہ ٹیچر ہی ہے جو آپ کو توانائی فراہم کرے گا جب آپ افسردہ ہوں گے اور آپ کو لگے کہ آپ ڈوب رہے ہیں۔

نہ صرف ایک ادارہ یا معاشرہ بلکہ انسانیت کتنی اچھی ہوگی اس کا تعین ٹیچر ہی کرے گا۔ میں نے انڈسٹری کے کئی لوگوں سے پوچھا کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، جو بھی منافع کما رہے ہیں، آپ جو بھی پروڈکٹ بنا رہے ہیں، اسے کس نے بنایا؟ وہ کہیں گے کہ اسے کالج یا یونیورسٹی کی لیب میں بنایا گیا تھا۔ یہ کبھی بھی فیکٹری میں نہیں بنایا گیا۔ وہ تجربے کرتے ہیں، وہ جدت طرازی نہیں کرتے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے انتہائی پرعزم ہیں اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ 100 فیصد اساتذہ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ تحقیق، ترقی اور تخلیقی صلاحیتیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ ایک ٹیچر کے لیے اس کے دماغ میں جو کچھ ہوا ہے اس کے ساتھ کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے ایک خاص منصوبے پر سالوں تک انتھک محنت کی ہے۔ اس عمل میں انہیں مناسب شناخت ملنی چاہیے۔

مجھے کبھی کبھی تکلیف ہوتی ہے اور میں اپنا درد آپ کے ساتھ بانٹوں گا۔ امریکہ میں ایک باوقار ادارہ ہے جہاں دنیا کے ہر کونے سے ایک فیکلٹی موجود ہے لیکن یہ بھارتی فیکلٹی ہے جو اپنے ہی ملک کی تضحیک کرتی ہے، جو اپنے ہی ملک کی توہین کرتی ہے، کوئی اور ایسا نہیں کرتا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ مجموعی طور پر ہمارے ملک میں علمی حلقے ہمارے بنیادگزاروں کے وژن سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ ہماری قوم پرستی کے تئیں ان کی وابستگی غیر مشروط ہے۔ انہیں اس وقت خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے جب ہم میں سے کچھ، ایک بہت چھوٹا سا طبقہ، اسے گمراہ کرتے ہیں۔

میں 2009 میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کو پانچ ملین امریکی ڈالر کی سرکاری فنڈنگ پر تنقید کرتی رہی ہوں۔ ایک بڑا گھرانہ کسی بیرونی ایجنسی کو 50 ملین امریکی ڈالر عطیہ کر رہا ہے، دوسرا گھر انہ غیر ملکی یونیورسٹیوں کو قدم جمانے کا موقع دے رہا ہے، تاکہ دوسروں کے سامنے ان کی شبیہ بڑی بنے؟ کس لیے؟

ہماری فیکلٹی کسی سے کم نہیں ہے، بھارتی پیسہ بھارتی یونیورسٹیوں، بھارتی کالجوں میں کیوں نہیں آنا چاہیے؟ ہمیں اس کے بارے میں آزادانہ طور پر کیوں نہیں لکھنا چاہیے؟ ہم اس بات کو کس طرح سمجھیں کہ بھارتی نژاد ایک پروفیسر امریکہ میں ہماری قوم کو دوسروں کے سامنے اپنی شبیہ بہتر بنانے کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟

ہم دوسروں کو ہمیں کیلبریٹ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ کیلبریشن ایک طرح کی غلامی ہے، یہ ہماری آزادی اور قوم پرستی سے سمجھوتہ کر رہی ہے۔ ہم اپنے آپ کو کیلبریٹ کریں گے۔ ہم دوسروں کو کیلبریٹ نہیں کرتے، وہ ہمیں کیوں کیلبریٹ کریں؟

یہ تجزیہ اس بیانیے سے متاثر ہے کہ بھارت میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ مجھے بتائیں کہ آپ کس ملک میں اتنی آزادی سے بات کر سکتے ہیں؟ نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہر کسی کو مکمل آزادی ہے۔ یہ ایک فعال جمہوریت ہے۔ کیا آپ بھارت سے زیادہ متحرک جمہوریت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ اقتدار کی اس طرح کی بلا تعطل آئینی منتقلی، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم اپنے اداروں پر یقین رکھتے ہیں۔

جب میں برطانیہ میں پارلیمنٹ کے ارکان سے بات چیت کر رہا تھا تو ان میں سے 20 سے زیادہ سیاسی حلقوں نے مجھے پیغام دیا کہ ہمیں آپ کے انتظام کی ضرورت ہے۔ یہ بہت متحرک ہے، لیکن یہاں اگر میں جیتتا ہوں تو میں الیکشن کمیشن کو سلام کرتا ہوں لیکن اگر میں ہار تا ہوں تو مشین خراب ہے۔ اب ایک ذہین اور عقلمند ذہن یہ بات کیسے ہضم کر سکتا ہے؟

ایک اور کلچر جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ایک وقت میں حلف اٹھا رہے تھے جیسا کہ میں اس وقت نائب صدر کی حیثیت سے ہوں۔ میں اپنا دفتر چھوڑ دیتا ہوں اور اپنے نظام اور اپنے ملک کو تباہ کرنے کے لیے ایک ڈھیلی توپ بن جاتا ہوں!

اکیڈیمیا کو بولنا ہوگا اور ایک سماجی جگہ پر قبضہ کرنا ہوگا کیونکہ آپ ایک غیر جانبدار ، مؤثر قوت ہیں۔ آپ جو کچھ بھی لکھتے ہیں وہ زبانی کلام سے پھیلے ، جس کا گہرا مطلب ہوتا ہے۔ مجھے کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس ملک کی تاریخی اور ناقابل تصور کامیابیوں کا جشن منانا مشکل لگتا ہے۔ اب ہمارے پاس وہ ہے جس کا ہم نے خواب دیکھنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔

میں 1989 سے حکمرانی کو جانتا ہوں، جب میں پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوا تھا۔ میں نے دیکھا تھا کہ اس وقت حکومت زرمبادلہ کے ذخائر، اربوں امریکی ڈالر کے لیے جدوجہد کر رہی تھی اور مالی دنیا میں اپنی ساکھ بچانے کے لیے سونا باہر بھیجنا پڑا تھا۔ اس دہائی کے اختتام تک، ہم تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائیں گے - سب اساتذہ کی وجہ سے۔

لہٰذا ہم دو ہستیوں یعنی ٹیچر اور ماں کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس صرف انہیں سلام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہم صرف اس بات کا جشن مناتے ہیں کہ ہمارے پاس خوش قسمتی اور موقع ہے کہ ہم ان کی سرپرستی کے تابع ہوں۔

مجھے یقین ہے کہ یہ برادری خاص طور پر ملک مخالف قوتوں کو ختم کرنے اور بے اثر کرنے کے موقع پر اٹھ کھڑی ہوگی، جن کی رہنمائی اکیڈیمیا کے کچھ لوگوں نے کی ہے، جو پہلے اقتدار پر فائز تھے۔

میں حیران ہوں! ایک شخص اور ماہر معاشیات اس ملک میں آئے، چیف اکنامک ایڈوائزر بنے، آر بی آئی کے گورنر بنے اور جب انہیں توسیع نہیں ملی تو واپس چلے گئے۔ وہ نہیں جانتے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، انہیں یہ پسند نہیں ہے کہ یہ سرمایہ کاری اور مواقع کے لیے سب سے پسندیدہ مقام ہے، وہ عالمی اداروں کو نظر انداز کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہیں، اور مناسب وقت پر بتائیں گے کہ بھارت وہ نہیں ہے جو اسے ہونا چاہیے!

جوابات اس زمرے سے آنے چاہئیں، سیاست دانوں سے نہیں۔ میں سیاست کا اسٹیک ہولڈر نہیں ہوں، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے لیکن میرے لیے جو چیز اہم ہے وہ سیاست دان کا طرز عمل، سیاست کا طرز عمل ہے۔ مرکز میں بھارت ہونا چاہیے۔

مجھے یقین ہے کہ ٹیچر کو پڑھانا کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ ان سے ترغیب حاصل کرنا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ مجھے یہ موقع فراہم کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ اس سے ہمارے درمیان ایک رشتہ پیدا ہوا ہے۔

میں پہلے ہی دو چیزوں کا اشارہ دے چکا ہوں: ایک، انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز ساتھ ایک مفامت نامہ ہوگا جس سے فیکلٹی اور طلبہ کو فائدہ ہوگا اور آئی ایف ایس کا ایک عہدیدار ذاتی طور پر یہاں مفامت نامے پر دستخط کرنے آئے گا۔ دوسری بات یہ کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا دورہ طلبہ اور فیکلٹی کے لیے طے کیا جائے گا۔

میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ پوری دنیا بھارت کی طرف دیکھ رہی ہے۔ مودی حکومت 30 ماہ سے بھی کم عرصے میں کوویڈ کے دوران اسے کیسے پورا کرسکتی ہے؟ لیکن جب آپ عمارت کو دیکھیں گے تو آپ کہیں گے کہ دنیا غلط ہے۔ 30 مہینے عمارت کے لیے نہیں ہیں۔ اندر جو کچھ کیا گیا ہے، اس میں عام طور پر کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کیا جا چکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اس قدر ترقی کر رہا ہے جتنی  پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ 2047 میں بھارت بلاشبہ عالمی رہنما ہوگا کیونکہ یہ ان عالمی رہنماؤں کا جذبہ ہے جن کے ساتھ مجھے قطر، لندن میں بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے مجھ سے ملاقات کی تھی۔

میں آپ خواہش کرتا ہوں کہ آپ کا دن اچھا گزرے۔ اپنے طالب علموں کی رہنمائی کرتے رہیں جو ہر مقام پر جاتے رہیں گے اور ملک کے لیے اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔

آپ کا بہت شکريہ۔

***

(ش ح – ع ا – ع ر)

U. No. 6430



(Release ID: 1934837) Visitor Counter : 108


Read this release in: English , Hindi , Manipuri