جدید اور قابل تجدید توانائی کی وزارت

‘‘ہم نے نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن شروع کیا، کیونکہ ہم ماحولیات میں یقین کرتے ہیں’’ : نئی وقابل تجدید توانائی اور  بجلی کے وزیر


نیٹ زیرو اہم ہے، لیکن کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنی ترقی کے لئے مناسب بجلی کو یقینی بنائیں: نئی وقابل تجدید توانائی اور  بجلی کے وزیر آر کے سنگھ

‘‘ہندوستان توانائی منتقلی کے شعبے میں ایک عالمی  لیڈر ہے، ہم 2030  تک غیر حیاتیاتی ایندھن سے  50  فیصد  توانائی بنانے کے  اپنے عہد کو پورا کریں گے’’

Posted On: 25 MAY 2023 8:34PM by PIB Delhi

بجلی اور نئی و قابل تجدید  توانائی کے مرکزی وزیر  آر کے سنگھ نے  ہندوستان کی  توانائی صلاحیت میں  اضافے کو  جاری رکھنے کی  ضرورت کو دہرا یا ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ملک ترقی کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ہمیں اپنی ترقی کے لئے  توانائی کی ضرورت کے بارے میں  سوچنے کی ضرورت ہے، اس پر کوئی  معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ ہماری بجلی کی مانگ   تیزی سے بڑھ رہی ہے، 2030  تک  توانائی کی کھپت  دو گنا   ہوجانے کی امید ہے۔ ہمیں صلاحیت بڑھانی ہوگی  تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے۔ نیٹ زیرو   اہم  ہے، لیکن  کہیں زیادہ  اہم یہ ہے کہ  ہم  اپنی ترقی کے لئے  ضرورت کے مطابق  بجلی کو یقینی بنائیں۔ ہمارے لوگوں  کی زندگی کی سطح  میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے  فی کس  بجلی کی کھپت  بھی زیادہ ہوگی۔’’  وزیر موصوف نے آج نئی دہلی میں  سی آئی آئی  سالانہ اجلاس  2023  کے  دوسرے  اور آخری دن  ‘رینو ایبل -  پاورنگ  دی  نیٹ زیر ایجنڈا آف انڈیا’ یعنی  قابل تجدید توانائی سے  ہندوستان کے  نیٹ زیرو ایجنڈے کو  طاقت  دینے کے موضوع پر  منعقد  اختتامی  سیشن  سے خطاب کرتے ہوئے  یہ بات کہی۔

 بجلی کے وزیر  نے  یاد دلایا کہ ملک میں  2014  سے  اب تک  1.84  لاکھ  میگا واٹ  بجلی  پیدا  وار بڑھی ہے،  مگر یہ  کافی نہیں ہے۔ ہمارا فی کس   کاربن اخراج  عالمی اوسط  کا   ایک تہائی ہے اور ساتوں دن  24  گھنٹے  بجلی کی سپلائی کو  یقینی  بنانے  پر  کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔

Image

‘‘سرمایہ کاری میں  کوئی مسئلہ نہیں، بجلی سیکٹر  پہلے  سے زیادہ  دمدار’’

وزیر محترم نے  سرمایہ کاری برادری کو  یقین دلایا  کہ ہندوستان  تیزی سے  بڑھتی ہوئی  توانائی مانگ کے ساتھ  سب سے تیزی سے  ابھرتے ہوئے  ممالک میں شامل ہے، جو اسے  سرمایہ  کاروں کے لئے  ایک بڑا بازار بناتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ‘‘یہاں  کافی مانگ ہے، آیئے  سرمایہ کاری کیجئے، ہم نے چیلنجوں کو دور  کردیا ہے، ہم نے پرانے  اور موجودہ  دونوں بقایا جات کی ادائیگی کرتے ہوئے  قابل عمل سے  متعلق چیلنجوں کا  دھیان رکھا ہے۔ ہم نے  پرانے بقائے کو  پہلے کے مقابلے  50  فیصد تک کم کردیا ہے اور  ہم اسے  8-9  مہینوں  میں پوری  طرح نمٹانا چاہتے ہیں۔ ڈسکام کے خسارے کو بھی کم کیا گیا ہے،  ہم نے بجلی سیکٹر کو  بدل دیا ہے، اب بجلی سیکٹر میں  سرمایہ کاری  کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، بازار بڑھ رہا ہے، ہم نے سسٹم میں  اس طریقے  سے تبدیلی کی ہے  کہ یہ سیکٹر پہلے کے مقابلے  اب کہیں زیادہ طاقت  ور  ہے۔

سسٹم  کو  یہ یقینی بنانا ہوگا  کہ  کہیں یہ سیکٹر  کمزور نہ  ہو جائے

وزیر محترم نے مفت بجلی  کا وعدہ جیسی  روایت کے خلاف  گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  اس کا خمیازہ  ٹیکس دہندگان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘مفت بجلی جیسی  کوئی چیز  نہیں ہوتی، اس کے لئے  کسی نہ کسی کو  قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مفت  بجلی کا اعلان  کرنے والی  ریاستی سرکاروں کو بھی  اس کے لئے  اپنے بجٹ سے ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ ہم نے ایک ایسا سسٹم تیار کیا ہے، کہ  اگر  ڈسکام  بجلی کی کھپت کے لئے  ادائیگی  نہیں کرتے  تو بغیر  کسی انسانی مداخلت  کے  بجلی  اپنے آپ  کٹ  جائے گی۔’’

وزیر محترم  نے  اس  صنعت کے بارے میں کہا کہ ہندوستان  توانائی  منتقلی میں  ایک عالمی لیڈر  ہے۔ انہوں نے کہا کہ  ‘‘ ہم نے  وعدہ کیا ہے کہ 2023  تک  ہم  اپنی توانائی   صلاحیت  کا 40  فیصد  غیر حیاتیاتی ایندھن سے حاصل کریں گے۔  ہم نے اسے  2021  میں ہی  حاصل کرلیا، یعنی 9   سال قبل ہی  یہ ہدف  مکمل  کرلیا گیا۔ ہم نے  اس بات کا بھی وعد کیا  تھا کہ  2030   تک  ہماری  توانائی  صلاحیت کا 50  فیصد  غیر حیاتیاتی ایندھن سے  حاصل ہوگا۔ اس ہدف کو بھی  حاصل کیا جائے گا۔’’ وزیر موصوف  نے یہ بات صاف کردی کہ ہندوستان منتقلی  کے محاذ پر سب سے آگے ہے، کیونکہ ‘‘ہم ماحولیات میں یقین رکھتے ہیں۔’’

قابل تجدید توانائی کو اپنانے میں تیزی  لانے کے اقدامات

وزیر موصوف  نے کہا کہ  حکومت نے  قابل تجدید توانائی صلاحیت  بڑھانے کے  چیلنجوں کا دھیان رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  ‘‘حکومت ہند کے  جدید  کاری ، خرید  ذمہ داریوں کے  عین مطابق  قابل تجدید توانائی کی  خرید سے متعلق  ذمہ داریوں کو  مقرر کرنے میں  ریاستی  بجلی  ضابطہ کمیشن  کی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس لئے  توانائی  تحفظ ایکٹ میں  ترمیم کے ذریعہ  قابل تجدید توانائی کو  لازمی طور پر  اپنانے کے لئے  ہدف  مقرر کرنے کا  التزام کیا گیا ہے۔ اس لئے  ریاستی  بجلی  ضابطہ کمیشن  کوئی  الگ ہدف  مقرر نہیں کرسکتے اور اگر ہدف  پر عمل آوری نہیں کی گئی تو زبردست  جرمانہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لئے  اس پر عمل  نہ کرنے کا  کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی  اس  سے  ایک سمجھ پیدا ہوئی ہے، کیونکہ  مانگ  بھی بڑھ رہی ہے۔’’ 

وزیر موصوف  نے قابل تجدید توانائی میں ہورہے وسیع  صلاحیت  اضافے کو  متوازن کرنے میں ہائیڈرو پاور   کی اہمیت کے بارے میں بھی  گفتگو کی۔ یہ کہتے ہوئے کہ  ہائیڈرو پاور  توانائی  ماحولیات  کے موافق  ہے۔ انہوں نے بتایا کہ  تمام سروے کے نتائج  سے  یہ پتہ چلتا ہے کہ  زمین  کے  کھسکنے کے واقعات میں  کمی آئی ہے اور  جہاں  ہائیڈرو  پاور   پروجیکٹ شروع ہوئے ہیں، وہاں  ڈھلانیں اب  مستحکم ہو گئی ہیں۔

توانائی  ذخیرہ کاری  کی لاگت میں کمی

حکومت کے پالیسی جاتی  نظریئے کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے وزیر محترم نے کہا کہ وزارت  ریاستوں سے پوچھے گی کہ انہیں  کس طرح کی  بجلی کی ضرورت ہوگی اور  ان کی ضرورتوں کے عین مطابق  بولیاں تیار کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ  ‘‘ہم توانائی  ذخیرہ کاری  کی لاگت کو  کم کرنے کے لئے  قدم اٹھارہے ہیں۔ ہم  وائبلٹی  گیپ فنڈنگ  کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ بولیاں مدعو کرنے جارہے ہیں۔ ہم ماحولیات میں  یقین کرتے ہیں، اس لئے ہم نے  نیٹ زیرو  کا اعلان کیا۔ ہم نے کہا ہے کہ 2023  تک  ہماری  50  فیصد صلاحیت  غیر  حیاتیاتی ایندھن پر مبنی ہوگی اور حقیقت میں  وہ  50  فیصد بھی نہیں بلکہ  اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ ہم امید  کرتے ہیں کہ  اس وقت  تک  ذخیرہ کاری کے لئے اسٹوریج بھی دستیاب ہوں گے۔’’ وزیر محترم نے  مزید کہا کہ  ہم سپلائی چین  کے مسائل کو  دور کرنے کے لئے  کافی سرگرمی  سے کام کر رہے ہیں اور  مختلف طریقہ کار  اپنا رہے ہیں۔ متبادل ٹیکنالوجی میں بھی  ہماری دلچسپی ہے۔

‘‘ہم گرین ہائیڈروجن میں چمپئن بنیں گے’’

وزیر موصوف  نے کہا کہ  آزادانہ تجارت پر بڑی بڑی باتیں کرنے والے ترقی یافتہ دنیا کے ممالک  نے گرین ہائیڈروجن کو  سبسڈی کے محاذ پر  بڑی  رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردیں۔ انہوں نے کہا کہ  ‘‘اس حقیقت کے باوجود  کہ ہم  تمام  طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں، لیکن  اس کے ساتھ ساتھ ہم  گرین ہائیڈروجن کی پیدا وار میں بھی  چمپئن بنیں گے۔ ہمیں  توانائی  تبدیلی کے  شعبے میں سرفہرست رہنا ہوگا۔ ہمیں  صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے اور  میک ان انڈیا کے ساتھ  قابل تجدید  توانائی صلاحیت بڑھانا ہماری  ایک دیگر  ترغیب ہے۔’’

صلاحیت بڑھانے کے چیلنجوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے  وزیر موصوف  نے کہا کہ  حکومت  یہ یقینی بنانے کے لئے  بولی لگانے کے ضابطے میں  تبدیلی لائے گی کہ  مقررہ کاروباری آپریشن  تاریخ پر  عمل نہ کرنے والے  بولی  کنندگان کو  ایک سال تک  بولی لگانے  کے لئے  نا اہل قرار دے دیا جائے گا اور دوسری بار ناکام ہونے پر  وہ تین سال تک  بولی نہیں لگا سکیں گے۔  انہوں نے کہا کہ ‘‘اس لئے  آپ بولی لگاتے وقت  محتاط  رہیں اور  دور اندیشی  و صلاح  ومشورہ کے ساتھ ہی  بولی لگائیں۔’’

وزیر موصوف نے اس شعبے میں جاری  اصلاحات کے بارے میں صنعت کو بتایا کہ  ناقابل تجدید توانائی  صلاحیت  ذمہ داری اب لازمی ہے اور کوئی  بھی ڈسکام  مستقبل میں  قیمت کم ہونے تک انتظار کرنے کے بارے میں نہیں سوچے گی، کیونکہ  محصول شرحو ں  میں ایک جیسی تبدیلی  ہوگی۔

‘‘اوپن ایکسس کے لئے تبدیلی میں بڑا موقع’’

وزیر موصوف نے بتایا کہ  اوپن ایکسس  کے ذریعہ  کاروباری وصنعتی سیکٹر  میں  تبدیلی کے ساتھ  نیٹ زیرو حاصل کرنے میں بھی  کافی مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ  صنعت  قابل تجدید توانائی کی  خریداری شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘یہ بہت  سستا ہے  ، اگر کوئی ڈسکام یا  ایس ای آر سی آپ کو  مقرر ہ وقت کی معیاد کے اندر  اوپن ایکسس دینے میں  ہچک  ظاہر کرتا ہے  تو ہمیں محض  ایک خط  بھیج دیں، مانگ زبردست ہے اور میں آپ سے  گزارش کرتا ہوں کہ  آپ  آیئے  اور  اسے پورا کیجئے۔’’

نیوکلیائی توانائی  پر ایک سوال کے جواب میں وزیر موصوف  نے کہا کہ ملک  نیوکلیائی توانائی کا استقبال  کرتا ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ ‘‘یہ بالکل  شفاف  ہے، زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک  نیٹ زیرو  پر  غور وخوض کرتے وقت  اپنے  توازن میں  ایٹمی توانائی کو بھی شامل کرتے ہیں۔’’

ہندوستان کی  توانائی منتقلی اسکیم میں  گرین ہائیڈروجن کے رول کے بارے میں  بتاتے ہوئے  وزیر محترم  نے کہا کہ  قابل تجدید توانائی کے لئے  ہماری پیدا واری لاگت  دنیا میں سب سے کم ہے، مگر ہم  ان ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتے، جو صد فیصد  سبسڈی دیتے ہیں۔  انہوں نے کہا   ‘‘ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے  کہ تحفظاتی خدشے سے کیسے  نمٹا جائے۔’’

سب توانائی کے استعمال سے  مینو فیکچرنگ  مصنو عات کے لئے  صارفین کی  ترجیحات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے  وزیر موصوف  نے یاد دلایا کہ  آج ہم  جتنی بجلی کی کھپت کرتے ہیں، اس کا 25  فیصد  پہلے سے  ہی سبز ہے۔  انہوں نے کہا ‘‘2030  تک تقریبا 50  فیصد بجلی  قابل تجدید  کو ہوگی۔ اس کے علاوہ ہم  ریاستوں  کے لئے  قابل تجدید  پالیسی لے کر آرہے ہیں۔’’

تحقیق  وترقی کے رول کے بارے میں وزیر محترم نے کہا کہ با اثر ہونے  کے لئے  صنعت کے ساتھ مل کر تحقیق  و ترقی کرنی ہوگی۔ اس میں سائنس دانوں، انجینئروں  اور تعلیمی ماہرین کو شامل کرنا ہوگا۔  انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں  خود کے  گرین برانڈ  جاری کرنے کی  ضرورت ہے۔


May be an image of 5 people, newsroom, dais and text

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ش ح- ج ق- ق ر)

U-5615



(Release ID: 1928249) Visitor Counter : 90


Read this release in: English , Hindi