نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

’اُن مکت: وچار سنگوشٹھی‘ میں نائب صدر جمہوریہ کی تقریر کا متن


اس کا اہتمام پارلیمنٹ ہاؤس میں راجیہ سبھا سکریٹیرئیٹ کے ذریعہ کیا گیا

Posted On: 17 MAY 2023 5:50PM by PIB Delhi

راجیہ سبھا  کے سکریٹری جنرل نے مجھ سے اپیل کی تھی اور میں نے اس سے اتفاق کیا۔ میں آپ کے ساتھ اسے ساجھا کر کے بہت خوش ہوں۔ انہوں نے مجھے یہ تصور دیا کہ راجیہ سبھا سکریٹیرئیٹ ملک میں سب سے بہتر ہے۔ انہوں نے ٹھیک کہا، میں نے آپ سب کو دیکھا ہے۔انہوں نے مجھے اشارہ دیا تھا کہ زندگی ہر دن تبدیل ہو رہی ہے، لہٰذا ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ گذشتہ روز کسی چیز کی کمی تھی، ہم نے ایک طریقہ کار بنایا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری، سب سے بڑی جمہوریت، جمہوریت کی ماں ہیں۔

لیکن ایک چیز کا بڑا چیلنج ہے، جسے میں نے پی سی مودی جی سے بھی کہا ہے، دریا میں کھڑے ہونے کے لیے بھی رفتار کو برقرار رکھنا پڑتا ہے۔

دریا میں اسی جگہ کھڑے رہنے کے لیے ہمیں اپنے پاؤں کو ہلاتے رہنا چاہئے ورنہ ہمارے پاؤں کے نیچے سے ریت غائب ہو جائے گی اور ہم گر جائیں گے۔

مجھے آپ لوگوں کے ساتھ ایک تجربہ ساجھا کرنا چاہئے۔ گذشتہ 12-13 برسوں تک ہم نے پی ٹی آئی میں جگہ کے لیے کرایہ ادا کیا۔ ہم نے تقریباً 70 سے 80 کروڑ روپئے ادا کیے۔ جب مجھے خیال آیا کہ ہم یہاں عمارتوں کی انتظام کاری کر سکتے ہیں، تو ہم باہر عمارتوں کے لیے کرایہ کیوں دیں۔

میرے ذہن میں یہ بات تب آئی جب میں ایک افسر سے کہا کہ مجھ سے فوراً ملے، لیکن وہ کافی دیر تک نہیں آئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پہنچے، آکر انہوں نے بتایا کہ فاصلے کی وجہ سے دیر ہوئی ہے، اور وہ باہر سے بی ٹی آئی بلڈنگ سے آئے ہیں۔ میں نے پوچھا کتنا کرایہ دیتے ہیں، انہوں نے بتایا مہینے کا تقریباً 7 کروڑ، میں نے پوچھا کہ کب سے دے رہے ہیں تو انہوں نے بتایا 2011 سے، تو ہم نے فوراً پوچھا کہ ہمیں کوئی جگہ مل سکتی ہے، ہمارے یہاں، ہمیں جگہ مل گئی۔ وندنا جی نے مجھے بتایا کہ جگہ تو مل گئی لیکن اس میں بہت سی سہولتوں کا انتظام کرنا ہے۔

میں اُن تمام ملازمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو پی ٹی آئی سے یہاں منتقل ہو چکے ہیں اور مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کا درد سمجھتے ہیں عوامی مفاد میں آپ نے قربانی دی ہے، مسلسل اس میں اصلاح ہو رہی ہے۔ یہ کچھ وقت کی بات ہے، چیزیں معمول پر آجائیں گی۔ لیکن اس معاملے میں ، میں نے ایک بات دیکھی، ملازمین کتنی قربانیاں دیتے ہیں۔ وہ بغض نہیں رکھتے۔

یہ بات چیت کے اس سلسلے کا آخری حصہ جو میں نے آپ سب کے ساتھ گروپس اور انفرادی طور پر اپنی تقریر اور گول میز پر ساجھا کی تھی۔ میں آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ سے اپنے دل سے بات کہی ہے، جتنے ای میل آئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ چنوتیوں کے مواقع کا پتہ لگائیں اور یہ پتہ لگائیں کہ ان کا حل کیسے نکالا جائے۔

مجھے بہت خوشی ہوئی ہے یہ دیکھ کر کہ زبان پر آپ لوگوں کی دسترس کمال کی ہے، ہماری ایک جوائنٹ سکریٹری نے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لیا تو میں نے ان کو اپنے گھر پر مدعو کیا۔ ان کے شوہر کے ساتھ، میں نے سوچا کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھ سے کچھ خطا ہو گئی ہے اور وہ جا رہی ہیں، معلوم ہوا ایسا نہیں تھا، من بڑا ہلکا ہوا، لیکن جاتے جاتےوہ جو کر کے گئی ہیں، وہ بڑا کمال کا ہے، جو کام دو مہینے میں نہیں ہو سکتا وہ انہوں نے 48 گھنٹے میں نمٹا دیا، جو سامنے بیٹھے ہیں جن سے میری بڑی بے تکلفانہ بات چیت ہوئی ہے۔ ٹارگیٹ دیا کہ ڈجیٹائزیشن ہونا چاہئے، مجھے معلوم ہے کہ ڈجیٹائزیشن تنہا نوٹیال جی کے بس کی بات نہیں ہے، سب کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہوتا ہے، میں نے کہا جانے سے قبل کرکے جانا، اب لگتا ہے کہ ان کو جانے کی اتنی جلدی ہے کہ بہت جلدی کر دیا، یہ ہوگیا۔ یہ میں آپ کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں، یہ میں محسوس کرتا ہوں کیونکہ یہ گلیارے میں نے سب سے پہلے 1989 میں دیکھے۔ جب میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوا ، اور میں اس کے بعد پارلیمانی امور کا وزیر، میں اس تالاب کی پرانی مچھلی ہوں۔ ابھی میں نے کہا ہے اور دیکھا ہے کہ پارلیمنٹ کے افسران بے مثال ہیں، وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ کا سامنا اُن لوگوں سے ہوتا ہے جن کے سامنے آپ زبان نہیں کھولتے۔

ہم راجیہ سبھا سے جڑے ہیں، ایوان بالا، جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے ہمیشہ جاری رہتا ہے اور بہت خوشی کا موضوع ہے کہ آج راجیہ سبھا میں ازحد باصلاحیت افراد شامل ہیں، اگر آپ اراکین پارلیمنٹ پر نظر ڈالیں، تو دیکھیں گے کہ ان کے پاس زبردست تجربہ ہے، وہ بہت پڑھے  لکھے ہیں، صحتی شعبے، تعلیمی  شعبے، ماحولیاتی شعبے، اور ثقافت میں ان کا تعاون کمال کا ہے۔ راجیہ سبھا میں تو وہ بھی ہیں جن سے ہمیں ناٹو ناٹو کا رقص سیکھنا پڑے گا، پوری دنیا میں ایک پیغام گیا جب پی ٹی اُوشا جی کو پینل آف وائس چیئرپرسن میں لایا گیا، وہ بہت ذہین ہیں۔

راجیہ سبھا کی اثرانگیزی کا سہرا ان لوگوں کے سر جاتا ہے جو میرے سامنے ہیں۔ ایسے موقع پر میں چار باتیں آپ کو خاص طور پر کہنا چاہوں گا۔ پہلی یہ کہ، آپ کا کنبہ آپ کی اولین ترجیح ہے، ہمیشہ اپنے کنبے پر یقین رکھیں، اپنے کنبے کی پرورش کریں، اپنے کنبے کو پروان چڑھائیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ کے کنبے میں کسی طرح کا تناؤ نہ ہو۔ چنوتیاں ہوں گی، مسائل ہوں گے، مختلف وجوہات کی وجہ سے پریشانیاں کھڑی ہوں گی۔ ان کا حل من میں رکھنے سے نہیں ہے، میں اس کے لیے کھلا ہوں اور ایس جی اور سکریٹری کے ساتھ مشاورت کے بعد، ہم ایک جوائنٹ سکریٹری کو یہ ذمہ داری دیں گے جس سے ہم اپنے کنبے کا دھیان رکھ سکیں گے۔ میں نے کچھ ایسا شروع کیا ہے کہ ہمارے بچوں کو کونسلنگ کی ضرورت ہے، انہیں سفر کی ضرورت ہے، سکریٹیرئیٹ اس میں مدد کرے گا، ہم دہلی سے شروع کر رہے ہیں، ضابطے کے تحت آجائے گا تو کہ بھارت کا بھی کریں گے اور سکریٹیرئیٹ کافی مدد کرے گا۔

مجھ سے ذاتی طور پر جو مدد ہوسکے گی وہ پوری ہوگی، اپنے کنبے پر بھروسہ رکھیں، کسی بھی صورتحال میں کہ بھارت کو سب سے آگے رکھیں گے، کیونکہ  ہم آبادی کے لحاظ سے، فعال جمہوریت کے لحاظ سے اور جمہوریت کی ماں کی حیثیت سے سب سے بڑے ملک کے قابل فخر شہری ہیں۔ اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس کا ہم نے تصور نہیں کیا تھا اور اس کا کریڈٹ جاتا ہے عام آدمی کو، سرکاری مشینری کو، اور ان لوگوں کو جن کی سوچ بڑی ہے۔ محترم وزیر اعظم کی جو سوچ بہت بڑی ہے، سب کا ساتھ سب کا وِکاس یہ نعرہ نہیں ہے، یہ زمینی حقیقت ہے۔ آج تک ملک کو آگے رکھنے کے لیے سب سے پہلے کام کے تئیں لگن ہونی چاہئے، جس کا مطلب یہ کہ ہمارا ماحول صاف ستھرا ہو۔ گھر عالیشان ہونا، گرینائٹ ماربل کا فرش ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، اگر صفائی ستھرائی نہیں ہے تو، سیمنٹ کا عام گھر بھی لوگوں کو راغب کر سکتا ہے، ہمیں اپنے گھر اور دفاتر میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہئے۔

میں آپ سب کو ایک چھوٹی سی بات بتاؤں گا ، آج کے دن دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، آپ کو بھارتی ذہانت کا کوئی ثانی نہیں ملے گا، بھارتیوں کی مشقت، کارکنان کی صنعت کا کوئی ثانی نہیں ملے گا، وہ چوبیسوں گھنٹے ساتوں دن کام کر سکتے ہیں۔ اگر ہم سڑک پر نظم و ضبط کی پابندی کریں تو ہم ایک عظیم ملک بن سکتے ہیں۔

جب امریکہ میں کوئی موٹر گاڑی چلاتا ہے اور رہائشی علاقے سے گزرتا ہے تو، تو نصف شب کے وقت بھی گاڑی کو ڈیڈ اسپاٹ پر آکر روکنا پڑے گا۔پتہ ہے ان کے ڈرائیور کون ہوتے ہیں؟ اپنے بھائی بندو ہوتے ہیں۔

ہم نے یوروپ اور امریکہ میں کار سے باہر کیلے کا چھلکا نہیں پھینکا ہے۔ لیکن جیسے ہی یہاں پہنچے۔۔۔ میرا تو قومی فریضہ ہے، اپنی سڑک ہے، ایک سیکنڈ بھی گاڑی میں کیوں رکھنا چاہئے؟ اب ایسا نہیں ہوتا ہے، جب سے محترم وزیر اعظم نے سووَچھ بھارت ابھیان کی شروعات کی، اگر اب آپ ایسا کریں گے تو راہ گزرتے لوگ آپ کو گھور کر دیکھیں گے کہ ایسے کیوں کر رہے ہو؟ جب سڑک پر نظم و ضبط کی پابندی کی بات ہوتی ہے تو میں چاہتا ہوں یہ چلن عام ہو۔ اپنے بچوں میں یہ عادت ڈالیں۔

میں نے یہاں آکر کچھ تبدیلیاں کی لیکن  اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے جو لوگ یہاں تھے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ وینکیا نائیڈو جی سے زیاہ باصلاحیت شخص تو کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہم نے تو ان کے قدموں میں سیکھا ہے۔ وہ ایک عظیم مفکر ہیں۔۔۔ ان کی تقاریر سنئے۔

90 کی دہائی میں موبائل نہیں تھا تب، مصنوعی ذہانت نہیں تھی۔۔۔ جو اب ہے۔ یہ جو تبدیلیاں کر رہے ہیں، اس لیے نہیں ہے کہ پہلے کوئی کر نہیں سکا۔۔۔ اس میں کوئی مہارت نہیں ہے، یہ تبدیلیاں آج ہی ہوسکتی تھیں پہلے نہیں۔ یہ تکنالوجی اور ضرورت کی وجہ سے ہے۔

یہ بات ذہن سے نکال دیجئے کہ کوئی نیا آدمی آیا تو کوئی نیا ہی کرشمہ کرے گا۔ مجھ میں صلاحیت ، کرشمہ کرنے کی جناب وینکیا نائیڈو سے زیادہ نہیں ہے لیکن تبدیلی اس لیے کی ہے کیونکہ وقت بدل رہا ہے، وقت کا تقاضہ ہے، پہلے نہیں تھی، آج ہے۔ جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کا تعلق آپ کی ترقی سے ہے آپ کے کام سے نہیں۔

میں نے کاغذ پر لوگوں کی ذمہ داریاں تبدیل کر دی ہیں۔ اگر کوئی شخص طویل عرصے تک کسی سیکشن میں کام کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شخص اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے کہیں اور موقع ملنا چاہیے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ہر سطح پر ہر ایک کو موقع ملنا چاہیے۔ ہمیں اس عمل کو گردشی اور مسلسل بنانا چاہیے۔

کوئی بھی، کسی نظام میں ناگزیر نہیں ہے۔ اگر میں آپ سے ایک سوال پوچھوں کہ مجھ سے زیادہ باصلاحیت دس چیئرمین کے نام بتایئے تو آپ فوراً ہی موبائل پر 20 نام بھیج دیں گے۔ کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے، لہٰذا، ہمیں فرد میں یقین رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی کمیٹی باہر جاتی ہے تو اس کا ڈائرکٹر، جوائنٹ ڈائرکٹر، ڈپٹی ڈائرکٹر، ڈپٹی سیکریٹری، کوئی بھی اس کمیٹی کی قیادت کرسکتا ہے۔ آج کا ڈپٹی سکریٹری، ڈپٹی سکریٹری اسی لیے ہے کیونکہ اس کی عمر ڈائرکٹر بننے کی نہیں ہے۔ یہ تبدیلیاں انسانی وسائل کو بہتر بناتی ہیں، انہیں موقع فراہم کرتی ہیں اور انہیں ترقی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

آپ کے جو مسائل ہیں، نجی مسائل کا حل کیا جا رہا ہے، کچھ اجتماعی ہیں، ان پر بھی کام کیا جا رہا ہے، کچھ ہمارا ہدف ہے جو ہم سب نے مل کر سوچا ہے۔ متعلقہ ملازم کے لیے صلاحیت سازی ترقی کے منظرنامے کے ساتھ ہونی چاہئے، ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے حکومت کی پالیسیاں ازحد تعمیری اور نتیجہ خیز ہیں۔ پہلی مرتبہ ہمارے پاس صلاحیت کا مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے ایک ماحولیاتی نظام ہے۔ میں دوسرے راستے بھی تلاش کر رہا ہوں اور میں ہر کسی کی تجویز قبول کروں گا، آپ کو صرف ایک میل بھیجنے کی ضرورت ہے کہ میں ایک خاص کورس کرنا چاہتا ہوں اور اس کورس کو کرنے کے لیے، ایک ماہ یا دو ماہ کی چھٹی درکار ہے، 90 فیصد آپ کو چھٹی ملے گی۔

میں نے کچھ مسائل حل کیے ہیں، اور کچھ لوگ کورٹ بھی گئے ہیں۔ میں نے ان میں سے ہر ایک سے کہا، آپ ہم پر بھروسہ کیجئے، کیا کسی مسئلے پر فیصلہ لینے کے لیے آپ کو ڈائس پر یا میرے سامنے موجود قابل ٹیم سے زائد کوئی ٹیم مل سکتی ہے؟ عدالت جانا، وکیل کو پیسے دینا۔۔۔ کیوں؟ مجھے خوشی ہے، ان میں سے بیشتر افراد نے میری بات سنی ہے۔ کیس واپس لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آپ کو تسلیم کر لیں گے لیکن ہم اس پر مکمل طور پر غور کریں گے۔

ایک چیز پر خاص توجہ ہے، ملازمین کے بقایہ جات کو ادا کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ جب میں آپ سبھی سے اعلیٰ سطح پر اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کی توقع رکھتا ہوں، باہمی تعاون کا تقاضا ہے کہ ہمیں شکرگزاری اور ذمہ داری کے اعلیٰ احساس کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

اگر آپ وقت کے ساتھ نہیں بدلے تو آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ ایک اہم چیز ہے تکنالوجی۔ اس میں ہم نے کچھ اصلاح وقت کے مطابق کی ہے۔ اسے ترقی پذیر تکنالوجی کو مکمل طور پر بروئے کارلانے کے لیے وقت کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ یہ تمام سرکاری محکموں میں ہو رہا ہے اور ہم پیچھے نہیں رہنا چاہتے کیونکہ ہم نمبر وَن پوزیشن پر ہیں۔ بغیر وسائل  کے کام نہیں کر پاؤگے، ہمارا نظام ایسا ہے کہ فزیکل فائلوں کا چلن ختم ہونا چاہئے۔ شروعات میں، فائل کی ہینڈلنگ میں دس لوگ شامل ہوتے تھے، اور اس نے کووِڈ کے دور میں خصوصی طور پر پریشانی پیدا کی جب لوگ فائلوں کو چھو نہیں پاتے تھے۔ میں نے یہ کوشش کی، کہ فائل پر تین یا چار سے زائد دستخط نہیں ہونے چاہئیں، جس میں ایک میرا بھی ہے۔ ایک فائل کسی ایسے شخص کے پاس کیوں جائے جسے اس پر فیصلہ ہی نہیں لینا ہے؟ ہم اپنے خود کے نظام پر زور کیوں ڈال رہے ہیں؟

کوئی بھی ایسی مواصلت جس میں مجھے یا سکریٹری کے جنرل سکریٹری کو مخاطب کیا گیا ہو ، انہیں ضرور دکھائی جانی چاہئے ، کچھ فائلوں  کا تدارک تو نیچے ہی ہوتا ہے، مجھے اس کی وجہ سے کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کو لے کر میرا ایک نظریہ ہے، لیکن آپ کو ایسا نہیں کرنا ہے۔ راجیہ سبھا سکریٹریٹ کے ذریعہ بیرونی دنیا سے رابطہ کاری صرف سکریٹری جنرل اور سکریٹری کے زیر نگرانی کی جانی چاہئے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کو اتھارٹی سے سابقہ پیش آتا ہے ، بعض اوقات آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اگر وہ آپ کے کمرے میں آئیں تو شائستہ رہیں، اپنے کام کے لیے انتہائی پرعزم رہیں لیکن انھیں یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ چیئرمین کی جانب سے ایک ہدایت ہے جو آپ کو یہاں بتائی جا رہی ہے۔

آج میرا من بہت خوش ہے کیونکہ کوئی دن نہیں جاتا جب میں آپ کی میل نہیں پڑھتا، مجھے لگتا ہے کہ کتنی صلاحیت ہے، رپورٹ کتنی اچھی آتی ہے۔ ہم نے تو ایسے ہی کہہ دیا کہ وضاحت کیجئے لیکن 19 صفحات کے اندر جامع باتیں آتی ہیں۔ جب ہمارے اندر صلاحیت ہے ، تو ہمیں اسے صرف ثابت کرنے اور اس کا جواز پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بہترین کام کرنے پر میں آپ میں سے ہر ایک کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ آپ اپنے ذاتی یا پیشہ ورانہ مسائل کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ترقی کے لیے بھی مجھ سے رابطہ قائم کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں گے۔ اپنے ذہن کو خیالات کی بندرگاہ نہ بنائیں، اپنے خیالات ساجھا کریں، آپ کو کھل کر اپنی بات پہنچانے اور اپنی تجاویز کو آزادانہ طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے، ان پر غور کیا جائے گا۔ آخر میں، خاندان کے ساتھ باہر جانے کے حوالے سے براہ کرم ایک کلسٹر سسٹم بنائیں، آپ کو سکریٹیرئیٹ کے چیئرمین اور نائب صدر کی تمام مدد حاصل ہوگی۔

**********

 (ش ح –ا ب ن۔ م ف)

U.No:5241


(Release ID: 1925036) Visitor Counter : 154


Read this release in: English , Hindi