زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

چھوٹے اور معمولی کسانوں کی حالت کو بہتر بنانا

Posted On: 24 MAR 2023 4:42PM by PIB Delhi

زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں  بتایا کہ قومی نمونہ سروے آفس (این ایس او)، شماریات اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت (ایم او ایس پی آئی) نے این ایس ایس  کے 77ویں دور (جنوری 2019-دسمبر 2019) کے دوران زرعی سال جولائی 2018 – جون  2019 کے حوالے  کے ساتھ ملک کے دیہی علاقوں میں زرعی گھرانوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کا سروے (ایس اے ایس) کیا۔  سروے کے مطابق، دو ہیکٹر سے کم اراضی کی ملکیت  رکھنے والے زرعی گھرانوں کی تقسیم کا تناسب 89.4فیصد ہے۔

زراعت ریاست کا موضوع ہے۔ حکومت ہند کسانوں کی بہبود کے لیے پابند عہد ہے۔ اس نے ملک میں چھوٹے اور معمولی کسانوں سمیت کسانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف مرکزی سیکٹر اور مرکزی طور پر اسپانسر شدہ اسکیمیں شروع کی ہیں،جن میں زراعت کے پورے شعبے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اسکیموں کے علاوہ، حکومت ہند نے کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس سلسلے میں، حکومت نے اپریل، 2016 میں "کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے (ڈی ایف آئی)" سے متعلق مسائل کا جائزہ لینے کے لئے  ایک بین وزارتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے اس کے حصول کے لیے حکمت عملی کی سفارش کی تھی۔ کمیٹی نے ستمبر 2018 میں حکومت کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی، جس میں مختلف پالیسیوں، اصلاحات اور پروگراموں کے ذریعے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی حکمت عملی شامل تھی۔ حکمت عملی کے مطابق حکومت نے کسانوں کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ زیادہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے متعدد پالیسیاں، اصلاحات، ترقیاتی پروگرام اور اسکیموں کو اپنایا اور نافذ کیا ہے۔ ان میں یہ شامل ہیں:

  1. بجٹ مختص کرنے میں بے مثال اضافہ:

سال 2013-14 میں زراعت کی وزارت (بشمول ڈی اے آر ای) اور ماہی پروری، مویشی پروری اور ڈیری کی وزارت کا مختص  بجٹ صرف 30223.88 کروڑ  روپے تھا۔ یہ 4.35 گنا سے زیادہ بڑھ کر 2023-24 میں 1,31,612.41 کروڑ روپے ہو گیا۔

  1. پی ایم کسان کے ذریعے کسانوں کو آمدنی سپورٹ:

2019 میں پی ایم – کسان  کا آغاز، ایک آمدنی سپورٹ اسکیم،جو 3 مساوی قسطوں میں ہر سال  6000 روپے فراہم کرتی ہے۔ اب تک 11 کروڑ سے زیادہ اہل کسانوں کو 2.24 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ جاری کیے جا چکے ہیں۔

  1. پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی وائی ):

پی ایم  ایف بی وائی  کا آغاز 2016 میں کسانوں کے لیے اعلیٰ پریمیم شرحوں اور کیپنگ کی وجہ سے بیمہ کی رقم میں کمی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نفاذ کے پچھلے 6 سالوں میں 38 کروڑ کسانوں کی درخواستوں کا اندراج کیا گیا ہے اور 12.37 کروڑ سے زیادہ (عارضی) کسان درخواست دہندگان کے دعوے موصول ہوئے ہیں۔ اس مدت کے دوران، کسانوں کی طرف سے تقریباً 25,252 کروڑ روپے پریمیم کے اپنے حصے کے طور پر ادا کیے گئے ،جس کے خلاف  1,30,015 کروڑ (عارضی) کے دعوے انہیں ادا کیے گئے ہیں۔ اس طرح، کسانوں کی طرف سے ادا کردہ پریمیم کے ہر 100 روپے کے بدلے، انہیں تقریباً  514  روپے بطور  دعوے موصول ہوئے ہیں۔

  1. زرعی شعبے کے لیے ادارہ جاتی قرضہ:

(i) 14-2013 میں 7.3 لاکھ کروڑ  روپے سے بڑھ کر 2022-23 میں  18.5 لاکھ کروڑ  روپے کے ہدف کو پہنچ  گیا ہے۔ کے سی سی کے ذریعے 4 فیصد سالانہ سود پر رعایتی ادارہ جاتی قرض کا فائدہ بھی اب مویشی  پروری اور ماہی پروری کے کسانوں کو ان کی قلیل مدتی ورکنگ سرمائے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔

(ii) کسان کریڈٹ کارڈز (کے سی سی ) کے ذریعے پی ایم – کسان  کے تمام مستفیدین کا احاطہ کرنے پر توجہ کے ساتھ رعایتی ادارہ جاتی قرض فراہم کرنے کے لیے فروری 2020 سے ایک خصوصی مہم چلائی گئی ہے۔ 23 دسمبر  2022 تک، 387.87 لاکھ نئی  کے سی سی درخواستوں کو اس مہم کے حصے کے طور پر  4,49,443 کروڑ روپے کی منظور شدہ کریڈٹ حد کے ساتھ منظور کیا گیا ہے۔

  1. پیداواری لاگت سے ڈیڑھ گنا  پرکم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا تعین:

(i) حکومت نے تمام لازمی خریف، ربیع اور دیگر تجارتی فصلوں کے لیے ایم ایس پی میں 19-2018 سے کم از کم 50 فیصد کی واپسی کے ساتھ  پورے ہندوستان میں  پیداواری کی قیمت  کے اوسط  میں اضافہ کیا ہے۔

(ii)دھان (عام) کے لیے ایم ایس پی 2013-14 میں 1310 روپے فی کوئنٹل سے بڑھ کر 2022-23 میں 2040 روپے فی کوئنٹل ہو گئی ہے۔

(iii)گندم کے لیے ایم ایس پی 2013-14 میں 1400 روپے فی کوئنٹل سے بڑھ کر 2022-23 میں 2125 روپے فی کوئنٹل ہو گئی۔

  1. ملک میں نامیاتی کاشتکاری کا فروغ:
  1. پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا (پی کے وی وائی) ملک میں نامیاتی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے 2015-16 میں شروع کی گئی تھی۔ 32384 کلسٹرز بنائے گئے ہیں اور 6.53 لاکھ ہیکٹر کے رقبے کا احاطہ کیا گیا ہے ،جس سے 16.19 لاکھ کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ، نمامی گنگے پروگرام کے تحت، 123620 ہیکٹر رقبہ اور قدرتی کھیتی کے تحت 4.09 لاکھ ہیکٹر رقبہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، بہار اور جھارکھنڈ میں کسانوں نے دریائے گنگا کے دونوں طرف نامیاتی کھیتی شروع کی ہے، تاکہ ندی کے پانی کی آلودگی کو کنٹرول کیا جا سکے اور ساتھ ہی کسانوں کو اضافی آمدنی حاصل ہو سکے۔
  2. حکومت بھارتیہ پراکرتک کرشی پدھتی (بی پی کے پی) اسکیم کے ذریعے پائیدار قدرتی کاشتکاری کے نظام کو فروغ دینے کی تجویز بھی رکھتی ہے۔ مجوزہ اسکیم کا مقصد کاشت کی لاگت کو کم کرنا، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور وسائل کے تحفظ اور محفوظ اور صحت مند مٹی، ماحولیات اور خوراک کو یقینی بنانا ہے۔
  3. شمال مشرقی خطے میں مشن آرگینک ویلیو چین ڈیولپمنٹ (ایم او وی سی ڈی این ای آر) شروع کیا گیا ہے۔ 189039 کسانوں پر مشتمل 379 فارمر پروڈیوسر کمپنیاں بنائی گئی ہیں اور 172966 ہیکٹر رقبہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔
  1. ہر قطرے پر مزید فصل:

فی قطرہ  مزید  فصل (پی ڈی ایم سی) اسکیم سال 2015-16 میں شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بڑھانا، ان پٹ کی لاگت کو کم کرنا اور مائیکرو آبپاشی ٹیکنالوجیز یعنی ڈرپ اور اسپرنکلر آبپاشی کے نظام کے ذریعے فارم کی سطح پر پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ سال 2015-16 سے پی ڈی ایم سی اسکیم کے ذریعے اب تک 69.55 لاکھ ہیکٹر کا رقبہ مائیکرو آبپاشی کے تحت آیا ہے۔

  1. مائیکرو آبپاشی فنڈ:

نبارڈ کے ساتھ 5000 کروڑ روپے کے ابتدائی  اصل سرمایہ کا ایک مائیکرو آبپاسی فنڈ بنایا گیا ہے۔ 2021-22 کے بجٹ کے اعلان میں، فنڈ کے اصل سرمایہ کو  10000 کروڑ روپے تک بڑھایا جانا ہے۔ 17.09 لاکھ ہیکٹر پر محیط 4710.96 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔

  1. فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف پی اوز) کا فروغ:
  1. معیشت کے پیمانے کو زرعی کاموں میں لانے کے لیے 29 فروری 2020 کو وزیر اعظم کے ذریعہ نئے 10,000  ایف پی اوز کی تشکیل اور فروغ کے لیے ایک نئی مرکزی سیکٹر اسکیم کا آغاز کیا گیا ،جس کا بجٹ 28-2027 تک  تخمینہ جاتی  6865 کروڑ روپے ہے۔
  2. 30  نومبر  2022  تک،  ایف پی اوکی 4028 تعداد نئی ایف پی او سکیم کے تحت رجسٹر کی گئی ہے۔
  3. 30  نومبر  2022   تک 1415 ایف پی اوز کو 53.4 کروڑ روپے کی ایکویٹی گرانٹ جاری کی گئی ہے۔
  4. 12دسمبر  2022 تک،447 ایف پی اوز کو  78 کروڑ  روپے مالیت کا کریڈٹ گارنٹی کور جاری کیا گیا۔
  1. شہد کی مکھیوں کی پرورش  اور شہد کا ایک قومی مشن (این بی ایچ ایم ) 2020  میں آتم  نربھر بھارت ابھیان کے ایک حصے کے طور پر شروع کیا گیا ہے، تاکہ زرپوشی کے ذریعے فصلوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور آمدنی کے ایک اضافی ذریعہ کے طور پر شہد کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ شہد کی مکھیوں  کی  پرورش سے متعلق شعبے کے لیے 2020-2021 سے 2022-2023 کی مدت کے لیے 500 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تقریباً 139.23 کروڑ کی امداد کے لیے 114 پروجیکٹ، 2020-21 اور 2021-22 کے دوران  آج تک این بی ایچ ایم کے تحت فنڈنگ کے لیے منظور کئے گئے ہیں۔
  2. زرعی میکانائزیشن:

 زرعی میکانائزیشن زراعت کو جدید بنانے اور کاشتکاری کے کاموں کی سختی کو کم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ 2014-15 سے مارچ 2022 تک کی مدت کے دوران، زرعی میکانائزیشن کے لیے 5490.82 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کسانوں کو سبسڈی کی بنیاد پر 13,88,314 مشینیں اور آلات فراہم کیے گئے ہیں۔ 18,824 کسٹم ہائرنگ سینٹرز، 403 ہائی ٹیک ہب اور 16,791 فارم مشینری بینک قائم کیے گئے ہیں، تاکہ کسانوں کو کرائے کی بنیاد پر زرعی مشینیں اور آلات دستیاب کرائے جاسکیں۔ سال 2022-23 کے دوران، اب تک  504.43 کروڑ روپے کی رقم سبسڈی پر تقریباً 65302 مشینوں کی تقسیم، 2804 سی ایچ سیز، 12 ہائی ٹیک حبس اور 1260 ولیج لیول فارم مشینری بینکوں کے قیام کے لیے جاری کی گئی ہے۔

  1. کسانوں کو  مٹی کی صحت سے متعلق کارڈ فراہم کرنا:

مٹی کی صحت  سے متعلق کارڈ اسکیم سال 2014-15 میں متعارف کرائی گئی تھی ،تاکہ غذائی اجزاء کے استعمال کو بہتر بنایا جا سکے۔ کسانوں کو درج ذیل نمبروں کے کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔

  1. سائیکل-1(2015 تا 2017) – 10.74 کروڑ
  2. سائیکل- II ( 2017 تا   2019) - 12.19 کروڑ
  3. مثالی گاؤں  پروگرام  (2019-20) - 23.71 لاکھ
  4. سال  2020-21 میں - 11.52 لاکھ
  5.  قومی زرعی  بازار (ای- این اے ایم) توسیعی پلیٹ فارم کا قیام:
  6. 22 ریاستوں اور 03 مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 1260 منڈیوں کو ای- این اے ایم پلیٹ فارم سے مربوط کیا گیا ہے۔
  7. 29نومبر 2022  تک، 1.74 کروڑ سے زیادہ کسان اور 2.37 لاکھ تاجر وں کو  ای- این اے ایم پورٹل پر رجسٹرڈ کیا جاچکا ہے ۔
  8. 29نومبر 2022  تک ای- این اے ایم  پلیٹ فارم پر مجموعی طور پر 6.8 کروڑ ایم ٹی  اور 20.05 کروڑ نمبر (بانس، پان، ناریل، لیموں اور سویٹ کارن) کامجموعی تجارتی حجم تقریباً  2.33 لاکھ کروڑ روپے کا ریکارڈ کیا گیا ہے۔
  1. خوردنی تیل اور پام آئل  (این ایم ای او)کے لیے قومی مشن کا آغاز:

  این ایم ای او کو کل  11,040 کروڑ روپے کے اخراجات کے ساتھ منظور کیا گیا ہے۔ اس سے اگلے 5 سالوں میں شمال مشرقی ریاستوں میں 3.28 لاکھ ہیکٹر اور باقی ہندوستان میں 3.22 لاکھ ہیکٹر کے ساتھ پام آئل پلانٹیشن کے تحت 6.5 لاکھ ہیکٹر کا اضافی رقبہ آئے گا۔ اس مشن کا سب سے بڑا فوکس ان کسانوں کو تازہ پھلوں کے گچھوں (ایف ایف بیز) کی قابل عمل قیمتیں فراہم کرنا ہے، جو صنعت کے ذریعہ ایک آسان قیمت طے کرنے والے فارمولے کے ساتھ یقینی خریداری سے منسلک ہیں۔ اگر صنعت کی طرف سے ادا کی گئی قیمت اکتوبر 2037 تک قابل عمل قیمت سے کم ہے ،تو مرکزی حکومت کسانوں کو قابل عمل فرق کی ادائیگی کے ذریعے معاوضہ دے گی۔

  1. ایگری انفراسٹرکچر فنڈ (اے آئی ایف):

سال 2020 میں اے آئی ایف کے آغاز کے بعد سے، اسکیم نے 19191 سے زیادہ پروجیکٹوں کے لیے ملک میں 14,170 کروڑ روپے مالیت کے زرعی بنیادی ڈھانچے کو منظور کیا ہے۔ اس اسکیم کے تعاون سے، مختلف زراعت کے بنیادی ڈھانچے بنائے گئے اور کچھ بنیادی ڈھانچے تکمیل کے آخری مرحلے میں ہیں۔ ان بنیادی ڈھانچوں میں 8215 گودام، 3076 پرائمری پروسیسنگ یونٹس، 2123 کسٹم ہائرنگ مراکز، 992 چھنٹی کرنے والی اور گریڈنگ یونٹس، 728 کولڈ اسٹور پروجیکٹس، 163 اسیئنگ یونٹس اور تقریباً 3632 دیگر قسم کے پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ پروجیکٹس اور کمیونٹی زرعی اثاثے شامل ہیں۔

  1. زرعی پیداوار کی لاجسٹکس میں بہتری، کسان ریل کا تعارف:

کسان ریل کو وزارت ریلوے نے خصوصی طور پر خراب ہونے والی زرعی اجناس کی نقل و حرکت کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا ہے۔ پہلی کسان ریل جولائی 2020 میں شروع ہوئی تھی۔ 31 دسمبر 2022 تک 167 روٹس پر 2359 خدمات چلائی جا چکی ہیں۔

  1. ایم آئی ڈی ایچ  - کلسٹر ڈویلپمنٹ پروگرام:

کلسٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (سی ڈی پی ) کو باغبانی کے کلسٹروں کی جغرافیائی خصوصیت سے فائدہ اٹھانے اور پری پروڈکشن، پیداوار، فصل کے بعد، لاجسٹکس، برانڈنگ اور مارکیٹنگ کی سرگرمیوں کی مربوط اور مارکیٹ کی قیادت میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔  ڈی اے اینڈ ایف ڈبلیو نے باغبانی کے 55 کلسٹرز کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے 12 کو سی ڈی پی کے آزمائشی  مرحلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

  1. زراعت اور متعلقہ شعبے میں اسٹارٹ اپ ایکو نظام کی تشکیل:

اب تک، مالی سال 2019-20 سے 2022-23 کے دوران 1102 اسٹارٹ اپس کو آخرکار مختلف نالج پارٹنرز اور ڈی اے اینڈ ایف ڈبلیو  کے ایگری بزنس انکیوبیٹرز نے منتخب کیا ہے۔ متعلقہ نالج پارٹنرز (کے پیز) اور  آر کے وی وائی  رفتار ایگری بزنس انکیو بیٹر (آر -  اے بی آئیز  کو ڈی اے اینڈ ایف ڈبلیو کی جانب سے ایک مشت گرانٹ سپورٹ کے طور پر ان اسٹارٹ اپس کو فنڈ فراہم کرنے کے لیے کل  66.83 کروڑ روپے کی ایک مشت گرانٹ جاری کی گئی ہے۔

  1. ایگری اور اس سے منسلک زرعی اجناس کی برآمد میں کامیابی:

ملک نے زرعی اور اس سے منسلک اجناس کی برآمد میں زبردست نمو دیکھی ہے۔ سال 2020-21 کے مقابلے میں، زرعی اور اس سے منسلک برآمدات 2020-21 میں 41.86 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2021-22 میں 50.24 بلین امریکی ڈالر ہو گئی ہیں، یعنی 19.99 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

ان اسکیموں کے مثبت نفاذ میں حکومت کی کوششوں سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے قابل ذکر نتائج برآمد ہوئے ہیں،  'آزادی کا امرت مہوتسو' کے ایک حصے کے طور پر، انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) نے ایک کتاب جاری کی ہے، جو لاتعداد کامیاب کسانوں میں سے 75,000 کسانوں کی کامیاب کہانیوں پر مشتمل ہے ،جنہوں نے اپنی آمدنی میں دو گنا سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ش ح- ا ک- ق ر)

U-5205


(Release ID: 1924708) Visitor Counter : 355


Read this release in: English