سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا ، گزشتہ 9 سالوں نے ہندوستان کو ایک کفایتی طبی منزل میں بدل دیا ہے


حفظان صحت کی آخری منزل تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے طبی تنظیمیں   حکومت کے ساتھ تعاون کر سکتی ہیں: ڈاکٹر جتیندر سنگھ

Posted On: 13 MAY 2023 5:59PM by PIB Delhi

سائنس و ٹیکنالوجی  کے مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ؛ وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ارضیاتی سائنس  کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)؛ وزیر اعظم کے دفتر ، عملہ ، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلاء کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج کہا کہ گزشتہ 9 سالوں نے ہندوستان کو ایک کفایتی طبی منزل میں تبدیل کردیا ہے اور یہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی ان کے ذریعہ شروع کیے گیے  حفظان صحت میں کئی اہم اصلاحات اور قابل عمل دفعات کے نفاذ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

مغربی بنگال کے کلیانی میں قائم کیے گئے ایمس میں منعقدہ  قومی میڈیکوز آرگنائزیشن (این ایم او) کی 42ویں سالانہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ، جو  ایک معروف ماہر ذیابیطس اور پروفیسر بھی ہیں، نے کہا کہ اس سے پہلے ہندوستان کو شاید ہی کسی بھی احتیاطی حفظان صحت  والے ملک کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن آج ہندوستان کی شناخت  دنیا کے ٹیکہ کاری مرکز کے طور پر  ہوتی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طبی تنظیمیں  حفظان صحت کی آخری منزل  رسائی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کر سکتی ہیں۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ آج ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ یورپی ممالک سمیت کئی دیگر ممالک سے مریض علاج کے لیے ہندوستان کے سرکاری اسپتالوں سمیت سرکردہ اسپتالوں میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سبھی مطمئن ہو کر واپس گئے ہیں کیونکہ انہیں فراہم کیا جانے والا علاج عالمی معیار کا ہے اور اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ ہندوستان میں وہ  تمام طبی سہولیات دستیاب ہیں  جو دنیا میں کہیں بھی موجود ہے اور وہ بھی  بہت ہی کفایتی قیمت پر دستیاب ہیں۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ان کی نسل طبی ماہرین کی ایک نسل سے تعلق رکھتی ہے جس نے ہندوستان میں تبدیلی کو دیکھا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ جب  انہوں میڈیکل اسکول میں داخل ہوئے تو ان کی پہلی نسل اینٹی بایوٹک سے پہلے کے دور میں پروان چڑھ چکی تھی۔ اینٹی بایوٹک کے آنے سے کم و بیش  متعدی بیماریوں پر قابو پا لیا گیا۔ پھر طرز زندگی کی  مخصوص بیماریاں زیادہ نمایاں ہونے لگیں چاہے وہ ذیابیطس،دل کا دورہ ، کولیسٹرول کے ساتھ ساتھ اوسط ہندوستانی کی عمر میں اضافہ ہو۔ لیکن بڑھاپے کی بیماریاں بھی ہندوستان کو درپیش بیماریوں کے بڑے اسپیکٹرم میں شامل ہو گئیں۔

وزیر نے کہا کہ ملک میں بوڑھے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پنشنر کی تعداد حاضر سروس ملازمین سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بڑھاپے کی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔

مرکزی وزیر نے کہا ایک اور بڑا چیلنج جس کا ملک آج سامنا کر رہا ہے وہ ہے بڑھاپے کی بیماریاں جو درمیانی اور نوجوان عمر کے گروپوں کو متاثر کرتی ہیں۔ وزیر موصوف نے کہا کہ یہ مناسب ہے کہ ہم ان میٹابولک عوارض کو دور کریں کیونکہ ہندوستان وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس لیے ہمیں اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور توانائی کی حفاظت کرنی ہے ۔انہوں نے کہا کہ  ایسے حالات میں  این ایم او جیسی تنظیموں کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ طرز زندگی کی بیماریوں  کے سماجی و  ثقافتی عوامل ہوتے ہیں، ان کا تعلق کھانے کی عادات اور طرز زندگی سے بھی ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اسے صرف ڈاکٹروں پر نہیں چھوڑ سکتے، اس میں سب کو اپنا  تعاون پیش کرنا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ  ہندوستانیوں کا مخلوط طرز زندگی ہے کیونکہ ہم ا بھی ترقی کر رہے ہیں اور جدید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ثقافتی، سماجی اور ذاتی طور پر ایک اضافی چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس روشنی میں این ایم او جیسی تنظیموں کے ساتھ تعاون اہمیت کا حامل ہے۔

آج کی کانفرنس کے موضوع ’ہماری صحت، ہماری فطرت، ہماری ثقافت‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ یہ 21ویں صدی کے ہندوستان کی ضرورت کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہمیں ماحولیات کے لیے ’لائف‘ کا منتر دیاہے ۔ وزیراعظم کی قیادت میں گزشتہ 9 سالوں میں اس وژن پر عمل کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے صحت کی دیکھ بھال کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ پچھلی حکومتوں کے دوران صحت کا بجٹ مرکزی بجٹ کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہوتا تھا۔ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی ہیلتھ انشورنس اسکیم ،آیوشمان بھارت  متعارف کرانے سے، ہندوستان صحت کی خدمات کی فراہمی کے شعبہ جاتی اور طبقاتی نقطہ نظر سے ایک جامع ضرورت پر مبنی صحت کی دیکھ بھال کی خدمت کی طرف بڑھ گیا ہے۔علاوہ ازیں،  ایلوپیتھی کے ساتھ روایتی ادویات کو جوڑ کر بین الاقوامی یوگا ڈے کی تقریبات کے ذریعے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے احیاء کا آغاز بھی کیا گیا ہے ۔ 2023 کو جوار کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جا رہا ہے، جس میں غذائیت سے بھرپور موٹے اناج  پر توجہ دی جارہی ہے۔ اسی سلسلے میں ہندوستان نے بھی دنیا کو فلاح و بہبود کا تصور دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہ صرف بیماری کی روک تھام ہے بلکہ صحت اور تندرستی کو بھی فروغ دینا ہے تاکہ شہری پوری توانائی اور تندرستی کے ساتھ ملک کی تعمیر میں اپنا تعاون پیش کر سکیں۔

وزیر موصوف نے کہا کہ ایک اور اہم پہلو مربوط صحت کی دیکھ بھال ہے جس میں جدید طبی طریقوں کے ساتھ آیوروید اور یوگا کے انضمام کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ  پچھلے کچھ سالوں میں، حکومت نے ہمارے روایتی علم کو بحال کرنے کی ایک محتاط کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں، سی ایس آئی آر نے ایک روایتی علم کی ڈیجیٹل لائبریری قائم کی ہے جہاں نہ صرف پیٹنٹ ہولڈرزبلکہ  ہر کسی کو اس تک رسائی حاصل ہے، جس سے ہمارے پاس حفظان صحت کا ایک ایسا نظام موجود ہو جس میں جدید ترین دریافتوں اور ایجادات کے ساتھ ہمارے روایتی علم کا بہترین امتزاج ہو۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اس بات پر زور دیا کہ مشن کووڈ تحفظ کے ذریعہ، حکومت این ایم او جیسی ہم خیال تنظیموں کی مدد سے ٹیکہ کاری مہم کو کامیابی سے چلانے اور یہاں تک کہ 50 سے زیادہ دیگر ممالک کو مقامی طور پر تیار کردہ ویکسین فراہم کرنے کے لیے آخری میل تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں، عالمی برادری کی طرف سے ہندوستان کی اعلیٰ ترین سطحوں پر قیادت اور وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے اس کے وژن کی عالمی سطح پر ستائش کی گئی۔

وزیر موصوف نے مزید کہا کہ طرز زندگی کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے گزشتہ چند سالوں میں حکومت نے مختلف اسپتالوں میں ذیابیطس کی مفت جانچ، ضلع اسپتال کی سطح پر مفت ڈائیلسس اور دل کے کفایتی اسٹینٹ اور طبی آلات تیار کیے ہیں جنہیں دنیا بھر میں بڑی تعداد میں برآمد کیے جارہے ہیں۔

نیشنل میڈیکوز آرگنائزیشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ این ایم او ایک میں تین تنظیم ہے کیونکہ یہ ایک ہی وقت میں سواستھ سیوا، سمائک سیوا اور شکشا سیوا میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایم او قابل ڈاکٹروں، قابل طلباء پر مشتمل ایک تنظیم ہے جو اس ملک میں جہاں تک میڈیکل کی تعلیم کا تعلق ہے مسابقتی تعلیمی ماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ  جب جموں و کشمیر کو 2014 میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تو این ایم او  نے سیوا بھارتی کے ساتھ نہ صرف مطلوبہ سامان  بلکہ ملک کے مختلف حصوں سے 68 ڈاکٹروں کو 10 دنوں کے لیے بھیج کر فوری کارروائی کی۔ انہوں نے کہا کہ  2014 سے جموں و کشمیر کی سیوا بھارتی کی مدد سے رشی کیشپ سواستھ سیوا یاترا کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس یاترا کا مقصد جموں و کشمیر کے دور دراز دیہاتوں میں لوگوں کو صحت کی دیکھ بھال کی خدمات اور بنیادی بیداری فراہم کرنا ہے۔

ان طریقوں کی فہرست  کا ذکر کرتے ہوئے جن میں این ایم او جیسی تنظیمیں حکومت کے ساتھ تعاون کر سکتی ہیں، وزیر موصوف  نے کہا کہ سب سے پہلے ایسی  تنظیمیں طبی شعبے میں اسٹارٹ اپ کے ساتھ تعاون کر سکتی ہیں جن کے پاس درست صلاحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اس شعبے میں کام کرنے والی ایجنسیاں بھی ہیں جیسےکہ ٹیکنالوجی  ترقیاتی بورڈ، بی آئی آر اے سی وغیرہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستانی بیماریوں کے لیے مزید ہندوستانی ڈیٹا تیار کرنے میں تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ این ایم او، سیوا بھارتی جیسی تنظیمیں اس طرح کےصحت سے متعلق  اہم ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہیں تاکہ ہم صحت کی دیکھ بھال کی ٹارگٹ ڈیلیوری کو یقینی بنا سکیں۔ تیسری بات  یہ کہ یوگا اور آیوروید کو ایلوپیتھی  کو فروغ دیتے ہوئے ایک چھت کے نیچے ضم شدہ صحت کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیے تعاون کی ضرورت ہے ۔ آخر میں، ٹیلی میڈیسن ،جو کہ ملک میں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کے پورے طریقہ کار میں انقلاب لانے جا رہی ہے، اس کے لیے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

5092


(Release ID: 1923982) Visitor Counter : 180