ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت

پروجیکٹ چیتا

Posted On: 08 MAY 2023 3:07PM by PIB Delhi

نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی (این ٹی سی اے) کی ہدایت پر، ایڈریان ٹورڈیف، ویٹرنری وائلڈ لائف کے ماہر،  فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس ، یونیورسٹی آف پریٹوریا، جنوبی افریقہ ، ونسنٹ وون ڈین مروے، منیجر  چیتا میٹا پاپولیشن پروجیکٹ، دی میٹا پاپولیشن انیشیٹو، جنوبی افریقہ؛ قمر قریشی، لیڈ سائنٹسٹ، وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، دہرادون اور امیت ملک، انسپکٹر جنرل آف فاریسٹ، نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی، نئی دہلی پر مشتمل ماہرین کی ایک ٹیم نے 30 اپریل 2023 کو کونو نیشنل پارک کا دورہ کیا اور پروجیکٹ چیتا کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا۔ ٹیم نے منصوبے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا اور آئندہ کاموں سے متعلق  ایک جامع رپورٹ پیش کی۔ ٹیم نے مشاہدہ کیا کہ ہندوستان میں  تاریخی رینج کے اندر  ان نسلوں کو دوبارہ قائم کرنے کے ایک شاندار  پروجیکٹ کے ابتدائی مرحلے میں جنوبی افریقہ سے ستمبر 2022 اور فروری 2023 میں بیس چیتوں کو کونو نیشنل پارک (کے این پی) میں کامیابی کے ساتھ  منتقل کیا گیا تھا۔ پروجیکٹ کو امید ہے کہ قانونی طور پر محفوظ علاقوں میں مسکن کے 100 000 مربع کلو میٹر اور نسلوں کے لیے اضافی 600 000 مربع کلو میٹر کے  قابل  سکونت لینڈ اسکیپ تک کی فراہمی کے ذریعے چیتا کے تحفظ کی عالمی کوششوں کو فائدہ پہنچے گا۔ چیتے گوشت خوروں کی درجہ بندی کے اندر ایک منفرد ماحولیاتی کردار  ادا کرتے ہیں اور ان کی بحالی سے ہندوستان میں ماحولیاتی نظام کی صحت میں بہتری آنے کی توقع  ہے۔ ایک کرشماتی نسل کے طور پر، چیتا ان علاقوں میں  بھی عمومی تحفظ اور ایکو ٹورزم  کو بہتر بنا کر ہندوستان کے وسیع تر تحفظ کے اہداف کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے جنہیں پہلے نظرانداز کیا گیا تھا۔

یہ حیرت  انگیز نہیں ہے کہ اتنے بڑے  اور پیچیدہ پروجیکٹ کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔ یہ ایک جنگلی، بڑی گوشت خور نسلوں  کو پھر سے بسانے کی پہلی  بین براعظمی کوشش ہے  اس لئے اس کے جیسی کوئی تاریخی نظیر نہیں ملتی۔ محتاط منصوبہ بندی اور عملدرآمد کی وجہ سے، تمام بیس چیتے ابتدائی طور پر پکڑے جانے، کوارنٹائن اور  اسی مقصد سے تیار کئے گئے کوارنٹائن  اور  مدھیہ پردیش کے کے این پی میں  موافقت کاری کے بڑے  کیمپوں تک لمبی دوری  کے ٹرانسپورٹ کے بعد  بچ گئے ہیں ۔ چیتوں کو آزادانہ طور پر  گھومنے والی حالتوں میں چھوڑنے سے کافی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ کونو کی طرح، ہندوستان میں کسی بھی محفوظ علاقے میں باڑ نہیں لگی ہے۔ اس طرح جانور اپنی مرضی کے مطابق پارک کے اندر اور باہر جانے کے لیے آزاد ہیں۔ چیتے  دوسرے بڑے گوشت خوروں کی طرح غیر مانوس کھلے نظاموں میں دوبارہ بسائے جانے کے بعد ابتدائی چند مہینوں کے دوران وسیع  رینج  کے لیے جانے جاتےہیں ۔ یہ حرکات غیر متوقع ہوتی ہیں اور  ان کا انحصار بہت سے عوامل پر  ہوتا ہے۔ کئی مہینوں کے بعد چیتوں  کو اپنا مواصلاتی نیٹ ورک قائم کرنا چاہیے اور نسبتاً مقررہ گھریلو حدود میں آباد ہونا چاہیے۔ یہ اہم  ہے کہ انفرادی  طور پر چیتے اس مرحلے کے دوران دوبارہ بسائے  گئے گروپ سے مکمل طور پر الگ تھلگ نہ ہو جائیں کیونکہ اس کے بعد وہ افزائش نسل میں حصہ نہیں لیں گے اور اس طرح جینیاتی طور پر الگ تھلگ ہو جائیں گے۔ کے این پی میں چیتوں کی لے جانے کی صلاحیت کے  سلسلے میں  بھی دو نکات پر غور کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے، کے این پی میں چیتے کے لے جانے کی درست صلاحیت کا تعین کرنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ چیتے اپنی گھریلو حدود کو صحیح طریقے سے قائم نہ کر لیں اور دوم، شکار کی موجودگی اور دیگر کئی عوامل کے لحاظ سے چیتوں کی گھریلو حدود   میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگوں نے نامیبیا اور مشرقی افریقہ کے دیگر ماحولیاتی نظاموں کی بنیاد پر کے این پی  میں چیتوں کی متوقع طور پر لے جانے کی صلاحیت کے بارے میں پیشین گوئیاں کی ہیں، لیکن ریزرو میں موجود جانوروں کی اصل تعداد کا اندازہ جانوروں کو چھوڑنے اور گھریلو حدود قائم کرنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔ افریقہ میں چیتےکی مختلف آبادیوں کے لیے چیتے کے مسکن علاقے کے  سائز اور آبادی کی تعداد  بہت زیادہ مختلف ہے اور واضح وجوہات کی بناء پر، ہمارے پاس ابھی تک ہندوستان میں چیتوں کے لیے مفید مقامی ماحولیاتی ڈیٹا نہیں ہے۔

اب  تک، نامیبیا کے چار چیتوں کو کے این پی میں فری رینج کنڈیشنز میں باڑ والے ماحول سازی کیمپوں سے چھوڑ  دیا گیا ہے۔ دو نر (گورو اور شوریہ) پارک کے اندر ہی  ٹھہرے ہوئے ہیں اور انہوں نے پارک کی سرحدوں سے باہر کے لینڈ اسکیپ  کو تلاش کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر  نہیں  کی  ہے۔ آشا نامی مادہ  بفر زون کے باہر کے این پی کے مشرق میں دو  بار تلاشی  کے لئے باہر گئی ہے لیکن وہ وسیع تر کونو لینڈ اسکیپ  کے اندر ہی  رہی ہے اور اس نے  انسانی آبادی والے علاقوں میں جانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ایک اور نر (پون) نے اپنی دوسری سیر کے دوران اتر پردیش کے سرحدی  علاقوں کے قریب  دو موقعوں  پر پارک کی حدود سے باہر کے علاقوں میں  گیا ہے  اور اس نے کھیتی باڑی کے علاقوں میں جانے کی کوشش کی ہے۔  ویٹرنری ٹیم نے ڈارٹ مارکر روکا اور  اسے کے این پی میں  موافقت کاری کے  کیمپ میں واپس لایا گیا۔ تمام چیتوں میں سیٹلائٹ کالر لگے ہوتے ہیں جو حالات کے لحاظ سے دن میں دو بار یا اس سے زیادہ اپنے مقام کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ مانیٹرنگ ٹیموں کو 24 گھنٹے گھومنے والی شفٹوں میں چھوڑے گئے چیتوں پر نظر رکھنے کے  کام  پر لگایا  گیا ہے، کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے چیتے کو اس کے معمول کے رویے اور رینج کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ ٹیمیں جانوروں  کے  ذریعے کئے گئے شکار  کے بارے میں کوئی بھی معلومات اور ان کے رویے سے متعلق کوئی دوسری معلومات ریکارڈ کرتیں جو  کہ اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے۔ یہ اہم  ہے کہ یہ سخت نگرانی اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ انفرادی  طور پر چیتے اپنے مسکن کی  حدود قائم نہ کر لیں۔

ٹیم نے زیادہ تر چیتوں کا دور سے معائنہ کیا اور جانوروں کے انتظام کے لیے موجودہ طریقہ کار اور پروٹوکول کا جائزہ لیا۔ تمام چیتے اچھی جسمانی حالت میں تھے، وہ باقاعدہ وقفوں سے شکار کرتے تھے اور قدرتی رویے کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کے این پی میں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کے بعد انہوں نے آگے بڑھنے کے لیے اگلے اقدامات پر اتفاق کیا۔

  • پانچ مزید چیتے (تین مادہ اور دو نر) کو جون میں مانسون کی بارشوں کے آغاز سے پہلے کے این پی میں موافقت کاری کے  کیمپوں سے آزاد گھومنے والی حالتوں میں چھوڑ دیا جائے گا۔ مانیٹرنگ  ٹیموں کے ذریعے  الگ الگ چیتوں کو ان کے رویے کی خصوصیات اور قابل رسائی ہونے کی بنیاد پر چھوڑے جانے کے لئے  منتخب کیا گیا تھا۔ چھوڑے جاے والے ان  چیتوں کی نگرانی  بھی اسی طرح کی جائے گی جس طرح پہلے  چھوڑے جانے والے چیتوں کی کی گئی  ہے۔
  • بقیہ 10 چیتے  مانسون سیزن کی مدت کے لیے موافقت کاری  کے کیمپوں میں رہیں گے۔ کچھ داخلی دروازے کھلے چھوڑے جائیں گے تاکہ ان چیتوں کو موافقت  کاری کے کیمپوں میں زیادہ جگہ استعمال کرنے اور مخصوص نر اور مادہ کے درمیان تعامل کرنے کا موقع دیا  جا سکے۔
  • ستمبر میں مانسون کی بارشیں ختم ہونے کے بعد صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ این پی یا آس پاس کے علاقوں میں میٹا آبادی قائم کرنے کے لیے چیتا کنزرویشن ایکشن پلان کے مطابق گاندھی ساگر اور دیگر علاقوں میں منصوبہ بند طریقے سے کے دیگر جیتوں کو چھوڑنے کا کام کیا جائے گا۔
  • چیتوں کو کے این پی سے باہر جانے کی چھوٹ  دی جائے گی اور ضروری نہیں کہ انہیں دوبارہ پکڑا جائے جب تک کہ وہ ان علاقوں میں نہ جائیں جہاں پر انہیں خطرہ ہو۔  جب وہ آباد ہو جائیں گے تو ان کے الگ تھگل ہونے  کی ڈگری کا اندازہ لگایا جائے گا اور گروپ سے ان کے رابطے کو بڑھانے کے لیے مناسب کارروائی کی جائے گی۔
  • وہ مادہ جس نے مارچ میں جنم دیا تھا، شکار کرنے اور اپنے چار بچوں کی پرورش کے لیے اپنے کیمپ میں رہے گی۔

پروجیکٹ میں دو چیتوں کی حالیہ اموات کے بارے میں معلومات:

  • نامیبیا سے تعلق رکھنے والی چھ سالہ مادہ  ساشا جنوری کے آخر میں بیمار ہوگئی تھی۔ اس کے خون کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اسے  گردوں کی پرانی بیماری لاحق تھی۔ اسے کے این پی میں ویٹرنری ٹیم نے کامیابی سے مستحکم کیا، لیکن بعد میں مارچ میں اس کی موت ہوگئی۔ پوسٹ مارٹم نے ابتدائی تشخیص کی تصدیق کی۔ گردوں کی پرانی بیماری  لائے جانے والے چیتوں اور بہت سی دیگر کیپٹیو  بلی کی  نسلوں  میں ایک عام مسئلہ ہے۔ ساشا نامیبیا کے جنگل میں پیدا ہوئی تھی لیکن اس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ سی سی ایف  میں قید کی حالات میں گزارا۔ بلی کی نسل  میں گردوں کی بیماری کی بنیادی وجوہات معلوم نہیں ہیں، لیکن عام طور پر اس بیماری آہستہ آہستہ  اضافہ ہوتا ہے، طبی علامات ظاہر ہونے میں کئی ماہ یا کئی سال  بھی لگ جاتے ہیں۔ یہ بیماری متعدی نہیں ہے اور ایک جانور سے دوسرے جانور میں منتقل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس سے پروجیکٹ میں موجود دیگر چیتوں کو  کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بیمری  کی تشخیص بہت خراب ہے اور فی الحال کوئی مؤثر یا اخلاقی علاج کے متبادل  نہیں ہیں۔ بیماری  کا علامتی علاج صرف عارضی بہتری فراہم کرتا ہے، جیسا کہ ساشا کے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔
  • ادے، جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والا ایک بالغ  نر ہے جس کی صحیح عمر کا پتہ نہیں ہے۔اس میں  23 اپریل کو اپنے کوارنٹائن کیمپ سے بڑے موافقت کاری  کیمپ میں چھورے جانے کے ایک ہفتے بعد  پہ شدید اعصابی علامات پیدا ہوئی تھیں۔ صبح کی مانیٹرنگ کے دوران، یہ دیکھا گیا  کہ وہ غیر منظم انداز میں لڑ کھڑا  رہا تھا اور اپنا سر اٹھانے سے قاصر تھا۔ اسے کے این پی  ویٹرنری ٹیم نے بے ہوش کر دیا اور علامتی طور پر علاج کیا۔ اس کی حالت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے خون اور دیگر نمونے لیبارٹری بھیجنے کے لیے حاصل کیے گئے۔ بدقسمتی سے  بعد میں اسی  دن  دوپہر  میں  اس کی موت ہوگئی۔ اضافی وائلڈ لائف ویٹرنری اور ویٹرنری پیتھالوجسٹ کو مکمل پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے لایا گیا۔ ابتدائی معائنے سے معلوم ہوا کہ غالباً اس کی موت ٹرمینل کارڈیو پلمونری فیل ہونے سے ہوئی تھی۔ دل اور پھیپھڑوں کی ناکامی بہت سی حالتوں کے آخری مراحل میں عام ہے اور اس مسئلے کی بنیادی وجہ کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کرتی ہے۔ یہ ابتدائی اعصابی علامات کی بھی وضاحت نہیں کرتی۔ اس کے دماغ میں ممکنہ ہیمرج کے مقامی ایریا  کے علاوہ اس کے باقی اعضاء کے ٹشوز نسبتاً نارمل دکھائی دیتے تھے۔ چوٹ یا انفیکشن کی کوئی دوسری علامتیں نہیں تھیں۔ تجزیہ کے لیے ٹشو کے متعدد نمونے لئے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے خون کی جانچ نسبتاً نارمل نتائج اور خون کے سفید خلیات  کی معمولی تعداد  بتاتی ہے کہ وہ کسی متعدی بیماری میں مبتلا نہیں تھا جس  کی وجہ سے اس سے کسی دوسرے جانور کو خطرہ لاحق ہو۔ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہسٹوپیتھولوجی اور ٹاکسیکولوجی رپورٹس کو حتمی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ دوسرے چیتوں کی قریب سے نگرانی کی گئی ہے اور ان میں سے کسی میں بھی ایسی علامات  نظر نہیں  آئی ہیں۔ وہ سب بالکل صحت مند دکھائی دیتے ہیں، اپنے لیے شکار کر رہے ہیں اور دیگر قدرتی رویوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

U-4892                     



(Release ID: 1922581) Visitor Counter : 195