نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
برطانیہ میں ہندوستانی برادری کے ساتھ بات چیت کے دوران نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن(اقتباسات)
Posted On:
06 MAY 2023 3:38PM by PIB Delhi
دوستو، یہ دورہ میرے لئے ہمیشہ یادگار رہے گا، میں اسے سنبھال کر رکھوں گا۔ پارلیمنٹ کے عزت مآب ممبروں کے ساتھ میری قابل ذکر کارآمد بات چیت ہوئی ہے۔ یہ میرے لئے طویل خطاب کا موقع نہیں، لیکن میں ایک بات کہوں گا-ہندوستان کو اپنے غیر مقیم ہندوستانیوں پر فخر ہے۔وہ ہندوستان کے 24x7سفیر ہیں۔یہاں ان کی آبادی 1.7ملین ہے اور پوری دنیا میں اس کی آبادی 32ملین ہے۔مثال دینے کے لئے ان کی ستائش کی جاسکتی ہے اور اس مثال کو ہر شہ ماہی پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ کرم بھومی اور جنم بھومی کے لئے بھی پوری طرح سے عہد بند ہیں۔اس صحت مند توازن کو وہ حیرت انگیز صلاحیت کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں۔
اس وقت ہندوستان ایک ایسی جمہوریت ہے کہ تمام عالمی معیارات پر سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ اگر آپ مملکت کے تینوں حصوں : قانون سازیہ ، مقننہ اور عدلیہ کو دیکھیں تو آپ پائیں گے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مقننہ نے انسانیت کے 1/6حصے کو ناقابل تصور کی سطح تک تبدیل کردیا ہے۔
عوام کے دکھ کو کم کرنے، عام آدمی کو بااختیار بنانے والےتمام سماجی پیمانے اور عناصر اپنائے جارہے ہیں۔بنیادی ڈھانچہ ترقی اس کے بارے میں پہلے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا جاسکتا تھا زمینی حقیقت ہے۔آپ اسے سڑک، ریل، ہوائی یا تکنیکی کنکٹی ویٹی میں دیکھتے ہیں۔میں نے پارلیمنٹ کے عزت مآب ممبروں کو اشارہ دیا تھا اور صرف ایک مثال دینے کے لئے کہ ہندوستان میں 2022 میں ڈیجیٹل ادائیگی لین دین کی رقم 1.5ٹریلین تھی ۔اگر میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے تعلق سے اعدادو شمار کو ایک ساتھ لیتا ہوں یہ تو رقم چار گنا ہے۔
ہمارے پاس 700ملین انٹرنیٹ صارف ہیں اور محض صارف ہی نہیں ،انہوں نے ہندوستان کے خدمات تقسیم کے نظام کو ایک ایسی سطح تک بدل دیا ہے، جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شفافیت ، جواب دہی اور تقسیم کا نظام کا جذبہ نیا منتر ہے۔دیکھئے 11کروڑ کسانوں کو سال میں تین بار 2.2لاکھ کروڑ روپے کے مساوی رقم کسی بچولیے کے بغیر براہ راست ان کے کھاتے میں منتقل کئے جاچکے ہیں۔دیکھئے کیسی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔اقتدار کے گلیاروں کو اقتدار کے دلالوں سے صاف کردیا گیا ہے اور رابطہ ایجنٹوں کی پھل پھول رہی صنعت اب وجود میں نہیں ہے۔یہ سب کیا گیا ہے۔
ایک ایسے ایکو سسٹم کو فروغ دیا گیا ہے جو ہر نوجوان کو اپنی توانائی اور صلاحیت کو پوری طرح سے اُجاگر کرنے میں اہل بناتا ہے اور کوئی مالی رُکاوٹ نہیں ہے۔اگر مُدرا قرضہ جات کو لیں تو اُس رقم کو دیکھیں جو تقسیم کی گئی ہے اور ہر قرض لینے والا جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں، نوکری دینے والا ہے۔ہنرمندی اور صلاحیت سازی ہر سطح پر نیا معیار ہے۔
34سال بعد قومی تعلیمی پالیسی تیار ہوئی ہے۔ میں تعلیم کی پیداوار ہوں، اگر مجھے اسکالر شپ نہیں ملی ہوتی تو میں وہ نہیں ہوتا جوآج ہوں۔ تعلیم سب سے مؤثر ، طاقتور اور تبدیلی کا میکانزم ہے۔ یہ صرف تعلیم ہی ہے، جو سماج میں عدم یکسانیت کا خیال رکھتی ہے۔کمزور لوگوں کو آزادی دلاتی ہے اور نوجوانوں کو طاقتور بناتی ہے۔یہی کچھ تو اب ملک میں ہورہا ہے۔
آپ کے پاس ہندوستان کی طرح عدلیہ کہاں ہے؟اس وقت ہمارے پاس چیف جسٹس آف انڈیا کے طورپر سب سے ذہین اور باشعور لوگوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا فرد جس کا تجربہ وسیع ، جو عہد بند ہیں، جس کے اندر جنون ہے اور جو سب سے زیادہ باصلاحیت ہے۔ فیصلوں کا جائزہ لیں تو عام آدمی کو راحت دینے میں اسے ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔حکمرانی کی رفتار میں ہمیشہ مسائل رہیں گے، ایسا کوئی دن نہیں ہوگا، جب کوئی مسئلہ نہ ہو۔مگر ہم جب اپنی عدلیہ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی ریڑھ کی ہڈی بہت مضبوط ہے۔ اعلیٰ عدالت سے نچلی عدالتوں تک چاروں طرف دیکھیں عام آدمی کے لئے ہندوستانی عدلیہ کی رسائی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔تصور کیجئے یہ کتنی تیزی سے حصولیابی ہے۔
ہمارے ممبران پارلیمنٹ کو دیکھئے، جو لوک سبھا کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ یہ سب سے مشکل امتحان ہوتا ہے، جو ایوان بالا میں ہے وہ بہت باصلاحیت ہیں۔ ہمیں اپنے ممبران پارلیمنٹ پر فخر ہے۔ اس عمل میں اگر ہم ایک مختصر محدود علاقے کی جانچ کرتے ہیں اور اس کے بارے میں فیصلہ لیتے ہیں تو یہ مناسب نہ ہوگا۔اس لئے مجھے یہ کہنے میں کوئی دقت نہیں ہے کہ ہندوستانی جمہوریت اس وقت اس سطح پر کام کررہی ہے، جو پوری دنیا میں بے مثل ہے۔
کیا کرہ ارض پر کسی دوسری جمہوریت کا نام بتا سکتے ہیں، جہاں آئین دیہی سطح پر ، بلدیاتی سطح، ریاستی سطح پر، مرکزی سطح پر، کوآپریٹیو سطح پر آئینی میکانزم مہیا کرتا ہو؟بھارت میں یہ سب ڈھانچہ جاتی ہے۔ہمارے ادارے پوری طرح سے آزاد ہیں۔ہندوستان کا الیکشن کمیشن-وہ حیرت انگیز کام کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے معزز ممبران نے ایک اِن پُٹ دیا تھا کہ ہندوستان کا الیکشن کمیشن ایک رہنما ہو سکتا ہے۔ دنیاکے باقی حصوں کے لئے روشنی کا ایک مرکز ہوسکتا ہے کہ کس طرح وہ کم سے کم وقت میں غیر جانبدارانہ کامیابی کے ساتھ انتخاب کراسکتے ہیں۔
ہندوستان میں اب ہمارے پاس ایک ایکوسسٹم ہے-آپ کوئی بھی ہوں، لیکن آپ قانون کے تئیں جواب دہ ہیں۔کوئی بھی قانون کے پہنچ سے باہر نہیں ہے، کسی کے ساتھ غلط سلوک نہیں کیا جاسکتاہے، کیونکہ ہمارے پاس ایک مضبوط قانونی انتظام ہےاور موجودہ وقت میں قانونی نظام کی قیادت ایک ایسے شخص کے ذریعے کی جارہی ہے، جو بنیادی طورپر اخلاقی طور سےیا دانشوارانہ طور سے اس کا اہل ہے۔
اس لئے میں آپ سے اصرار کروں گا کہ یہ درست وقت ہے کہ ہم ذہنی طورپر غور فکر کریں اور ملک کو ہمیشہ سرفہرست رکھیں۔ہمیں اجتماعی طور سے ایک قابل فخر ہندوستانی ہوناچاہئے اور اپنی تاریخی حصولیابیوں پر فخرکرنا چاہئے۔دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے، جو کووڈ وبا سے اتنی کامیابی سے نمٹنے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟قابل ذکر ہے کہ ہرہندوستانی کو جسے ٹیکہ کاری کی خوراک کی ضرورت تھی، مفت اور وقت پر جزوی طریقے سے اسے دستیاب کرایا گیا اور اس کا تصدیق نامہ اس کے اسمارٹ فون پر دستیاب ہے۔یہاں تک کہ سب سے ترقی یافتہ ممالک بھی اس معاملے میں مقابلے میں نہیں ہیں۔لوگ غذائی تحفظ کی بھی بات کررہے ہیں، کیونکہ ہندوستان میں 80کروڑ لوگوں کو اپریل 2020 سے اب تک معیاری چاول، اناج، دال مل رہی ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو اگر دیکھتے ہیں تو جہاں ہمیں پہلے سڑک راستے سے گھنٹوں لگ جاتے تھے، آج ہمارے پاس عالمی سطح کے ایکسپریس وے ، موٹروے، ہوائی راستے اور یقینی طور سے گاؤں سطح تک تکنیکی راستے ہیں۔جب ریل کی بات آتی ہے تو ہمارے پاس راجدھانی اور دیگر ٹرینیں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب ہمارے پاس وندے بھارت ہے۔
جب ہم ہوائی اڈوں کو دیکھتے ہیں، تو اب وہاں بھی ترقی کئی گنا سطح پر بڑھ رہی ہے اور ان سب کا سبب ہندوستان کے مالا مال انسانی وسائل اور اس کے لوگوں کا ڈی این اے ہے،جو ہنرمندی کو تیز رفتاری سے حاصل کرنے میں اہل ہے۔
اب ہندوستان کی کسی بھی گاؤں میں چلے جائیے، آپ کو معیاری سڑکیں مل جائیں گی۔ اب انہیں پاسپورٹ کے لئے درخواست دینے کی غرض سے کہیں اور نہیں جانا ہوگا، گاؤں میں ہی کوئی ان کے لئے یہ کردے گا۔ڈرائیونگ لائسنس یا آدھار کارڈ کے لئے بھی کوئی نہ کوئی وہاں دستیاب ہے۔ ٹکٹ بک کرنے کے لئے یا خدمات تقسیم کے لئے ، ادائیگی کرنے کے لئے، خواہ وہ پانی کا بل ہو، یا بجلی کا بل ہو، اس کے لئے بھی کوئی نہ کوئی دستیاب ہے۔
ہندوستان میں اس وقت کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے، جسے روزگار کی ضرورت ہو اور اسے مل نہ رہا ہو۔اس پھلنے پھولنے والی جمہوریت میں جہاں مرکزیت میں عام آدمی کو با اختیار بنانا ہو، وہاں کچھ مخالف آوازیں بھی ہیں۔ حالانکہ اعلیٰ سطح پر یہ خاموش ہوجاتے ہیں۔آپ کو غورو فکر کرنا چاہئے۔
میں یہاں کوئی تعصب آمیز بیان دینے نہیں آیا ہوں۔لیکن میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہندوستان کی ثقافت رہی ہے کہ جب ہم اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر قدم رکھتے ہیں تو ہم ملک کے سفیر کے طورپر باہر نکلتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال 1992 سے 5سال تک ہمارے وزیر اعظم پی وی نرسمہاراؤ کی حکومت کے دوران ہوا اور ڈاکٹر منموہن سنگھ ان کے وزیر مالیات تھے۔اپوزیشن کے لیڈر اٹل بہاری واجپئی جی جو بعد میں ملک وزیر اعظم ہوئے، انہوں نے ہندوستان کی نمائندگی کی، یہی ہماری ثقافت ہے اور یہ ہمارے تہذیبی اخلاق میں گہرائی سے شامل ہے۔
دنیا کا کوئی بھی ملک ہمارے جیسے تہذیبی تاریخ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ہمارے اُُپنشیدوں، ویدوں، بھاگوت گیتا کے پروچنوں کو دیکھیں اور موجودہ بھارت کو دیکھیں، یہاں کثرت میں وحدت ہے۔
میں خود اسے دو شکلوں میں دیکھا ہے؛ایک تین سال کے لئے مغربی بنگال کے گورنر اور اب ملک کے نائب صد ر جمہوریہ کی شکل میں۔میں یہاں موجود آپ سب سے گزارش کروں گا اور یہاں کوئی گنی ہوئی تعداد نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے عزت مآب ممبران پارلیمنٹ کو بتایا۔ کیونکہ ان میں سے ہر کوئی ایک وسیع حصے اور ایک فکری عمل کی نمائندگی کرتا ہے اور آپ سب بھی ایسا کرتے ہیں۔
اس لئے میں اپیل کرتا ہوں کہ 32ملین ہندوستانی برادری ایک زبردست آبادی اِکائی ہے اور یہ آبادی اِکائی انتہائی لائق ، طاقتور اور باخبر ہے، جو ملک کو ہر طرح سے فخر سے ہمکنار کرتا ہے۔اسے کئی ایشوز پر غورو فکر کرنا چاہئے۔ اگر ہمیں پیش رفت درج کرنی ہے تو کوئی بھی تنقید، تجزیہ اور تحقیق سے اوپر نہیں ہے۔ ہر کوئی اِن اِکائیوں کے ماتحت ہے، لیکن تب ہم ان سے متاثر نہیں ہوسکتے۔
ہندوستان کے لئے فخر کا لمحہ آچکا ہے؛ فخر کا یہ لمحہ زمینی حقیقت سے جھلک رہا ہے۔ دنیااسے پہچان رہی ہے۔ تمام پیمانوں کے مطابق ہندوستان مواقع کی سرزمین ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے ایک پسندیدہ مرکز ہے اور بڑی معیشتوں میں، یہاں تک کہ دباؤ کی مدت میں بھی یہ سب سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا سبب مثبت حکمرانی ہے، ایک نیا منتر دیا گیا ’’کم از کم حکومت، زیادہ سے زیادہ حکمرانی‘‘۔
ہم ہندوستان میں ایسے دور میں ہیں،جہاں اس خیال کو تیزی سے قابل عمل بنایا جاتا ہے۔ اگر خیال اچھاہے تو اسے تیزی سے نافذ کرنا ہوگا اور وہ عمل آوری کے بنیادی ڈھانچے (ہوائی اڈے، بندرگاہ)اور گاؤں کی ترقی میں بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ ہورہا ہے۔اس لئے آپ میں سے ہر ایک کو 24x7ہندوستان کا ایک سفیر ہونا چاہئے۔
ایک نظریے کا اشارہ دیا گیا تھا:کیا ہم سب کچھ تسلیم کرتے ہیں؟ ہم اپنے خاندان میں اپنی اولاد اور اپنے بچوں کے لئے سب کچھ قبول نہیں کرتے ہیں، لیکن یہ پرتعاون ، اشتراکی نظریے اور شفاف ذہنیت کے ساتھ ہونا چاہئے، تاکہ باتیں واضح طور سے دکھائی دیں۔
اگر ہمیں پر امن ماحول میں ترقی کرنی ہے اور عالمی نظام بنانا ہے تو ٹکراؤ کی صورت حال سے بچنا ہوگا، کیونکہ اس میں انسانیت کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔دنیا اس وقت ہندوستان کے اُبھرنے کے تئیں مثبت رویے سے دیکھ رہی ہے۔ یہ دنیا کے استحکام کے لئے ایک مثبت رویہ ہوگا۔
ہندوستان کے آزادی کے 75ویں سال میں ’’امرت کال‘‘مکمل استعمال کیا گیا ہے،ہر سرے کو حساس بنایا گیا ہے۔ جنگ آزادی کے ہیروز اور گمنام ہیروز کی شناخت کرتے ہوئے انہیں اعزاز دیا گیا ہے۔ ہندوستان کا ایک تصدیق شدہ طریقے سے احیاء کیا گیا ہے۔2047 میں جب ہندوستان کی آزادی کی صدی منائی جائے گی، ہندوستان کی صورت حال کیا ہوگی، اس کے لئے ایک مضبوط بنیاد رکھی جاچکی ہے۔
اس وقت ہم دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہیں۔ دہائی کے آخر تک ہم تیسرے مقام پر ہوں گے۔یہ حصولیابی کچھ سال پہلے تک ہمارے خوابوں سے دور تھی ، اس کا ثمرہ ہر محنتی ہندوستانی ، محنت کش ، کسان، مؤثر سرکاری پالیسیوں اور اسکیموں کے شفاف اور جواب دہ طریقے سے ایماندارانہ طریقے سے نفاذ کو جاتا ہے۔
اگر تاریخی پس منظر پر نظر ڈالیں تو عالمی معیشت میں ایک وقت ایسا تھا جب ہندوستان کا حصہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ تھا اور بہت طویل عرصے تک چلتا رہا، اب ہم اسے دوبارہ حاصل کرنے کی راہ پر ہیں۔ ہماری ترقی کئی گنا اضافے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ تمام اسباب آپ کو بتائیں گے کہ ہندوستان کس سمت میں جارہا ہے۔
میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ خلائی شعبے میں اِسرو کو دیکھیں، پچھلے 12مہینوں میں اس نے کتنے بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ جہاں تک کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اِسرو کا استعمال ان آلات کو مدار میں قائم کرنے کے لئے کیا ہے، جسے وہ ضروری سمجھتے تھے۔
ہندوستان اب دنیا کے لئے مینوفیکچرنگ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔اس لئے میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ ملک کی ترقی کے لئے اس کے وقار میں اضافے کے لئے یہ یقینی بنائیں کہ عوامی شعبے میں جو بھی غیر ضروری ، غلط ، بے بنیاد بیانات ہوں انہیں ختم کرنے میں اپنا تعاون دیں۔ کوئی بھی ایماندارانہ تجزیے یا تنقید کے خلاف نہیں ہے۔ یہ ہمیں ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد کرے گا، لیکن نامناسب ، غلط جذبے سے بھرپور نقصان دہ سرگرمیاں اچھی سوچ کے مخالف ہے اور ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔
میں خاص طور سے اس ایک طرفہ بات چیت کو آرام دہ بنانے کے عمل میں وکرم کا بہت ممنون ہوں، لیکن کچھ وقت پہلے میں ان کے ذریعے اور فاضل ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے بتائے گئے موقع کا فائدہ ضرور لینا چاہوں گا، جس میں و ہ مجھے ایک بار پھر مدعو کرنے پر غور کررہے ہیں۔
مجھے دعوت نامہ قبول کرنے میں مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ میں یہاں پہلی بار 1988میں آیا تھا، جب میرے والدکا آپریشن ہواتھا۔ پرنسس گریس اسپتال میں ڈاکٹر جان رائٹ کے ذریعے ان کی بائی پاس سرجری کی گئی تھی ۔پھر میں 1989میں یہاں آیا، جب مجھے وفاقی وزیر کے طورپر ایک ممبرپارلیمنٹ کے طورپر منتخب کیا گیا۔اس وقت بھی میں نے زیادہ ترک پیشہ وروں اور ممبران پارلیمنٹ سے ربط بنائے رکھا۔ اب میں ہندوستانی بنیاد کے لوگوں اور دیگر لوگوں کے نظریے میں ایک بڑی مثبت تبدیلی دیکھتا ہوں۔ یہ کوئی چھوٹی حصولیابی نہیں ہے اور یہ صرف اسی ملک تک محدود نہیں ہے۔ میں نے یوروپی پارلیمنٹ میں بھی ایک نمائدہ وفد کی قیادت کی۔ڈفالٹ طور سے ہی کیوں؟ایک سینئر وزیر کی شکل میں میں ایک نائب لیڈر تھا ، لیکن یہ لیڈر فٹ بال کے تئیں بے حد لگاؤ رکھتا تھا ، اس لئے میں نے نمائندہ وفد کو سنبھالا تھا۔
میں ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہا ہوں کہ ڈر سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔ اس لئے کبھی بھی خوفزدہ نہ ہوں، کیونکہ یہ تناؤ اور دباؤ کو پید اکرتا ہے۔ اگر آپ کو خواب دیکھنے ہیں تو براہ کرم اسے اپنے دل یا ذہن میں نہ رکھیں۔ آپ محض خواب دیکھنے کے لئے ہی نہیں بنے ہیں۔ ایک خواب کو زمین پر اتارنے کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس نے گرے بغیر زندگی میں قدم بڑھائے ہوں۔
خواتین و حضرات میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں اور میں اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے بھی جانا جاتا ہوں۔ کیونکہ یہ عادت میں نے ہندوستان کے وزیر اعظم سے سیکھی ہے، جو اپنے وعدے کو سب سے تیز رفتار سے پورا کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ یہ وعدہ ضرورت مند خاندانوں کو 170ملین مفت گیس کنکشن دے کر پورا کیا گیا ہے۔ غریبوں کو لاکھوں گھر مہیا کرائے جارہے ہیں۔ پبلک سیکٹر میں لاکھوں روزگار دیئے جارہے ہیں اور کم سے کم وقت میں بنیادی ڈھانچہ تیا رکیا جارہا ہے۔ اس لئے میں اپنا وعدہ نبھاؤں گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسی کو یہ پہل کرنی ہوگی ، تاکہ میں آ سکوں۔
************
ش ح۔ج ق۔ن ع
(U: 4865)
(Release ID: 1922318)
Visitor Counter : 185