خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
پورے ملک میں خواتین کا بین الاقوامی دن منایاگیا
حکومت نے قانون سازی سے متعلق فریم ورک ، مختلف اسکیموں پرعمل درآمد کرکے اورپالیسیوں /پروگراموں /اسکیموں کے ذریعہ پورے ملک میں خواتین اورلڑکیوں کے خلاف سبھی طرح کی تفریق کوختم کرنے کے مقصد سے ، کئی اقدامات کئے ہیں
Posted On:
31 MAR 2023 5:20PM by PIB Delhi
اس سال خواتین کا بین الاقوامی دن ملک بھرمیں پورے جوش وخروش کے ساتھ منایاگیا۔ اس موقع پرمختلف مرکزی اورریاستی سرکاروں کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیموں نے بہت سے پروگراموں ، تقریبات ، فنکشن ، معلومات عامہ کے مقابلوں کا بھی انعقاد کیا۔
خواتین کے بین الاقوامی دن 2023کا موضوع ہے #مساوات کو اپنائیے ۔خواتین اوربچوں کی بہبود کی وزارت ، خواتین کے بین الاقوامی دن سے متعلق تقریبات کے موقع پر مختلف حکام کے ذریعہ کئے گئے اخراجات کا حساب کتاب نہیں رکھتی ۔
صنفی مساوات کااصول ، بھارت کے آئین میں شامل ہے ۔ بھارت کا آئین ، نہ صرف مساوات فراہم کرتاہے بلکہ یہ ریاست کو اس بات کا بھی اختیاردیتاہے کہ وہ خواتین اوربچوں کے حق میں مثبت امتیاز اورتفریحی رویہ اختیارکریں ۔ ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصول اوربنیادی فرائض کے تحت ریاستوں کے ساتھ ساتھ شہریوں پربھی یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ تفریق کا خاتمہ کریں ، توہین آمیز طورطریقوں کی مذمت کریں اور خواتین کے وقار کو سربلند کریں ۔ آئین میں درج اصولوں کے عین مطابق ، حکومت نے قانون سازی سے متعلق ڈھانچہ ، مختلف اسکیموں پرعمل درآمد کرکے اورپالیسیوں /پروگراموں /اسکیموں کے ذریعہ پورے ملک میں خواتین اورلڑکیوں کے خلاف سبھی طرح کی تفریق کوختم کرنے کے مقصد سے ، کئی اقدامات کئے ہیں ۔بھارت کی متحرک اورتابناک عدلیہ بھی خواتین اورلڑکیوں کے حقوق اوراستحقاق کے تحفظ کے مقصد سے ایک اہم کردار اداکررہی ہے ۔
اس آئینی ڈھانچہ کو مزید مستحکم بنانے کی غرض سے متعدد قانون بھی موجود ہیں ، جن میں ‘‘پروٹیکشن آف سول رائٹس ایکٹ -1955’’، مساوی اجرت یامعاوضہ سے متعلق قانون -1976(کوڈ آن ویجز2019کے تحت شامل ) ’’، کام کی جگہوں اورمقامات پرخواتین کی جنسی ہراسانی کی روک تھام ، پابندی اور ازالہ سے متعلق قانون -2013’’ ، ‘‘انڈین پینل کوڈ’’ یعنی تعزیرات ہند ، ‘‘نوجوانوں کے قانون میں 2013 اور2018 میں ترامیم ۔’’ ‘‘جہیز لینے دینے پرپابندی سے متعلق قانون -1961’’۔ گھریلوتشددسے خواتین کے تحفظ سے متعلق قانون -2005’’۔ بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق قانون -2006۔’’ ‘‘مسلم خواتین کے شادی سے متعلق حقوق کے تحفظ کا قانون -2019’’2020کے مزدوری کے تین کوڈس وغیرہ شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ اس بات کو یقینی بنانے کی غرض سے کہ کسی خاتون کی ازدواجی زندگی کا درجہ کسی بھی قسم کی تفریق یا مشکلات سے دوچار نہ ہو، یاخدمات تک رسائی میں اس کاکوئی اثرنہ پڑے ، واحد ماؤوں کے حق میں پاسپورٹ ضوابط میں ترامیم کی گئی ہیں ، اب یاتو ماں یا باپ کے نام کو پاسپورٹ کی درخواست فارم میں درج کیاجاسکتاہے اوراب درخواست جمع کرانے کے دوران شادی /طلاق کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، جبکہ اس سے پہلے پین درخواست فارم میں والد کانام درج کرنالازمی تھا۔ مذکورہ قواعد وضوابط میں مناسب ترمیم کی گئی ہے تاکہ پین درخواست فارم میں والد کے نام کا ذکرکرناان افراد کے لئے لازمی نہ ہو جن کی والدہ ، سنگل والدین یاپیرینٹ ہے اورصرف والد کانام درج کرکے ہی پین کےلئے درخواست دی جاسکتی ہے ۔
بچیوں کے صنفی تناسب کو بہتربنانے کی غرض سے ایک اقدام کے طورپر، حکومت ہند نے ‘‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ’’ اسکیم کاآغاز کیاہے ۔ یہ اسکیم ، صنفی تفریق پرمبنی جنس کے انتخاب کو ختم کرنے ، بچیوں کے تحفظ اوران کی خیروعافیت کو یقینی بنانے ، اوربچیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کی ایک مرتکز کوشش ہے ،تاکہ بچوں کے صنفی تناسب میں اضافہ کیاجاسکے۔ مشکلات سے دوچار خواتین کی مدد کرنے کی غرض سے ، حکومت ملک بھرمیں ، ون اسٹاپ سینٹرس ، (او ایس سیز) قائم کررہی ہے ۔ جن کا مقصد طبی امداد ، پولیس سے متعلق امداد ، قانونی امداد /کیس سے متعلق بندوبست ، نفسیاتی صلاح ومشورہ اورتشدد سے متاثرہ خواتین کو عارضی طورپرمعاؤنت فراہم کرنے سمیت خدمات کے مربوط رینج تک رسائی میں سہولت فراہم کرنا ہے ۔
صفائی ستھرائی تک رسائی ایک وقار کامعاملہ ہے ۔ بھارت میں کھلے میں رفع حاجت کے مسئلے سے نمٹنے کے مقصد سے ، جس سے خواتین کی صحت اور حفاظت پرسب سے زیادہ اثرپڑتاہے ، حکومت ہند نے ‘‘سووچھ بھارت مشن ’’ کاآغاز کیاہے ۔ اس پہل قدمی کے تحت ، 11کروڑ60لاکھ سے زیادہ انفرادی کنبوں کے لئے بیت الخلاء تعمیر کئے گئے ہیں ۔ اسی طرح ، پردھان منتری جن دھن یوجنا ، پردھان منتری مُدرا یوجنا ، اسٹینڈ اپ انڈیا ، اسٹارٹ اپ انڈیا ، اسکل انڈیا ، ڈجیٹل انڈیا اسکیمیں ، خواتین کی مالی اورڈجیٹل شمولیت اوراقتصادی لحاظ سے بااختیاربنانے کو فروغ دے رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ خواتین کو سماجی ، تعلیمی ، اقتصادی ، معاشی ا ورسیاسی لحاظ سے بااختیاربنانے کی غرض سے ، مختلف مرکزی وزارتیں /محکمے دیگربہت سی اسکیموں کا نفاذ کررہے ہیں ۔
2011کی بھارت کی مردم شماری کے مطابق ، بھارت دوکروڑ 68لاکھ افراد ذیابیطس سے متاثرتھے ، جو آبادی کے 2.21پرمشتمل ہے اوران میں سے لگ بھگ ایک کروڑ 18لاکھ خواتین ہیں ۔ معذوری سے متاثرہ افراد کے لئے قومی پالیسی ۔2006کے تحت ، معذوری سے متاثرہ خواتین کی ضروریات پرخصوصی توجہ مرکوز کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ معذوری سے متاثرہ ماؤں کی اضافہ معاونت کا اعتراف کرتے ہوئے ، اس پالیسی میں ایسی خواتین کومالی امداد فراہم کرنے کی گنجائش ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے خدمات حاصل کرسکیں ۔
2011کی مردم شماری کے مطابق ، بیوہ خواتین کی تعداد 4,32,61,478 ہے ، معلقہ یعنی خاوند سے علیحدہ زندگی گزارنے والی خواتین کی تعداد 2372754ہے جب کہ طلاق شدہ خواتین کی 909573ہے ۔
خواتین اوربچوں کی بہبود کی مرکزی وزیرمحترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں یہ اطلاع فراہم کی ہے ۔
***********
(ش ح ۔ ع م۔ ع آ)
U -3655
(Release ID: 1913262)
Visitor Counter : 111