نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
آئی آئی پی اے میں -دوسرے ڈاکٹر راجندر پرساد میمورئیل لیکچر کے موقع پر نائب صدر جمہوریہ کی تقریر کا متن
Posted On:
29 MAR 2023 6:54PM by PIB Delhi
دوسرا ڈاکٹر راجندر پرساد میموریل لیکچر دینا واقعی ایک اعزاز کی بات ہے، ایک لحاظ سے یہ ایک خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے جیسا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ملک کے اولین صدر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ وابستہ اور اہم بات یہ ہے کہ وہ دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین تھے۔ اس حیثیت سے، ڈاکٹر صاحب نے اعلیٰ ترین معیارات مرتب کیے ہیں جو سب کے لیے مثالی ہیں۔
دوستو، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دستور ساز اسمبلی کا اجلاس تین سال تک جاری رہا اور ان تین برسوں کے دوران دنیا نے کچھ اعلیٰ معیاری غور و فکر، بحث و مباحثے کا مشاہدہ کیا۔ ایک چیز جو اس ادارے سے غائب تھی وہ رکاوٹ اور خلل تھی۔ جو چیز وہاں نہیں دیکھی گئی، وہ تھی - تصادم۔
قومی شہرت یافتہ اس ادارے کے صدر کے طور پر، میں تسلیم کرتا ہوں اور اس کی تعریف کرتا ہوں کہ آئی آئی پی اے انتظامیہ اور اسکالرشپ کو ایک ساتھ لاتا ہے۔ اس امرت کال میں، جب ملک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہے، ہمیں انتظامی نظام کی مدد کے لیے علمی دور اندیشی کی ضرورت ہے۔ ستمبر 2022 میں ہندوستان کو کرہ ارض کی 5 ویں سب سے بڑی معیشت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ اس وجہ سے بھی ایک اہم سنگ میل تھا کہ اس عمل میں ہم نے اپنے سابقہ نوآبادیاتی حکمرانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
حالیہ برسوں میں، شہری انتظامیہ کی صورت تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ سماجی طور پر مزید مبنی بر شمولیت بنی ہے۔
پچھلے 8-9 برسوں میں اقتدار کے گلیاروں میں ایک بہت ہی اہم تبدیلی آئی ہے، اسے اقتدار کے بچولیوں سے پاک کیا گیا ہے، اسے ایسے لوگوں سے پاک کیا گیا ہے جو اضافی قانونی طریقوں سے حکمرانی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جو ہماری حکمرانی میں مؤثر طور پر نظر آرہی ہے۔
دور دراز دیہاتوں سے، نادار کنبوں سے، پسماندہ طبقات کے باصلاحیت نوجوان سول سروسز میں شامل ہو رہے ہیں۔ مجھے زیر تربیت افراد کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے اور میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میں خود ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ تعلیم کا مطلب کیا ہے اور اسے حاصل کرنا کتنا مشکل ہے، جب میں نے ان زیر تربیت نوجوانوں کی پروفائل دیکھی۔۔۔۔یہ مشاہدہ ایک زمینی حقیقت ہے۔
ان نوجوانوں نے اس مثبت کردار کو قریب سے دیکھا ہے جو عوامی انتظامیہ غربت کے خاتمے اور اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے امکانات کو بہتر بنانے میں ادا کرتی ہے۔ میں اپنے نوجوان دوستوں کو بتا سکتا ہوں کہ ایک بڑی تبدیلی جو رونما ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ اب ہمارے پاس ایک ماحولیاتی نظام کا ارتقاء ہے۔ جس کا سہرا مثبت سرکاری پالیسیوں کے سر جاتا ہے۔ وہ دن قصہ پارینہ بن چکے ہیں جب ایک نوجوان مالی امداد کی کمی یا حکومتی پالیسی کے راستے میں آنے کی وجہ سے خیال کو حقیقت میں تبدیل نہیں کر پاتا تھا۔
یہ دیکھنا بھی خوشی کی بات ہے کہ زیادہ سے زیادہ باصلاحیت نوجوان لڑکیاں سول سروسز میں شامل ہو رہی ہیں، جو عوامی انتظامیہ کی چنوتیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ صرف سول سروس تک محدود نہیں ہے، اس صنف کی موجودگی دفاع سمیت زندگی کے تمام تر شعبوں میں دیکھی جا رہی ہے اور ان کی کارکردگی سے میری صنف کو رشک ہوتا جا رہا ہے۔
آج، بھارت اس عروج کا مشاہدہ کر رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اسے افزوں امنگوں اور اختراعات سے ترغیب حاصل ہوتی ہے اور اس کی تصدیق ہمارے شہریوں کی حصولیابیوں سے ہوتی ہے۔
دوستو، کچھ چیزیں خاموشی کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، اسمارٹ شہروں کا تصور، آپ اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں۔
ان اضلاع کی شناخت، وہاں رہنے والے لوگوں کے لیے ایک چیلنج تھا، اور جیسا کہ وزیر اعظم نے ایک مرتبہ کہا تھا، کوئی بھی اس ضلع کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نہیں بننا چاہتا تھا۔ اب، وہ وہاں جانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اب کچھ کرنے کے لیے پرجوش ہیں، اور چیزیں بدل رہی ہیں۔
اسے عالمی نقطہ نظر سے دیکھیں۔ ہم مواقع، اختراعات اور سرمایہ کاری کی پسندیدہ عالمی منزل ہیں۔ ہمارے 90000اختراعی اسٹارٹ اپ ادارے اس حیران کن غیر معمولی کامیابی میں شراکت دار ہیں۔
اس منظر نامے میں عوام کی توقعات بڑھنے والی ہیں اور انہیں ضرور بڑھنا چاہیے۔ جیسا کہ شہریوں کی توقعات اور تقاضے ترقی کے حصول کے اصولوں کی بنیاد پر تیار اور تبدیل ہوتے ہیں، یہ بات خوش آئند ہے کہ خدمات کی فراہمی کی کارکردگی اور اطمینان کی سطح بھی ٹھوس نتائج ظاہر کر رہی ہے۔
ذرا چند سال پہلے کی باتوں پر غور کریں، ادائیگیوں کے لیے لمبی قطاریں لگتی تھیں۔ اب ہمیں وہ سب نظر نہیں آتا۔ عالمی سطح پر، ہم ایک ایسا ملک ہیں جس نے نہ صرف شہریوں کو بلکہ ایک کمزور طبقے کو بھی، خواہ وہ کاشتکار ہوں یا آنگن واڑی میں کام کرنے والی خواتین ، سبھی کو بے مثال براہ راست منتقلی کے فوائد بہم پہنچائے اور یہ ایک بڑی کامیابی اور بڑی راحت ہے۔
آج، نیو انڈیا کا اصول ہے ’کم سے کم حکومت، زیادہ سے زیادہ حکمرانی‘۔ حکومت ’’زندگی بسر کرنا آسان بنانے‘‘ کے بڑے مقصد کے ساتھ ’’کاروبار کرنا آسان ‘‘ بنانے میں بھی سہولت فراہم کر رہی ہے۔
میں نے خود دیکھا ہے۔ ریاست مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے، میں کاروبار کرنے میں آسانی کے موضوع پر 10 گورنروں کے ایک گروپ کی سربراہی کر رہا تھا اور ہم نے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر پر مبنی اجلاسات میں حصہ لیا اور یہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو رہا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر، خاموش پیش رفت ہو رہی ہیں جو ہم پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں اور جو ہماری کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔
اگلے 25 برس ملک کے لیے بہت اہم ہونے والے ہیں، خاص طور پر گذشتہ 9 برسوں کی وجہ سے۔ گذشتہ 9 برسوں میں، ہم نے ایک بنیاد رکھی ہے، مثبت اقدامات کا ایک سلسلہ، وہ اس لیے کہ 2047 میں جب ملک آزادی کا صد سالہ جشن منائے گا، تو اس وقت ہمیں پہلے نمبر پر ہونا ہے اور اس وقت میرے نوجوان دوست اور 2047 کے سورما موجود ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے کچھ اس وقت موجود نہ ہوں لیکن ہم سب کو اس قسم کے ماحولیاتی نظام کے بارے میں بہت اعتماد ہے جو تیار ہوا ہے اور جس طرح کا استحکام آیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر ہوگا۔
حکمرانی ایک متحرک تصور ہے اور عوامی انتظامیہ کو بدلتی ہوئی توقعات اور شہریوں کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔
آنے والے برسوں میں، ایک آتم نربھر معیشت کے تقاضوں کو پورا کرنے ، سہولت فراہم کرنے، ایک نئی کاروباری ثقافت اور اختراعی اسٹارٹ اپس کو تعاون فراہم کرنے کے لیے ڈجیٹل پلیٹ فارموں، مصنوعی ذہانت، بگ ڈاٹا سائنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز جیسی ابھرتی ہوئی تکنالوجیاں عوامی انتظامیہ کا ایک لازمی حصہ ہوں گی کیونکہ ہم عالمی ویلیو چین کا مرکز بن گئے ہیں ۔
گزشتہ دو برسوں میں، کووِڈ کے دوران، ہم نہ صرف ادویات، آلات اور ویکسین تیار کرنے، ہسپتال قائم کرنے اور آکسیجن پلانٹ لگانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، بلکہ ہم نے وبائی مرض کے پھیلاؤ کی نگرانی کے لیے ڈجیٹل پلیٹ فارم بھی تیار کیے اور شہریوں کو ٹیکہ کاری کے ڈجیٹل سرٹیفکیٹ فراہم کرائے۔
حکومت نے اس امر کو یقینی بنایا کہ صحت کی دیکھ بھال اور سماجی تحفظ ہر شہری کو مساوی، موثر اور فوری طور پر دستیاب کرایا جائے۔ آپ کے پاس مزید میڈیکل کالج، زیادہ ہسپتال، زیادہ تشخیصی مراکز، زیادہ نیم طبی عملہ اور نرسنگ کالج ہوں گے۔ صحت کے شعبے میں زبردست ترقی ملاحظہ کی گئی۔ اور جب وبائی امراض نے ہمیں چیلنج کیا تو یہ واقعی ہمارے لیے سب سے بڑی مدد ثابت ہوئی۔
ہمیں بجا طور پر دنیا کا دواخانہ کہا جاتا ہے۔ میں اس میں ایک صفت کا اضافہ کروں گا۔ ہم دنیا کی سب سے موثر فارمیسی ہیں، جو معیار سے سمجھوتہ کیے بغیر قیمت کے لحاظ سے بہترین خدمات بہم پہنچاتی ہے۔
جب وبائی مرض کووڈ نے ہمیں چنوتی دی، تو ہم اپنی تہذیبی اخلاقیات کو نہیں بھولے۔ ہم نے 100 سے زیادہ ممالک کو اپنی ویکسین دستیاب کرائی اور ان میں سے متعدد ممالک کو دوست کے طور پر تعاون فراہم کیا۔ بہت سے لوگ پریشان تھے کہ کیا ہوگا، خاص طور پر خوراک کی حفاظت کے حوالے سے۔
دوستو، جہاں ایک جانب یہ سب کچھ ہو رہا ہے، میں آپ معزز حاضرین کے ساتھ ایک تشویشناک اور پریشان کن رجحان ساجھا کرنے سے خود کو روک نہیں سکتا ۔ وہ یہ کہ منصوبہ بند طور پر ایک مخالف حلقہ سے ہمیں بدنام کرنے کے لیے بھارت کی اقدار، سالمیت اور اس کے اداروں پر ایک شدید حملہ کیا جا رہا ہے۔
عالمی قوت کے طور پر بھارت کے عروج کے خلاف لڑنے کے لیے ایک ایکو نظام تیار کیا جا رہا ہے۔
ایک قومی ریاست کے طور پر ہندوستان کی قانونی حیثیت اور اس کے آئین پر حملہ کرنا کچھ بیرونی اداروں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
میں اپنے صنعت کاروں کا احترام کرتا ہوں، وہ قوم کی ترقی میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ لیکن بہترین اذہان کو بھی بعض اوقات احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
بھارت کے کچھ ارب پتی اور دانشور، نتائج سے بے خبر، ان اداروں کو مالی امداد فراہم کر کے اس طرح کے خطرناک عزائم کا شکار ہو گئے ہیں۔
اگر وہ باہر جانے کے بجائے ہمارے بہترین آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم اداروں کو مالی تعاون دیں تو ان کے احسانات کا زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ میں ایک فرد کی حیثیت سے پختہ یقین رکھتا ہوں کہ سی ایس آر فنڈ جو بھی ہو، اسے ملک کے اندر استعمال کیا جانا چاہیے۔ میں اعداد و شمار نہیں دینا چاہتا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ ایک ارب پتی نے 200 کروڑ امریکہ کے کسی ادارے کو دیے ہیں یا 2008 میں حکومت ہند نے ہی 20 کروڑ دوسرے ادارے کو دیے، تو ہمیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں کسی سے سرٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ بہترین تعاون ملک کے اندر ہمارے اپنے لوگوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔
میں صنعت اور دانشوران کے مقتدر گروپ سے سوچنے سمجھنے کی پرجوش اپیل کرتا ہوں۔ یہ کوئی الزام نہیں لگایا جا رہا ہے بلکہ محض احتیاط برتنے کے لیے کہا جہا رہا ہے، کیونکہ ان کے ارادے یقینی طور پر ہندوستان کے خلاف نہیں ہیں۔
جمہوریہ ہند کے پہلے صدر راجندر بابو کے دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے ہمارے آئین کی تشکیل کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر، میں ان سے تعلق رکھتا ہوں، انہیں تقریباً ہر روز یاد کرتا ہوں۔ ان کے اندر ضرور کوئی خاص بات تھی کہ انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ متنازعہ مسائل، تفرقہ انگیز مسائل کو غور و فکر، مکالمے، بحث و مباحثے کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ اور کوئی خلل نہیں پیدا نہیں ہوا۔
میں ملک کے سیاسی حلقوں سے اپیل کرتا ہوں۔ لوگوں کی ذہانت کو کمتر نہ سمجھیں۔ وہ سب جانتے ہیں کہ کیا کچھ ہو رہا ہے، وہ بہت سمجھدار ہیں۔
ان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز تشویشناک نہیں ہو سکتی کہ پارلیمنٹ، جسے عوامی خزانے سے بھاری قیمت ادا کرکے تشکیل دیا جاتا ہے اور وہ دن بہ دن کام نہیں کرتی، یہ ازحد تکلیف دہ امر ہے۔ وہ ہمارا احتساب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کس قدر متضاد بات ہے کہ حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے پارلیمنٹ میں نمائندوں کو بھیجا جاتا ہے اور وہ اس وقت ایک مختلف سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسی فرد کے لیے پارلیمنٹ سے بڑی آزادی اظہار رائے نہیں ہو سکتی۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو دیوانی اور فوجداری کارروائی سے استثنائی فراہم کی گئی ہے۔
مجھے یاد ہے، 26 نومبر 1949 کو، دستور ساز اسمبلی سے اپنے اختتامی خطاب میں، ڈاکٹر راجندر پرساد نے ایک تبصرہ کیا، جو مجھے یاد ہے کہ وہ پیشن گوئی ثابت ہوا۔انہوں نے کہا تھا:
’’مشین جیسا آئین ایک بے جان چیز ہے۔ اسے زندگی ان لوگوں کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جو اسے کنٹرول کرتے ہیں اور اسے چلاتے ہیں، اور بھارت کو آج ایماندار لوگوں کے ایک گروپ سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے جو ملک کے مفاد کو ترجیح دیتا ہو۔‘‘
اپنی آزادی کے اس امرت کال میں، ہمیں راجندر بابو کے سنجیدہ مشاہدات کے پس منظر میں ایک دیانت دارانہ جائزہ لینا چاہیے۔
ملک کے تینوں ادارے آئین سے قانونی حیثیت حاصل کرتے ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ تینوں ادارے آئینی مقاصد کے حصول کے لیے باہمی تعاون پر مبنی ہم آہنگی پیدا کریں گے جیسا کہ دستور کے تمہید میں بیان کیا گیا ہے۔
آئینی حکمرانی کا مقصد تینوں اداروں کے درمیان صحت مند تعامل میں متحرک توازن پیدا کرنا ہے۔
دوستو، مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان ہمیشہ مسائل پیدا ہوتے رہیں گے، یہ اسی طرح موجود رہیں گے کیونکہ ہم متحرک دور میں جی رہے ہیں۔ لیکن ان تمام مسائل کا تعین آئین کی روح، آئین کے احساس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک منظم انداز میں کرنا ہوگا، نہ کہ محاذ آرائی کے ذریعے۔
جمہوری سیاست بنیادی طور پر منتخب مقننہ کو قانون سازی کے اختیارات دیتی ہے جو لوگوں کی توقعات اور امنگوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مجھے کبھی شک نہیں ہوا، نہ راجیہ سبھا اور نہ ہی لوک سبھا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کا انکار کر سکتے ہیں، یہ پارلیمنٹ کا کام نہیں ہے، اس کا تعلق خصوصی طور پر عدلیہ سے ہے۔ اسی طرح، ایگزیکٹو اور مقننہ کے کچھ مخصوص امور ہیں۔ ان اداروں کو اپنے متعلقہ شعبوں میں سختی سے عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
عوام کی رائے کی بالادستی، عوام کی مرضی کو غالب ہونا ہے، جس کی عکاسی ان کے نمائندوں کے ذریعے ایک جائز پلیٹ فارم پر ہوتی ہے، اور میرے نزدیک یہ ناقابلِ تسخیر ہے۔
قانون سازی پارلیمنٹ کا خصوصی استحقاق ہے اور کسی دیگر ادارے کے ذریعہ اس کا تجزیہ، جائزہ لینے یا مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ مقننہ کے ارادے کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش ایسی صورت حال کے مترادف ہوگی جو صحت مند نہیں ہوگی اور نازک توازن کو بگاڑ دے گی۔
میں نے تعمیری مکالمے کا اشارہ دیا تھا، لیکن اب چونکہ ہم نے عوامی سطح پر دیکھا ہے کہ ان اداروں کے سربراہان کی جانب سے بھی کچھ مظاہر نکل رہے ہیں۔ میں اپیل کروں گا کہ ایک سنجیدہ سوچ ایک مخصوص میکانزم کے ارتقاء پر مبنی ہونی چاہیے۔ تاکہ اداروں کے سربراہان وقتاً فوقتاً اپنے فکری عمل کا تبادلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں اور اس سے دوستی پیدا ہو، جو ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔
میں مثال کے طور پر نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کا حوالہ دوں گا۔ پارلیمنٹ میں اتفاق رائے تھا، لوک سبھا نے بغیر کسی غیر حاضری کے اس کے حق میں ووٹ دیا، اسی طرح راجیہ سبھا میں ایک غیر حاضری کے ساتھ اس کے حق میں ووٹ دیا۔ جیسا کہ آئینی ضرورت ہے، 16 ریاستی مقننہ نے اس کی توثیق کی ہے۔ ملک کے معزز صدر نے آئین کے آرٹیکل 111 کے تحت اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس پر دستخط کیے اور اس نے آئینی شکل اختیار کر لی۔ میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر حیران ہوں کہ اسے کیا ہوا، کوئی بھی ہماری طرف نہیں لوٹا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جیسے ادارے، ملک کے دانشور، اپنی توجہ اس جانب مرکوز کریں گے۔
کسی بھی بنیادی ڈھانچے کی بنیاد قانون سازی میں پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہیے۔۔۔ جس کا مطلب ہے عوام کی بالادستی۔
ججوں کے انتخاب میں چیف جسٹس آف انڈیا کے اتفاق رائے سے متعلق، جب ہمیں یہ آئین ایک ایسی نامور دستور ساز اسمبلی نے دیا تھا جس کی صدارت ڈاکٹر راجندر بابو نے کی تھی تو آئینی نسخہ مشاورت تھا۔ عدالتی حکم سے یہ مشاورت اتفاق رائے بن گئی۔ ہمارے آئین کی دفعہ 370 ایک ایسی دفعہ ہے جس میں مشاورت اور اتفاق رائے دونوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آئین بنانے والے زندہ تھے، قطع نظر اس کے کہ ان الفاظ کے لغت کے معنی کچھ بھی ہوں، کہ مشاورت اور اتفاق رائے میں بنیادی فرق ہے۔ عدلیہ کا موقف تھا کہ مشاورت اتفاق رائے ہو گی۔اسی سلسلے میں، مجھے یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے 24 مئی 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں اس تجویز کی سخت مخالفت کی تھی:
’’چیف جسٹس کی رضامندی کے سوال کے حوالے سے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ اس تجویز کی وکالت کرتے ہیں وہ چیف جسٹس کی غیر جانبداری اور ان کے فیصلے کی درستگی دونوں پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس بہت ہی باوقار انسان ہیں (۔۔۔اور ہمارے پاس اس وقت ایک ایسا انسان موجود ہے۔ بے عیب ، قومی اور عالمی سطح پر ایک عظیم عالم)۔ لیکن اس سب کے باوجود چیف جسٹس بھی ایک انسان ہے، جو عام لوگوں کی طرح ناکام ہو سکتا ہے، جذبات اور تعصب سے مغلوب ہو سکتا ہے؛ اور میں سمجھتا ہوں کہ ججوں کی تقرری پر چیف جسٹس کو عملی طور پر ویٹو کی اجازت دینا دراصل چیف جسٹس کو اختیار منتقل کرنا ہے جسے ہم صدر یا موجودہ حکومت ویٹو کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک خطرناک تجویز ہے۔‘‘
دوستو، ہمارے ملک میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے میں کچھ لوگ شریک نہیں ہیں۔ جو ہماری معیشت اور ترقی کی رفتار کو بڑھانے کی خوشی میں شریک نہیں ہیں، اور اس لیے وہ رخنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ کام سوشل میڈیا کا استعمال کرکے، مضامین لکھ کر اور ملک میں اور زیادہ تر ملک سے باہر سیمینار کر کے انجام ہیں، بشمول ان اداروں میں جن کی مالی مدد ہمارے ارب پتیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اور صورتحال کے پیش نظر، میں درخواست کروں گا، ہمیں انتہائی چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ، اگر ہم بروقت کارروائی نہیں کرتے اور خاموشی اختیار کرتے ہیں،تو خاموش اکثریت بھی خاموش کر دی جائے گی اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
ایک اور پہلو جس پر میں دانشوروں اور بڑے پیمانے پر لوگوں سے زور دینے کی اپیل کروں گا، وہ ہے سیاسی ماحولیاتی نظام - ہمیں تمام معاملات کو سیاسی عصبیت سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے عدالتی فیصلوں کو سیاسی یا جانبداری پر مبنی موقف کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا۔
یہ ضروری ہے کہ مقننہ کے اراکین اپنی قانون سازی کی ذمہ داریوں اور پارٹی کی مجبوریوں میں فرق کریں۔ سیاسی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر طویل رکاوٹوں اور خلفشار کو سراہا نہیں جا سکتا۔ کوئی ایسی چیز جو جمہوریت کی روح کے خلاف ہو، جو ہماری جمہوری اقدار کو کمزور کرتی ہو، سیاسی حکمت عملی کیسے ہو سکتی ہے۔
ہمارے قانون ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ قیادت فراہم کریں، عوامی پالیسی کے لیے نظریاتی شکلیں مرتب کریں اور معاشرے کی وسیع تر فلاح کے لیے عوامی انتظامیہ کی رہنمائی کریں۔
اور میں احتیاط اور فکرمندی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر جمہوریت کے یہ مندر – وہ ادارے جہاں بحث و مباحثہ اہمیت کے حامل ہیں، اگر وہ خلل اور رخنہ اندازیوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے، تو اس خلاء کو پر کرنے کے لیے آس پاس لوگ موجود ہوں گے، اور یہ کسی بھی حکومت میں یا جمہوریت کے لیے ایک خطرناک رجحان ہو گا۔ ہم جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں ان کو ان اداروں میں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو کوئی اور یہ کام کرے گا، اور یہ آئین کی روح کے مطابق نہیں ہوگا اور ہم غیر ضروری طور پر اپنے آنجہانی بانیوں پر دباؤ ڈال رہے ہوں گے۔
ڈاکٹر راجندر پرساد نے، ان سے پہلے ملک میں دلچسپی رکھنے والے ایماندار لوگوں کے ایک گروپ کی توقع کی تھی، جو بھارت کو چلائیں گے۔ اس امرت کال میں، میری خواہش ہے کہ ہم راجندر بابو کی اعلیٰ خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس‘ کے جذبے سے رونما ہونے والی زیادہ جامع ترقی سے حکمرانی کے انسانی چہرے کی عکاسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آپ کی کوششوں کے لیے نیک ترین خواہشات پیش کرتا ہوں۔
جے ہند
**********
(ش ح –ا ب ن۔ م ف)
U.No:3507
(Release ID: 1912080)
Visitor Counter : 407