وزارتِ تعلیم
نئےہندوستان کا خواندگی پروگرام
Posted On:
12 DEC 2022 4:23PM by PIB Delhi
تعلیم کی وزیر مملکت محترمہ انپورنا دیوی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایاکہ حکومت نے23-2022 سے27-2026 تک پانچ برسوں کے دوران نفاذ کے لیے ایک مرکز کی اعانت یافتہ اسکیم یعنی نیو انڈیا لٹریسی پروگرام (این آئی ایل پی) کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد پانچ برسوں کے دوران بنیادی خواندگی اور عددی عنصر کے تحت 5.00 کروڑ سیکھنے والوں کے ہدف کا احاطہ کرنا ہے۔ پروگرام کے پانچ مقاصد ہیں: (i) بنیادی خواندگی اور عددی، (ii) زندگی سے متعلق اہم مہارتیں، (iii) پیشہ ورانہ مہارتوں کی ترقی، (iv) بنیادی تعلیم اور (v) مسلسل تعلیم۔
اس وقت این آئی ایل پی کو نافذ کرتے ہوئے حکومت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج سرکاری مالیاتی بندوبست کانظام (پی ایف ایم ایس ) کے ساتھ تمام ریاستوں میں سنگل نوڈل ایجنسیوں (ایس این ایز) اور منصوبوں کے نفاذ کی ایجنسیوں (آئی ایز) کے تمام بینک کھاتوں کو کھولنا اور نقشہ تیار کرنا ہے۔ وزارت خزانہ کے نظرثانی شدہ طریقہ کار کے رہنما خطوط کے مطابق فنڈز کے اجراء کے لیے یہ پہلی شرط ہے۔ چیلنج موجود ہے کیونکہ یہ نفاذ کا پہلا سال ہے۔
این آئی ایل پی کا پانچ سالوں (مالی سال 23-2022 سے27-2026 تک) کا کل مالی خرچ 1037.90 کروڑ روپے ہے، جس میں سے 700 کروڑ روپے مرکزی حصہ اور 337.90 کروڑ روپے ریاستی حصہ ہیں۔ شمال مشرقی خطہ (این ا ی آر) اور ہمالیائی ریاستوں کے علاوہ تمام ریاستوں کے لیے مرکزی اور ریاستی حصص 60:40 کے تناسب میں ہیں جہاں مرکز اور ریاست کے درمیان اشتراک کا پیٹرن 90:10 کے تناسب میں ہے۔ لیجسلیچر والے مرکزکے زیرانتظام خطوں کے لیے تناسب 60:40 ہے، سوائے جموں اور کشمیر کے مرکز ی خطہ میں جہاں یہ تناسب 90:10 ہے، اور قانو ن ساز کے بغیر دیگر تمام مرکز کے زیرانتظام خطوں کے لیے مرکزی حصہ 100فیصد ہے۔ فنڈ کی ادائیگی پی ایف ایم ایس اور ریاستی خزانے سے ہوتا ہے۔
حکومت کی طرف سے ملک میں اس پروگرام کے موثر نفاذ اور انڈمان اور نکوبار جزائر سمیت پروگرام میں شامل ہونے کے لیے صارفین کی حوصلہ افزائی کی خاطرمختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
پہلا قدم استفادہ کنندگان اور رضاکار اساتذہ کی شناخت کرنا ہے۔ استفادہ کنندگان اور رضاکار اساتذہ (وی ٹیز) کا سروے ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ اسکولوں کو بنیاد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ رضاکار اساتذہ کو آن لائن طریقے سے سیکھنے کے ماڈیولز کو انجام دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ مختلف ورکشاپس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ قومی سطح پر، یہ مواد نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کے سیل فار نیشنل سینٹر فار لٹریسی (سی این سی ایل) کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ تدریس اور آموزش کا مواد دکشا پورٹل پر دستیاب ہے جسے این سی ای آر ٹی نے تیار کیا ہے ، نمونے کی تشخیص کے ماڈیول بھی دکشا پر دستیاب کرائے گئے ہیں۔
تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مورخہ 11 مارچ 2022 کو مواصلت کے ذریعے حساس بنایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پرنٹ/ الیکٹرانک/ عوامی میڈیا اور رابطہ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی شمولیت اور استعمال کے ذریعے ماحول سازی کی سرگرمیوں کے انعقاد کے پروگرام کے نفاذ کے لیے ایک روڈ میپ کے ساتھ حساس بنایا گیا ہے تاکہ تمام دیہی علاقوں سمیت ملک بھر میں پرسائی حاصل ہو اور ایسا ماحول تیار کیا جاسکے جس سے خواندگی کے ممکنہ رضاکاروں اور سیکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے اور مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، کمیونٹی لیڈروں، پی آر آئی کے عہدیداروں، خواتین کامنڈل ، سول سوسائٹی ،تنظیموں اور تعلیمی اداروں کی سرگرم شرکت کو یقینی بنایا جاسکے اور متعدد حکمت عملیوں کو بھی اپنایا جا سکے۔
جیسا کہ این آئی ایل پی کا آغاز رواں مالی سال23-2022 سے ہوا ہے، اس لیے گزشتہ تین برسوں کے دوران مذکورہ پروگرام کے لیے مختص/استعمال کیے گئے فنڈز لاگو نہیں ہیں۔ تاہم، موجودہ سال(23-2022) کے دوران این آئی ایل پی کے لیے ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مختص کیے گئے فنڈز کی تفصیلات ضمیمہ - I میں دی گئی ہیں۔
ضمیمہ -1
شری سنیل دتاترے ٹٹکرے، ڈاکٹر امول رام سنگھ کولہے، محترم سپریہ سولے، ڈاکٹرسبھاش رام راؤ بھامرے، جناب کلدیپ رائے شرما سمیت دیگراراکین پا رلیمنٹ کے ذریعہ ’’ نئے ہندوستان کی خواندگی پروگرام ‘‘ کے حوالے سے 12 دسمبر 2022 کو پوچھے گئےبغیراسٹار والے سوال نمبر 712 کےجوابی بیان کا حصہ نمبر (ایف) میں حوالہ دیا گیا ہے ۔
رواں سال 23-2022 میں نئے ہندوستان کی خواندگی پروگرام کےلئے ریاستوں / مرکز کے زیرانتظام علاقو ں کو فنڈ مختص کیا گیا ہے ۔
نمبرشمار
|
ریاست /مرکز کے زیر انتظام علاقے کانام
|
(رقم روپئے میں)
|
مجموعی
|
مرکزی حصہ
|
ریاستی حصہ
|
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
1
|
انڈمان ونکوبارجزائر
|
52,72,423
|
52,72,423
|
0
|
2
|
آندھراپردیش
|
8,54,47,700
|
5,12,68,620
|
3,41,79,080
|
3
|
اروناچل پردیش
|
95,87,188
|
86,28,469
|
9,58,719
|
4
|
آسام
|
13,64,31,360
|
12,27,88,224
|
1,36,43,136
|
5
|
بہار
|
18,95,97,200
|
11,37,58,320
|
7,58,38,880
|
6
|
چنڈی گڑھ
|
82,18,366
|
82,18,366
|
0
|
7
|
چھتیس گڑھ
|
3,98,20,300
|
2,38,92,180
|
1,59,28,120
|
8
|
دادر ونگرحویلی دمن اینڈ دیو
|
69,09,058
|
69,09,058
|
0
|
9
|
گوا
|
45,08,660
|
27,05,196
|
18,03,464
|
10
|
گجرات
|
8,44,55,800
|
5,06,73,480
|
3,37,82,320
|
11
|
ہریانہ
|
3,78,36,500
|
2,27,01,900
|
1,51,34,600
|
12
|
ہماچل پردیش
|
2,07,75,820
|
1,86,98,238
|
20,77,582
|
13
|
جموں و کشمیر
|
4,97,39,300
|
4,47,65,370
|
49,73,930
|
14
|
جھارکھنڈ
|
5,96,58,300
|
3,57,94,980
|
2,38,63,320
|
15
|
کرناٹک
|
9,87,39,160
|
5,92,43,496
|
3,94,95,664
|
16
|
کیرالہ
|
1,99,82,300
|
1,19,89,380
|
79,92,920
|
17
|
لداخ
|
1,50,22,800
|
1,50,22,800
|
0
|
18
|
لکشدیپ
|
33,18,380
|
33,18,380
|
0
|
19
|
مدھیہ پردیش
|
10,92,53,300
|
6,55,51,980
|
4,37,01,320
|
20
|
مہاراشٹر
|
12,61,15,600
|
7,56,69,360
|
5,04,46,240
|
21
|
منی پور
|
1,22,05,804
|
1,09,85,224
|
12,20,580
|
22
|
میگھالیہ
|
1,32,37,380
|
1,19,13,642
|
13,23,738
|
23
|
میزورم
|
43,69,794
|
39,32,815
|
4,36,979
|
24
|
ناگالینڈ
|
1,21,46,290
|
1,09,31,661
|
12,14,629
|
25
|
خطہ قومی راجدھانی دہلی
|
1,62,13,080
|
97,27,848
|
64,85,232
|
26
|
اڈیشہ
|
7,15,61,100
|
4,29,36,660
|
2,86,24,440
|
27
|
پڈوچیری
|
41,11,900
|
24,67,140
|
16,44,760
|
28
|
پنجاب
|
4,27,96,000
|
2,56,77,600
|
1,71,18,400
|
29
|
راجستھان
|
11,22,29,000
|
6,73,37,400
|
4,48,91,600
|
30
|
سکم
|
55,99,750
|
50,39,775
|
5,59,975
|
31
|
تملناڈو
|
9,83,42,400
|
5,90,05,440
|
3,93,36,960
|
32
|
تلنگانہ
|
8,54,47,700
|
5,12,68,620
|
3,41,79,080
|
33
|
تریپورہ
|
1,60,14,700
|
1,44,13,230
|
16,01,470
|
34
|
اترپردیش
|
34,03,66,000
|
20,42,19,600
|
13,61,46,400
|
35
|
اتراکھنڈ
|
3,00,99,680
|
2,70,89,712
|
30,09,968
|
36
|
مغربی بنگال
|
11,42,12,800
|
6,85,27,680
|
4,56,85,120
|
|
مجموعی
|
208,96,42,893
|
136,23,44,266
|
72,72,98,627
|
**********
ش ح۔ ع ح۔ ف ر
U. No.13723
(Release ID: 1882999)
|