سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
ڈی ایس آئی آر، سی ایس آئی آر، یو این- ای ایس سی اے پی کے اے پی سی ٹی ٹی نے مشترکہ طور پر سی ایس آئی آر سائنس سینٹر، نئی دہلی میں ‘‘ٹیکنالوجیز کی بین الاقوامی منتقلی میں سرحد پار اختراع،تیز رفتاری اور چیلنجز’’ پر دو روزہ بین الاقوامی نالج شیئرنگ ورکشاپ کا انعقاد کیا
Posted On:
16 NOV 2022 3:04PM by PIB Delhi
‘‘ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی منتقلی میں سرحد پار جدت، سرعت اور چیلنجز’’ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی نالج شیئرنگ ورکشاپ کا انعقاد مشترکہ طور پر محکمہ سائنس اور صنعتی تحقیق(ڈی ایس آئی آر) ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت، حکومت ہند، کونسل آف سائنٹفک اینڈ صنعتی تحقیق (سی ایس آئی آر) نے ، 14 سے 15 نومبر 2022 تک اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل(یو این- ای ایس سی اے پی) کے ایشین اینڈ پیسیفک سینٹر فار ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی(اے پی سی ٹی ٹی) کے تعاون سے اور سی ایس آئی آر- ہیومین ریسورس ڈیولپمنٹ سینٹر(سی ایس آئی آر- ایچ آر ڈی سی) کے تعاون سے ہائبرڈ موڈ میں سی ایس آئی آر سائنس سینٹر، نئی دہلی میں کیا تھا۔ پروگرام کے لیے رجسٹرڈ ہونے والے تقریباً 350 شرکاء میں سے 36 بین الاقوامی شرکاء 17 ممالک بشمول بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ایران (اسلامی جمہوریہ)، انڈونیشیا، اردن، لبنان، ملائیشیا، نیپال، پاکستان، فلپائن، جمہوریہ کوریا،سری لنکا، تھائی لینڈ کے تھے۔ ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو، ازبکستان جو آن لائن اور آف لائن دونوں طریقے سے شامل ہوئے۔تقریباً 70 شرکاء نے بذات خود پروگرام میں شرکت کی۔
پینلسٹ بین الاقوامی تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے جن میں ایف اے کیو، آئی ایل آر آئی، آئی ایس اے، ڈی ڈبلیو آئی ایچ، یو کے آر آئی، آر آئی ایس ; ہندوستانی قومی تنظیمیں جیسے سی ایس آئی آر- این بی آر آئی، آئی آئی ٹی ڈی، ایس پی ایم وی وی ، سی ایس آئی آر- این سی ایل، وینچر سینٹر، سرکاری محکمے بشمول آفس آف پی ایس اے، ایم او ای اختراعی سیل، این آر ڈی سی جیسے عوامی شعبے، بہترین صنعتیں جیسے کہ بین الاقوامی ٹریکٹر، آئی او سی ایل، ٹاٹا پاور کمپنی لمٹیڈ، انکورسیسڈس اور مائیکو پرائیویٹ لمٹیڈ؛ انوویشن ایکو سسٹم پارٹنر جیسے ریسرچ پارکس، انکیوبیشن سینٹرز، اسٹارٹ اپس، رکن ممالک کے معززین اور قومی تنظیموں جیسے این آئی ٹی ، اروناچل پردیش، پی آر آئی ایس ایم- ٹی او سی آئی سی ایس جیسے جی ایس بی ٹی ایم، سی ایس آئی آر- این ای آئی ایس ٹی، سی ایس آئی آر- سی ایس آئی او، سی ٹی اے ای اودے پور، سی ایس آئی آر این اے ایل کے شرکاء۔ اگنو، شیو نادر یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، آئی آئی ٹی ڈی، آئی آئی ٹی منڈی، آئی آئی ٹی روڑکی، آئی آئی ٹی اندور، کئی انکیوبیشن مراکز ، ڈی ایس آئی آر، سی ایس آئی آر ہیڈکوارٹر، سی ایس آئی آر-آئی آئی پی، سی ایس آئی آر- این آئی ایس سی پی آر، این آر ڈی سی اور اے پی سی ٹی ٹی شامل ہیں۔
ورکشاپ کا افتتاح آن لائن ڈاکٹر این کلیسیلوی، سکریٹری، شعبہ سائنسی اور صنعتی تحقیق(ڈی ایس آئی آر) اور ڈائریکٹر جنرل، کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ(سی ایس آئی آر) نے کیا۔ افتتاحی خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے ٹیکنالوجی کی منتقلی، سرحد پار جدت طرازی اور ٹیکنالوجیز کو ترقی دینے اور انہیں صنعت میں منتقل کرنے میں سی ایس آئی آر کی مشترکہ کوششوں کی اہمیت کےبارے میں تاکید کے ساتھ بتایا۔ انہوں نے شرکاء کو مشورہ دیا کہ وہ ایسی ٹیکنالوجیز تیار کریں جو ہر حال میں معاشرے تک پہنچ سکیں۔ اس سمت میں انہوں نے ورکشاپ کی تعریف کی جہاں اختراع کاروں، صنعتوں، تحقیق اور ترقی کی لیبارٹیز، اکیڈمیوں، ایم ایس ایم ای، اسٹارٹ اپ، بڑی صنعتوں، انکیوبیشن سینٹرز، پالیسی سازوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لایا گیا ہے تاکہ ایس ڈی جی2 ، ایس ڈی جی 7 اور ایس ڈی جی 9کے تحت اہداف کے حصول کے لیے روڈ میپ کے بارے میں بات چیت کی جا سکے۔
ڈاکٹر پرویندر مینی، سائنسی سکریٹری، خصوصی سائنسی مشیر کے دفتر، حکومت ہند؛ سریندر پال سنگھ، جوائنٹ سکریٹری، ڈی ایس آئی آر ، ڈاکٹر۔ اجے ماتھر، ڈائریکٹر جنرل، انٹرنیشنل سولر الائنس، ڈاکٹرکتجا لیچ ، ڈائریکٹر، ڈی اے اے ڈی علاقائی دفتر اور ڈی ڈبلیو آئی ایچ ، نئی دہلی؛ MS محترمہ ریبکا فیئربائرن. سائنس اور اختراع یوکے ریسرچ اور انوویشن( یو کے آر آئی)، حکومت برطانیہ کی سربراہ,; ڈاکٹر حبیب الرحمان، انٹرنیشنل لائیو اسٹاک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(آئ ایل آر آئی) کے علاقائی نمائندہ، جنوبی ایشیا؛ پروفیسر جمنا دوورو، وائس چانسلر، سری پدماوتی مہیلا یونیورسٹی، تروپتی، ڈاکٹر بھاسکر بالاکرشنن، بھارت کے سابق سفیر اور سائنس ڈپلومیسی فیلو، ریسرچ اینڈ انفارمیشن سسٹم فار ڈویلپنگ کنٹریز(آر آئی ایس) ، نئی دہلی، ڈاکٹر پریتی سونی،اے پی سی ٹی ٹی- ای ایس سی اے پی کی سربراہ، ڈاکٹر راما سوامی بنسل، سی ایس آئی آر- بین الاقوامی سائنس اور ٹیکنا لوجی افیئر ڈائریکٹوریٹ(آئی ایس ٹی اے ڈی) کے سربراہ اور سی ایس آئی آر- ایچ آر ڈی سی کے سربراہ ڈاکٹر آر کے سنہا نے بھی اس موقع پر ذاتی طور پر شرکت کی۔
ڈاکٹر پرویندر مینی نے اس بات پر روشنی ڈالی کے ، ‘‘خطرناک اور ممکنہ طور پرناکامی کا شکار ہونے کے باوجود بقا، مسابقت اور مارکیٹ کی طاقت کو بڑھانے کے لیے اختراع ضروری ہے’’۔ انہوں نے ہندوستان کی پالیسی اور خاص توجہ والے چند شعبہ جات کا ایک بھرپور جائزہ پیش کیا یعنی صنعتی برادری کی طرف سے آر اینڈ ڈی کے اخراجات میں اضافہ ہونا چاہئے، تحقیق اور ترقی میں( آر اینڈ ڈی) براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری(ایف ڈی) میں اضافہ؛ تحقیق اور ترقی کی برآمدات میں اضافہ ، مرکزی عوامی شعبے کی صنعتوں کے ذریعہ تحقیق و ترقی’ آر اینڈ ڈی میں اخراجات کے لیے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے رہنما خطوط، جن کا مقصد ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو فروغ دینا ہے۔
سریندر پال سنگھ، جوائنٹ سکریٹری، ڈی ایس آئی آر نے بتایا، یہ ورکشاپ ہندوستان سمیت اے پی سی ٹی ٹی کے رکن ممالک کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرے گی تاکہ وہ اپنی ضروریات کو ایک دوسرے کے ساتھ ساجھا کر سکیں اور سرحد پار جدت کے مواقع، بین الاقوامی تعاون میں تیزی لانے کے امکانات اور ٹیکنالوجیز کی بین الاقوامی منتقلی میں چیلنجز کی نشاندہی کریں۔
ڈاکٹر کتجا لیچ ، محترمہ ربیکا فیئر بیرن اور ڈاکٹر حبیب الرحمن نے سرحد پار جدت طرازی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے مزید نتیجہ خیز تعاون کی خواہش کااظہار کیا ۔پروفیسر جمنا دوورو نے حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں مزید جدت طرازی اور کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ایک مؤثر قدم ہے۔
اس بین الاقوامی ورکشاپ کا مقصد اختراع کاروں کی صلاحیت کو مضبوط کرنے اور تجربہ اور اچھے طریقوں سے ایک دوسرے کے علوم سے واقفیت کاحصول، سرحد پار ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے ممکنہ تعاون کے مواقع اور حکمت عملیوں کی نشاندہی کے ذریعے ہندوستان اور اے پی سی ٹی ٹی کے رکن ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کو فروغ دینا تھا۔ اس نے ایشیا بحرالکاہل خطے میں ٹیکنالوجیز کی جدت، منتقلی اور پھیلاؤ کے چیلنجوں، میکانزم اور اچھے طریقوں کے بارے میں علم اور آگاہی میں اضافہ کیا۔ اس نے سرحد پار منتقلی اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے لیے علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اختراعی حکمت عملیوں اور طریقوں کی کھوج کی۔ ورکشاپ کے پینل میں حصے لینے والوں نے جدت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے کے مقصد سے اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سفارشات پیش کیں۔
ورکشاپ کا مقصد ایس ڈی جی 2 ( بھوک مری کا خاتمہ)، ایس ڈی جی 7 (سستی اور صاف توانائی)، ایس ڈی جی9 ( صنعت - اختراع اور بنیادی ڈھانچہ) میں اہداف کے حصول کے لیے چیلنجوں کی نشاندہی کرنا تھا۔ سیشن کے تحت، ‘‘ایس ڈی جی 2 کو سپورٹ کرنے کے لیے آب و ہوا کے لیے لچکدار زراعت اور مویشی پالنے کے لیے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز’’، پر گفتگو کی گئی جس کی نظامت ڈاکٹر آنند موہت، پرنسپل سائنسدان، سی ایس آئی آر- آئی ایس ٹی اے ڈی، نے کی۔ اس سیشن میں انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو مربوط کرتے ہوئے پیداواری زراعت اور مویشی پروری ، روبوٹکس، ڈرونز، توانائی کے لچکدار تحفظ اور بہتر انتخاب کے لیے بائیوٹیکنالوجی، پیداوار میں بہتری، بیماریوں کے خلاف مزاحمت، درست کھیتی، درست غذائیت کی فراہمی، جدت اور پالیسی کے تناظر پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خاص طور پر سمارٹ اور موسمیاتی لچکدار زراعت، پیداواری زراعت کے لیے فصلوں کی افزائش ٹیکنالوجی، درست کھیتی، صحت سے متعلق غذائی اجزاء کی فراہمی، مویشی پالنا اور جدت طرازی پر بشمول عالمی اور ہندوستان کے تناظر،ایک تعمیری بحث ہوئی۔
سیشن کے تحت، ‘‘ایس ڈی جی 7 کو سپورٹ کرنے کے لیے توانائی میں ماحول دوست اور کم کاربن کے استعمال والی ٹیکنالوجیز’’، مٹیریل ریسرچ اینڈ انوویشن، پروڈکشن ٹیکنالوجی، پاور الیکٹرانکس، متبادل توانائی (شمسی، آف شور، ونڈ وغیرہ) کے لیے توانائی کا ذخیرہ اور انتظام، گرین ہائیڈروجن، کاربن منفی ٹیکنالوجیز، سمندری بایوماس، بائیو فیول، جی 5 پر مبنی سمارٹ گرڈز، موسمیاتی تحفظ، پائیداری وغیرہ بحث کی گئی۔ توانائی کے شعبے میں سبز اور کم کاربن ٹیکنالوجیز سے متعلق مختلف چیلنجز، تحقیق اور ترقی جدت اور پالیسی کے مسائل؛ گرین پروڈکشن ہائیڈروجن اور اسٹوریج اور ہائیڈروجن کا بطور ٹرانسپورٹ ایندھن استعمال، فوسل فیول میں ہائیڈروجن کی ملاوٹ، اسمارٹ گرڈز، توانائی کی کارکردگی، سبز توانائی اور پائیداری کے لیے پاور سیکٹر میں سی پی ایس، ایم ایل، آئی او ٹی جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز؛ پاور الیکٹرانکس جیسے قابل تجدید توانائی میں داخل ہونے کے لیے مختلف کنٹرولرز (ڈی سی- ڈی سی اور اے سی- ڈی سی) کی ترقی اور موجودہ گرڈز کو لچکدار بنانے سے متعلق مسائل وغیرہ کا اس گفتگو کے دوران احاطہ کیا گیا۔
سیشن کے تحت،‘‘ ایس ڈی جی 9 کو سپورٹ کرنے کے لیے جدت، ٹیکنالوجی کے فروغ اور کمرشلائزیشن میں عمل اور کلیدی رکاوٹیں’’، مواقع، چیلنجز، اور ممالک ٹیکنالوجی کی تشکیل اور اپنانے کے عملی سلسلے کو کس طرح تیز کر سکتے ہیں اس بارے میں رہنمائی پر غور کیا گیا۔ ہندوستان، جرمنی اور برطانیہ اور اے پی سی ٹی ٹی کے رکن ممالک میں اختراعی ماحولیاتی نظام، مواقع، چیلنجز جیسے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
آخر میں، ‘‘ٹیکنو کمرشل ویلیو اسسمنٹ میں راستے اور رکاوٹیں، ٹیکنو اکنامکس، مارکیٹ ایبلٹی، اور اختراعی ٹیکنالوجیز کی استطاعت’’ پر پینل مباحثے منعقد کئے گئے ۔ کمبوڈیا، نیپال، ازبکستان، تھائی لینڈ، ہندوستان جیسے ممالک کے مختلف اختراع کاروں نے کیس اسٹڈیز کے طور پر اپنے اسٹارٹ اپس کے بارے میں بات کی۔ سری وویک پانڈے، شریک بانی اور چیف ٹیکنالوجی آفیسر، ایکوزن سلوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ، پونے اور ڈاکٹرسندیپ پاٹل، ڈائریکٹر، ای- اسپین نانوٹیک پرائیویٹ لمٹیڈ، اور انڈیما فائبر پرائیویٹ لمٹیڈ، کانپور، ڈی ایس آئی آر اسکیم سے گریجویٹ ہونے والے کامیاب اسٹارٹ اپس، پرزم اور ٹی ای پی پی نے پینل ڈسکشن کے دوران ہندوستان کی نمائندگی کی۔
ڈاکٹر این کلیسیلوی، سکریٹری، ڈی ایس آئی آر اور ڈائرکٹر جنرل، سی ایس آئی آر، سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت، حکومت ہند نے الوداعی سیشن میں حاضرین سے خطاب کیا۔ انہوں نے ورکشاپ کے نتائج پر خاص طور پر کراس بارڈر ٹیکنالوجی کی منتقلی میں درپیش اہم چیلنجوں اور ممکنہ سفارشات پر تبادلہ خیال کیا اور مستقبل قریب میں ورکشاپ کے نتائج کے طور پر کامیاب ٹیکنالوجی کی منتقلی/اسٹارٹ اپس کا تصور پیش کیا۔
ورکشاپ کے دوران دن 1 اور دن 2 کے دوران تبادلہ خیال
پروگرام اختتامی کلمات اور ڈاکٹر پریتی سونی، سربراہ، اے پی سی ٹی ٹی- یو این ای ایس سی اے پی اور ڈاکٹر رامانوج بنرجی، سائنسدان ایف، ڈی ایس آئی آر اور نیشنل فوکل پوائنٹ (انڈیا) فار یو این ای ایس سی اے پی کے اے پی سی ٹی ٹی ،کے مختصر خلاصے کے ساتھ ختم ہوا۔اس کے بعد ہندوستان اور اے پی سی ٹی ٹی کے رکن ممالک کے تمام معززین، پینلسٹ، مقررین اور شرکاء کی طرف سے کلمات تشکر، ڈاکٹر ونے کمار، پرنسپل سائنٹسٹ، سی ایس آئی آر -ایچ آر ڈی سی نے پیش کیے۔
*************
ش ح۔ س ب ۔ رض
U. No.13201
(Release ID: 1880438)
Visitor Counter : 240