امور داخلہ کی وزارت
مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون کے وزیرجناب امت شاہ نے، آج نئی دہلی میں سری لاچت بار پھوگن کے 400ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کیا
اگرلاچت بار پھوکن نہ ہوتے تو شمال مشرق آج ہندوستان کا حصہ نہ ہوتا؛لاچت بار پھوکن کے فیصلوں اور ان کی حوصلے نے نہ صرف شمال مشرقی بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو، ان لوگوں سے بچا لیا جنہوں نے مذہب کےنام پر فتوحات کیں
وزیر اعظم نریندر مودی نے شمال مشرقی ہندوستان کو سڑکوں، ریلوے اور ہوائی اڈوں سے ہی نہیں بلکہ جذباتی طور پر بھی جوڑا ہے
مغلوں میں اس شدید حب الوطنی کی ذرہ برابر بھی رمق نہیں تھی جو لاچت بارپھوکن اور اس کے سپاہیوں میں تھی
میں اپنے مورخین اور تاریخ کے طالب علموں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ہندوستان کی 30 عظیم سلطنتوں اور 300 جنگجوؤں کے بارے میں تحقیقات کریں اوراسے تفصیل کے ساتھ تحریر کریں جنہوں نے مادر وطن کی حفاظت کے لیے مثالی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے سچ سامنے آئے گا اور جھوٹ خود بخودمعدوم ہو جائے گا
اگر ملک کا سنہرا مستقبل بنانا ہے ،تو اپنی تاریخ پر فخر کرنا بہت ضروری ہے
سن1999 سے قومی دفاعی اکیڈمی (این ڈی اے) میں بہترین کیڈٹ کو، لاچت بارپھوکن گولڈ میڈل دیا جاتا ہے، تاکہ ہمارے بہادر سپاہی اس جنگجو سے ترغیب حاصل کر سکیں
’حوصلے‘ کی تعریف اس کام
Posted On:
24 NOV 2022 9:55PM by PIB Delhi
مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں لاچت بارپھوکن کے 400ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کیا۔ اس موقع پر آسام کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ہمانتا بسوا سرما اور مرکزی وزیر شری سربانند سونووال سمیت کئی معززین موجود تھے۔
جناب امت شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر لاچت بارپھوکن نہ ہوتے تو آج پورا شمال، ہندوستان کا حصہ نہ ہوتا کیونکہ اس وقت ان کے فیصلے اور ان کی حوصلے نے نہ صرف شمال مشرقی ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو مذہبی حملہ آوروں سے بچایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قوم،ہماری تہذیب اور ثقافت، لاچت لاچت بارپھوکن کی بہادری کی مرہون منت ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ہمانتا بسوا سرما نے شمال مشرق کی سرحدوں سے باہر ہندوستان کے عظیم فرزند کا نام اجاگر کرنے کا کام کیا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس اپنی تاریخ میں فخر کا جذبہ نہیں ہے، وہ کبھی بھی اپنی قوم کا سنہری مستقبل تعمیر نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کا سنہرا مستقبل بنانا ہے تو اپنے پر فخر کرنا بہت ضروری ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ مشکل ترین وقت کے دوران بوڈفوکن نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا اس نے ملک کے ہر حصے میں اورنگ زیب کے خلاف مزاحمت کو متاثر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب شیواجی مہاراج جنوب میں سوراج کے جذبے کو طاقت دے رہے تھے، دسویں گرو گرو گوبند سنگھ جی شمال میں اور ویر درگا داس راٹھوڑ مغرب میں راجستھان میں لڑ رہے تھے، اسی دور میں لاچت بارپھوکن، مشرق میں مغل فوج کو شکست دینے کے لیے لڑرہے تھے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ 1999 سے قومی دفاعی اکیڈمی (این ڈی اے) میں لاچت بارپھوکن گولڈ میڈل بہترین کیڈٹ کو دیا جاتا ہے تاکہ ہمارے بہادر سپاہی اس جنگجو سے تحریک حاصل کر سکیں۔ جناب شاہ نے کہا کہ آج ملک میں سب سے زیادہ پائیدار ثقافت ،شمال مشرق میں پائی جاتی ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے بھی مشہور ہے۔ شمال مشرق کی زبان، ثقافت، گیت، موسیقی، ملبوسات اور کھانا اپنی اصلی شکل میں برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکبر ہو یا اورنگ زیب، قطب الدین ایبک ہو یا التمش، بختیار خلجی ہو یا ایواز خلجی، محمد بن تغلق ہو یا میر جملا، ان میں سے ہر ایک کو شمال مشرق میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ لاچت بارپھوکن کی زندگی حوصلہ وہمت کی ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمت سے مراد اس کام کو انجام دینا جس میں خدشات کا عنصرہوتا ہے اور اسی ہمت کے بل بوتے پر، لاچت بارپھوکن نے قطعی نا مساعد حالات میں وسیع مغل فوج کے خلاف،اپنے دور کی سب سے بڑی فتح اپنے نام کی۔ جناب شاہ نے کہا کہ لاچت بارپھوکن نے آسام کی قبائلی قوتوں کو اکٹھا کر کے متحد کیا۔ انہوں نے کہا کہ وگیان بھون میں نمائش ملک کے شمال مشرقی حصے میں لڑی گئی آزادی کی جدوجہد کے بارے میں ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ شایددرست طور پرتحریر نہ کی گئی ہو، لیکن اب ہمیں اپنی تاریخ کو شاندار انداز میں تحریر کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی تاریخ کو شاندار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ جناب شاہ نے مورخین اور وہاں موجود تاریخ کے طالب علموں پر زور دیا کہ وہ 30 عظیم سلطنتوں پر تحقیق کریں جنہوں نے 150 سال سے زائد عرصے تک ملک کے کسی بھی حصے پر حکومت کی اوران 300 شخصیات پر بھی تحقیق کریں جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، تاکہ صحیح تاریخ رقم کی جاسکےتاکہ سچی تاریخ اجاگر ہو گی اور جھوٹی تاریخ خود بخود معدوم پڑ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جدوجہد آزادی کے اپنے ہیروز کی قربانیوں اور جرات کو ملک کے کونے کونے تک لے جانا ،ہماری آنے والی نسلوں کو تحریک دےگا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ مورخین کے مطابق سرائیگھاٹ کی لڑائی میں، لاچت بارپھوکن نے اپنی چھوٹی کشتیوں اور مسلح فوج کے زور پر ،مغلوں کی بڑی توپوں اور جہازوں کا سامنا کیا تھا۔ لاچت بارپھوکن کی فوج حب الوطنی کے جذبے سے سرشارتھی، جب کہ مغل فوج میں اس کی کمی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تعداد، وسائل اور ہتھیاروں کے تفاوت کے باوجود، لاچت بارپھوکن کی فوج نے فتح حاصل کی اور اہوم کی سلطنت کی خودمختاری، ثقافت اور تہذیب کو بچایا۔ انہوں نے کہا کہ رام سنگھ نے، جس نے بنگال سے قندھار تک بہت سی لڑائیاں جیتی تھیں، لاچت بارپھوکن کی فوج کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد، اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھاکہ اس نے آسامی فوجیوں کی اتنی باصلاحیت فوج پہلے کبھی نہیں دیکھی جو کشتیاں چلانے، تیراندازی، خندقیں کھودنے، بندوقوں اور توپوں کا استعمال کرنے میں ماہر ہو۔ جناب شاہ نے کہا کہ صرف ایک چوکس اور بہادر کمانڈر ہی ایسی ہمہ گیر فوج بنا سکتا ہے۔ لاچت بارپھوکن نے کمانڈر بننے کے بعد بہت ہی کم وقت میں، اپنی فوج کو تمام جنگوں حربوں میں ماہر بنا دیا تھا۔ برہم پترا کے لئے آسام کی لڑائیوں میں جنگ کرنےکے لیے ایک مضبوط بحریہ تیار کرنے کی غرض سے، لاچت بارپھوکن نے اپنی بحریہ کے ہر فرد کو تربیت دی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ جب مغلوں نے حملہ کیا تو بوڈفوکن نے قلعہ بندی کی ذمہ داری اپنے ماموں کو سونپی۔ لیکن اپنے ہی لوگوں کی محبت سے بڑھ کر ملک سے محبت کی وجہ سے، لاچت بارپھوکن نے بروقت جوابی کاروائی نہ ہونے کی وجہ سے، اپنے ہی ماموں کا سر قلم کر دیا۔ حب الوطنی کی ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ مکمل طور پر حب الوطنی میں سرشارا شخص ہی ایسا کر سکتا ہے۔ اس واقعہ نے لاچت بارپھوکن کی فوج میں حب الوطنی کے شعلے کو بھڑکا دیا۔ جناب امت شاہ نے کہا کہ لاچت بارپھوکن جنگ جیتنے کے لیے پرعزم تھے۔ سرائیگھاٹ جنگ سے پہلے بیمار ہونے کے باوجود، لاچت بارپھوکن نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لاچت بارپھوکن نے مغلوں کے خلاف جنگ لڑی، حلاں کہ اس کے کچھ سپاہیوں نے اسے محفوظ مقام پر لے جانے کی کوشش کی تھی، اور جنگ جیت لی اور اس طرح مغلوں کے ساتھ پہلی جنگ میں اہوم سلطنت کی ذلت آمیز شکست کو مٹا دیا۔ اس نے اتنی ہمت اور حوصلےسے بدلہ لیا کہ اس کے بعد کسی بھی مسلمان حملہ آور کو آسام پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔۔
جناب امت شاہ نے آسام کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ہمانتا بسوا سرما سے درخواست کی کہ لاچت بارپھوکن کی زندگی کی کہانی کا ہندی اور 10 دیگر ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہر بچے کو ان کی ہمت اور قربانی سے آگاہ کیا جا سکے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسی لیے آزادی کا امرت مہوتسو منانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہمارے نوجوانوں، بچوں اور نئی نسل کو آزادی کے گمنام شہیدوں اور جنگجوؤں سے متعارف کرایا جا سکے اور وہ اس سے تحریک لے کرآزادی کی قدر کو سمجھ سکیں۔ اس موقع پر جناب امت شاہ نے مشہور مورخ سوریہ کمار بھوریا کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ بھوریا نے ان کی زندگی سے منسلک تاریخ کو ایڈٹ، ترجمہ اور شائع کرکے لاچت بارپھوکن کو امر کردیا ہے۔ انتاریخوں کو تمام ریاستوں میں پہچانے اور ہر ہندوستانی زبان میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہوائی اور ریل رابطے کے ذریعے شمال مشرقی ہندوستان میں امن اور ترقی قائم کرکے، وزیر اعظم نریندر مودی نے، شمال مشرقی فن پاروں کو باقی ہندوستان سے منسلک کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے شمال مشرقی ریاستوں اور باقی ہندوستان کے درمیان ایک جذباتی تعلق بھی پیدا کیا ہے۔ آج شمال مشرق کو ہندوستان کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 8 سالوں میں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں، جیسے مسلح گروہوں کا ہتھیار ڈالنا اور قومی دھارے میں شامل ہونا۔ یہ ایک مستحکم ہندوستان بنانے کے لیے تاریخ، ثقافت، زبان اور مذہب کے ذریعے قوم کو متحد کرنے کا وقت ہے اور آسام حکومت کی کوششیں اس مقصد کی تکمیل کی جانب ایک بڑا قدم ہے، جنہیں جاری رکھا جائے گا۔ اس سے پورے ملک میں شمال مشرق کے لیے رفاقتی احساس وضع ہو گا اور پورے ملک کے لیے شمال مشرق میں اپنائیت کا احساس پیدا ہوگا۔
*****
U.No.12936
(ش ح - اع - ر ا)
(Release ID: 1879060)
Visitor Counter : 215