امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت

وزیر اعظم نے ایکتا نگر میں سبھی ریاستوں کے ماحولیات کے وزراء کی قومی کانفرنس کا افتتاح کیا


’’بھارت تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے اور یہ لگاتار اپنے ماحولیات کو مستحکم بنا رہی ہے‘‘

’’ہمارے جنگلاتی علاقے میں اضافہ ہوا ہے اور دلدلی زمینوں میں بھی تیزی سے توسیع ہو رہی ہے‘‘

میں ماحولیات کے سبھی وزراء پر زور دیتا ہوں کہ وہ ریاستوں میں جتنا بھی ممکن ہوسکے گردشی معیشت کو فروغ دیں‘‘

’’میں سمجھتا ہوں کہ ماحولیات کی وزارت کا کردار، ایک منضبط کرنے والے ادارے کے بجائے ماحولیات کو فروغ دینے والے ادارے کے طور پر زیادہ ہے‘‘

’’ہر ریاست میں جنگلاتی آگ کو بجھانے سے متعلق طریق کار، ٹیکنالوجی کا مرہونِ منت اور مضبوط ہونا چاہئے‘‘

’’ماحولیاتی اقدامات کو فروغ دینے کی غرض سے ریاستوں کے درمیان صحت مند مقابلے کے ساتھ ساتھ تال میل اور اشتراک بھی ہونا چاہئے‘‘

’’بھارت میں ترقی میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے، شہری نکسلیوں کے گروپ، مختلف عالمی تنظیموں اور فاؤنڈیشنوں سے کروڑ روپئے وصول کرکے، اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘‘

’’جب ماحولیات کے وزیروں کے وژن میں تبدیلی آئے گی، مجھے پورا یقین ہے کہ اس سے فطرت کو بھی فائدہ ہوگا‘‘

’’ہماری ریاستوں کی یونیورسٹیوں اور لیبس کو ’’جن انوسندھان‘‘ کے منتر پر عمل کرتے ہوئے ماحولیات کے تحفظ سے متعلق جدت طرازیوں کو اعلیٰ ترجیح دینی چاہئے‘‘

’’ماحولیات کے بارے میں جتنی جلد منظوری دی جائے گی، اتنی ہی تیز رفتار سے ترقی بھی ہوگی‘‘

’’آٹھ سال پہلے جب ماحولیات کے بارے میں منظوری ملنے میں 600 سے زیادہ دن لگتے تھے، اب اس میں 75 دن لگتے ہیں‘‘

’’پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان، ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایک بڑا اور اہم وسیلہ ہے‘‘

’’مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو مل کر ماحولیات کے لیے سازگار گرین صنعتی معیشت کی جانب پیش قدمی کرنی ہوگی‘‘

Posted On: 23 SEP 2022 6:22PM by PIB Delhi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گجرات میں ایکتا نگر میں ماحولیات کے وزیروں کی قومی کانفرنس کا افتتاح کیا۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایکتا نگر میں ماحولیات کے وزیروں کی قومی کانفرنس میں سبھی کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم نے اس بات کو اجاگر کیا کہ یہ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہو رہی ہے کہ جب بھارت آئندہ 25 برسوں کے لیے نئے اہداف طے کر رہا ہے۔ اس کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جب جنگلات، پانی کو محفوظ کرکے اسے بروئے کار لانے، سیاحت اور ہمارے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کی بات ہو تو ایکتا نگر کی مجموعی ترقی، ماحولیاتی سفر کی ایک ممتازمثال ہے۔

 بین الاقوامی شمسی اتحاد قدرتی آفات سے متعلق لچکدار بنیادی ڈھانچے کا اتحاد اور لائف تحریک کی مثالیں پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے رائے زنی کی کہ بھارت قابل تجدید توانائی کے شعبے میں نہ صرف یہ کہ ترقی کے زبردست مدارج طے کر رہا ہے بلکہ اس سلسلے میں دنیا کے دوسرے ملکوں کو بھی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’آج کا نیا بھارت نئی سوچ اور نئے طریق کار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھارت تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے اور وہ اپنے ماحولیات کو بھی لگاتار مستحکم بنا رہا ہے۔ ہمارے جنگلاتی علاقے میں اضافہ ہوا ہے اور دلدلی اور مرطوب زمین میں بھی تیزی سے توسیع ہو رہی ہے۔

وزیر اعظم نے تبصرہ کیا کہ آج دنیا بھارت کے ساتھ مل رہی ہے کیونکہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا اُسی کا شاندار ریکارڈ ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’پچھلے برسوں میں شیروں، باگھوں، ہاتھیوں ایک سینگ والے گینڈوں اور تیندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ روز پہلے مدھیہ پردیش میں چیتوں کی وطن آمد کے ساتھ ہی نیا جوش وخروش بھی واپس آگیا ہے‘‘۔

سال 2070 تک کاربن کے اخراج کو یکسر ختم کردینے سے متعلق ہدف کی طرف سب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کی توجہ ماحولیات کے لیے سازگار، سبز ترقی اور سبز ملازمتوں پر ہے۔ انھوں نے فطرت کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے ان اہداف کو حاصل کرنے میں ریاستوں کی ماحولیات کی وزارتوں کے رول کو بھی اجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’میں ماحولیات کے سبھی وزراء پر زور دیتا ہوں کہ وہ ریاستوں میں گردشی معیشت کو جتنا ممکن ہوسکے زیادہ سے زیادہ فروغ دیں‘‘۔ جناب مودی نے اپنے بیان کی تکمیل یہ ذکر کرتے ہوئے کی کہ اس سے خشک کچرے کے بندوبست سے متعلق مہم کو خاطرخواہ طور پر تقویت ملے گی اور ہمیں واحد استعمال کے پلاسٹک کے چنگل سے بھی آزادی مل جائے گی۔

ماحولیات کی وزارتوں کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ اس کردار کو ایک محدود انداز میں نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ انھوں نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک طویل عرصے سے ماحولیات کی وزارتیں ایک منضبط کرنے والے ادارے کے طور پر مزید تشکیل پا رہی ہے۔ تاہم وزیر اعظم نے کہا کہ: ’’میں سمجھتا ہوں کہ ماحولیات کی وزارت کا کردار ایک منضبط کرنے والے ادارے کے بجائے ماحولیات کو فروغ دینے والے طور پر زیادہ ہے‘‘۔ انھوں نے ریاستوں سے کہا کہ وہ وہیکل اسکریپنگ پالیسی اور ایتھانول کی آمیزش جیسے حیاتیاتی ایندھن کے اقدامات کریں اور ان پر عمل آوری کو مستحکم بنائیں۔ انھوں نے صحت مند مقابلہ آرائی کے ساتھ ساتھ ان اقدامات کو فروغ دینے کے لیے ریاستوں کے درمیان تعاون پر زور دیا۔

زیر زمین پانی کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ وافر پانی والی ریاستیں بھی آج کل پانی کی قلت کا سامنا کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے رائے زنی کی کہ کیمیاوی اشیاء سے پاک قدرتی طریقوں سے کی جانے والی کاشتکاری، امرت سرور اور پانی کی یقینی سپلائی جیسے چیلنجز اور اقدامات انفرادی محکموں تک محدود نہیں ہیں۔ اور محکمہ ماحولیات کو بھی ان کو اتنی ہی فوری توجہ کی متقاضی چنوتیاں سمجھنا ہوگا۔ ماحولیاتی وزارتوں کا شراکتداری اور مربوط نقطہ نظر کے ساتھ کام کرنا اہمیت کا حامل  ہے۔ جب ماحولیاتی وزارتوں کا وژن بدل جائے گا تو مجھے یقین ہے کہ فطرت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ کام صرف  اطلاعات کے محکمے یا تعلیم کے محکمے تک محدود نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ماحولیات کے تحفظ کا ایک اور اہم پہلو عوامی بیداری بھی ہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ :’’جیسا کہ آپ سب  اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک میں نافذ کی گئی قومی تعلیمی پالیسی میں تجربے کی بنیاد پر سیکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے رائے زنی کی کہ اس مہم کی قیادت ماحولیات کی وزارت کو کرنی چاہئے۔ اس سے بچوں میں حیاتیاتی تنوع کے بارے میں بیداری پیدا ہوگی اور ماحولیات کے تحفظ کی بنیاد بھی ڈالی جاسکے گی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ’’ہمارے ساحلی علاقوں میں رہنے والے بچوں کو یہ بھی سکھایا جانا چاہئے کہ سمندری ماحولیاتی نظام کی حفاظت کیسے کی جائے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اور آنے والی نسلوں کوماحولیات کے تئیں حساس بنانا ہوگا۔ ہماری ریاستوں کی یونیورسٹیوں اور لیباریٹریوں کو جے انوسندھان کے منتر پر عمل کرتے ہوئے  ماحولیات تحفظ سے متعلق اختراعات کو اوّلین ترجیح دینی چاہئے۔ وزیر اعظم نے ماحولیات کے تحفظ میں ٹیکنالوجی کو اختیار کرنے پر بھی زور دیا۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ جنگلات اور جنگلات کے حالات کا مطالعہ اور تحقیق بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل  ہے۔

مغربی دنیا میں جنگلات میں لگنے والی آگ کی خطرناک شرح پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وزیر اعظم نے تبصرہ کیا کہ جنگل کی آگ کی وجہ سے عالمی اخراج میں ہندوستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوسکتا ہے، لیکن ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہر ریاست میں جنگل میں آگ بجھانے کا طریقہ کار ٹیکنالوجی پر مبنی اور مضبوط ہونا چاہیے۔ جناب مودی نے ہمارے فارسٹ گارڈز کی تربیت پر بھی زور دیا، جب جنگل میں آگ بجھانے کی بات آتی ہے تو اس پر خصوصی زور دیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم نے ماحولیاتی تصفیہ حاصل کرنے میں درپیش پیچیدگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ جدید انفراسٹرکچر کی ترقی اور ہم وطنوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔ وزیر اعظم نے سردار سروور  باندھ کی مثال دی جس کی شروعات 1961 میں پنڈت نہرو نے کی تھی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ماحولیات کے نام پر کی جانے والی سازشوں کی وجہ سے اس کی تعمیر مکمل ہونے میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔ وزیر اعظم نے مختلف عالمی تنظیموں اور فاؤنڈیشنوں سے کروڑوں روپے لے کر ہندوستان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے میں شہری نکسلیوں کے کردار کی بھی نشاندہی کی۔وزیراعظم نے ایسے لوگوں کی سازشوں کی نشاندہی بھی کی جس کی وجہ سے عالمی بینک نے ڈیم کی اونچائی بڑھانے کے لیے قرضہ دینے سے انکار کردیا تھا۔انہوں نے کہا ، "ان سازشوں کو ناکام بنانے میں کچھ وقت لگا، لیکن گجرات کے لوگ فتح یاب ہوئے۔ ڈیم کو ماحولیات کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا تھا، اور آج وہی ڈیم ماحولیات کے تحفظ کا مترادف ہو گیا ہے، وزیر اعظم نے مزید کہا۔ وزیر اعظم نے تمام لوگوں سے اپنی اپنی ریاستوں میں شہری نکسلیوں کے ایسے گروپوں سے چوکنا رہنے کی بھی اپیل کی۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ماحولیاتی کلیئرنس  کے لیے 6000 سے زیادہ تجاویز اور جنگلات کی منظوری کے لیے 6500 درخواستیں ریاستوں کے پاس پڑی ہیں۔"ریاستوں کو ہر مناسب تجویز کو جلد سے جلد منظور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس  التوا کی وجہ سے ہزاروں کروڑ روپے کے منصوبے پھنس جائیں گے، انہوں نے مزید کہا۔ وزیر اعظم نے کام کے ماحول میں تبدیلی لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ التوا میں کمی آئے اور کلیئرنس میں تیزی آئے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ماحولیاتی کلیئرنس دیتے ہوئے ہم قوانین کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اس علاقے کے لوگوں کی ترقی کو ترجیح دیتے ہیں۔"یہ معیشت اور ماحولیات دونوں کے لیے جیت کی صورت حال ہے"، انہوں نے کہا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ماحولیات کا نام غیر ضروری طور پر بلند کرتے ہوئےتجارت کرنے میں آسانی اور زندگی جینے میں آسانی کی تلاش میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہونے دی جائے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جتنی تیزی سے ماحولیاتی  کلیئرنس منظوری ملے گی، ترقی بھی اتنی ہی تیزی سے ہوگی۔

وزیر اعظم نے دہلی کے پرگتی میدان ٹنل کی مثال دی جسے چند ہفتے قبل قوم کے نام وقف کیا گیا تھا۔جناب مودی نے کہا ’’ اس سرنگ کی وجہ سے دہلی کے لوگوں کی جام میں پھنسنے کی پریشانی کم ہو گئی ہے۔ پرگتی میدان ٹنل سے ہر سال 55 لاکھ لیٹر سے زیادہ ایندھن کی بچت میں بھی مدد ملے گی۔ اس سے کاربن کے اخراج میں ہر سال 13 ہزار ٹن کمی آئے گی جو ماہرین کے مطابق 6 لاکھ سے زائد درختوں کے برابر ہے۔ فلائی اوور ہوں، سڑکیں ہوں، ایکسپریس وے ہوں یا ریلوے پروجیکٹ، ان کی تعمیر کاربن کے اخراج کو یکساں طور پر کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کلیئرنس کے وقت، ہمیں اس زاویے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

وزیر اعظم نے منظوری حاصل کرنے کے لیےبھیڑ  کو کم کرنے کے لیے اس کی شفافیت اور افادیت پر زور دیتے ہوئے ماحول سے متعلق تمام قسم کی منظوریوں کے لیے ایک واحد ونڈو موڈ،پریورتن  پورٹل کے استعمال پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جہاں 8 سال پہلے ماحولیات کی منظوری میں 600 دن سے زیادہ وقت لگتا تھا، آج 75 دن لگتے ہیں۔

وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں تال میل بڑھ گیا ہے جبکہ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے نفاذ کے بعد سے بہت سے پروجیکٹوں نے رفتارپکڑی  ہے۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان بھی ماحولیات کے تحفظ کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے تباہی سے بچنے والے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ جناب مودی نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے معیشت کے ہر ابھرتے ہوئے شعبے کا اچھا استعمال کرنا ہے۔وزیر اعظم نے مزید کہا’’مرکزی اور ریاستی حکومت دونوں کو مل کر ایک سبز صنعتی معیشت کی طرف بڑھنا ہے‘‘۔

اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر اعظم نے کہا کہ وزارت ماحولیات صرف ایک ریگولیٹری ادارہ نہیں ہے بلکہ لوگوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور روزگار کے نئے ذرائع پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’آپ کو ایکتا نگر میں بہت کچھ سیکھنے، دیکھنے اور کرنے کو ملے گا۔ سردار سروور ڈیم، جو گجرات کے کروڑوں لوگوں کو امرت دیتا ہے، خود یہاں موجود ہے،‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’سردار صاحب کا اتنا بڑا مجسمہ ہمیں اتحاد کے عہد پر قائم رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘

کیواڑیہ، ایکتا نگر میں سیکھنے کے مواقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے نشاندہی کی  کہ ماحولیات اور معیشت کی بیک وقت ترقی، ماحولیات کی مضبوطی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے جیسے مسائل کے حل، ماحولیاتی سیاحت کو بڑھانے کے لیے حیاتیاتی تنوع ایک ذریعہ ہےاور ہمارے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کی دولت کے ساتھ جنگل کی دولت کیسے بڑھ جاتی ہے اس پر توجہ دی جاسکتی ہے۔

اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل اور ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے مرکزی وزیر جناب بھوپیندریادو موجود تھے۔

پس منظر

تعاون پر مبنی وفاقیت کے جذبے کو آگے بڑھاتے ہوئے، کانفرنس کا انعقاد مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان کثیر الجہتی نقطہ نظر کے ذریعے پلاسٹک آلودگی کے خاتمے ،لائف ۔ماحولیات کے لئے طرز زندگی پر خصوصی توجہ کےساتھ موسمیاتی تبدیلی کے روک تھام کے لئے ریاستی ایکشن پلان جیسے مسائل پر بہتر پالیسیاں بنانے کے لیے مزید ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ جنگلات کے رقبے کو بڑھانے پر بھی توجہ دے گا اور خاص طور پر تباہ شدہ زمین کی بحالی اور جنگلی حیات کے تحفظ پر زور دیا جائے گا۔

مورخہ23 اور 24 ستمبر کو منعقد ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں چھ موضوعاتی سیشنز ہوں گے جن میں لائف(ایل آئی ایف ای)،موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا (اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی اثرات سے موافقت کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ریاستی ایکشن پلانز کو اپ ڈیٹ کرنا)پرویش (انٹیگریٹڈ گرین کلیئرنس کے لیے سنگل ونڈو سسٹم)؛جنگلات کا انتظام؛ آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول؛ وائلڈ لائف مینجمنٹ؛ پلاسٹک اورکچرے کے بندوبست کے موضوعات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

**********

 

ش ح۔ع م۔اک۔ش ب ۔ر ا۔ ج ا۔ س ا

U- 10595



(Release ID: 1862215) Visitor Counter : 104


Read this release in: English , Marathi , Hindi