خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت

خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بھارتی حکومت کے اقدامات

Posted On: 27 JUL 2022 4:27PM by PIB Delhi

خواتین اور بچوں کی ترقی کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت ہند نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ان کی سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف منصوبہ بندیوں کے ذریعے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ جبکہ حکومت کی طرف سے نافذ کردہ اسکیمیں جیسے پردھان منتری آواس یوجنا (شہری اور دیہی)، قومی سماجی امداد پروگرام (این ایس اے پی)، سمگرشکشا، نیشنل اوورسیز اسکالرشپ کی اسکیم، بابو جگ جیون رام چھترواس یوجنا، سوچھ ودیالیہ مشن وغیرہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اسکول خاص طور پر معاشرے کے کمزور طبقوں کے لیے لڑکیوں کے لیے دوستانہ ہوں اور ان کی خصوصی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مناسب سہولیات موجود ہوں۔

مزید برآں، قومی تعلیمی پالیسی(این ای پی  2020 ) صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہے اور سماجی اور اقتصادی طور پر پسماندہ گروہوں (ایس ای ڈی جیز) پر خصوصی زور دینے کے ساتھ، تمام طلباء کے لیے معیاری تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کا تصور پیش  کرتی ہے۔

خواتین کارکنوں کی ملازمت میں اضافہ کرنے کے لیے حکومت خواتین کے صنعتی تربیتی اداروں، قومی پیشہ ورانہ تربیتی اداروں اور علاقائی پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کے نیٹ ورک کے ذریعے انہیں تربیت فراہم کر رہی ہے۔ ہنر کی ترقی اور پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے خواتین کی معاشی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے اسکل انڈیا مشن بھی متعارف کرایا ہے۔ قومی ہنر کی ترقی کی پالیسی کی توجہ جامع مہارت کی ترقی پر ہے، جس کا مقصد بہتر اقتصادی پیداوار کے لیے خواتین کی شرکت میں اضافہ کرنا ہے۔ پردھان منتری کوشل وکاس کیندر خواتین کے لیے تربیت اور اپرنٹس شپ دونوں کے لیے اضافی انفراسٹرکچر بنانے،لچکدار ٹریننگ ڈیلیوری میکانزم، خواتین کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے مقامی ضرورت پر مبنی ٹریننگ کے لئےدوپہر کے بعد کے آسان  بیچز پر زور دیتے ہیں ؛ اور محفوظ اور صنفی حساس تربیتی ماحول، خواتین ٹرینرز کی ملازمت، معاوضے میں مساوات، اور شکایت کے ازالے کے طریقہ کار کو یقینی بناتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ  پردھان منتری مدرا یوجنا اور اسٹینڈ اپ انڈیا، پرائم منسٹرز ایمپلائمنٹ جنریشن پروگرام (پی ایم ای جی پی ) جیسی اسکیمیں بھی  ہیں جو خواتین کو اپنا کاروبار قائم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ پردھان منتری اجولا یوجنا (پی ایم یو وائی) کا مقصد خواتین کو کھانا پکانے کا صاف ایندھن فراہم کرکے ان کی صحت کی حفاظت کرنا ہے اور ان پر آگ جلانے کے لئے  لکڑیاں جمع کرنے کی مشقت کے بوجھ کو بھی کم کرنا ہے۔

مزید برآں، خواتین کے روزگار کی حوصلہ افزائی کے لیے، حال ہی میں نافذ کیے گئے لیبر کوڈز میں متعدد فعال دفعات کو شامل کیا گیا ہے، جن میں خواتین کارکنوں کے لیے کام کا سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے  ضابطہ اجرت، 2019، صنعتی تعلقات کا ضابطہ، 2020، پیشہ ورانہ تحفظ، صحت اور کام  کاج کے حالات کا ضابطہ، 2020 اور سماجی تحفظ کا ضابطہ، 2020  شامل ہیں۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ، 2005 (ایم جی این آر ای جی اے)  اس بات کا مطالبہ کرتا ہے  کہ اسکیم(ایم جی این آر ای جی ایس) کے تحت پیدا ہونے والی ملازمتوں کا کم از کم ایک تہائی حصہ خواتین کو دیا جائے۔ حکومت نے غیر روایتی شعبوں جیسے کہ ہندوستانی فضائیہ، کمانڈوز، سنٹرل پولیس فورسز میں لڑاکا پائلٹ، سینک اسکولوں میں داخلے وغیرہ میں خواتین کی شرکت کی اجازت دینے کے لیے بھی  سہارا دینے والے  التزامات  وضع کئے ہیں ۔ ان اسکیموں کے سلسلے میں ڈیٹا متعلقہ وزارتوں/ شعبه  جات. کے ذریعہ برقرار رکھا جاتا ہے۔

مزید برآں، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت(ایم ،ڈبلیو سی ڈی) کی طرف سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ملک میں خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات میں درج ذیل شامل ہیں:

  1. پوشن ابھیان
  2. آنگن واڑی خدمات اسکیم
  3. پردھان منتری ماترو وندنا یوجنا (پی ایم ایم وی وائی)
  4. بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ (بی بی بی پی) اسکیم
  5. ون اسٹاپ سینٹر (او ایس سی)
  6. خواتین کی ہیلپ لائن کی  عمومیت
  7.  بچوں کی حفاظت سے متعلق  خدمات  کی اسکیم
  8. نوعمر لڑکیوں کے لیے اسکیم (ایس اے جی)
  9. سوادھار گرہ  اسکیم
  10. اجولا اسکیم
  11.  کام کرنے والی خواتین  کے لئے ہاسٹل

مذکورہ اسکیموں کو وزارت کے تین نئے شروع کیے گئے مشن یعنی مشن شکتی، مشن سکشم آنگن واڑی اور پوشن 2.0 اور مشن وتسلیہ کے تحت مناسب ترامیم کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ، مرکزی حکومت کی طرف سے نربھیا فنڈ کے تحت دیگر وزارتوں/محکموں/عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں کے ذریعے متعدد منصوبے/ اسکیمیں لاگو کی جاتی ہیں جن میں ایمرجنسی رسپانس سپورٹ سسٹم(ای آر ایس ایس) شامل ہے جو کہ پین انڈیا سنگل نمبر (112)/ ہنگامی حالات کے لیے موبائل ایپ پر مبنی نظام ہے۔ ; فحش مواد کی اطلاع دینے کے لیے سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل؛ 8 شہروں (احمد آباد، بنگلورو، چنئی، دہلی، حیدرآباد، کولکتہ، لکھنؤ اور ممبئی) میں سیف سٹی پروجیکٹس بشمول انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی کو اپنانا اور بیداری پروگراموں، تفتیشی افسران، پراسیکیوشن افسران اور میڈیکل کے لیے تربیت اور ہنرمندی کی ترقی کے پروگراموں کے ذریعے کمیونٹی میں صلاحیت کی تعمیر۔ افسران؛ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جنسی حملوں کے ثبوت جمع کرنے(ایس اے ای سی)  کے لئےکٹس کی تقسیم؛ سی ایف ایس ایل، چندی گڑھ میں اسٹیٹ آف آرٹ ڈی این اے لیبارٹری کا قیام؛ فرانزک سائنس لیبارٹریوں کو مضبوط بنانے کے لیے 24 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی مدد؛ 1023 فاسٹ ٹریک خصوصی عدالتوں(ایف ٹی ایس سیز) کا قیام جس میں خصوصی(پی او سی ایس او- ای پی او سی ایس او) عدالتیں، ملک کے تمام اضلاع میں انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹس(اے ایچ ٹی یوز) کا قیام/ استحکام ؛ پولیس اسٹیشنوں وغیرہ میں خواتین کے ہیلپ ڈیسک (ڈبلیو ای ڈیز) کا قیام شامل ہیں تاکہ عصمت دری کے مقدمات اور پی او سی ایس او ایکٹ کے تحت مقدمات کو تیزی سے نمٹا جا سکے۔ / حکومت نے  جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے  انویسٹی گیشن  ٹریکنگ سسٹم تیار کیا ہے جو تفتیش   کی نگرانی  اور ہمہ گیری کا ایک  آن لائن تجزیاتی  وسیلہ ہے ۔ جنسی مجرموں کا ایک نیشنل ڈیٹا بیس(این ڈی ایس او) بھی بنایا گیا ہے۔

نربھیا فنڈ کے تحت، بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (بی پی آر اینڈ ڈی) نے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں تفتیشی افسران، پراسیکیوشن افسران اور میڈیکل افسران کے لیے تربیت اور ہنر مندی کے پروگرام،   ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں  جنسی حملوں کے ثبوت جمع کرنے(ایس اے ای سی)  والی  کٹس کی تقسیم شامل ہے۔ بی پی آر اینڈ ڈی نے چار اہم اجزاء یعنی بنیادی ڈھانچہ، تربیت، انسانی وسائل کی ترقی اور ردعمل کا طریقہ کار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ‘پولیس اسٹیشنوں میں خواتین ہیلپ ڈیسک’ کے لیے معیاری آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) بھی تیار کیے ہیں تاکہ خواتین ہیلپ ڈیسک کے کام کاج کو یقینی بنایا جا سکے۔خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام اور تفتیش کے مقصد کے لیے ‘ویمنز سیفٹی اینڈ سیکیورٹی- اے ہینڈ بک فار فرسٹ ریسپانڈرز اینڈ انویسٹی گیٹرز ان دی پولیس’ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تیار کی گئی ہے جس میں جنسی زیادتی کے جرم کے حوالے سے خصوصی طور پر خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام  جس میں  تفتیش، متاثرین کو  معاوضہ اور ان کی بحالی  شامل ہے۔ خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام اور ان کا پتہ لگانے اور جرائم کا شکار ہونے والوں کے ساتھ بات چیت کے دوران پولیس کے مناسب رویے اور رویہ کی مہارت پر زور دیا گیا ہے۔ بی پی آر اینڈ ڈی کی جانب سے حساسیت کے ساتھ خواتین کی حفاظت، پولیس اہلکاروں کی صنفی حساسیت وغیرہ کے بارے میں ویبینار بھی منعقد کیے گئے ہیں۔

خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نے ملک بھر میں ون اسٹاپ سینٹرز (او ایس سیز) کے عملے کو ‘اسٹری منورکشا’ نامی پروجیکٹ کے تحت بنیادی اور جدید تربیت فراہم کرنے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز(این آئی ایم ایچ اے این ایس) کی خدمات کو شامل کیا ہے۔ نفسیاتی سماجی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال سے نمٹنے کے لیے تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین اور پریشانی میں مبتلا خواتین کی مدد کی ضرورت ہے۔

ایم ڈبلیو سی ڈی  کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج ہیں i) )  2.6 کروڑ سے زیادہ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو مدد، (ii) پیدائش کے وقت جنسی تناسب(ایس آر بی) میں 918 سے 937 تک بہتری اور پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں لڑکیوں کے اندراج میں اضافہ جو تقریباً لڑکوں کے برابر ہے ۔iii)) 5.40  لاکھ خواتین کی مدد کرنے والے 708 او ایس سیز کو فعال کرنا،iv) ) 34ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ڈبلیو ایچ ایل کو فعال کرنا جنہوں نے 70 لاکھ سے زیادہ کالوں کو ہینڈل کیا ہے، v) ) 6175ا مداد یافتہ افراد  کی سکونت والے 107 اجولا گھروں کا استعمال شروع کرنا۔ vi) ) 17291 امداد یافتہ افراد کو رہائش مہیا  کرنے والے 367 سوادھار گرہ کو فعال کرنا، vii)) 450 کام کاجی خواتین  کےہاسٹلز کو فعال کرنا ،جس میں 74666 ورکنگ ویمن اور ڈے کیئر سنٹر میں 11018 بچوں کی مدد کی گئی، اور (viii) 41 وزارتوں/محکموں میں  صنف پر مبنی  بجٹ سازی پر عمل درآمد ، جس کے تحت مالی سال 2023-2022 کے  لئے 1.71 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے مندرجہ بالا اقدامات کے مثبت نتائج نیشنل فیملی ہیلتھ سروے – 5 (این ایف ایچ ایس۔5) کے اعداد و شمار سے سمجھے جا سکتے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کی حالت بہت سی بنیادوں پر  گزشتہ 5 سالوں میں  (این ایف ایچ ایس۔4 کے مقابلے میں)بہتر ہوئی ہے ۔آج78.6فیصدسے زیادہ خواتین بینک اکاؤنٹس کی مالک ہیں جو وہ خود استعمال کرتی ہیں، جو کہ پچھلے 5 سالوں میں 25فیصد کی بہتری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 4 میں سے 3 خواتین کے پاس بینک اکاؤنٹس ہیں جو وہ خود استعمال کرتی ہیں۔ آج، ہندوستان میں 54فیصد خواتین یا 2 میں سے 1 عورت کے پاس موبائل فون ہے جو وہ خود استعمال کرتی ہیں جبکہ پانچ سال پہلے یہ شرح 46فیصد تھی۔ آج ہندوستان میں 43فیصدخواتین کے پاس گھر یا زمین تنہا ملکیت یا مشترکہ طور پر ہے جو کہ پانچ سال پہلے 38فیصد تھی۔ این ایف ایچ ایس -5 ڈیٹا جنسی تناسب میں بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔ آج  ہر 5 میں سے 1 غیر زراعتی  کاروبار کی سربراہ  اور قیادت خواتین کر رہی ہیں۔

ہمارا معاشرہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جہاں مرد گھر میں شریک کار کے طور پر خواتین کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ آج گھر کے بڑے فیصلوں میں زیادہ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ این ایف ایچ ایس-5 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آج 88.7فیصد خواتین بڑے گھریلو فیصلوں میں حصہ لیتی ہیں جبکہ پانچ سال پہلے خواتین کی  یہ تعداد 84فیصد تھی۔ گزشتہ دس سالوں میں میاں بیوی کے درمیان ہونے والے  تشدد کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے۔ این ایف ایچ ایس- 5 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 29فیصد شادی شدہ خواتین نے ازدواجی تشدد کا سامنا کرنے کی اطلاع دی ہے جب کہ 10 سال پہلے 39فیصد اور پانچ سال پہلے 33فیصد تھی۔

ایم ڈبلیو سی ڈی کے اقدامات کا تیسرے فریق کے ذریعہ لیا جانے والا جائزہ/تشخیص نیتی آیوگ نے ​​2020 میں کیا تھا۔ پہل/اسکیموں کو نافذ کرنے کے تجربے کی بنیاد پر اور تشخیصی مطالعہ کی سفارشات پر غور کرنے کے بعد، وزارت نے ‘مشن شکتی’ شروع کیا ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے پروگرام کو ایک سرپرست  اسکیم کے طور پر مربوط کیا گیا ہے جس سے خواتین کی حفاظت، تحفظ اور بااختیار بنانے سے متعلق مختلف ذیلی اسکیموں کو زیادہ سے زیادہ کارکردگی، نتیجہ خیزی  اور مالی امور کی سوجھ بوجھ کے لیے باہم ملایا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے وزارت نے 14.07.2022 کو ‘مشن شکتی’کے رہنما خطوط جاری کیے ہیں۔

*************

 

ش ح۔ س ب۔ رض

U. No.9383



(Release ID: 1853552) Visitor Counter : 614


Read this release in: English , Telugu