زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے میں پیش رفت


این ایس ایس سروے کے مطابق زرعی گھرانوں کی اوسط ماہانہ آمدنی 13-2012  میں 6426  روپے سے بڑھ کر 19-2018  میں 10,218  روپے ہو گئی ہے

Posted On: 19 JUL 2022 6:36PM by PIB Delhi

زراعت اور کسانوں کی بہبود  کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ  تومر نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت نے اپریل 2016 میں ایک بین وزارتی کمیٹی تشکیل دی تھی جو ‘‘ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے (ڈی ایف آئی)’’ سے متعلق مسائل کا جائزہ لے گی اور اس کے حصول کے لیے حکمت عملیوں کی سفارش کرے گی۔ کمیٹی نے ستمبر 2018 میں حکومت کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی جس میں مختلف پالیسیوں، اصلاحات اور پروگراموں کے ذریعے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی حکمت عملی شامل تھی۔ ڈی ایف آئی کی حکمت عملی زراعت کو ایک ویلیو-  لیڈ انٹرپرائز ادارے کے طور پر تسلیم کرنے کی سفارش کرتی ہے، جس میں آمدنی میں اضافے کے 7 بڑے ذرائع کی نشاندہی کی گئی ہےیعنی:

(i) فصل کی پیداواری صلاحیت میں بہتری؛

(ii) مویشیوں کی پیداواری صلاحیت میں بہتری؛

(iii) وسائل کے استعمال کی کارکردگی یا پیداوار کی لاگت میں بچت؛

(iv) فصل کی شدت میں اضافہ؛

(v) اعلیٰ قیمت والی فصلوں کی طرف تنوع؛

(vi) کسانوں کو ملنے والی حقیقی قیمتوں میں بہتری؛ اور

(vii) فاضل افرادی قوت کو فارم سے غیر فارمی پیشوں میں منتقل کرنا۔

شماریات اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت نے[قومی شماریات دفتر ( این او ایس )] این ایس ایس کے 70ویں دور (جنوری 2013-دسمبر 2013) کے دوران زرعی سال جولائی 2012-جون 2013 اور این ایس ایس 77 واں دور (جنوری 2019- دسمبر 2019) زرعی سال جولائی 2018-جون 2019 کے حوالے سے ملک کے دیہی علاقوں میں زرعی گھرانوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کا سروے (ایس اے ایس) منعقد  کیا۔ ان سروے سے، این ایس ایس 70ویں دور (13-2012 ) اور این ایس ایس 77ویں دور (19-2018) سے حاصل کردہ فی زرعی گھرانے کی تخمینی اوسط ماہانہ آمدنی کا حساب بالترتیب 6426  اور 10,218  روپے لگایا گیا۔

حکومت نے کسانوں کے لیے زیادہ آمدنی کے حصول کے لیے کئی ترقیاتی پروگرام، اسکیمیں، اصلاحات اور پالیسیاں اپنائی ہیں۔ آمدنی میں اضافے کے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کئی اصلاحات کی گئی ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہی ہیں جن میں یہ شامل ہیں:

 i)) آتم نربھر  پیکیج (زرعی) کے تحت ضروری مالی مدد کے ساتھ 10,000 ایف پی اوز  کی تشکیل اور فروغ،

(ii) ایگری انفراسٹرکچر فنڈ (اے آئی ایف) کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کی تخلیق پر خصوصی توجہ جس کی رقم  100,000 کروڑ روپے ہے،

iii)) پی  ایم  - کسان کے تحت ضمنی آمدنی کی منتقلی،

(iv) پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی وائی ) کے تحت فصل بیمہ،

(v) پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا (پی ایم کے ایس وائی) کے تحت آبپاشی تک بہتر رسائی،

(vi) تمام خریف اور ربیع کی فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پیز) میں اضافہ پیداوار کی لاگت پر منافع کے کم از کم 50 فیصد کو یقینی بناتے ہوئے،

vii)) ایف سی آئی   آپریشنز کے علاوہ پی ایم - آشا کے تحت نئی پروکیورمنٹ پالیسی،

(viii) کسان کریڈٹ کارڈز (کے سی سی) زرعی فصلوں کے علاوہ ڈیری اور ماہی گیری کے کسانوں کو بھی پیداواری قرض کی پیشکش کرتے ہوئے،

(ix) نیشنل مشن فار سسٹین ایبل ایگریکلچر (این ایم ایس اے)، جس کا مقصد بدلتی ہوئی آب و ہوا کے لیے ہندوستانی زراعت کو زیادہ لچکدار بنانے کے لیے حکمت عملیوں کو تیار کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہے۔

(x) زرعی ویلیو چین کے تمام مراحل پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اطلاق پر توجہ مرکوز ۔

(xi) زراعت میں ڈرون ٹیکنالوجیز کو اپنانا جو ہندوستانی زراعت میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

(xii) شہد کی مکھیوں کی پالنا، راشٹریہ گوکل مشن، بلیو ریوولیوشن، انٹریسٹ سبوینشن اسکیم، زرعی جنگلات، بانس کی ساخت  نو کے مشن، نئی نسل کے واٹرشیڈ رہنما خطوط کا نفاذ وغیرہ کے تحت حاصل ہونے والے فوائد۔

 

*************

( ش ح ۔ ا ک۔ ر ب(

U. No. 7817



(Release ID: 1842979) Visitor Counter : 117


Read this release in: English , Bengali