کامرس اور صنعت کی وزارتہ

زراعت پر موضوعاتی اجلاس کے دوران ڈبلیو ٹی او کی 12 ویں وزارتی کانفرنس کے دوران جناب پیوش گوئل کا خطاب

Posted On: 14 JUN 2022 10:31PM by PIB Delhi

تجارت وصنعت ، امور صارفین، خوراک اور سرکاری نظام تقسیم اور ٹیکسٹائل کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل کی جانب سے آج جنیوا میں زراعت پر موضوعاتی اجلاس کے دوران ڈبلیو ٹی او کی 12 ویں وزارتی کانفرنس میں کیے گئے خطاب کا متن حسب ذیل ہے:

ہم مذاکرات کے تحت انتہائی اہم مسائل پر تبادلہ خیال کررہے ہیں، جس نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کیا ہے۔

زراعت نہ صرف زیادہ تر کسانوں  اور ترقی پذیر ممالک میں کاشت مزدوروں کے لئے ذریعہ معاش کا ایک ذریعہ ہےبلکہ یہ خوراک کے تحفظ، ان کی غذائیت اور ترقی پذیر ممالک  اور بڑے پیمانے پر لوگوں کے لئے ایک احساس کے طور پر بھی اہمیت کا حامل ہے۔

کووڈ-19 اور موجودہ جغرافیائی صورتحال کے دوران حالیہ خوراک بحران کی وجہ سے متعدد ممالک شدید طورپر متاثر ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز مصر اور سری لنکا کے میرے دوستوں نے بھی اس سلسلے میں بات چیت کی۔ ہمیں اِن چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیا زیر غور عمل کے تحت مسودے کے اعلامیے اور فیصلے اِن ممالک میں خوراک کی دستیابی کو بہتر بنانے میں مدد کریں گے۔

درحقیقت یہ دونوں ممبران خوراک کے تحفظ کے مسوداتی اعلامیے پر متفق نہیں ہیں، لیکن انہوں نے پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے مسائل کی فوری مستقل حل پر زور دیا ہے۔

ہم ایسی صورتحال میں ہیں جہاں عارضی اعلامیے سے 9 سال سے زیادہ مدت سے زیرالتوا پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے لئے مستقل حل تلاش نہ کئے جانے کی وجہ سے ممالک کو مدد نہیں مل رہی ہے۔

ہندوستان کو بڑے پیمانے پر خوراک کے معاملے پر خوراک کی کمی کے شکار ملک سے خود انحصار ملک بننے  کا تجربہ حاصل ہے۔  سبسڈیز کی شکل میں ہماری ملکی مدد اور دیگر سرکاری اقدام نے اِس کمی کو پورا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔  اسی وجہ سے ہم اپنے سفر اور اپنے تجربات کی بنیاد پر ایل ڈی سیز سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اس کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں اور اب تک کی کہانی پر غور کریں تو اروگوے دورے سے لے کر اب تک جہاں 86-1985 اور 1994 کے درمیان 8 سال کی بات چیت کے بعد مراکش معاہدے کے تحت عالمی تجارتی تنظیم، ڈبلیو ٹی او کا قیام ہوا تھا۔ زراعت کو ہمیشہ ایک کچا سودا اور غیر متوازن نتیجے ملے ہیں جو بڑی سبسڈی دے کرکے بازاروں کو مسخ کررہے تھے۔ وہ اپنی سبسڈی کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے، جو اس وقت رائج تھے۔ ایسی صورتحال میں دیگر ممالک خاص طور سے ترقی پذیر ممالک اپنے لوگوں کے لئے ترقی اور خوشحالی لانے میں اپنی صلاحیت سے ناکام ہورہے تھے۔

ہم جو تبادلہ خیال کررہے ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک کے لئے کافی حد تک معقول ایک معاہدے کے ضوابط ہیں، جو اُن کی سماجی، اقتصادی صورتحال کے لئے کام کرتے ہیں اور جو پہلے سے ہی ترقی یافتہ دنیا کو زیادہ سے زیادہ حقوق فراہم کرتے ہیں، جن کی وجہ سے ترقی یافتہ دنیا پر سوال اٹھائے جاتے ہیں وہ 35 سال پہلے رائج صورتحال پر مبنی خامیاں ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ، افراط زر، بدلتے ہوئے حالات اور اسے معقول بنانے کے لئے برسوں سے کوئی نظام نہ ہونے کے سبب موجودہ صورتحال کے لئے معقولیت کے بغیر ہم 86 کی سطح پر برقرار ہیں اور آج ہم اس کے نتائج سے نبردآزما ہیں۔

آج کے اپنے پہلے اقدامات کے طور پر میں نے اپنے دیگر دوستوں کو آگاہ کرنے کے لئے اِس کا ذکر کیا تھا کہ ایک بار پھر ماہی پروری میں ایسا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ 11 دسمبر 2013 کی وزارتی اجلاس میں فیصلہ کیاگیا تھا اور میں فیصلہ لفظ کو دہراتا ہوں، کیونکہ اراکین نے 11ویں وزارتی کانفرنس کے ذریعہ منظور کئے گئے مسائل کے مستقل حل کے لئے معاہدہ پر بات چیت کرنے کے لئے ایک عبوری نظام قائم کرنے پر اتفاق رائے کیاتھا اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تجارتی سہولیات پر معاہدے کو کافی پرجوش انداز میں اپنایا گیا، ہم نے معاہدہ کیا، ان کی تجارتی سہولیات کے معاہدے پر اتفاق رائے کیا اور پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے مستقل حل کے لئے معاہدہ کیا۔

درحقیقت پیرا گراف 8 کہتا ہے اور میں اس کا حوالہ دے رہا ہوں۔ اراکین مستقل حل کے لئے سفارشیں کرنے کے مقصد سے اِس مسئلے کو آگے بڑھانے کی خاطر زرعی کمیٹی میں ایک ورک پروگرام قائم کرنے کے لئے متفق ہوئے۔ پیرا گراف 9 کہتا ہے کہ اراکین 11 ویں وزارتی اجلاس سے پہلے اسے پورا کرنے کے مقصد کے ساتھ ورک پروگرام کے لئے عہد بستہ ہیں اور پیرا گراف 10 کہتا ہے کہ ورک پروگرام کی پیش رفت کے بارے میں جنرل کونسل 10 ویں وزارتی کانفرنس کو رپورٹ کرے گا۔ میں آپ کو اس لیے یاد دلارہا ہوں کیونکہ ہمیں اس مسئلے پر دوبارہ تبادلہ خیال شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جسے 28 نومبر 2014 کو جنرل کونسل کے دستاویز میں دہرایا گیا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کے خوراک کے تحفظ کے مقاصد کے لئے پبلک اسٹاک ہولڈنگ حتمی ہوگی۔ درحقیقت 2015 میں بھی وزارتی کانفرنس کے 10 ویں اجلاس میں اِس پر توجہ دی گئی تھی  اور فیصلہ کیاگیا تھا کہ وہ 2014 کی جنرل کونسل کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہیں اور اِس فیصلے کو منظور کرنے اور اپنانے کے لئے تمام مضبوط کوششیں کرنے کی خاطر تعمیری انداز میں کام کرنے کے لئے رضا مند ہیں۔

 میں یہ بات دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہوں، کیونکہ ہم 12 ویں وزارتی کانفرنس تک پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔ اِس وزارتی کانفرنس کا انعقاد دیری سے ہوا ہے اور تکنیکی طور پر یہ 13 ویں وزارتی کانفرنس کے انعقاد کا وقت ہے، لیکن ہمیں مستقل حل کو حتمی شکل دینا ابھی باقی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہے۔ ہمارے پاس بہترین قائم کردہ اور تصدیق شدہ نظام دستیاب ہے اور دستاویز میز پر ہیں، انہیں اپنایا اور حتمی شکل دیا جاسکتا ہے، تاکہ ہم اِس انتہائی اہم مسائل کو ختم کرسکیں۔

ڈبلیو ٹی او ایک تجارتی تنظیم ہے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تجارت سے پہلے بھوک آتی ہے اور خالی پیٹ تجارت نہیں کی جاسکتی۔

پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے مسئلے کو معقول نتائج پر پہنچانے اور خوراک کے عدم تحفظ کے خدشات  کو دور کرنے کے لئے 12 ویں وزارتی کانفرنس میں 80 سے زیادہ ممالک ایک ساتھ کھڑے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ زراعت سے متعلق معاہدہ (اے او اے) ترقی یافتہ اراکین کو ایگری گیٹ میجر آف سپورٹ (اے ایم ایس)کے طور پر بڑی سبسڈی فراہم کرنے اور آگے اِن سبسڈی کو کچھ مصنوعات پر غیر محدود طریقے سے مرکوز کرنے کے لئے نرمی فراہم کرتا ہے، لیکن اس میں ایل ڈی سی سمیت زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے لئے مساوی نرمی دستیاب نہیں ہے۔

ترقی پذیر ممالک کے کم از کم امداد ی حقوق کے ذریعہ تجارت تباہ ہونے  کے نام پر ڈرپھیلانا نامناسب ہے۔

ڈبلیو ٹی او کو ملی معلومات کے مطابق مختلف ممالک کے ذریعہ فراہم کی جارہی حقیقی فی کسان گھریلو مدد میں بڑا فرق ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کچھ ترقی یافتہ ممالک  میں  یہ فرق دو سو گنا سے زیادہ ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک، زیادہ تر ترقی ممالک کی صلاحیت کے مقابلے دو سو گنا  سے زیادہ مدد فراہم کررہے ہیں۔

اس کے باوجود کچھ اراکین کم آمدنی اور کم وسائل والے غریب کسانوں کو مل رہی معمولی سرکاری مدد سے بھی محروم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کے لئے الگ اور خاص طور پر خصوصی نظام ہمارے لئے اہم ہے اور اسے مذاکرات کے دائرے میں لانا قابل قبول نہیں ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ زراعت پر وزارتی فیصلوں کا مسودہ تفصیلی ہے اور یہ دوحہ دورے کے فیصلے سے کہیں آگے ہے اور اس میں اب تک کی پیش رفت پر غور نہیں کیاگیا ہے۔

بہر حال ہندوستان کمزور ممالک کو اناج  فراہم کرنے میں ہمیشہ سرگرم رہا ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کو برآمدات کی پابندیوں سے رعایت فراہم کرنے کی تجویز پر ، جبکہ ہم ایسی رعایتوں کی حمایت کرتے ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ ہمیں جی ٹو جی لین دین کے لئے بھی التزام کرنا چاہئے، تاکہ حقیقت میں ہم وسیع نقطہ نظر کے ساتھ خوراک کے تحفظ – عالمی اور گھریلو دونوں کے لئے یقینی بناسکیں۔ خصوصی طور پر ان حقائق پر غور کرتے ہوئے کہ حجم،وسیع تر اور مالی اعانت کے لحاظ سے عالمی خوراک کے پروگرام کے اپنے حدود ہیں۔

میں ڈبلیو ٹی او کے اراکین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ 12 ویں وزارتی کانفرنس میں پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے مستقل حل کے اِس پروگرام پر سنجیدگی سے غور کریں، تاکہ دنیا کو یہ پیغام ملے کہ ہمیں اِس کی پروا ہے۔ ہم غریبوں کی پروا کرتے ہیں، ہم کمزور لوگوں کی پروا کرتے ہیں، ہم خوراک کے تحفظ کی پروا کرتے ہیں، ہم دنیا کے باقی حصوں کے لئے زیادہ متوازن اور مساوی مستقبل کی پروا کرتے ہیں۔

 

*****

ش ح – ع ح – ع ر

U: 6550

 



(Release ID: 1834464) Visitor Counter : 182


Read this release in: English , Hindi , Telugu