کامرس اور صنعت کی وزارتہ
ڈبلیو ٹی او کی بارہویں وزارتی کانفرنس کے دورا ن ٹرپس کو تر ک کرنے کے شریک حامیوں کے ساتھ میٹنگ میں جناب پیوش گوئل کا بیان
Posted On:
14 JUN 2022 10:44PM by PIB Delhi
کامرس وصنعت ، صارفین کے امور ،خوراک ،تقسیم عامہ اور ٹیکسٹائل کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل کے ذریعہ جنیوا میں ڈبلیو ٹی او کی 12ویں وزارتی کونسل کے دوران آج ٹرپس کو ترک کرنے کے شریک حامیوں کے ساتھ میٹنگ میں دئے گئے بیان کا متن درج ذیل ہے :
ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ مل کرکوششیں کرنے اور حل تلاش کرنے کی خاطر رابطہ رکھنے کے ساتھ مجھے جنوبی افریقہ کی سفیر محترمہ زولیلوا کی شاندار قیادت کے لئے ا ن کی ستائش کرنی چاہئے ۔ میں نے مختلف چہار فریقی میٹنگوں اور مختلف وزیروں اور حکومتوں کے ساتھ اپنی باہمی میٹنگوں اور گرین روم میں بھی اس بات کوسمجھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کس سمت جارہی ہے۔ میرے پاس آپ کو بتانے کے لئے کچھ ایسی چیزیں ہیں ، جنہیں میں سمجھتا ہو ں کہ وہ بہت اہم ہیں ، اورقطعی فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سب یکساں خیالات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے میں اس بات کو نہیں سمجھتا کہ آئٹم 1 اور 2 کو قطعی شکل دینا بہت ضروری ہے یا نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم جو بھی زبان اس آئٹم نمبر 1 اور 2 میں چاہتے ہیں، اسے اپنایا جائے ، کیونکہ وہ دنیا کو اور سول سوسائٹی کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ترقی پذیر ملکوں کے لئے بہت درد موجود ہے، ہم افریقہ کا بہت خیال رکھتے ہیں ، ہم کم ترقی پذیر ملکوں کا خیال رکھتے ہیں ، ہم ترقی پذیر دنیا کی فکر کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس الزام سے خودکوبری کرلیں کہ ترقی یافتہ دنیا غریب اور محروم لوگوں کی تشویش کا احساس نہیں رکھتے ۔
سردست میں جو سمجھتا ہو ں ، اور بہت سی میٹنگیں جو ہوئی ہیں اور گرین رو م کی میٹنگوں میں ، جو وہ کوششیں کررہے ہیں، یہ دنیا کو ظاہرکرنے کے لئے ہیں کہ ہاں ہم نے ایک شاندار حل تلاش کرلیا ہے اور ہم ٹرپس (ٹی آر آئی پی ایس ) کو ترک کرنے کے لئے 80 ملکوں کے ساتھ رضامند ہیں۔ اب عام آدمی اس بات کو نہیں سمجھتا کہ یہ ٹرپس کو ترک کرنے کے قریب بھی نہیں ہیں ،عام آدمی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ لازمی لائسنسنگ سے کچھ الگ ہے۔ لیکن جس طرح تبادلہ خیال جاری ہے ، مصر کے سفیر سے بھی ان کی رائے لی جاسکتی ہے کیونکہ وہ بھی اس کمرے میں موجود تھے اور اپنی آواز بلند کرنے کے لئے ان پر بھی کئی حملے کئے گئے ، لیکن یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کے بوجھ کو کسی نہ کسی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ میرے اپنے احساسات ہیں کہ ہم جس بات پر مذاکرات کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور اس کو منظوری نہیں ملے گی۔
کسی لفظ کو اِدھر اُدھر کرنے یا کومہ یا فل اسٹاپ پر بحث ومباحثہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ سال تک جاری رہے گا اور اگر کوئی اس سمجھوتے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا تو کوئی اکیلا شخص اس سے پریشا ن ہوگا اور ویکسین بنانے کے لئے ایک بھی پلانٹ اس طرح تیار نہیں ہوسکے گا۔
دوسری بات یہ کہ بہت مشکل کے ساتھ ہمیں 5سال کا عرصہ ملا ہے لیکن یہ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ جب تک ہمیں کوئی سرمایہ کار ملے گا، ہم فنڈ اکٹھا کریں گے ،اورمنصوبہ تیار کریں گے ،سازوسامان حاصل کریں گے اور ایک پلانٹ لگائیں گے تو اس وقت تک شاید ڈھائی تین سال کا عرصہ گزر جائے گا ۔اس کے بعد آپ پیداوار شروع کریں گےاوردوسال کے اندر آپ کو اپنی برآمدات کوکم کرکے لازمی لائسنس کی سطح پر لانا ہوگا اور آپ کی صلاحیت بےکار رہے گی۔ آج ، بھارت میں ہمارے پاس ویکسین ہیں ، جن کی کارآمد رہنے کی مدت ختم ہورہی ہے ، ہمارے پاس ویکسین بنانے کی صلاحیت ہے ، جو بےکار پڑی ہے اور اس کے لئے سرمایہ کار وں کا آنا بھی آسان نہیں ہے ۔
ہماری امید اور خواہش یہ تھی کہ اس کاآغاز ہوگا اور 6 ماہ کے اندر و ہ تشخیص وغیرہ کے بارے میں فیصلہ کریں گے ۔ مجھے یہ بات بتاتے ہوئے افسوس ہورہا کہ کچھ باہمی میٹنگوں میں ، جو میں نے ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ کی ہیں ، اور کچھ ایسے ملکوں کے ساتھ کی ہیں جو ایک طریقے سے اس کی مخالفت کررہے ہیں ، انہوں نے تقریباََ واضح طورپر اشارہ دیا ہے کہ آئی پی کے حقوق انتہائی اہم ہیں اور ہم بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے صرف ہوا میں ہیں لیکن تشخیص اور طریقہ علاج میں ہم کسی بھی طرح فائدہ حاصل نہیں کرسکتے ۔
ان کی توقعات اس بات سے کافی مماثلت رکھتی ہیں ، جو یہاں تحریرکیا گیا ہے کہ کووڈ -19 کو بڑے طورپر اچھی طرح مینج کیا گیا اور یہ معاملہ جلد ہی اپنی اہمیت کھودے گا ، یہ ان کی امید ہے ۔ انہیں امید ہے کہ وہ آج اپنے سینے کو ہرغلطی سے پاک کرلیں گے ، دنیا کو دکھائیں گے کہ ہم کتنے فراخ دل ہیں اور طریقہ علاج اور تشخیص کے معاملے کو آگے بڑھائیں گے جو اب بہت ضروری ہے ، ویکسین کی کہانی اب تقریباََ ختم ہوگئی ہے اور انہوں نے ہمارے بہت سے ملکوں سے اس کی قیمت بھی طلب کی ہے۔ بھارت میں جہاں 1.5 ڈالر کی ویکسین تیار ہوئی ہے ، وہیں دنیا کے کئی حصوں میں اس ویکسین کی قیمت 38-40 ڈالرسے زیادہ ہے ۔ آپ میں سے کچھ کو عطیہ ملا ہوگا ،جس میں ویکسین کی قیمت 38 یا 40 ڈالر رکھی گئی ہوگی اور اس طرح آپ کے لئے ایک بڑی مدد ظاہر کی گئی ہوگی۔ اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ ہم جوکچھ حاصل کررہے ہیں وہ پوری طرح نامکمل ہے اور اس سے ہمیں کسی قسم کی ویکسین تیار کرنے کی اجازت نہیں ملے گی، ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ کسی طریقہ علاج یا تشخیص کی اجازت دیں اور اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس ناکامی کی وجہ پوری طر ح ہم ہیں ، تومیرے خیال میں ہمیں اتفاق رائے کے ساتھ دنیا سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ نہیں ہم طریقہ علاج اور تشخیص سمیت ایک جامع حل کے خواہشمند ہیں۔
ویکسین پہلے ہی اپنی اہمیت کھوچکی ہے ، دوسال انہوں نے کسی حل کے بغیر گزاردئے ہیں اور اب بہت دیر ہوچکی ہے ، اب ایسی بھی صورتحال نہیں رہی جہاں آپ کہہ سکیں کہ دیر آیددرست آید ، اب جتنی زیادہ تاخیر ہوچکی ہے کہ اب ویکسین کی کوئی مانگ نہیں رہی اس لئے ہمیں قطعی فیصلے ، اجتماعی اور جامع فیصلے کے لئے زوردینا چاہئے اور ہمیں کسی نامکمل یا غیرمعیاری اسٹیج -1 کو قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسٹیج-2 کبھی نہیں آئے گا۔
*************
ش ح۔وا۔رم
U-6519
(Release ID: 1834204)
Visitor Counter : 207