کامرس اور صنعت کی وزارتہ

بھارت نے ڈبلیو ٹی او میں ترقی پذیر اور  کم ترقی یافتہ ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط موقف اختیار کیا


جناب پیوش گوئل نے جنیوا میں ڈبلیو ٹی او کی 12ویں وزارتی کانفرنس میں کچھ صاف گوئی سے کام لیا

ڈبلیوٹی او   کی غیر متوازن کردہ اصلاحات پر مبنی تجاویز پر تشویش جتائی، ترقی پذیر ممالک کے لئے ایس اینڈ ڈی ٹی تجاویز برقرار رکھنے کی ضرورت  ہے، کووڈ ٹیکہ کاری میں عالمی عدم مساوات پر بھی تشویش جتائی، اناجوں کے سرکاری ذخائر پر بھی سوال اٹھائے

’’ڈبلیو ٹی او  اصلاحات کے لیے موجودہ تجاویز بنیادی طور پر اس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو تبدیل کر سکتی ہیں، جو نظام کو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے خلاف کر رہی ہیں‘‘ :  جناب گوئل

کووڈ وبا نے دنیا کے کسی بھی بحران کا فوری جواب دینے میں ناکامی کو بے نقاب کیا ہے، خواہ خوراک کی حفاظت ہو یا صحت، معاشی بہبود ہو یا کھلی سپلائی چین، جناب گوئل نے کہا

جناب گوئل نے ماحولیات  کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے "پرو پلانیٹ پیپل" کے 3 پی ایس پر مبنی ماحولیات کے تعلق سے باشعور طرز زندگی، زیادہ پائیدار طرز زندگی کو اپنانے کی تجویز پیش کی

Posted On: 13 JUN 2022 9:53PM by PIB Delhi

بھارت نے ڈبلیو ٹی او میں ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط موقف اپنایا  ہے۔ کامرس اور صنعت، صارفین کے امور، خوراک اور عوامی  نظام تقسیم اور ٹیکسٹائل کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل نے جو جنیوا میں ڈبلیو ٹی او کی 12ویں وزارتی کانفرنس میں بھارت  کی نمائندگی کر رہے ہیں، ڈبلیو ٹی او کی اصلاحی تجویز کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جس کی فوری ضرورت ہے۔انہوں نے  ڈبلیوٹی او   کی غیر متوازن کردہ اصلاحات پر مبنی تجاویز پر تشویش جتائی، ترقی پذیر ممالک کے لئے ایس اینڈ ڈی ٹی تجاویز برقرار رکھنے کی ضرورت  ہے، کووڈ ٹیکہ کاری میں عالمی عدم مساوات پر بھی تشویش جتائی، اناجوں کے سرکاری ذخائر پر بھی سوال اٹھائے  ۔

کل 'وزارتی اجلاس  کو درپیش چیلنجز' پر  اظہار خیال  کرتے ہوئے، جناب گوئل نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او کی اصلاحات کے لیے موجودہ تجاویز بنیادی طور پر اس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو تبدیل کر سکتی ہیں، جو نظام کو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے خلاف بنا سکتی ہے۔ جناب گوئل نے کہا، "ہمیں اتفاق رائے کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے لوگوں اور ترقی کو ڈبلیو ٹی او کے مستقبل کے ایجنڈے کا مرکز بنا کر اور ایس اینڈ ڈی ٹی  کو یقینی بنانے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے "۔

’’دوستو، جو لوگ ایس اینڈ ڈی ٹی  کی فراہمی کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہیں وہ اس بات سے واقف  ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی فی کس جی ڈی پی ترقی پذیر ممالک سے 20 سے 50 گنا زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ بھارت فی کس مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی نچلی سطح  پر ہے جو 1.4 بلین لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ترقی پذیر دنیا بہتر مستقبل کے لیے کام کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کیا یہ انسانی، منصفانہ یا مساوی ہے کہ ترقی پذیر دنیا بھی وہی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے جو ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں؟‘‘ ۔

جناب گوئل نے کہا کووڈ وبا نے دنیا کے کسی بھی بحران کا فوری جواب دینے میں ناکامی کو بے نقاب کیا ہے، خواہ  وہ خوراک کی حفاظت سے متعلق ہو یا صحت، معاشی بہبود ہو یا کھلی سپلائی چین ہو۔

"جب دنیا شدت سے امداد کی متلاشی  تھی، ڈبلیو ٹی او  نے اس وقت کچھ نہیں کیا ۔  مثال کے طور پر، ویکسین میں عدم مساوات کووڈ کے دو سال بعد بھی برقرار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب  ایل ڈی سیز اور کئی ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کو ابھی تک ویکسین نہیں لگائی گئی ہے، تو کچھ ممالک ایسے ہیں جنہوں  نے تیسری اور چوتھی ڈوز پہلے ہی لگا دی ہے ،یہ عالمی حکمرانی کی  ایک اجتماعی ناکامی ہے اور ہمیں خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ذمہ دار افراد کو اپنے دل کی گہرائیوں سے سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اس سے ہمیں دنیا کے ہر شہری کے لیے  زیادہ منصفانہ، شفاف اور خوشحال مستقبل بنانے میں مدد ملے گی اور آخر کار  ہم وہ پائیدار ترقیاتی اہداف حاصل کریں گے جن پر ہم سب نے اجتماعی طور پر اتفاق کیا تھا۔"

جناب گوئل نے کہا بھروسے  اور جواب دہی کے لیے ہمیں سب سے پہلے لازمی مسائل کو حل کرنا ہوگا، جیسا کہ تقریباً ایک دہائی قبل  ذخیرہ اندوزی کا مستقل حل  طے پایا  گیاتھا۔

" جناب گوئل نے سوال کیا کہ  خوراک کا موجودہ عالمی  بحران ہمارے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ ہمیں ابھی  کارروائی کرنی ہے! کیا ہم غریبوں اور  محروم افراد کے لئے رکھے گئے کھانے کے ذخیرے پر انحصار کرنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں؟‘‘

" وباکے دوران،صرف  بھارت نے ہی تقریباً 50 بلین امریکی ڈالر کی مالیت سے 800 ملین بھارتی افراد کو 100 ملین ٹن غذائی اجناس مفت تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ،یہ اناج ہمارے  خوراک کے تحفظ سے متعلق پروگرام کے ایک حصے کے طور پر تقسیم کیے گئے غذائی اجناس کی تعداد سے زیادہ تھا اور  یہ اس  بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی کبھی بھوکا نہ سوئے،‘‘

ماہی پروری سبسڈی پر بات چیت کرتے ہوئے جناب گوئل نے یہ دلیل  بھی دی کہ  روایتی ماہی گیروں کی روزی روٹی پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

"ہم چند ممالک کی مراعات کو ادارہ  جاتی نہیں بنا سکتے اور ان لوگوں سے ترقی کا حق نہیں چھین  سکتے جو معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے لیے کام کر رہے ہیں۔ خاص طور پر ان ممالک کے لیے، جو خطرناک گہرے سمندر سے مچھلیاں پکڑنے میں مصروف نہیں ہیں، ہمیں مختلف خیالات رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ  بصورت دیگر، ہمارے پاس زراعت کے معاہدے جیسی صورتحال ہو سکتی ہے، جہاں عدم مساوات اور عدم توازن برقرار رہتا ہے، جس کی وجہ سے کئی ممالک اب بھی خوراک کی امداد پر انحصار کرتے ہیں،" ۔

جناب گوئل نے ماحولیات  کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے "پرو پلانیٹ پیپل" کے 3 پی ایس پر مبنی ماحولیات کے تعلق سے باشعور طرز زندگی، زیادہ پائیدار طرز زندگی کو اپنانے کی تجویز پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ "واسودیو کٹمبکم"  یعنی دنیا ایک کنبہ ہے کے  اس جذبے کے ساتھ جس میں ہم یقین رکھتے ہیں  ڈبلیو ٹی او کو  لوگوں کے لیے فکرمندی، اچھائی،  معاشرے کے غریب اور کمزور طبقوں کے لیے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ  کرتے ہوئے پھر سے اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔

************

 

 

ش ح۔ش  ر ۔ م  ص

 (U: 6456)



(Release ID: 1833715) Visitor Counter : 106


Read this release in: English , Marathi , Hindi