کامرس اور صنعت کی وزارتہ

جنیوا میں منعقدہ عالمی تجارتی تنظیم کی 12ویں وزارتی کانفرنس  کی جی -33 وزارتی میٹنگ میں  کامرس  اور صنعت کے وزیر جناب پیوش گوئل  کے ذریعہ خطاب

Posted On: 12 JUN 2022 8:54PM by PIB Delhi

جناب چیئر پرسن  ،  وزراء ، ایکسی لینسیز  ، معزز مندوبین  ،  خواتین وحضرات   بہت بہت شکریہ ۔میں ایم سی – 12 کے  آغاز میں ہی جی -33 میٹنگ منعقدکرنے کے لئے انڈونیشیا کا شکریہ ادا کرنا  چاہوں گا،جس سے ہمیں  اپنی یکجہتی کی تجدید کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس مرتبہ جو تین  آئٹمس  بنیادی طورپر ایجنڈے میں شامل ہیں، وہ  پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے لئے  حل تلاش کریں گے  نیز  ایسا خصوصی تحفظاتی  طریقہ کار بھی تلاش کریں گے ،جس کے بارے میں  مجھ سے  پہلے کئی مقررین  بات کرچکے ہیں۔

سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ بہتر ہوتا کہ اگر ڈائریکٹر جنرل  ، ترقی  پذیر دنیا کی  تشویش  کو سننے کے لئے یہاں موجود ہوتیں  اور میں  محسوس کرتا ہوں کہ  یہ افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے  اپنے مختصر بیان میں   اس فیصلے کا حوالہ دیا ہے ،جو ایک مرتبہ نہیں ،  دو مرتبہ نہیں ، بلکہ تین مرتبہ لیا گیا ہے ، کہ یہ کوئی اعلامیہ نہیں بلکہ ایک  فیصلہ ہے ،جسے  پہلی مرتبہ  2013 میں  ،  دوبارہ  2015 میں  اور اس کے بعد پھر 2018  میں لیا گیا تھا،جس کی وجہ سے   ہم یہاں  اس پر تبادلہ خیال کرنے کے بیٹھے ہیں۔

بھارت نے  خوراک کی کمی کا سامنا کرنے والے ملک سے بڑے  پیمانے پر خوراک کے معاملے میں  خود کفیل ملک  بننے کا تغیری تجربہ حاصل کیا ہے ۔اس خودکفالت کو حاصل کرنے کے لئے مراعات اور دیگر سرکاری مداخلتوں کی شکل میں  ،ہماری حکومت کی معاونت نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ہم  ایل ڈی سیز  سمیت  تمام ترقی پذیر  ممالک کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ، جو اجتماعی  طورپر ہمارے اپنے سفر اور  ہمارے اپنے تجربے پر مبنی ہے۔

آئیے ہم  اب تک کی کہانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ یوروگوائے  راؤنڈ سے شروع ہوا تھا ، جہاں جیسا کہ مجھے یاد ہے ، مذاکرات کے آٹھ سال بعد اور  1994 تک  ، جب  مراقش معاہدے کو حتمی شکل دی گئی تھی اور  جس سے  عالمی تجارتی تنظیم کے قیام کی راہ ہموار ہوئی تھی۔زراعت کو ایک خام سودا  حاصل ہوا – جو کہ  غیر متوازن ماحصل کی شکل میں  اور  وہ جو کہ  درآمداتی  مراعات دے کر  مارکیٹوں کو آلودہ کررہے تھے ، انہوں نے  زراعت سے متعلق سمجھوتے   (اے او اے ) کے تحت  برآمداتی  مراعاتوں کی ادائیگی کو  جاری رکھنے کے سلسلے  کو محفوظ کرلیا۔ اس وقت  ہم میں سے بہت نے ، بلکہ ہم میں سے اکثر ،  کم ترقی یافتہ  اور انتہائی کم  ترقی  پذیر ممالک ہونے کے ناطے،  سبسڈیز فراہم نہیں کررہے تھے لہٰذا   اس وجہ سے  اس کے بعدسے  چونکہ ہم  بنیادی مدت میں  سبسڈیز فراہم نہیں کررہے تھے ،  تو ہم مستقبل میں  اہم سبسڈیز  دینے کا اپنی حق ہی کھوبیٹھے ۔مزیدبرآں  سمجھوتے کے  ضابطے  ، وسیع  طورپر  ترقی یافتہ ممالک کے سماجی واقتصادی  آرچی ٹیکچر سے مطابقت رکھتے تھے،  ترقی یافتہ دنیا کے لئے  سبسڈیز  کا بڑے پیمانے پر انٹائٹل منٹ کو  ادارہ جاتی  بنادیا گیا اور اس وقت مارکیٹ  کی امدادی قیمت کے  کلکولیشن  کا فارمولہ  اس  وقت منجمدسا ہوگیا تھا۔

این ڈی سی سمیت   ترقی پذیر ممالک   ہمیشہ موصولاتی  سِرے  پر رہتے ہیں، ہم سمجھوتہ  کرنے کے لئے ہی بنے ہیں،  ہم ایک ہی موضوع  پر بعض مرتبہ کئی بار اور مختلف اوقات میں   بحث ومباحثہ کرتے ہیں  ۔ پہلے سے  طےشدہ معاملوں کو دوبارہ  کھولا جاتا ہے،جس کے باعث  پچھلے منشور وں کو  زک  پہنچتی ہے اور میں  اس بات کی  تفصیل بھی فراہم کروں  گا کہ میرے کہنے کا مطلب کیا ہے۔11دسمبر 2013  کی  وزارتی کانفرنس میں   یہ فیصلہ کیا گیا تھا اور میں  نے  دوبارہ یہ فیصلہ کیا کہ اراکین  نے ایک عبوری  طریقہ کار  اپنانے سے اتفاق کرلیا تھا نیز   11ویں وزارتی کانفرنس کے ذریعہ منظوری کے لئے ایک پائیدار حل والے سمجھوتے پر بات چیت سے بھی اتفاق کیا تھا۔ اس عمل کو  مقرر کردیا گیا تھا اور ہم  وزارتی سہولیات سے متعلق سمجھوتے کے بجائے اس پر متفق ہوگئے تھے ،  جسے  ترقی یافتہ دنیا  منظور کرنے کے لئے بے چین تھی۔

میں اس اعلامیہ میں سے  کچھ حصہ  پڑھ رہا ہوں  ،  میرا عقیدہ  ہے کہ یہ ورک  پروگرام کے  آٹھویں  پیرا میں   ایک اہم  عنصر ہے ۔ پیرا آٹھ  میں کہا گیا ہے کہ اور میں  اسے پڑھتا ہوں ۔‘‘ اراکین نے  ایک پائیدار حل کے لئے سفارشات کرنے کے مقصدکے ساتھ اس معاملے کو  آگے بڑھانے کی غرض سے زراعت سے متعلق کمیٹی کے تحت  لینے کے لئے  کام کا ایک پروگرام قائم کرنے  سے اتفاق  کیا ہے۔’’ پیرا 9  میں  کہا گیا ہے‘‘ اراکین  کام کے پروگرام کے تئیں  عہد بند ہیں  ،جس میں  اصل مقصد  اسے  گیارہویں  وزارتی کانفرنس  تک  پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے..... ورک پروگرام سے متعلق  کی گئی  پیش رفت ’’  میں آپ کو اس کی یاددہانی اس وجہ سے کروارہا ہوں  کہ اس کانفرنس میں   جو بھی کچھ کیا جانا ہے ، وزارتی کانفرنس   13 کو وہی متن  دوبارہ تحریر کرنا ہے ۔

مورخہ 28  نومبر  2014  کو  جنرل کونسل نے   پبلک اسٹاک ہولڈنگ   تحفظاتی  مقاصدسے متعلق  27  نومبر  2014  کے  فیصلے کا اعادہ دکیا تھا اور اس کے بعد اس نے  ترقی  پذیر ممالک کے لئے  خوراکی تحفظ کی  پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے مقاصد کی اہمیت کو  تسلیم کیا ہے ۔اس کے علاوہ  ، ایک بار پھر  یہ ایک  اس وقت تک کے لئے فیصلہ تھا جب  تک کہ  کسی مستقل حل پر اتفاق رائے ہو اور اسے  اختیار کرلیا جائے اور جس کے لئے انہوں  نے دوبارہ یہ کہا کہ خوراک کے تحفظ  کے لئے پبلک اسٹاک ہولڈنگ کے مقاصد کے معاملے سے متعلق  پائیدار حل کے مذاکرات کو ترجیحی بنیاد پر  آگے بڑھانا چاہئے،  یہ 2014  ہے ۔علاوہ ازیں  انہوں نے کہا کہ اس موضوع  پر  مذاکرات کو   زراعت سے متعلق کمیٹی کے  مخصوص اجلاس میں اور تیز رفتار وقت کی مدت میں   منعقد کیا جانا چاہئے جو کہ دوحہ ترقیاتی ایجنڈے کے تحت   زرعی مذاکرات سے  علیحدہ ہوں ۔

 ایک بار پھر 10ویں اجلا س میں وزارتی کانفرنس کو  جب 2015  میں  رپورٹ  پیش کررہے تھے تو انہوں نے   ابھی تک  حاصل  پیش رفت کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ وہ  2014  کے جنرل کونسل کے فیصلے کے تئیں  عہد بند ہیں اور انہیں  اب تک  حاصل  معاملات  پر اتفاق کرنے  اور انہیں اختیار کرنے کے لئے مذاکرات کرنا اور ہر ممکن مرکوز  کوششوں  کے  لئے تعمیری طوپر مصروف ہونا چاہئے ۔کیوں  میں  یہ سب  کہہ رہا ہوں  ،  اور اسے کہنے کی کیا منطق  ہے  کہ  ایک  ایم سی 12 میں ایک تازہ ورک  پروگرام ہوگا   اور  ایک  وزارتی اعلامیہ    ہوگا ۔  یہ پہلے ہی سامنے آچکا ہے ،یہ ایک  پہلے ہی سے جاری پروسس ہے ۔ یہ شروعات سے  مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے اور دیگران  مختلف  موضوعات کے ساتھ اسے لانے کا  پوائنٹ ہے  ، جو کہ  مذاکرات کے مختلف مراحل میں ہیں  او رجیسا کہ آج انہیں  حتمی شکل دینے کے لئے رکھا گیا ہے۔ یہ سب کچھ  ایک ورک  پروگرام کی  پیش کش کرکے  ماہی گیری میں   ایک سمجھوتہ کرنے کےلئے کیا جارہا ہے ۔ میرا اب  بھی یہ خیال ہے کہ ہم سب کو  اس کی عکاسی کرنی ہے ، جوفیصلہ کیا گیا تھا اور اسے ہی آگے بڑھانا چاہئے نیز  اس مرتبہ ہی  اسے شامل کرنا چاہئے  یاپھر یا تو  یہ ایک بار پھر ورک پروگرام  پر متفق  ہوجائیں اور یہ ہمیں  کہ  پہلے  ہی مقام  پر پہنچادیں  یعنی  ابتدائی سمجھوتے کے بعدآٹھ سال یانوسال  ۔

دوستو ! بھارت   اور اس  جی  33 گروپ میں  ہم سب  قابل رسائی موثر  خصوصی تحفظاتی  طریقہ کار  (ایس ایس ایم  ) کے لئے   طویل عرصے سے  زور دیتے رہے ہیں تاکہ  درآمداتی  اضافے  اور  کم ہوتی ہوئی  قیمتوں کے سلسلے کے  غیر مستحکم اور  متزلز ل  اثرات  پر  توجہ مرکوز کی جاسکے ، جو کہ  ترقی یافتہ اراکین کے ذریعہ بھاری سبسڈیز  کے باعث   ہے ۔ ان کے پاس  پہلے ہی معاونتی اہلیت   کا ایک  اجتماعی اقدام ہے ، جو کافی بڑا ہے کیونکہ  کچھ ایسی وسیع سبسڈیز تھیں   جنہیں تقریباََ  5سال قبل   کئی سالوں  تک  موقوف رکھا گیا۔   وبا کے بعد مشاہدہ کردہ  قیمتوں کے عد م استحکام کے تناظر میں خاص  طور پر  بہت سے اراکین کے لئے  کوئی بھی ماحصل   زراعتی  پیکج کا  ایک اہم عنصر ہی رہتا ہے۔

بنیادی طور پر آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ زراعت سے متعلق سمجھوتہ   جو پہلے ہی ترقی یافتہ ممالک کی غیر متوازن   حمایت سے متاثر ہوچکا ہے  اور جس نے  بہت سے ترقی  پذیر ممالک کے خلاف ضابطے وضع کئے ہیں  اور یہ حقیقت  ان  واقعات سے  ثابت ہے ، جو دنیا بھر کے حصوں  میں پیش آرہے ہیں۔

 یہ بات  اہم ہے کہ  اقتصادی اصلاحات کے پہلے قدم کے طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لئے  تاریخی  عدم توازن کو درست کرنا چاہئے کہ ضابطوں پر مبنی   اور  مساوی   آرڈر  وضع کیا جاسکے ۔ہمیں  راہ ہموار کرنی چاہئے اور  اپنے کسانوں  کو   ہمارے عوام کو  تحفظ فراہم کرنے کا ایک  موقع دینا چاہئے ۔ ہمیں ترقی پذیر ممالک کے لئےموجودہ    ایس اور  ڈی ٹی کو تحفظ فراہم کرتے رہنا چاہئے ، جو  ہمارے جدوجہد کررہے کسانوں کی   مدد کرے گا۔ خاص طور پر ان لوگوں  کی مدد کرے گا ،  جو سخت زندگی گزاررہے ہیں۔ زراعت سے متعلق سمجھوتے کی دفعہ 6.2 کے تحت   ترقیاتی شق  میں  لچک فراہم کی گئی ہے البتہ اسے  گھریلو  معاونتی   اصلاح کے نام پر   چھیڑنا نہیں چاہئے ۔

آخر میں   ، میں اس بات پر زوردوں گا کہ   ہم سب  کو اجتماعی  طور پر کام کرنا چاہئے تاکہ ا س اتحاد  سے  وابستگی کو  برقرار رکھا جاسکے   اور اپنے  ہم خیال دیگر ممالک تک رسائی کرکے  اسے مزید مستحکم کیا جاسکے اور  ایک شفاف ، متوازن اور ترقیاتی مرکوز ماحصل کے لئے  ان کی  حمایت حاصل کرنی چاہئے ،جس میں   پبلک اسٹاک ہولڈنگ اور خصوصی تحفظاتی طریقہ کار  (ایس ایس ایم ) کا ایک پائیدار حل بھی شامل کیا جانا چاہئے ۔

آپ لوگو کا شکریہ  ،  خواتین وحضرات  اور چیئر  ،  میں  مکمل تاریخی پس منظر کو سامنے لانا چاہتا تھا تاکہ  ہم سے ہر کوئی   اسے اپنی قیادت تک  پہنچائے اور  مزید مستحکم اقدام  کئے جائیں   تاکہ  فیصلہ شدہ  ماحصل   تک پہنچے کے قابل ہوسکیں۔

************

ش ح۔اع۔رم

U-6405



(Release ID: 1833461) Visitor Counter : 116


Read this release in: English , Hindi