پی ایم ای اے سی

بھارت میں عدم مساوات کی  صورتحال سے متعلق رپورٹ جاری


‘‘عدم مساوات کی صورتحال سے متعلق رپورٹ میں شمولیت اور اخراج دونوں شامل ہیں’’

Posted On: 18 MAY 2022 2:53PM by PIB Delhi

بھارت میں عدم مساوات کی صورتحال سے متعلق رپورٹ آج وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر بِبیک دیبرائے (ای اے سی-پی ایم) نے جاری کی۔ یہ رپورٹ انسٹی ٹیوٹ فار کمپٹیٹیونیس (ادارہ برائے مسابقت) کی طرف سے تیار کی گئی ہے اور اس میں بھارت میں عدم مساوات کی نوعیت اور گہرائی کا ایک جامع تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں صحت، تعلیم، گھریلو خصوصیات اور لیبر مارکیٹ کے شعبوں میں عدم مساوات پر معلومات مرتب کی گئی ہے۔ جیسا کہ رپورٹ پیش کرتی ہے، ان شعبوں میں عدم مساوات آبادی کو مزید کمزور بناتی ہے اور کثیر جہتی غربت میں گراوٹ کو متحرک کرتی ہے۔

ڈاکٹر بِبیک دیبرائے نے کہا ہے کہ ‘‘عدم مساوات ایک جذباتی مسئلہ ہے۔ یہ ایک تجرباتی مسئلہ بھی ہے، کیونکہ تعریف اور پیمائش دونوں استعمال شدہ میٹرک اور دستیاب ڈیٹا بشمول اس کی ٹائم لائن پر منحصر ہیں۔’’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘غربت کو کم کرنے اور روزگار میں اضافہ کرنے کے لیے مئی 2014 سے مرکزی حکومت نے بنیادی ضروریات کی فراہمی کے طور پر شمولیت کی تشریح کرتے ہوئے متعدد اقدامات متعارف کروائے ہیں۔ ایسے اقدامات جنہوں نے ہندوستان کو کووڈ-19 وبا کے جھٹکے کو بہتر طریقے سے برداشت کرنے کے قابل بنایا ہے’’۔ رپورٹ میں شمولیت اور اخراج دونوں کا ذخیرہ موجود ہے اور پالیسی مباحثوں میں تعاون کرتی ہے۔

اجراء کے دوران پینلسٹ میں شامل ڈائریکٹر جنرل،این سی اے ای آر اور وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی رکن ڈاکٹر پونم گپتا اور ڈاکٹر چرن سنگھ، فاؤنڈیشن فار اکنامک گروتھ اینڈ ویلفیئر (ای جی آر او ڈبلیو) کے چیف ایگزیکٹو اور آئی آئی ٹی مدراس کے پروفیسر سریش بابو شامل تھے۔ رپورٹ پر بحث کے دوران پینلسٹس نے اس مسئلے پر کئی متضاد تبصرے کیے۔

دو حصوں پر مشتمل - اقتصادی پہلوؤں اور سماجی-اقتصادی مظاہر - رپورٹ پانچ اہم شعبوں کو دیکھتی ہے جو عدم مساوات کی نوعیت اور تجربے کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ آمدنی کی تقسیم اور لیبر مارکیٹ کی حرکیات، صحت، تعلیم اور گھریلو خصوصیات ہیں۔ متواتر لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس)، نیشنل فیملی اینڈ ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) اور یو ڈی آئی ایس ای+ کے مختلف مراحل سے اخذ کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ہر باب موجودہ صورتحال، تشویش کے شعبوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کی وضاحت، بنیادی ڈھانچے کی صلاحیت اور آخر کار، عدم مساوات پر اثر کے لئے وقف ہے۔  رپورٹ میں ایک جامع تجزیہ پیش کرتے ہوئے عدم مساوات کے بیانیے کو پھیلایا گیا ہے جو ملک میں مختلف محرومیوں کے ماحولی نظام کو تشکیل دیتا ہے، جو آبادی کی بہبود اور مجموعی ترقی پر براہ راست اثر ڈالتا ہے۔ یہ ایک ایسا مطالعہ ہے جو طبقاتی، جنس اور علاقے کے تقاطع کو کاٹتا ہے اور اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ عدم مساوات معاشرے کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔

رپورٹ دولت کے تخمینوں سے آگے بڑھتی ہے جو کہ 2017-18، 2018-19 اور 2019-20 کے دوران آمدنی کی تقسیم کے تخمینے کو اجاگر کرنے کے لیے صرف ایک جزوی تصویر پیش کرتی ہے۔ سرمائے کے بہاؤ کو سمجھنے کے لیے پہلی بار آمدنی کی تقسیم پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ عدم مساوات کی پیمائش کے طور پر دولت کا ارتکاز کنبوں کی خریداری کی صلاحیت میں ہونے والی تبدیلیوں کو ظاہر نہیں کرتا۔پی ایل ایف ایس  2019-20 سے آمدنی کے اعداد و شمار کی توسیع سے پتہ چلتا ہے کہ 25,000 روپے کی ماہانہ تنخواہ پہلے سے ہی کمائی گئی کل آمدنی کے اوپری 10 فیصد میں شامل ہے، جو آمدنی کے تفاوت کی کچھ سطحوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سرفہرست 1 فیصد کا حصہ کمائی گئی کل آمدنی کا 6-7 فیصد ہے، جبکہ سب سے اوپر 10 فیصد کا حصہ تمام کمائی گئی آمدنیوں کا ایک تہائی ہے۔ 2019-20 میں روزگار کے مختلف زمروں میں سب سے زیادہ فیصد خود روزگار ورکرز (45.78 فیصد) کا تھا، اس کے بعد مستقل تنخواہ دار ورکرز (33.5 فیصد) اور جزو وقتی ورکرز (20.71 فیصد) تھے۔ خود ملازمت کرنے والے کارکنوں کا حصہ بھی سب سے کم آمدنی والے زمروں میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ملک کی بے روزگاری کی شرح 4.8 فیصد (2019-20) ہے اور کارکنوں کی آبادی کا تناسب 46.8 فیصد ہے۔

صحت کے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں دیہی علاقوں پر ٹارگٹ فوکس کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کی صلاحیت کو بڑھانے میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔ 2005 میں ہندوستان میں کل 1,72,608 صحت مراکز سے 2020 میں کل صحت مراکز 1,85,505 ہیں۔ راجستھان، گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، تمل ناڈو اور چندی گڑھ جیسی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے 2005 اور 2020 کے درمیان صحت کے مراکز (ذیلی مراکز، پرائمری صحت مراکز، اور کمیونٹی صحت مراکز پر مشتمل) میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ این ایف ایچ ایس-4 کے نتائج (2015-16) اور این ایف ایچ ایس -5(2019-21) نے ظاہر کیا ہے کہ 58.6 فیصد خواتین نے 2015-16 میں پہلی سہ ماہی میں قبل از پیدائش چیک اپ کروایا، جو 2019-21 تک بڑھ کر 70 فیصد ہو گیا۔ 78 فیصد خواتین نے پیدائش کے دو دن کے اندر ڈاکٹر یا معاون نرس سے بعد از پیدائش کی دیکھ بھال حاصل کی اور 79.1 فیصد بچوں نے پیدائش کے دو دن کے اندر بعد از پیدائش کی دیکھ بھال حاصل کی۔ تاہم زیادہ وزن، کم وزن، اور خون کی کمی (خاص طور پر بچوں، نوعمر لڑکیوں اور حاملہ خواتین میں) کے لحاظ سے غذائیت کی کمی بہت زیادہ تشویش کا باعث ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے، جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ مزید برآں صحت کی کم کوریج، جس کی وجہ سے جیب سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں، براہ راست غربت کے واقعات کو متاثر کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سماجی تحفظ کی متعدد اسکیموں کے ذریعے ہدفی کوششوں کی وجہ سے تعلیم اور گھریلو حالات میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے، خاص طور پر پانی کی دستیابی اور صفائی ستھرائی کے شعبے میں جس سے معیار زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ بنیادی سالوں سے تعلیم اور علمی ترقی عدم مساوات کے لیے ایک طویل مدتی اصلاحی اقدام ہے۔ 20-2019 تک 95 فیصد اسکولوں میں اسکول کے احاطے میں فعال بیت الخلاء کی سہولیات موجود ہیں (95.9 فیصد فنکشنل لڑکوں کے بیت الخلاء اور 96.9 فیصد لڑکیوں کے بیت الخلاء)۔ 80.16 فیصد اسکولوں کے پاس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں جیسے گوا، تمل ناڈو، چنڈی گڑھ، دہلی، دادر و نگر حویلی اور دمن و دیو، لکشدیپ اور پڈوچیری کے ساتھ فعال بجلی کے کنکشن ہیں، فنکشنل بجلی کنکشن کی ہمہ گیر (100 فیصد) کوریج حاصل کر چکے ہیں۔ پرائمری، اعلیٰ پرائمری، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی اسکولوں میں 2018-19 اور 2019-20 کے درمیان مجموعی اندراج کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے۔ گھریلو حالات میں بہتری کے لحاظ سے صفائی اور پینے کے صاف پانی تک رسائی پر زور دینے کا مطلب زیادہ تر گھرانوں کے لیے باوقار زندگی گزارنا ہے۔این ایف ایچ ایس-5 (2019-21) کے مطابق 97 فیصد گھرانوں کو بجلی تک رسائی حاصل ہے، 70 فیصد کو صفائی تک رسائی میں بہتری آئی ہے اور 96 فیصد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔

عدم مساوات پر دستیاب معلومات، جسے یہ رپورٹ سامنے لاتی ہے، اصلاحات کی حکمت عملی، سماجی ترقی اور مشترکہ خوشحالی کے لیے ایک روڈ میپ بنانے میں مدد کرے گی۔ انکم سلیب بنانے جیسے کہ طبقاتی معلومات فراہم کرنے، ہمہ گیر بنیادی آمدنی کا قیام، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، خاص طور پر اعلیٰ سطح کی تعلیم اور سماجی تحفظ کی اسکیموں کے لیے بجٹ میں اضافہ جیسی سفارشات کی گئی ہیں۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

ش ح۔م ع۔ع ن

                                                                                                                                      (U: 5496)



(Release ID: 1826418) Visitor Counter : 469


Read this release in: English , Hindi