امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت
ملک میں مجموعی طور پر اضافی اناج کی دستیابی: خوراک کے سکریٹری
کسانوں کو گندم کی اچھی قیمت مل رہی ہے: خوراک کے سکریٹری
گندم کی برآمد کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں: مرکز
Posted On:
04 MAY 2022 7:06PM by PIB Delhi
خوراک اور سرکاری نظام تقسیم کے محکمہ (ڈی ایف پی ڈی)کے سکریٹری جناب سدھانشو پانڈے نے آج کہا کہ ہندوستان میں خوراک کی صورتحال عمدہ ہے کیونکہ ملک میں اناج کی مجموعی اضافی دستیابی ہے اور اگلے ایک سال کے لیے اسٹاک کی کم از کم ضرورت سے زیادہ ہونے کی امید ہے۔
آج نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ آنے والے سال میں فلاحی اسکیموں کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد، یکم اپریل 2023 کو، ہندوستان کے پاس 80 ایل ایم ٹی گندم کا ذخیرہ ہوگا، جو کہ کم از کم 75 ایل ایم ٹی کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ ہندوستان کے پاس گندم فاضل ہوگی حالانکہ پیداوار 1050 ایل ایم ٹی تک متوقع تھی، جو کہ مالی سال 23 20میں 1110 ایل ایم ٹی کے ابتدائی تخمینہ سے قدرے کم ہے۔
گیہوں کی کم خریداری سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جناب پانڈے نے کہا کہ مارکیٹ کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے تاجروں کے ذریعہ گندم کی بڑی مقدار ایم ایس پی (کم سے کم امدادی قیمت) سے زیادہ قیمت پر خریدی جا رہی ہے، جو کسانوں کے لیے اچھا ہے۔ سکریٹری نے کہا کہ ‘‘اس سال مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے اور پرائیویٹ پلیئرز کی طرف سے گھریلو اور برآمدی مقاصد کے لیے زیادہ مانگ کی وجہ سے، سرکاری ایجنسی کی طرف سے خریداری کم ہے۔ لیکن یہ کسانوں کے حق میں ہے۔ کسانوں کو گندم کی اچھی قیمت مل رہی ہے’’ ۔
انہوں نے کہا کہ پہلے کسانوں کے پاس حکومت کو فروخت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا ‘‘اب وہ حکومت کو صرف اتنی ہی مقدار بیچ رہے ہیں جسے وہ پرائیویٹ مارکیٹ میں فروخت کرنے سے قاصر ہیں۔ لہذا، اس نقطہ نظر سے، سرکاری خریداری میں کمی آئی ہے’’۔
سکریٹری نے چاول کی اضافی دستیابی پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ ‘‘گزشتہ سال ہماری چاول کی خریداری تقریباً 600 ایل ایم ٹی تھی اور اس سال بھی یہی تعداد متوقع ہے۔ این ایف ایس اے کے لیے ہماری سالانہ ضرورت تقریباً 350 ایل ایم ٹی ہے۔ لہذا ہم ایک اضافی حالت میں ہیں’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگلے سال سے تقویت بخش چاول پورے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس ) میں تقسیم کیے جائیں گے اور چاول کے اضافی ذخیرے کے ساتھ ہم بہترین حالت میں ہیں۔ جناب پانڈے نے وضاحت کی کہ ‘‘ہم اگلے سال تقویت بخش چاول کی تقسیم کریں گے، اور اس سال ہم تمام خواہش مند اور بھاری بوجھ والے اضلاع اور آئی سی ڈی ایس اور پی ایم پوشن کا احاطہ کر رہے ہیں۔ اس لیے اگلے سال، ہم پورے پی ڈی ایس کے لیے تقویت بخش چاول کی تقسیم کریں گے اور اس لیے، یہ حکومت پر فرض ہے کہ وہ اپنے اسٹاک کو اس طرح رکھے کہ اگلے سال ہم تقویت بخش چاول خریدیں اور تقویت بخش چاول کی تقسیم کریں’’ ۔
سکریٹری نے چاول کی خریداری کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ چاول بڑے پیمانے پر ایک عدم ارتکاز خریداری اسکیم کے تحت خریدا جاتا ہے، یعنی ‘ریاستوں کی خریداری اور ریاستوں کی تقسیم’، جس سے لاجسٹک لاگت کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘اگر ہم اسٹاک کو صرف مرکزی جگہوں سے منتقل کرتے ہیں تو یہ بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے اب چاول کی تقسیم سے ریک کی اس دوہری نقل و حرکت سے بچاجائے گا۔ چاول کا مقامی طور پر دستیاب ذخیرہ، اسی ریاست میں تقسیم کیا جائے گا جہاں وہ استعمال ہو رہے ہیں۔ لہذا اس سے برآمد کنندگان کو ملک کے اندر ریک یا نقل و حرکت کی ضرورت میں مدد ملے گی۔ اس سے ہماری برآمدات اور غذائی اجناس سمیت تمام اشیاء کی خدمات میں مدد ملے گی’’۔
جناب پانڈے نے دوبارہ منسوخی کےاحکامات کے بارے میں بھی بات کی جس کے تحت پی ایم جی کے وائی میں گیہوں کی جگہ 55 ایل ایم ٹی اضافی چاول مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے دو مراحل میں وسیع مشاورت کے بعد کیا گیا ہے - سب سے پہلے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) کے جنرل منیجر نے مختلف ریاستی حکام سے مشورہ کیا۔ دوسرے مرحلے میں وزارت کی سطح پر ملک میں پی ڈی ایس کے لیے ذمہ دار پی ڈی (سرکاری نظام تقسیم)ڈویژن ، ریاستوں/مرکز کے زیرانتظام علاقوں سے مشاورت کیا۔
جناب پانڈے نے کہا کہ ‘‘ریاستوں کی طرف سے ایک مطالبہ تھا کہ ہم چاول استعمال کرنے والی ریاستیں ہیں اور ہمیں زیادہ چاول مختص کرنے پر خوشی ہوگی۔ اگر چاول کا ذخیرہ ریاستوں کے پاس پڑا رہتا ہے، تو خوراک کی سبسڈی کی واپسی کے چکر میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ جس لمحے ریاست پی ڈی ایس سسٹم میں چاول تقسیم کرنے کے قابل ہوتی ہے وہ اپنی سبسڈی کا دعوی کرنے کا حقدار بن جاتا ہے۔ یہ ریاستوں کے لیے اضافی فائدہ ہے بصورت دیگر انہیں اسٹاک کو برقرار رکھنا ہوگا اور اخراجات برداشت کرنے ہوں گے اور تقسیم کے بعد ہی وہ اپنی خوراک کی سبسڈی کی واپسی حاصل کرسکیں گے
گندم کی برآمدات کے بارے میں بات کرتے ہوئے جناب سدھانشو پانڈے نے کہا کہ اب تک 40 ایل ایم ٹی گندم برآمد کرنے کا معاہدہ کیا گیا ہے اور اپریل 2022 میں تقریباً 11 ایل ایم ٹی گندم برآمد کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مصر کے بعد ترکی نے بھی ہندوستانی گندم کی درآمد کی منظوری دے دی ہے۔ جناب پانڈے نے کہا کہ جون سے ارجنٹینا اور آسٹریلیا سے گندم بین الاقوامی منڈیوں میں آنا شروع ہو جائے گی، اس لیے برآمد کنندگان کے لیے بین الاقوامی منڈیوں میں گندم فروخت کرنے کا یہ مناسب وقت ہے۔
جناب پانڈے نے یہ بھی واضح کیا کہ ملک میں خوردنی تیل کا ذخیرہ کافی ہے اور انڈونیشیا کی طرف سے عارضی پابندی کے بعد پام آئل کی درآمد جلد شروع ہونے کی امید ہے اور اس سے ملک میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔
گندم/چاول (سنٹرل پول میں) بیلنس شیٹ ( ایل ایم ٹی میں تمام مقدار)
Sl. No.
|
Item
|
2021-22
Wheat
|
2022-23
Wheat
|
2022-23
Rice
|
1
|
Opening Balance
|
273
|
190
|
323
|
2
|
Procurement
|
433
|
195
|
595
|
3.
|
Total (1+2)
|
706
|
385
|
918
|
4.
|
Allocation / Distribution
in NFSA / OWS / PMGKY
|
446
|
305*
|
520*
|
5.
|
Sale under Open
Market Sale Scheme
(OMSS)
|
70
|
0 (will depend on
final procurement
figures)
|
12
|
6.
|
Closing stock (3-4-5)
|
190
|
80 (Minimum
stocking norms on 1st April is 75 LMT)
|
386 (Minimum
stocking norms on 1st April is 136 LMT)
|
* پی ایم جی کے وائی میں گندم کی جگہ 55 ایل ایم ٹی اضافی چاول مختص کیے گئے ہیں۔
گندم - 2022-23
- شروعاتی موسم گرما کی وجہ سے، پیداوار کا تخمینہ 1050 ایل ایم ٹی ہے، پہلے یہ تخمینہ 1113 ایل ایم ٹی تھا۔
- سنٹرل پول میں اوپننگ اسٹاک 190 ایل ایم ٹی ہے۔
- متوقع گندم کی خریداری 195 ایل ایم ٹی ہے – مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے پچھلے سال سے کم ہے:
- مدھیہ پردیش، یوپی، راجستھان، گجرات وغیرہ میں کسان تاجروں/برآمد کنندگان کو ایم ایس پی (20.15 روپے/کلوگرام) سے بہتر قیمتوں (21-24 روپے/کلوگرام) پر فروخت کر رہے ہیں۔
- پنجاب، ہریانہ، یوپی میں موسم گرما کے اوائل اور کٹے ہوئے اناج کی وجہ سے پیداوار کم ہوتی ہے۔
- کسان، تاجر بھی کچھ مقدار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، کچھ مہینوں بعد گندم کی قیمت زیادہ ہونے کی توقع ہے۔
- این ایف ایس اے، او ڈبلیو ایس اور پی ایم جی کے وائی کے 6 ماہ کے لیے درکار گندم 305 ایل ایم ٹی ہے
- یکم اپریل کو ایف سی آئی کے پاس ریزرو اسٹاک کی ضرورت 75 ایل ایم ٹی ہے اور اسٹاک تقریباً 80 ایل ایم ٹی ہے۔
برآمدات
گندم
- 2019-20 میں گندم کی برآمد 2.17 ایل ایم ٹی تھی، 2020-21 میں 21.55 ایل ایم ٹی تھی، 2021-22 میں 72.15 ایل ایم ٹی تھی۔
- حکومت کی تمام کوششوں کی وجہ سے مصر سمیت بیشتر ممالک نے ہندوستان کو مارکیٹ تک رسائی دی ہے۔
- تقریباً 40 ایل ایم ٹی گندم برآمد کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے اور اپریل 2022 میں تقریباً 11 ایل ایم ٹی گندم برآمد کی گئی ہے۔
چاول
- 2019-20 میں چاول کی برآمد 94.90 ایل ایم ٹی تھی، 2020-21 میں 177.79 ایل ایم ٹی اور 2021-22 میں 211.87 ایل ایم ٹی تھی۔
شوگر بیلنس شیٹ
Particulars
|
2018-19
|
2019-20
|
2020-21
|
2021-22
(estimated)
|
Carry- over stocks
|
105
|
145
|
110
|
85
|
Production of Sugar
|
332
(after discountin g diversion of 3 LMT
|
274
(after discounting diversion of 9 LMT)
|
310
(after discounting diversion of 24 LMT)
|
355
(after discounting diversion of 35 LMT)
|
Total availability
|
437
|
419
|
420
|
440
|
Domestic consumption
|
254
|
250
|
265
|
278
|
Exports
|
38
|
59
|
70
(Against target of
60LMT )
|
95-100
(projected) Without export subsidy
|
Estimated Closing stocks
|
145
|
110
|
85
|
62-67
|
*******
(ش ح ۔ ع ح)
U.No. 5039
(Release ID: 1822902)
Visitor Counter : 302